الیکشن کمیشن کی توجہ کے لیے

جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ آنے کے بعد ملک میں جاری سیاسی بے یقینی کی کیفیت میں کمی واقع ہوئی۔

جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ آنے کے بعد ملک میں جاری سیاسی بے یقینی کی کیفیت میں کمی واقع ہوئی۔ 2013ء کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی شکایات تقریباً تمام پارٹیوں نے کی۔

جس کی وجہ سے ان انتخابات کے آڈٹ اور جانچ پڑتال کا مطالبہ زور پکڑ گیا۔ اگرچہ اس مطالبے کو صرف تحریک انصاف نے شدت کے ساتھ اٹھایا، مگر باقی جماعتوں کے بھی ان انتخابات پر تحفظات اپنی جگہ برقرار تھے۔ اگرچہ پاکستان میں یہ روایت بہت پرانی رہی ہے کہ ہارنے والا کبھی اپنی شکست تسلیم نہیں کرتا اور ہمیشہ دھاندلی کا شور مچاتا ہے، حالانکہ اپنے پڑوسی بھارت کی مثال لیں جہاں پچھلے انتخابات میں کانگریس نے دو مرتبہ حکومت کرنے کے بعد بی جے پی کے ہاتھوں اپنی شکست تسلیم کی۔

جب کہ نئی دہلی کے سیاسی انتخابات میں ملک کی دونوں بڑی جماعتوں یعنی کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنی شکست عام آدمی پارٹی کے ہاتھوں قبول کی اور ناکامی تسلیم کی۔ لیکن پاکستان میں کبھی ایسا نہ ہو سکا اور اپنی کوتاہیاں تسلیم کرنے کے بجائے الزام تراشی کو مقدم جانا گیا۔ حالیہ انتخابات میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔

اگرچہ نتائج انتخابات سے قبل کیے گئے سروے اور رائے عامہ کے جائزوں کے قریب قریب تھے لیکن پھر بھی الزام تراشی کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوا، جس نے بحران کی شکل اختیار کی۔ ملک کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا گیا سیاسی جماعتوں کی ہٹ دھرمی نے پورے نظام کو خطرے سے دوچار کر دیا جمہوریت کی بساط لپیٹنے کا وسوسہ پیدا ہو گیا۔ لیکن فوجی قیادت کی بالغ نظری نے کسی بھی ممکنہ دخل اندازی کا راستہ روک دیا۔ بہرحال اس تمام بحران کا خاتمہ عدالتی کمیشن کے قیام پر منتج ہوا۔ اگرچہ اس کے ٹرم آف ریفرنس بنانے میں کافی بحث و مباحثہ ہوا لیکن بالآخر اس کمیشن نے اپنی کارروائی شروع کی۔

جس میں تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے الزامات ثابت کرنے کا موقع دیا گیا۔ جس کی وجہ سے اس کی مدت مقررہ 45 روز سے آگے بڑھائی گئی۔ لیکن اگر اس کمیشن کی سماعتوں کو بغور دیکھا جائے تو تمام الزامات لگانے والی جماعتوں نے ثبوت فراہم کرنے کی بجائے دوبارہ زبانی جمع خرچ کرنا شروع کر دیا۔ جس پر کئی مرتبہ جج صاحبان کے ریمارکس بھی سامنے آئے۔

جب گواہان کی طلبی کا معاملہ آیا تو وہاں پر بھی اکثر صاحبان جن پر سنگین الزامات لگائے گئے تھے ان کو بطور گواہ بلانے سے بھی احتراز کیا گیا۔ جس سے ان الزامات کے کافی کمزور ہونے کا تاثر ملا۔ اور پھر یہی کچھ اس کمیشن کے نتیجے کی صورت میں سامنے آیا۔ اگرچہ اس رپورٹ کے آنے کے بعد کافی حد تک سیاسی تناؤ کم ہوگیا۔ اور تحریک انصاف نے اس کے نتیجے کو تسلیم کر لیا ہے۔ لیکن اپنے الزامات سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔

اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے اختلافات کو بھلا کر آگے بڑھنا ہو گا۔ اپنی رپورٹ میں عدالتی کمیشن نے الیکشن کمیشن کی کئی کمزوریاں واضح کی ہیں۔ جو کہ یقینا الیکشن نظام میں بے قاعدگیوں سے تعبیر کی جا سکتی ہیں، جس کی تشریح کچھ سیاسی جماعتیں دھاندلی کے طور پر کرتی ہیں۔

انتخابی عملے کی مناسب ٹریننگ نہ ہونا، رابطے کا فقدان، الیکشن کمیشن حکام کی سستی، اپنے احکامات پر عملدرآمد نہ کرا پانا، بائیو میٹرک سسٹم نہ ہونے کی وجہ سے ووٹوں کی تصدیق نہ ہو پانا، فارم 15 کی اکثر جگہ گمشدگی، اضافی بیلٹ پیپرز کے لیے کوئی طے شدہ اصول کا موجود نہ ہونا اور کراچی میں فوج کی موجودگی کے بغیر الیکشن کا انعقاد نہ کرنے کی ہدایات وغیرہ وہ تمام امور ہیں جو ہمارے انتخابی نظام میں موجود کمزوریوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔


پچھلے چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم اور موجودہ چیف کمشنر جناب سردار رضا خان انتہائی قابل احترام شخصیات مانی جاتی ہیں، جن کا انتخاب متفقہ طور پر کیا گیا اور جن کا بحیثیت سپریم کورٹ جج ایک شاندار ماضی ریکارڈ کا حصہ ہے۔ لیکن بحیثیت ادارہ الیکشن کمیشن اپنی ذمے داریاں اس موثر طریقے سے ادا نہیں کر پایا جس کی اس سے توقع تھی۔ اور اکثر الیکشن کمیشن حکام اپنی بے چارگی کا رونا روتے نظر آتے ہیں۔ جب کہ اگر بھارت کی مثال سامنے رکھی جائے تو وہاں کا الیکشن کمیشن انتہائی بااختیار اور خودمختار ادارہ ہے۔

جس کو اپنے احکامات پر عمل درآمد کرانے کے لیے کسی سہارے کی ضرورت نہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ایسا کبھی نہ ہو سکا۔ کچھ عرصے پہلے خیبر پختونخوا میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں جس قدر شکایات ملی ہیں وہ یقینا قابل افسوس ہے جب کہ ابھی ملک کے دو بڑے صوبوں یعنی پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات ہونے باقی ہیں، اس وقت الیکشن کمیشن ایک ڈھیلی ڈھالی آرگنائزیشن کے طور پر کام کر رہا ہے جس میں رابطے کا فقدان ہے۔

اور چین آف کمانڈ (Chain of Command) کی ایک باضابطہ تنظیم موجود ہی نہیں۔ انتخابی مہم کے دوران انتخابی قوانین کی کھلے عام خلاف ورزی اب معمول کی بات ہے۔ الیکشن مہم میں انتخابی حد سے زیادہ اخراجات ذاتی الزام تراشی اور کھلے عام اسلحے کی نمائش کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اگرچہ چیف الیکشن کمشنر کے ذاتی نوٹس لینے پر مداخلت کی جاتی ہے۔ لیکن یہ مسئلے کا قطعی نہیں۔ الیکشن کمیشن کو ایک خودمختار ادارہ بنانا بہت ضروری ہے جو اس طرح کی شکایات کا ازالہ فوری طور پر کرے اور سخت فیصلے کر کے ایسے امیدواروں پر پابندی لگائے تا کہ اس کے فیصلوں کی دھاک بیٹھ سکے۔

لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں جس کی وجہ سے وہ سیاسی جماعتیں جو الیکشن کمیشن کی سست روی کا رونا روتی ہیں وہ خود ہی اس کمزوری کا فائدہ اٹھا کر انتخابی قوانین کی کھلی خلاف ورزی میں مصروف رہتی ہیں۔ شاید الیکشن کمیشن کا کمزور ہونا ان کے اپنے سیاسی مفاد میں ہوتا ہے۔ پچھلے الیکشن میں بھی یہ بات بالکل عیاں نظر آئی۔ اور ہر جماعت کے پولنگ ایجنٹوں اور کارکنوں نے جہاں جس کا بس چلا دھاندلی کی ہر ممکن کوشش کی اور آخر میں سارا ملبہ بے چارے الیکشن کمیشن پر ڈال دیا، پھر الیکشن کمیشن اور نادرا کے آپس میں رابطوں کا فقدان ہے۔ جو کہ انتخابی بے قاعدگیوں کا ایک اہم سبب ہے۔

انتخابی سیاسی کے انتخاب اور اس کے ناقص ہونے کا انکشاف (جس کی وجہ سے انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق ہونا بہت مشکل تھا) پورے انتخابی عمل کو دھندلا کر دیا۔ اگر دونوں اداروں میں مکمل رابطہ اور کوآرڈینیشن ہوتی تو قوم کا اتنا وقت اور انتخابی عمل کی تفتیش میں لگے کروڑوں روپوں کی یقینی بچت ہو سکتی تھی۔ لیکن اس غفلت نے ملک میں جاری انتشار کو اور تقویت بخشی۔ پھر فارم 15 کی گمشدگی نے بھی ایک نئے تنازعے کو جنم دیا۔ پھر کئی فارم کو بوریوں میں بھرنے کا بھی انکشاف ہوا۔ یعنی ان کو سیل کرنے کے لیے بھی مناسب انتظامات نہ تھے۔

آج کل کے دور میں جب ہر طرف ٹیکنالوجی کی مدد سے آسانی ہو چکی ہے۔ اس قسم کی غفلت مجرمانہ ہی معلوم ہوتی ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ تمام سیاسی اسٹیک ہولڈرز پہلے سے قائم شدہ انتخابی اصلاحات کمیٹی میں اپنی تجاویز پیش کریں۔ اور الیکشن کے ایک ایک عمل کو مربوط اور منظم شکل دے کر قوانین کی صورت میں الیکشن کمیشن کے مینوئل (Manual) میں شامل کیا جائے۔ ساتھ ہی ساتھ بائیومیٹرک نظام کی تنصیب جلد از جلد مکمل کی جائے تا کہ ہر مرحلے پر شفافیت کو یقینی بنایا جائے۔

اسی طرح الیکشن کمیشن کو ایک مکمل آزاد اور بااختیار ادارہ بنایا جائے جس کو اپنے احکامات پر عملدرآمد کروانے کے لیے بیوروکریسی اور حکمرانوں کا محتاج نہ بننا پڑے۔ جوڈیشل کمیشن کی طرف سے نشاندہی کیے جانے والے نقائص کو فوری طور پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت تمام سیاسی جماعتوں کو الزام تراشی کرنے کی بجائے ترامیم اور قانونی راستہ نکالنا ہو گا۔ جس کے لیے اگر آئین میں ترمیم بھی کرنا پڑے تو اس سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔

صرف الیکشن کمیشن کے ارکان سے استعفیٰ (Registrar) طلب کرنا مسئلے کا حل بالکل نہیں بلکہ اس ادارے کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں سویلین ادارے مضبوط بنانا ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات میں کبھی شامل ہی نہیں رہا۔ شاید اس میں ان کا مفاد پوشیدہ رہا ہے تا کہ ان کو اپنے مطلب کے لیے جہاں چاہے استعمال کیا جا سکے۔ مگر اب اس ذہنیت کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ آئے دن کی انتخابی شکایات کا موثر حل نکالنے کے لیے ایک موثر نظام اور ادارے کی اشد ضرورت ہے اور شاید ایسا کرنے کے لیے یہ ایک بہترین وقت ہے۔
Load Next Story