ڈاکٹر حسرت کا سگنجوی
معروف اہل قلم ڈاکٹر حسرت کا سگنجوی بھی اﷲ کو پیارے ہوگئے۔
معروف اہل قلم ڈاکٹر حسرت کا سگنجوی بھی اﷲ کو پیارے ہوگئے۔ وہ طویل عرصے سے بیمار تھے۔ 30 جولائی 2015 کو حیدرآباد میں انتقال کر گئے۔ ان کی عمر 80 سال سے زیادہ تھی۔ اﷲ غریق رحمت کرے۔مرحوم افسانہ نگار، ناول نگار، ناقد و محقق اور مکتوب نگار تھے، ان کی متعدد کتابیں شایع ہوچکی ہیں۔
انتہائی دکھ کی بات ہے کہ ایسے ادیب کی وفات کی خبر کسی اخبار میں شایع نہیں ہوئی، نہ ہی کسی ٹی وی چینل سے یہ خبر ٹیلی کاسٹ ہوئی، جب کہ شوبز کا کوئی بندہ گزر جاتا ہے تو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں ہفتوں اور مہینوں اس کے بارے میں ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ شوبزکے آرٹسٹوں اور فنکاروں کے گزرنے کی خبریں اور ان کے متعلق مضامین نہ شایع کی جائیں، ان کی برسی پر انھیں یاد نہ کیا جائے، یا مرنے والوں کی سالگرہ کا دن نہ منایا جائے ضرور منایاجائے، انھیں یاد کیا جائے، انھیں ان کی خدمات پر خراج عقیدت پیش کیا جائے کہ زندہ قومیں اپنے ہیروز کو کبھی فراموش نہیں کرتیں۔ مگر ادیب و شاعر بھی تو قومی ہیروز کا درجہ رکھتے ہیں۔ پھر ان کے ساتھ یہ منفی رویہ کیوں؟ ایسی سرد مہری کیوں کہ ان کے انتقال پر عوام کو بے خبر رکھا جائے؟۔
ڈاکٹر حسرت کا سگنجوی کوئی غیر معروف قلم کار نہیں تھے۔ انھوں نے اپنی زندگی کا بہت بڑا حصہ ادب کی آبیاری میں صرف کیا۔ بہت کچھ لکھا، بہت کتابیں شایع کیں، ادب کے کئی شعبوں کے ذریعے اپنے افکاروخیالات کا اظہار کیا، لیکن انھیں ان کی خدمات کا کیا صلہ ملا؟ ان کی وفات کے بعد اخبارات میں چند سطری خبریں بھی نہ چھاپی گئیں۔ شاید ان کا قصور یہ تھا کہ ان کی پی آر بہت کمزور تھی یا نہ ہونے کے برابر تھی، انھوں نے اپنی زندگی میں کبھی اس جانب توجہ نہیں دی، اپنی شہرت کے لیے تشہیری نوعیت کا کوئی کام نہیں کیا۔ اپنی مشہوری اور مقبولیت کی پروموشن کے لیے کوئی آزمودہ نسخہ نہیں آزمایا۔ بس لکھتے رہے جنوں کی حکایاتِ خوں چکاں۔
ڈاکٹر حسرت کا نام عبدالحق تھا۔ مرحوم بڑے نیک، ہمدرد، غم گسار اور اچھے انسان تھے۔ انھیں بات کرنے کا سلیقہ آتا تھا۔ شیروانی پاجامہ ان کا مستقل لباس تھا۔ خود بھی صاحب علم تھے اور اہل علم کی قدر کرتے تھے۔ ادب کے تعمیری نظریات کے حامل تھے، ادب برائے ادب کے قائل نہیں تھے۔
حیدرآباد میں ان کا مستقل قیام تھا۔ کراچی میں بھی ایک بڑا اور کشادہ مکان تھا۔ مگر اس میں رہتے نہیں تھے۔ اسے کرایہ پر اٹھا رکھا تھا ان کے کئی بیٹے بیٹیاں ہیں۔ سب ماشا اﷲ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور برسر روزگار ہیں۔
سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد انھوں نے لکھنے پڑھنے پر ساری توجہ مبذول کردی۔ یہ سلسلہ طویل عرصے تک جاری رہا۔ دو تین سال سے ان کی قوتِ سماعت ختم ہوگئی تھی۔ پھر وہ بیمار رہنے لگے اور آخر اس بیماری نے ان کا قصہ تمام کردیا۔
