ایک گولی ایک چیخ
یہ منظر نامہ کسی پولیس کے Encounter مقابلے کا ہے نہ کسی مجرم کے فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کا ہے
KARACHI:
ایک کلہاڑی کا وار ... ایک چیخ۔
ایک خودکار ہتھیار کا برسٹ ... ایک چیخ!
ایک تڑپتی لاش اور پھر لمبی خاموشی...
یہ منظر نامہ کسی پولیس کے Encounter مقابلے کا ہے نہ کسی مجرم کے فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کا ہے۔یہ منظر پدر شاہی سماج اور ہمارے جاگیردارانہ سماج کی ''عدالت'' کا ہے جس میں نہ انتظار کی ضرورت ہوتی ہے نہ کسی ثبوت کی نہ کسی میڈیکل بورڈ کے لیٹر کی نہ کسی قلم اور ایکٹ کی۔
اس ''عدالت'' کا ایک ہی قانون ہے، لڑکیوں کو ماردو'' جب اسی طرح کا تیز رفتار انصاف میسر ہو تو پھر جرم کون کرے گا؟ ایسی عدالتیں روز لگتی ہیں نوجوان لڑکیاں پسند کی شادی کے جرم میں بے دردی اور درندگی سے مار دی جاتی ہیں، پھر وہ مقدس خونی رشتے ساری محبتوں کو بالائے طاق رکھ کر غیرت کی تار تار چادر اوڑھ کر اپنے آپ کو عزت کا نمایندہ بناکر پیش کرتے ہیں۔
ان کو سزا کوئی نہیں دیتا۔ جرم پر پردہ اس بات سے ڈالا جاتا ہے کہ ضرور ''لڑکی میں کوئی خرابی ہو گی'' مظلوم کو مشکوک بنا کر مجرم کو سرخرو کر دیا جاتا ہے۔ ہمارا پدر شاہی سماجی ڈھانچہ اس قدر مضبوط ہے کہ ریاست پر اور ریاست کے قانون پر حاوی ہوتا چلا جاتا ہے۔ جھوٹی غیرت کے نام پر قتل کرنے والے بعض اوقات فخریہ طور پر اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کر دیتے ہیں۔ اقبال جرم کے باوجود سالوں تک ان کو کوئی سزا نہیں سنائی جاتی، کاروکاری کا قلم لاگو کر کے قتل کے کیس کو کمزور کیا جاتا ہے۔
یہ کاروکاری کی ''وبا'' اب اس قدر پھیل چکی ہے کہ پسند کی شادیوں کو بھی اس زمرے میں لایا جا رہا ہے۔ بختاور ساند نے پسند کی شادی کی اس کا یہ عمل نہ ریاست کے قانون کے خلاف تھا نہ کسی مذہب کے خلاف تھا۔ لیکن رسموں، روایتوں کی قید میں پھنسے ہوئے لوگ کہاں مانتے ہیں۔ بختاور ساند عمرکوٹ کی رہنے والی تھی۔
اس کو کلہاڑی کے وار سے قتل کر دریا میں پھینک دیا گیا۔ ادھوری خواہشات، ادھورے ارمان لے کر لڑکیاں زندگی کھو بیٹھتی ہیں۔ ہماری رسمیں، ہمارا کلچر، قانون سے بہت طاقت ور بن چکا ہے۔ آخر یہ واقعات کیوں ہوتے ہیں؟ اس سوال کا مختصر سا جواب تو یہ ہے کہ ''مجرم کو سزائیں نہیں ملتی'' لیکن سزا کیوں نہیں ملتی؟ اس سوال کا جواب مختصر نہیں ہو سکتا۔ کیوں کہ اس کی کوئی ایک وجہ نہیں ہے۔
المیہ یہ ہے کہ ہم رسموں کا اتنا احترام کرتے ہیں کہ رسموں کو توڑنا جرم سمجھتے ہیں۔ قانون ٹوٹ جائے تو پرواہ نہیں ہوتی لیکن رسمیں اور روایات کو زندہ رکھا جاتا ہے۔ یہ بھی رسم ہے کہ کچھ مخصوص قبیلے لڑکیوں کی شادیاں دوسرے کسی بھی قبیلے میں نہیں کرتے، کہیں کوئی لڑکا اور لڑکی اپنے ہی شادی کا فیصلہ کر لیں تو پھر مرنے مارنے پر معاملہ پہنچ جاتا ہے۔ ہمارا معاشرہ ذہنی پسماندگی اور ذہنی غربت کی انتہاؤں کو چھو رہا ہے جہاں انسان اور انسانیت کا تصور بھی مردہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔
