بُک شیلف
زاہد ملک کی دونوں کتابیں رنگین تصاویر سے آراستہ اور مجلد ہیں، طباعت عمدہ اور کاغذ بڑھیا ہے
پہل اُس نے کی تھی
مصنف: جبار مرزا،ناشر: شہریار پبلی کیشنز، اسلام آباد
صفحات : 320،قیمت: 900 روپے
مصنف کے میدان شاعری سے لے کر صحافت تک دراز ہیں، لیکن یہ خودنوشت اُن کی سچی محبت کی ایک ایسی کتھا ہے، جس میں ڈاکٹر انعام الحق جاوید کے بقول افسانہ، ناول، شاعری اور خطوط سب موجود ہیں۔
عطاالحق قاسمی کے الفاظ میں ''سچی داستان کو ایک ایسے افسانوی رنگ میں پیش کیا ہے کہ قاری اس میں کھو سا جاتا ہے۔'' تین عشروں بعد جب یہ بپتا رقم ہوئی ہے، تو اس کے چشم دید گواہ مصنف کے ہم رکاب مظہر حسین کو اُس وقت کچھ نہ کر سکنے کی کسک تڑپاتی ہے کہ کاش وہ اُن کی کچھ مدد کر سکتے۔
ادبی چاشنی میں گندھا یہ ایک ایسی محبت کا بیان ہے، جو دوسروں کے لیے نثار ہو گئی، داستان کا مرکزی کردار چوہدری صاحب کی دختر ہونے کی بنا پر بنام ''چوہدرانی'' مذکور ہے۔ چار سال تک دراز میل ملاقات اور تین سال کے انتظار کے بعد مصنف ''رانی'' کے جیون ساتھی بن جاتے ہیں۔۔۔ جن سے بھرپور ممنونیت کا اظہار بھی کرتے ہیں اور نہایت خوب صورتی سے اپنی زندگی کے دونوں اہم کرداروں کا تذکرہ ایسے کرتے ہیں کہ محبت کی لاج بھی ہے اور ایک عورت کے ایثار کو خراج تحسین بھی۔
'عرض مصنف' میں رقم کرتے ہیں،''عرب کے بدو بیٹی پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کردیا کرتے تھے، جب کہ چوہدری صاحب نے اپنی بیٹی کو پال پوس کر سرخ جوڑا پہنا کر دفنایا تھا۔'' جبار مرزا کی کاٹ دار تحریر کے معترف جوہری سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر بھی 'چوہدرانی صاحبہ'کے لیے مصنف کے لہجے کے گداز کو محسوس کرتے ہیں۔
آف دی پیراڈائز
(Off the Paradise)
مصنف: نسیم انجم،مترجم: تنویر رؤف
صفحات:216،قیمت:400
ناشر: احمد برادرز پرنٹرز، کراچی
زیر تبصرہ ناول2007ء میں منظر عام پر آنے والے اردو ناول 'نرک' کا انگریزی ترجمہ ہے۔ اس سے قبل مصنفہ کے چھے ناول اور دو افسانوں کے مجموعے شایع ہو چکے ہیں۔ نرک کا موضوع 'تیسری جنس' کو بنایا گیا ہے۔
یہ ناول اُن کے رہن سہن، مسائل اور محرومی اور دکھوں کا احاطہ کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زبان وبیان میں بھی اس کا واضح اثر غالب ہے۔ احمد ہمدانی اسے اس موضوع پر اردو کا بہترین ناول خیال کرتے ہیں۔ نسیم انجم کی یہ پہلی تصنیف ہے، جو انگریزی کے قالب میں ڈھالی گئی۔
