ایک مسیحا کی انوکھی داستان…
یعنی وہ جو بظاہر دست شفا رکھتے تھے، وہی دراصل اپنے ہاتھوں سے موت بانٹ رہے تھے
الحمدللہ پچھلے دنوں ہمیں ایک انگریزی کتاب پر کام کرنے کا موقع ملا... نام تھا (CLEAN HANDS SAVE LIVES) یعنی ہاتھوں کو صاف کیجیے، زندگیاں بچائیے، کتاب کا موضوع عنوان سے ظاہر ہے، یہ کتاب ایک انگریز مصنف تھیری کراؤزیٹ (Thierry Crouzet) نے شعبہ طب میں ایک نہایت دلچسپ اور انوکھے موضوع یعنی ہاتھوں کے حفظان صحت کے متعلق لکھی ہے، لیکن اس میں صرف ہاتھوں کے حفظان صحت کے طریقوں پر ہی نہیں بلکہ اس عمل کے نہ کرنے سے اسپتالوں میں مخصوص انفیکشن کے پھیلنے کی بھیانک اور حیرت انگیز تاریخ، اس اسپتال انفیکشن (یعنی نوسوکومیل انفیکشن) کی وجہ سے ہر سال ایک کروڑ سے زیادہ انسانوں کی اموات، پھر ہمارے دور کے ایک جواں ہمت ڈاکٹر، ڈاکٹر ڈیڈئیر پیٹٹ کی سوانح، اس کے بے مثال کام، ان تھک محنت، عزم و حوصلے اور بے لوثی کی انوکھی داستان ہے جو واقعی نہایت سبق آموز ہونے کے ساتھ دلچسپ بھی ہے۔اس کا پس منظر جاننے کے لیے ہمیں19 ویں صدی میں جانا ہو گا۔
اس وقت کے اسپتالوں میں ریکارڈ کے مطابق آنے والے سو میں نصف مریض اپنی بیماری کی وجہ سے نہیں بلکہ اسپتالوں سے لگنے والے انفیکشن کی وجہ سے مر جاتے تھے۔ اس وقت کے انفیکشن کے ایک بڑے ماہر سیمیلویز (Semmelweis) نے اس کو مشاہدہ کیا اور اپنا کام پیش کیا، جسے بہت جلد صحت کی دیکھ بھال کے معمولات میں ایک انقلاب کی حیثیت سے دیکھا جانے لگا، مگر آج ہم یہ سوچتے ہیں کہ یہ بات سیمیلویز کے لیے کیسی ناقابل یقین ہو گی کہ 21 ویں صدی میں بھی مریض اسپتالوں کے انفیکشن میں مبتلا ہو کر دردناک موت کا شکار ہو رہے ہوں گے۔ اگر وہ جان پاتا تو اسے یہ جان کر واقعتاً بے حد صدمہ ہوتا کہ اس وقت جدید اسپتالوں میں بھی صفائی کے بنیادی مسائل انفیکشنوں کا مسلسل ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔
آج بھی ترقی پذیر ممالک میں ہر روز مریض اسپتالوں میں اس وجہ سے مرتے یا مزید بیمار ہوتے رہتے ہیں کہ ان کی دیکھ بھال کرنے والیپیرا میڈیکل اسٹاف کے ہاتھوں پر موجود خطرناک جراثیم سے ان کا سابقہ پڑتا رہتا ہے۔بہرحال اس وقت جب جدید ترین اسپتال بھی دہشت کی علامت بن چکے تھے، ڈاکٹر ڈیڈئیر پیٹٹ ایک امید کی کرن بن کر چمکا۔ اس نے94ء میں ہی یہ جان لیا تھا کہ ڈاکٹرز اور نرسوں کے ہاتھوں کے حفظان صحت سے غفلت ہی ان انفیکشنز کے سبب کا بڑا حصہ ہے۔