ڈاکٹر حسرت کی مکتوب نگاری بھی ادبی لحاظ سے بڑی اہمیت کی حامل تھی۔ ان کے نام آنے والے ان کے ادیب و شاعر دوستوں اور چاہنے والوں کے خطوط کے جواب میں جو خط لکھتے تھے ان کے دو مجموعے بھی شایع ہوچکے ہیں اور ادبی حلقوں سے پسندیدگی اور پذیرائی کی سند حاصل کرچکے ہیں۔
''کھرے سکے'' کے نام سے ان کے مضامین کا مجموعہ ان کے آخری ایام کی تصنیف ہے۔ اس میں شایع ہونے والے ان کے فکر وفن کی ترویج میں بڑے معاون و مددگار ہوچکے ہیں ایک اچھے اور دیانت دار اہل قلم ہونے کے ناطے وہ اپنے عہد کے دیگر قلم کاروں سے متاثر بھی ہوتے تھے اور ان کی شخصیت اور ان کے فن پر صائب رائے کا اظہار تحریری صورت میں کیا کرتے تھے۔ افسوس کہ ایسے ادیب کی قدر نہ ان کی زندگی میں اس طرح کی گئی جس کے وہ حق دار تھے نہ ان کے گزر جانے کے بعد کسی دل جلے نے کبھی کہا تھا:
اس کو بے مہریٔ عالم کا صلہ کہتے ہیں
مرگئے ہم تو زمانے نے بہت یاد کیا
ٹی وی کے بعض چینل ہر روز اس دن کی تاریخ کی مناسبت سے مرحوم ادیبوں اور شاعروں کی برسی کے موقعے پر مختصر مگر با اثر طریقے سے انھیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ یہ ایک قابل تحسین کام ہے اور ادب اور ادیبوں کے بارے میں اپنے ناظرین کو با خبر رکھنے کا ایک کار آمد طریقہ ہے۔ مگر صد افسوس کہ ان چینلوں سے بھی ڈاکٹر حسرت کاسگنجوی کے انتقال کی خبر تک نشر نہیں کی گئی۔ احمد ندیم قاسمی نے تو ایسے اہل قلم کا رونا روتے ہوئے کہا تھا جو زندگی بھر تنقید کے تیر برداشت کرتے رہے۔
عمر بھر کرتے رہے سنگ زنی اہل وطن
یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
لیکن ڈاکٹر حسرت کا سگنجوی کو اگرچہ عمر بھر سنگ زنی کا سامنا نہیں کرنا پڑا اس کے باوجود بھی انھیں اعزاز کے ساتھ دفنایا نہیں گیا۔ ان کے مرنے کا بھی کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔ یہ بھی بے مہریٔ عالم کا ایک پہلو ہے۔
ادبی جریدے جو ادیبوں، شاعروں اور نقادوں کی تحریروں کے طفیل اپنی دکان چمکائے رکھتے ہیں۔ وہ بھی (چند ایک کو چھوڑ کر) بسا اوقات انہی قلم کاروں کی پروموشن میں پیش پیش رہتے ہیں جو ان کی دکان کی چمک دمک میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ انہی کے گوشے شائع کرتے ہیں، انہی پر خصوصی شمارے نکالتے ہیں، انہی کی تعریف و توصیف کے پہاڑ تعمیر کرتے ہیں جو اپنے آپ کو منوانے کا نسخۂ کیمیا استعمال کرتے ہیں۔
ڈاکٹر حسرت کاسگنجوی جو کامیابی کی اس ''ٹیکنالوجی'' سے ناواقف تھے یا انھوں نے جان بوجھ کر اسے اپنانے سے گریز کیاتھا، ان کا تو یہی حشر ہونا تھا کہ ان کے چاہنے والوں اور قدر دانوں کو ان کی موت کی خبر سے بھی بے خبر رہنے کا صدمہ برداشت کرنا پڑے۔ ہفتوں، مہینوں بعد انھیں یہ افسوسناک خبر ملے گی تو وہ یہ سوچ کر دل گرفتہ ہوجائیں گے کہ کاش ہمیں بروقت خبر مل جاتی تو ہم ان کے جنازے کو کندھا دینے کا شرف ہی حاصل کرلیتے۔