سکھر شہر میں ایسا سانحہ ہوا جس نے باشعور افراد کو لرزا دیا۔ دونوں جوان میاں بیوی، شمشاد چنا اور عبدالجبار چنا جنھوں نے 11-02-2014 کو کراچی میں کورٹ میرج کی تھی۔ شمشاد کو اپنے والد اور رشتے داروں سے خطرہ تھا۔ اس لیے کورٹ میں نکاح کے بعد انھوں نے 06-03-2014 کو ہائی کورٹ کراچی میں پٹیشن دائر کی کہ ان کو کاروکاری قرار دے کر مار دیا جائے گا۔ انھوں نے سب رشتے داروں کے نام بھی لکھوائے اور تحفظ کی درخواست بھی دی۔
شمشاد کے والدین نے عبدالجبار چنا، اس کے والد اور دیگر رشتے داروں پر بھی چوری کا کیس دائر کر دیا۔ اس قانونی جنگ سے کوئی نتیجہ برآمد نہ ہو سکا تو ان لوگوں نے ایک اور منصوبہ بنایا۔ قصارو چنا، شمشاد چنا کا والد تھا۔ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنی بیوی کو بھی کاری کا الزام لگاکر قتل کر دیا تھا اور جیل بھی گیا تھا۔چنا خاندان کے لوگ اور قصارو چنا مل کر بیٹھے اور فیصلہ کیا کہ شمشاد چنا اور عبدالجبار چنا کو کراچی سے بلایا جائے۔
قصارو چنا اپنی بیٹی شمشاد چنا کے گھر گیا اور بیٹی کو گھر لے آیا۔ شمشاد حاملہ تھی اور وہ اس بات کو اپنے باپ کا پیار سمجھ کر اعتبار کر بیٹھی۔ شمشاد کو گھر واپس لایا گیا جب شمشاد کو بیٹا پیدا ہوا تو کچھ دنوں بعد عبدالجبار نے بیوی اور بچے کی واپسی کا مطالبہ کیا لیکن قصارو چنا نے شمشاد کی واپسی سے انکار کر دیا۔
باپ کے گھر میں معصوم شمشاد کو ہر وقت کاری کے طعنے دیے جاتے تھے اور اس کے بیٹے کو ناجائز اولاد سمجھ کر نفرت کا اظہار کیا جاتا تھا۔ طعنوں کے نشتر سہتی ہوئی شمشاد نے عبدالجبار کو کہا کہ اسے اس دوزخ سے نکال لے۔ پھر مجبور شوہر نے بیوی کی واپسی کے لیے قانون کا دروازہ کھٹکھٹایا لیکن ہر کوشش بے سود ثابت ہوئی۔
مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے کامیاب ہو گئے، عبدالجبار کو سکھر شہر میں سب کے سامنے اٹھا لیا گیا پھر شمشاد چنا کو گھر سے نکال کر لے آئے۔ وحشت اور درندگی کا کھیل شروع ہوا۔ دونوں میاں بیوی کو محلے میں سب کے سامنے لایا گیا۔ سنگساری کی رسم شروع ہوئی، با خبر ذرایع کے مطابق دونوں کو پتھر، اینٹیں، لوہے کی سلاخیں، لاٹھیاں مار کر بری طرح مجروح کیا گیا۔ شمشاد اور عبدالجبار سب کے سامنے تڑپتے رہے، آج شمشاد منوں مٹی کے نیچے دفن ہو چکی ہے، عبدالجبار نیم پاگلوں والی کیفیت میں ہے۔ یہ بات بھی سنی جا رہی ہے کہ چنا لوگ عادی مجرم نہیں ہوتے۔ وحشت اور تشدد پسند نہیں ہیں۔