یعنی وہ جو بظاہر دست شفا رکھتے تھے، وہی دراصل اپنے ہاتھوں سے موت بانٹ رہے تھے۔ ڈیڈئیر نے اس انفیکشن سے بچنے کے لیے تحقیق کی، اعداد و شمار اکٹھے کیے، تجربات کیے، ایک عام فرد کو عموماً اور ڈاکٹرز اور میڈیکل اسٹاف کو خاص طور پر ہاتھ صاف کرنے کے پانچ اصول یاد کروائے اور ان سے عملی مشق کروائی۔ اس نے ہاتھوں کو صاف کرنے کے لیے پہلے صابن، پانی اور آخرکار... طویل تحقیق کے بعد الکحل پر مبنی ہینڈربس کی انقلابی ایجاد منظر عام پر آئی۔
یہ ہینڈربس استعمال میں نہایت آسان تھے۔ ان ہینڈ ربس کا استعمال سنک تک با آسانی رسائی نہ ہونے یا غریب ممالک کے اسپتالوں میں پانی کی فراہمی نہ ہونے کی صورت میں انتہائی مفید ثابت ہوا۔انسانیت کے لیے کسی بھی مفید ایجاد کو ایجاد کر لینا کافی نہیں ہوتا بلکہ اصل فائدہ تب ہوتا ہے جب تک اس بات کو یقینی نہ بنا لیا جائے کہ اوپر سے نیچے تک ہر سطح پر وہ عام اور ہر ایک کی رسائی میں ہو گئی ہے۔ ڈاکٹر ڈیڈئیر اس حوالے سے بھی کمال صلاحیت رکھتے ہیں۔
انھوں نے اپنے مقصد کے لیے دنیا بھر کا سفر کیا، لیکچرز دیے، اعداد و شمار کے حوالے پیش کر کے مریضوں کے لیے محفوظ اسپتالوں کی اہمیت اجاگر کی۔ یوں انھوں نے مسلسل محنت اور زبردست حکمت علمی کے ساتھ WHO اور پھر ساری دنیا کے اسپتالوں کی انتظامیہ کو اپنے کام اور اس کے شاندار نتائج کی طرف متوجہ کر لیا... اور پھر سب نے دیکھا کہ کیا ہوا؟ عشروں میں نہیں محض ایک سال میں (اسپتال انفیکنش) یعنی نوسو کومیل انفیکشن کی وجہ سے مرنے والوں کی تعداد گھٹ کر نصف سے بھی کم ہو گئی۔ جب کہ کچھ ہی عرصہ قبل تک یہی اسپتال جو بیماریوں کے علاج کے لیے بنائے جاتے تھے۔
درحقیقت ایک ایسے قاتل تھے جو سالانہ ڈیڑھ کروڑ مریضوں کو شفا دینے کی بجائے انھیں لاعلاج انفیکشن میں مبتلا کر کے قتل کر دیا کرتے تھے، اور ان پر کوئی مقدمہ بھی نہ ہوتا تھا۔ڈاکٹر ڈیڈئیر پیٹٹ کی بے لوثی، سادگی اور انسان دوستی کا اس سے اندازہ لگائیے کہ انھوں نے اپنی اس ایجاد کو پیٹنٹ نہیں کروایا اور نہ ہی حریص دوا ساز کمپنیوں کو اس سے منافع اٹھانے دیا بلکہ انھوں نے یہ فارمولا اور سادہ ترین طریقہ دوا ساز کمپنیوں کے ہر طرح بہکانے کے باوجود انسانیت کے لیے بطور ایک تحفہ پیش کر دیا، یوں انھوں نے انسانیت کو ایک نیا راستہ بھی دکھا دیا جو استحصالی معاشی نظام میں انقلابی تبدیلی لا کر اسے امن کی معیشت میں بدلنے کی امید دلاتا ہے۔