ایک ہم ہیں، کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں، جنھیں تصویر بنا آتی ہے
یہ شعر ڈاکٹر حسرت کاسگنجوی کے حال پر صادق نظر آتا ہے۔ انھوں نے عام اور مروجہ روش پر نہ چل کر خود بھی اپنے آپ کو نقصان پہنچایا۔
انتہائی دکھ کی بات ہے کہ ایسے ادیب کی وفات کی خبر کسی اخبار میں شایع نہیں ہوئی، نہ ہی کسی ٹی وی چینل سے یہ خبر ٹیلی کاسٹ ہوئی، جب کہ شوبز کا کوئی بندہ گزر جاتا ہے تو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں ہفتوں اور مہینوں اس کے بارے میں ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ شوبزکے آرٹسٹوں اور فنکاروں کے گزرنے کی خبریں اور ان کے متعلق مضامین نہ شایع کی جائیں، ان کی برسی پر انھیں یاد نہ کیا جائے، یا مرنے والوں کی سالگرہ کا دن نہ منایا جائے ضرور منایاجائے، انھیں یاد کیا جائے، انھیں ان کی خدمات پر خراج عقیدت پیش کیا جائے کہ زندہ قومیں اپنے ہیروز کو کبھی فراموش نہیں کرتیں۔ مگر ادیب و شاعر بھی تو قومی ہیروز کا درجہ رکھتے ہیں۔ پھر ان کے ساتھ یہ منفی رویہ کیوں؟ ایسی سرد مہری کیوں کہ ان کے انتقال پر عوام کو بے خبر رکھا جائے؟۔
ڈاکٹر حسرت کا سگنجوی کوئی غیر معروف قلم کار نہیں تھے۔ انھوں نے اپنی زندگی کا بہت بڑا حصہ ادب کی آبیاری میں صرف کیا۔ بہت کچھ لکھا، بہت کتابیں شایع کیں، ادب کے کئی شعبوں کے ذریعے اپنے افکاروخیالات کا اظہار کیا، لیکن انھیں ان کی خدمات کا کیا صلہ ملا؟ ان کی وفات کے بعد اخبارات میں چند سطری خبریں بھی نہ چھاپی گئیں۔ شاید ان کا قصور یہ تھا کہ ان کی پی آر بہت کمزور تھی یا نہ ہونے کے برابر تھی، انھوں نے اپنی زندگی میں کبھی اس جانب توجہ نہیں دی، اپنی شہرت کے لیے تشہیری نوعیت کا کوئی کام نہیں کیا۔ اپنی مشہوری اور مقبولیت کی پروموشن کے لیے کوئی آزمودہ نسخہ نہیں آزمایا۔ بس لکھتے رہے جنوں کی حکایاتِ خوں چکاں۔
ڈاکٹر حسرت کا نام عبدالحق تھا۔ مرحوم بڑے نیک، ہمدرد، غم گسار اور اچھے انسان تھے۔ انھیں بات کرنے کا سلیقہ آتا تھا۔ شیروانی پاجامہ ان کا مستقل لباس تھا۔ خود بھی صاحب علم تھے اور اہل علم کی قدر کرتے تھے۔ ادب کے تعمیری نظریات کے حامل تھے، ادب برائے ادب کے قائل نہیں تھے۔
حیدرآباد میں ان کا مستقل قیام تھا۔ کراچی میں بھی ایک بڑا اور کشادہ مکان تھا۔ مگر اس میں رہتے نہیں تھے۔ اسے کرایہ پر اٹھا رکھا تھا ان کے کئی بیٹے بیٹیاں ہیں۔ سب ماشا اﷲ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور برسر روزگار ہیں۔
سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد انھوں نے لکھنے پڑھنے پر ساری توجہ مبذول کردی۔ یہ سلسلہ طویل عرصے تک جاری رہا۔ دو تین سال سے ان کی قوتِ سماعت ختم ہوگئی تھی۔ پھر وہ بیمار رہنے لگے اور آخر اس بیماری نے ان کا قصہ تمام کردیا۔
ڈاکٹر حسرت کی مکتوب نگاری بھی ادبی لحاظ سے بڑی اہمیت کی حامل تھی۔ ان کے نام آنے والے ان کے ادیب و شاعر دوستوں اور چاہنے والوں کے خطوط کے جواب میں جو خط لکھتے تھے ان کے دو مجموعے بھی شایع ہوچکے ہیں اور ادبی حلقوں سے پسندیدگی اور پذیرائی کی سند حاصل کرچکے ہیں۔