اس سے قبل 'گلاب فن اور دوسرے افسانے'سندھی میں 'ورک جو سفر' کے عنوان سے منظرعام پر آچکے۔ کتاب کے مترجم تنویر رؤف کہتے ہیں کہ وہ بچپن سے سماج کی اس صنف جسے خواجہ سرا کہتے ہیں، کو سنتے اور دیکھتے آئے ہیں۔ بازاروں اور عوامی مقامات پر ان کی چال ڈھال، رنگ روپ، بدن بولی اور عامیانہ بول چال اور لوگوں سے ان کے روییکا مشاہدہ کرتے۔ تب سے ہی انہیں سماج کے اس طبقے کا پس منظر اور حالات وواقعات جاننے کی دل چسپی تھی۔
نسیم انجم کے ناول میں انہیں اس حوالے سے خاطرخواہ معلومات ملیں، لہٰذا انہیں انگریزی کا پیرہن دیا۔ ناول کا عنوان نرک کے بہ جائے 'آف دی پیراڈائز' رکھنے کی وجہ مذکور کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ نرک کے معنی دوزخ کے ہیں، جس سے ہمارے ہاں جزا وسزا کے تصورات وابستہ ہیں، اس لیے انہوںنے اس کے عنوان کو بدلا اور انہیں امید ہے کہ یہ عنوان پسند کیا جائے گا اور نسیم انجم کا پیغام بھی بہ خوبی پہنچے گا۔ پچھلے سرورق پر نصف درجن سے زاید مشاہیر کی آرا سے سجا ناول اردو کے بعد اب انگریزی کے قارئین کی ذوق مطالعہ کی نذر ہے۔
یورپ کے حسین ہم سفر
(رومینٹک سیاحت کی سچی داستان)
مصنف: ڈاکٹر محمد وسیع اﷲ خان،ناشر: محمد معزاللہ خان
صفحات:336، قیمت:300روپے
جیسا کے نام سے ظاہر ہے کہ اس سیاحتی مہم میں سفر ہی نہیں، ہم رکابوں کا بیان بھی شامل ہے۔ کتاب کا ذیلی عنوان اس رومانوی داستان کے مبنی برحقیقت ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔۔۔ ورق گردانی کیجیے، تو سفر اور عشق کے اس ملاپ کی داستان کا دل چسپ بیان شروع ہوتا ہے۔
جس میں قاری کو مسافر کسی افسانوی داستان کا مرکزی کردار محسوس ہوتا ہے، لیکن کتاب کے 'جملہ حقوق محفوظ' کے ساتھ ساتھ یہ وضاحت موجود ہے کہ کتاب کے سفری احوال میں حقیقت کو پیش نظر رکھا گیا ہے، چوں کہ مصلحت آڑے تھی، اس واسطے فقط ہمراہیوں کے نام فرضی ہیں۔ مصنف اظہارِخیال کرتے ہیں کہ ''دل چسپی پیدا کرنے کے لیے جھوٹ کا سہارا نہیں لیا، شاید کچھ قارئین کو میرا یہ سفرنامہ افسانوی لگے۔۔۔ اُن کے اطمینان کے لیے میں دانش وَروں کا یہ قول نقل کرنا پسند کروں گا کہ سچی کہانیاں، بناوٹی کہانیوں سے زیادہ دل چسپ اور عجیب ہوتی ہیں۔''
یہ کتاب ڈاکٹر وسیع اﷲ خان کے فرانس، سوئزرلینڈ، اٹلی، آسٹریا اور نیدرلینڈ کا سفری احوال ہے۔ کتاب کے 26 ابواب میں پانچ ابواب فرانس، سات ابواب سوئٹزرلینڈ، 10 ابواب اٹلی، جب کہ دو، دو ابواب آسٹریا اور نیدرلینڈ کے سفر پر محیط ہیں۔ سفر جس افسانوی انداز میں شروع ہوتا ہے، آخری صفحے تک اسی اسلوب میں رنگا دکھائی دیتا ہے۔
موقع محل کی مناسبت سے اشعار کا استعمال بھی کیا گیا ہے۔ کئی ذیلی عنوانوں میں بٹے ہوئے ابواب، قارئین کے لیے اس کی خواندگی کو سہل بناتے ہیں۔
مصنف اس سے پہلے ایک اور سفرنامے ''لندن اور شریر مرزا'' بھی رقم کر چکے ہیں۔ اُن کا دعویٰ ہے کہ اُن کے جیسے سفرناموں کی اس سے پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی۔