شعبہ طب کے بڑے بڑے نامور ماہرین اس بات پر حیران ہوئے کہ ڈاکٹر ڈیڈئیر نے اس ایجاد کو پیٹنٹ نہ کروا کر دراصل اس نفع کثیر کو ٹھکرا دیا جس کو پا کر وہ دنیا کے سب سے امیر آدمی بن سکتے تھے! جی ہاں آج ڈاکٹر ڈیڈئیر ہر سال تقریباً ایک کروڑ جانیں بچانے کے کارنامے سے زیادہ آتی ہوئی دولت کو ٹھکرانے کے سلسلے میں زیادہ مشہور ہیں۔WHO کی ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر مارگریٹ چان کے بقول عالمی ادارۂ صحت (World Health Assembly Resolution) خوش نصیب ہے کہ اس نے جب ڈیڈئیر کو پکارا، اس نے لبیک کہا۔ مارگریٹ لکھتی ہیں کہ ڈاکٹر ڈیڈئیر پیٹٹ بے شمار انسانی جانیں بچانے کا سبب بننے کے باوجود عوام میں بہت کم جانے گئے۔ یہ ان کے مزاج کی فطری انکسار کی وجہ سے ہے کہ وہ اپنے کارنامے کا کریڈٹ خود نہیں لینا چاہتے۔
اس لیے آج شعبہ طب سے باہر بہت کم افراد ایسے ہیں جو ان کے نام سے واقف ہیں، لیکن ایسے بے شمار لوگ ہیں جن کی صحت اور ان کی زندگیاں محفوظ رہنے کے لیے خداتعالیٰ کی طرف سے ڈاکٹر ڈیڈئیر کو سبب بنایا گیا۔تھیری کراؤزیٹ (Thierry Crouzet) نے ڈاکٹر ڈیڈئیر پٹیٹ اور اس کے انقلابی کام پر مبنی اس کتاب کو انتہائی دلچسپ اور پر تاثیر پیرائے میں تحریر کر کے وہ بہترین کام کیا ہے جو ان شاء اللہ عالمی سطح پر زبردست اثرات مرتب کرے گا۔
یہ کتاب اس لحاظ سے بھی معرکے کی ہے کہ سب سے پہلے انگریزی میں لکھی گئی، پھر دنیا کی تمام بڑی زبانوں میں ترجمہ کی گئی اور شایع ہوئی، پچھلے دنوں 10 جون کو سڈنی میں ایک بین الاقوامی کانفرنس میں تمام زبانوں کی کتابوں کو جمع کیا گیا۔ ہمیں بے حد خوشی ہے کہWHO کی طرف سے اردو زبان میں بامحاورہ ترجمہ اور اشاعت کے لیے پاکستان میں اس کی ذمے داری ہمارے ادارے ( ICS) اور ماہنامہ جہان صحت کو دی گئی ، آخر میں ڈاکٹر ڈیڈئیر پیٹٹ کے مطالعاتی جائزے کے مطابق ان پانچ مواقعے کی طرف اشارہ مفید رہے گا، جن مواقعے پر ہاتھوں کی صفائی نہایت ضروری ہوتی ہے۔
1۔ مریض کو چھونے سے قبل۔
2۔ کسی عفونتی (aseptic) طریقہ کار (مثلاً خون کا نمونہ حاصل کرنا)۔
3۔ حیاتیاتی سیال (biological fluid) لگنے کے کسی خطرے کے بعد۔
4۔ مریض کو چھونے کے بعد۔
5۔ مریض کے ماحول کے ساتھ رابطے میں رہنے کے بعد۔
یہ مقصدعام سادہ صابن اور پانی سے بھی بخوبی حاصل کیا جا سکتا ہے، مگر ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف چونکہ بار بار صابن اور پانی سے ہاتھ نہیں دھو سکتے، اس لیے خاص اسپتال کے لیے الکحل ہینڈ ربس کا استعمال زیادہ باسہولت اور بہترین ہے!