ہتھیار بھی نہیں رکھتے لیکن یہ بہیمانہ قتل اس بات کا ثبوت ہے کہ دہشت اور وحشت کو ہتھیاروں کی ضرورت نہیں ہوتی قصارو کا تعلق جیکب آباد کے گاؤں حاجی محبوب چنا سے تھا۔ پہلے وہ گاؤں میں رہتا تھا جہاں اس نے اپنی بیوی کا بھی خون کیا تھا۔ ہم غور کرتے ہیں تو یہ نظر آتا ہے کہ جیکب آباد میں قبائلی نظام رائج ہے اس کی سرحدیں بلوچستان سے ملتی ہیں۔
یہ قبائلی کبھی بھی لڑکیوں کی شادیاں اپنی مرضی کے بغیر نہیں ہونے دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ باوجود اس کے کہ عبدالجبار بھی چنا ذات سے تعلق رکھتا تھا لیکن اس نے روایت سے بغاوت کی اور بچپن میں طے شدہ رشتے سے انکار کیا اور شمشاد چنا کو جیون ساتھی کے طور پر قبول کیا۔ یہ جرم کسی بھی طرح معافی کے قابل نہ تھا، قانونی طور پر میاں بیوی کے پاس نکاح نامہ بھی تھا۔ ہراسمنٹ کی پٹیشن اور تحفظ کی درخواست بھی دائر ہو چکی تھی۔ لیکن ریاست کا قانون سماجی روایات اور صدیوں پرانی رسموں کے آگے ہار گیا۔
ہمارا سیاسی ڈھانچہ، سماجی ڈھانچہ اور جاگیردارانہ ڈھانچہ ملتا ہے وہاں بنیادی انسانی حقوق خاص طور پر عورتوں کے حقوق پامال ہوتے ہیں۔ ہمارا اصل مسئلہ یہ تکون ہے یہ تین نظام ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں۔ سندھ کے بیشتر علاقوں میں جو سیاست دان ہیں وہ کسی نہ کسی طرح، کسی نہ کسی وڈیرے، پیر، مرشد یا زمیندار سے ضرور منسلک ہیں یا پھر یہ ہوتا ہے کہ علاقے کا وڈیرا اتنا طاقت ور ہوتا ہے کہ وہ اپنے آس پاس کی آبادی پر بھی اثر رکھتا ہے، پھر وہ سیاست میں حصہ لیتا ہے، اپنے ہاری یا علاقے کے لوگوں کے بل بوتے پر کامیاب ہو کر اسمبلی تک پہنچ جاتا ہے لیکن اس کے اس عمل سے پسماندہ علاقے کا مقدر نہیں بدلتا، صرف اس کی ذاتی زندگی ضرور بدل جاتی ہے۔
ہمارے سماج میں یہ طاقتور دوسرے طاقت ور کی مدد کرتا ہے۔ ہمارا زمیندار ہمارے قانون پر حکمرانی کرتا ہے کیوں کہ علاقے کے اکثر تھانوں میں من پسند آفیسر تعینات کیے جاتے ہیں اور پھر ان کی مجال نہیں ہوتی ہے کہ کسی با اثر کے مجرم بندے پر ہاتھ ڈال سکیں۔ غیرت کے ٹھیکیدار معصوم لڑکیوں کو ماردیتے ہیں، سیکڑوں مائیں روتی بلکتی مر جاتی ہیں۔
16-08-2015 کو کندھ کوٹ میں بھی 25 سال کی سوڈھی اور اس کا میاں جنھوں نے پسند کی شادی کی تھی اپنے ایک سال کے بیٹے شہباز کے ساتھ مار دیے گئے۔ ہمارے آگے بہت سارے سوال ہیں بہت المیے ہیں ہم قانون سازی بھی کر چکے، آواز بھی اٹھاتے ہیں جب سرگرم خواتین چیخ اٹھتی ہیں تو یہ ہوتا ہے کہ مجرم کو جلد از جلد گرفتار کر لیا جاتا ہے لیکن سزا کا عمل پھر بھی پائیہ تکمیل کو نہیں پہنچتا، کبھی کسی ٹی وی چینل سے یہ بریکنگ نیوز نشر نہیں ہوئی کہ ''بیٹی کو قتل کرنے کے جرم میں فلاں شخص کو عدالت نے سزا سنا دی'' عورت کا قتل، قتل ہی ہے۔ اس کو کاروکاری کا عنوان نہ دیاجائے، اب تو صرف یہی لفظ ذہن میں ہلچل مچاتے ہیں کہ ''عورتوں کا قتل عام بند کرو، بہت ہو چکا۔ اب بس...''