یورپ کے متذکرہ سفر کے لیے ڈاکٹر وسیع نے بحری اور فضائی سمیت زمینی سفر کے بھی ہر وسیلے کو استعمال کیا ہے۔ کتاب کے آخری صفحات میں 'غزلیات' کے تحت کچھ کلام بھی شامل ہے۔ مجلد، باتصویر سرورق، عمدہ کاغذ اور بڑھیا طباعت کی حامل اس کتاب میں تصاویر اگرچہ سیاہ سفید ہیں، لیکن ان کا طباعتی معیار اچھا ہے۔
سو عظیم مسلم خواتین
مرتب: میربابرمشتاق'قیمت:495روپے
ناشر:عثمان پبلی کیشنز،B-17، فیض آباد ماڈل کالونی کراچی
زیرنظرکتاب کا تعارف خود اس کا نام ہے۔ ویسے تو تاریخ اسلام عظیم مسلم خواتین سے بھری پڑی ہے۔ ان میں سے 100عظیم خواتین کا انتخاب بذات خود مرتب کے لئے ایک بڑا چیلنج ثابت ہوا ہوگا۔ کتاب کو نو ابواب میں منقسم کیا گیا ہے۔
اس میں جہاں انبیا ورسل کی وفا شعار بیویوں کا تذکرہ ہے، وہاں ان صحابیات کا بھی تذکرہ ہے جنھوں نے جاں نثاری ، ایثار وقربانی کے انوکھے کارنامے سرانجام دئیے۔ اس کے بعد تبع تابعین خواتین کا ذکرجنھوں نے اپنے عمل 'کردار اور حق گوئی سے نئے باب رقم کئے، اس کے بعد آنے والے ادوار میں اسلامی تحریکوں کے کردار نے اقامت دین کی جدوجہد کو ازسرنو زندہ کیا۔
ان بہادر وباہمت خواتین اسلام کا تذکرہ بھی یقیناً ایمان میں اضافے کا سبب ہے جنھوں نے اپنے والد، بیٹے، بھائی یا شوہر کی طویل جدائی برداشت کی، جن کے گھروں کی باربار تلاشی ہوئی جنہیں بری طرح زدوکوب کیاگیا، جنہوں نے جیلوں کی تاریکیوں میں زندگی کی طویل مدتیں گزاردیں، جنھوں نے اپنے عزیزوں سے ملاقات کرنے کے لئے جیلوں تک پہنچنے کے لئے طویل سفرکئے۔ پہلے باب میں ازواج وامھات انبیاء کاذکر کیاگیاہے، دوسرا باب امہات المومنین پر مشتمل ہے۔
تیسرا باب: بنات رسول ﷺ، چوتھا باب: نبی ﷺ کی جلیل القدر صحابیات، پانچواں باب: جلیل القدر تابعیات، چھٹا باب: راہ سلوک کی مسافرات، ساتواں باب: شاہی میں فقیری کا عنوان، آٹھواں باب: پاکباز مجاہدات اور عظیم المرتبت بیویاں اور نواں باب: ظلمت سے روشنی کا سفر کرنے والی نومسلم خواتین۔ میں سمجھتاہوں کہ یقینا یہ کتاب آج کی خواتین کے ذہن میں فکروعمل کے نئے چراغ جلائے گی۔
ایک مصنف، دو کتابیں
مصنف: زاہد ملک،ناشر: الجلیس پاکستانی بکس پبلشنگ سروسز
ڈاکٹرعبدالقدیر خان اور اسلامی بم
(پہلا اور دوسرا حصہ)
صفحات: 455،قیمت: درج نہیں
'پاکستان آبزرور' کے چیف ایڈیٹر زاہد ملک کی یہ تصنیف 1986ء میں منصۂ شہود پر آنے سے قبل ہی مسائل کا شکار ہوگئی، چوں کہ پاکستان نے ابھی تک جوہری قوت کا اظہار نہیں کیا تھا اور سرکار کو اندیشہ تھا کہ اس تصنیف کے ذریعے کہیں کوئی راز افشا نہ ہو جائے۔ مصنف کے الفاظ میں اس کتاب کا پہلا حصہ جون 1989ء میں شایع ہوا، جس کے بعد ان کی گرفتاری بھی عمل میں آئی، (جس کا احوال حصہ دوم میں درج ہے) اسی دوران اس کا انگریزی ترجمہ ملائیشیا سے طبع ہوا۔