اس وقت کے اسپتالوں میں ریکارڈ کے مطابق آنے والے سو میں نصف مریض اپنی بیماری کی وجہ سے نہیں بلکہ اسپتالوں سے لگنے والے انفیکشن کی وجہ سے مر جاتے تھے۔ اس وقت کے انفیکشن کے ایک بڑے ماہر سیمیلویز (Semmelweis) نے اس کو مشاہدہ کیا اور اپنا کام پیش کیا، جسے بہت جلد صحت کی دیکھ بھال کے معمولات میں ایک انقلاب کی حیثیت سے دیکھا جانے لگا، مگر آج ہم یہ سوچتے ہیں کہ یہ بات سیمیلویز کے لیے کیسی ناقابل یقین ہو گی کہ 21 ویں صدی میں بھی مریض اسپتالوں کے انفیکشن میں مبتلا ہو کر دردناک موت کا شکار ہو رہے ہوں گے۔ اگر وہ جان پاتا تو اسے یہ جان کر واقعتاً بے حد صدمہ ہوتا کہ اس وقت جدید اسپتالوں میں بھی صفائی کے بنیادی مسائل انفیکشنوں کا مسلسل ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔
آج بھی ترقی پذیر ممالک میں ہر روز مریض اسپتالوں میں اس وجہ سے مرتے یا مزید بیمار ہوتے رہتے ہیں کہ ان کی دیکھ بھال کرنے والیپیرا میڈیکل اسٹاف کے ہاتھوں پر موجود خطرناک جراثیم سے ان کا سابقہ پڑتا رہتا ہے۔بہرحال اس وقت جب جدید ترین اسپتال بھی دہشت کی علامت بن چکے تھے، ڈاکٹر ڈیڈئیر پیٹٹ ایک امید کی کرن بن کر چمکا۔ اس نے94ء میں ہی یہ جان لیا تھا کہ ڈاکٹرز اور نرسوں کے ہاتھوں کے حفظان صحت سے غفلت ہی ان انفیکشنز کے سبب کا بڑا حصہ ہے۔
یعنی وہ جو بظاہر دست شفا رکھتے تھے، وہی دراصل اپنے ہاتھوں سے موت بانٹ رہے تھے۔ ڈیڈئیر نے اس انفیکشن سے بچنے کے لیے تحقیق کی، اعداد و شمار اکٹھے کیے، تجربات کیے، ایک عام فرد کو عموماً اور ڈاکٹرز اور میڈیکل اسٹاف کو خاص طور پر ہاتھ صاف کرنے کے پانچ اصول یاد کروائے اور ان سے عملی مشق کروائی۔ اس نے ہاتھوں کو صاف کرنے کے لیے پہلے صابن، پانی اور آخرکار... طویل تحقیق کے بعد الکحل پر مبنی ہینڈربس کی انقلابی ایجاد منظر عام پر آئی۔
یہ ہینڈربس استعمال میں نہایت آسان تھے۔ ان ہینڈ ربس کا استعمال سنک تک با آسانی رسائی نہ ہونے یا غریب ممالک کے اسپتالوں میں پانی کی فراہمی نہ ہونے کی صورت میں انتہائی مفید ثابت ہوا۔انسانیت کے لیے کسی بھی مفید ایجاد کو ایجاد کر لینا کافی نہیں ہوتا بلکہ اصل فائدہ تب ہوتا ہے جب تک اس بات کو یقینی نہ بنا لیا جائے کہ اوپر سے نیچے تک ہر سطح پر وہ عام اور ہر ایک کی رسائی میں ہو گئی ہے۔ ڈاکٹر ڈیڈئیر اس حوالے سے بھی کمال صلاحیت رکھتے ہیں۔
انھوں نے اپنے مقصد کے لیے دنیا بھر کا سفر کیا، لیکچرز دیے، اعداد و شمار کے حوالے پیش کر کے مریضوں کے لیے محفوظ اسپتالوں کی اہمیت اجاگر کی۔ یوں انھوں نے مسلسل محنت اور زبردست حکمت علمی کے ساتھ WHO اور پھر ساری دنیا کے اسپتالوں کی انتظامیہ کو اپنے کام اور اس کے شاندار نتائج کی طرف متوجہ کر لیا... اور پھر سب نے دیکھا کہ کیا ہوا؟ عشروں میں نہیں محض ایک سال میں (اسپتال انفیکنش) یعنی نوسو کومیل انفیکشن کی وجہ سے مرنے والوں کی تعداد گھٹ کر نصف سے بھی کم ہو گئی۔ جب کہ کچھ ہی عرصہ قبل تک یہی اسپتال جو بیماریوں کے علاج کے لیے بنائے جاتے تھے۔