''کھرے سکے'' کے نام سے ان کے مضامین کا مجموعہ ان کے آخری ایام کی تصنیف ہے۔ اس میں شایع ہونے والے ان کے فکر وفن کی ترویج میں بڑے معاون و مددگار ہوچکے ہیں ایک اچھے اور دیانت دار اہل قلم ہونے کے ناطے وہ اپنے عہد کے دیگر قلم کاروں سے متاثر بھی ہوتے تھے اور ان کی شخصیت اور ان کے فن پر صائب رائے کا اظہار تحریری صورت میں کیا کرتے تھے۔ افسوس کہ ایسے ادیب کی قدر نہ ان کی زندگی میں اس طرح کی گئی جس کے وہ حق دار تھے نہ ان کے گزر جانے کے بعد کسی دل جلے نے کبھی کہا تھا:
اس کو بے مہریٔ عالم کا صلہ کہتے ہیں
مرگئے ہم تو زمانے نے بہت یاد کیا
ٹی وی کے بعض چینل ہر روز اس دن کی تاریخ کی مناسبت سے مرحوم ادیبوں اور شاعروں کی برسی کے موقعے پر مختصر مگر با اثر طریقے سے انھیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ یہ ایک قابل تحسین کام ہے اور ادب اور ادیبوں کے بارے میں اپنے ناظرین کو با خبر رکھنے کا ایک کار آمد طریقہ ہے۔ مگر صد افسوس کہ ان چینلوں سے بھی ڈاکٹر حسرت کاسگنجوی کے انتقال کی خبر تک نشر نہیں کی گئی۔ احمد ندیم قاسمی نے تو ایسے اہل قلم کا رونا روتے ہوئے کہا تھا جو زندگی بھر تنقید کے تیر برداشت کرتے رہے۔
عمر بھر کرتے رہے سنگ زنی اہل وطن
یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
لیکن ڈاکٹر حسرت کا سگنجوی کو اگرچہ عمر بھر سنگ زنی کا سامنا نہیں کرنا پڑا اس کے باوجود بھی انھیں اعزاز کے ساتھ دفنایا نہیں گیا۔ ان کے مرنے کا بھی کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔ یہ بھی بے مہریٔ عالم کا ایک پہلو ہے۔
ادبی جریدے جو ادیبوں، شاعروں اور نقادوں کی تحریروں کے طفیل اپنی دکان چمکائے رکھتے ہیں۔ وہ بھی (چند ایک کو چھوڑ کر) بسا اوقات انہی قلم کاروں کی پروموشن میں پیش پیش رہتے ہیں جو ان کی دکان کی چمک دمک میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ انہی کے گوشے شائع کرتے ہیں، انہی پر خصوصی شمارے نکالتے ہیں، انہی کی تعریف و توصیف کے پہاڑ تعمیر کرتے ہیں جو اپنے آپ کو منوانے کا نسخۂ کیمیا استعمال کرتے ہیں۔
ڈاکٹر حسرت کاسگنجوی جو کامیابی کی اس ''ٹیکنالوجی'' سے ناواقف تھے یا انھوں نے جان بوجھ کر اسے اپنانے سے گریز کیاتھا، ان کا تو یہی حشر ہونا تھا کہ ان کے چاہنے والوں اور قدر دانوں کو ان کی موت کی خبر سے بھی بے خبر رہنے کا صدمہ برداشت کرنا پڑے۔ ہفتوں، مہینوں بعد انھیں یہ افسوسناک خبر ملے گی تو وہ یہ سوچ کر دل گرفتہ ہوجائیں گے کہ کاش ہمیں بروقت خبر مل جاتی تو ہم ان کے جنازے کو کندھا دینے کا شرف ہی حاصل کرلیتے۔
ایک ہم ہیں، کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں، جنھیں تصویر بنا آتی ہے
یہ شعر ڈاکٹر حسرت کاسگنجوی کے حال پر صادق نظر آتا ہے۔ انھوں نے عام اور مروجہ روش پر نہ چل کر خود بھی اپنے آپ کو نقصان پہنچایا۔