1998ء میں جب پاکستان کی جانب سے جوہری صلاحیت کا اظہار کیا گیا، تو اس کا دوسرا حصہ منظر عام پر آیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر کے ایک نہایت قریبی واقف کار اور ایک صحافی کی حیثیت سے مصنف کے مشاہدات اور تجربات کو انفرادیت حاصل ہے۔ اس کتاب میں اوائل سے ڈاکٹر عبدالقدیر کی جدوجہد اور پیش آمدہ مسائل اور ان کے خلاف ہونے والی سازشوں کا مفصل بیان ہے۔ یوں تو یہ تصنیف ڈاکٹر عبدالقدیر کے گرد گھومتی ہے، لیکن مصنف کی جانب سے جنرل ضیاء الحق کی حادثاتی موت پر بھی ایک سازش کا انکشاف کیا گیا ہے۔ کتاب کے حصہ اول کے مشمولات میں 13، جب کہ حصہ دوم کے ذیل میں 30 عنوانات استوار ہیں۔
محسن پاکستان کی ڈی بریفنگ
(پاکستان اور اسلامی بم، حصہ سوئم)
صفحات:280،قیمت:450 روپے
اس کتاب میں مصنف نے 2004ء میں جوہری پھیلاؤ کے حوالے سے ڈاکٹر عبدالقدیر کے ساتھ پیش آنے والی صورت حال کو موضوع بنایا ہے اور ان کے ساتھ پیش آنے والے مسائل اور حکومتی برتاؤ سے لے کر ڈاکٹر عبدالقدیر کی کردار کشی تک کے سلسلوں کو قلم بند کیا ہے۔ عرض مصنف میں زاہد ملک کہتے ہیں، ''پاکستان میں ڈی بریفنگ کے حوالے سے جو کچھ ہوا، وہ ہماری قومی زندگی کا ایک انتہائی الم ناک باب ہے۔''
اندرونی سرورق پر کتاب کو'ڈاکٹر عبدالقدیر اور اسلامی بم' کے سلسلے کا تیسرا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ 20 مختلف عنوانات کے تحت بانٹی گئی نگارشات سے مصنف کی ریاست سے محبت اور ڈاکٹر عبدالقدیر سے عشق بخوبی جھلکتا ہے۔ کتاب کی فہرست میں درج مضامین کے غلط صفحہ نمبر شاید 'غفلتِ پروف خوانی' کی نذر ہوئے۔۔۔ امید ہے کتاب کی اگلی اشاعت میں اس غلطی کو درست کر لیا جائے گا۔
زاہد ملک کی دونوں کتابیں رنگین تصاویر سے آراستہ اور مجلد ہیں، طباعت عمدہ اور کاغذ بڑھیا ہے۔
مصنف: جبار مرزا،ناشر: شہریار پبلی کیشنز، اسلام آباد
صفحات : 320،قیمت: 900 روپے
مصنف کے میدان شاعری سے لے کر صحافت تک دراز ہیں، لیکن یہ خودنوشت اُن کی سچی محبت کی ایک ایسی کتھا ہے، جس میں ڈاکٹر انعام الحق جاوید کے بقول افسانہ، ناول، شاعری اور خطوط سب موجود ہیں۔
عطاالحق قاسمی کے الفاظ میں ''سچی داستان کو ایک ایسے افسانوی رنگ میں پیش کیا ہے کہ قاری اس میں کھو سا جاتا ہے۔'' تین عشروں بعد جب یہ بپتا رقم ہوئی ہے، تو اس کے چشم دید گواہ مصنف کے ہم رکاب مظہر حسین کو اُس وقت کچھ نہ کر سکنے کی کسک تڑپاتی ہے کہ کاش وہ اُن کی کچھ مدد کر سکتے۔