درحقیقت ایک ایسے قاتل تھے جو سالانہ ڈیڑھ کروڑ مریضوں کو شفا دینے کی بجائے انھیں لاعلاج انفیکشن میں مبتلا کر کے قتل کر دیا کرتے تھے، اور ان پر کوئی مقدمہ بھی نہ ہوتا تھا۔ڈاکٹر ڈیڈئیر پیٹٹ کی بے لوثی، سادگی اور انسان دوستی کا اس سے اندازہ لگائیے کہ انھوں نے اپنی اس ایجاد کو پیٹنٹ نہیں کروایا اور نہ ہی حریص دوا ساز کمپنیوں کو اس سے منافع اٹھانے دیا بلکہ انھوں نے یہ فارمولا اور سادہ ترین طریقہ دوا ساز کمپنیوں کے ہر طرح بہکانے کے باوجود انسانیت کے لیے بطور ایک تحفہ پیش کر دیا، یوں انھوں نے انسانیت کو ایک نیا راستہ بھی دکھا دیا جو استحصالی معاشی نظام میں انقلابی تبدیلی لا کر اسے امن کی معیشت میں بدلنے کی امید دلاتا ہے۔
شعبہ طب کے بڑے بڑے نامور ماہرین اس بات پر حیران ہوئے کہ ڈاکٹر ڈیڈئیر نے اس ایجاد کو پیٹنٹ نہ کروا کر دراصل اس نفع کثیر کو ٹھکرا دیا جس کو پا کر وہ دنیا کے سب سے امیر آدمی بن سکتے تھے! جی ہاں آج ڈاکٹر ڈیڈئیر ہر سال تقریباً ایک کروڑ جانیں بچانے کے کارنامے سے زیادہ آتی ہوئی دولت کو ٹھکرانے کے سلسلے میں زیادہ مشہور ہیں۔WHO کی ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر مارگریٹ چان کے بقول عالمی ادارۂ صحت (World Health Assembly Resolution) خوش نصیب ہے کہ اس نے جب ڈیڈئیر کو پکارا، اس نے لبیک کہا۔ مارگریٹ لکھتی ہیں کہ ڈاکٹر ڈیڈئیر پیٹٹ بے شمار انسانی جانیں بچانے کا سبب بننے کے باوجود عوام میں بہت کم جانے گئے۔ یہ ان کے مزاج کی فطری انکسار کی وجہ سے ہے کہ وہ اپنے کارنامے کا کریڈٹ خود نہیں لینا چاہتے۔
اس لیے آج شعبہ طب سے باہر بہت کم افراد ایسے ہیں جو ان کے نام سے واقف ہیں، لیکن ایسے بے شمار لوگ ہیں جن کی صحت اور ان کی زندگیاں محفوظ رہنے کے لیے خداتعالیٰ کی طرف سے ڈاکٹر ڈیڈئیر کو سبب بنایا گیا۔تھیری کراؤزیٹ (Thierry Crouzet) نے ڈاکٹر ڈیڈئیر پٹیٹ اور اس کے انقلابی کام پر مبنی اس کتاب کو انتہائی دلچسپ اور پر تاثیر پیرائے میں تحریر کر کے وہ بہترین کام کیا ہے جو ان شاء اللہ عالمی سطح پر زبردست اثرات مرتب کرے گا۔
یہ کتاب اس لحاظ سے بھی معرکے کی ہے کہ سب سے پہلے انگریزی میں لکھی گئی، پھر دنیا کی تمام بڑی زبانوں میں ترجمہ کی گئی اور شایع ہوئی، پچھلے دنوں 10 جون کو سڈنی میں ایک بین الاقوامی کانفرنس میں تمام زبانوں کی کتابوں کو جمع کیا گیا۔ ہمیں بے حد خوشی ہے کہWHO کی طرف سے اردو زبان میں بامحاورہ ترجمہ اور اشاعت کے لیے پاکستان میں اس کی ذمے داری ہمارے ادارے ( ICS) اور ماہنامہ جہان صحت کو دی گئی ، آخر میں ڈاکٹر ڈیڈئیر پیٹٹ کے مطالعاتی جائزے کے مطابق ان پانچ مواقعے کی طرف اشارہ مفید رہے گا، جن مواقعے پر ہاتھوں کی صفائی نہایت ضروری ہوتی ہے۔
1۔ مریض کو چھونے سے قبل۔
2۔ کسی عفونتی (aseptic) طریقہ کار (مثلاً خون کا نمونہ حاصل کرنا)۔
3۔ حیاتیاتی سیال (biological fluid) لگنے کے کسی خطرے کے بعد۔
4۔ مریض کو چھونے کے بعد۔
5۔ مریض کے ماحول کے ساتھ رابطے میں رہنے کے بعد۔
یہ مقصدعام سادہ صابن اور پانی سے بھی بخوبی حاصل کیا جا سکتا ہے، مگر ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف چونکہ بار بار صابن اور پانی سے ہاتھ نہیں دھو سکتے، اس لیے خاص اسپتال کے لیے الکحل ہینڈ ربس کا استعمال زیادہ باسہولت اور بہترین ہے!