ادبی چاشنی میں گندھا یہ ایک ایسی محبت کا بیان ہے، جو دوسروں کے لیے نثار ہو گئی، داستان کا مرکزی کردار چوہدری صاحب کی دختر ہونے کی بنا پر بنام ''چوہدرانی'' مذکور ہے۔ چار سال تک دراز میل ملاقات اور تین سال کے انتظار کے بعد مصنف ''رانی'' کے جیون ساتھی بن جاتے ہیں۔۔۔ جن سے بھرپور ممنونیت کا اظہار بھی کرتے ہیں اور نہایت خوب صورتی سے اپنی زندگی کے دونوں اہم کرداروں کا تذکرہ ایسے کرتے ہیں کہ محبت کی لاج بھی ہے اور ایک عورت کے ایثار کو خراج تحسین بھی۔
'عرض مصنف' میں رقم کرتے ہیں،''عرب کے بدو بیٹی پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کردیا کرتے تھے، جب کہ چوہدری صاحب نے اپنی بیٹی کو پال پوس کر سرخ جوڑا پہنا کر دفنایا تھا۔'' جبار مرزا کی کاٹ دار تحریر کے معترف جوہری سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر بھی 'چوہدرانی صاحبہ'کے لیے مصنف کے لہجے کے گداز کو محسوس کرتے ہیں۔
آف دی پیراڈائز
(Off the Paradise)
مصنف: نسیم انجم،مترجم: تنویر رؤف
صفحات:216،قیمت:400
ناشر: احمد برادرز پرنٹرز، کراچی
زیر تبصرہ ناول2007ء میں منظر عام پر آنے والے اردو ناول 'نرک' کا انگریزی ترجمہ ہے۔ اس سے قبل مصنفہ کے چھے ناول اور دو افسانوں کے مجموعے شایع ہو چکے ہیں۔ نرک کا موضوع 'تیسری جنس' کو بنایا گیا ہے۔
یہ ناول اُن کے رہن سہن، مسائل اور محرومی اور دکھوں کا احاطہ کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زبان وبیان میں بھی اس کا واضح اثر غالب ہے۔ احمد ہمدانی اسے اس موضوع پر اردو کا بہترین ناول خیال کرتے ہیں۔ نسیم انجم کی یہ پہلی تصنیف ہے، جو انگریزی کے قالب میں ڈھالی گئی۔
اس سے قبل 'گلاب فن اور دوسرے افسانے'سندھی میں 'ورک جو سفر' کے عنوان سے منظرعام پر آچکے۔ کتاب کے مترجم تنویر رؤف کہتے ہیں کہ وہ بچپن سے سماج کی اس صنف جسے خواجہ سرا کہتے ہیں، کو سنتے اور دیکھتے آئے ہیں۔ بازاروں اور عوامی مقامات پر ان کی چال ڈھال، رنگ روپ، بدن بولی اور عامیانہ بول چال اور لوگوں سے ان کے روییکا مشاہدہ کرتے۔ تب سے ہی انہیں سماج کے اس طبقے کا پس منظر اور حالات وواقعات جاننے کی دل چسپی تھی۔
نسیم انجم کے ناول میں انہیں اس حوالے سے خاطرخواہ معلومات ملیں، لہٰذا انہیں انگریزی کا پیرہن دیا۔ ناول کا عنوان نرک کے بہ جائے 'آف دی پیراڈائز' رکھنے کی وجہ مذکور کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ نرک کے معنی دوزخ کے ہیں، جس سے ہمارے ہاں جزا وسزا کے تصورات وابستہ ہیں، اس لیے انہوںنے اس کے عنوان کو بدلا اور انہیں امید ہے کہ یہ عنوان پسند کیا جائے گا اور نسیم انجم کا پیغام بھی بہ خوبی پہنچے گا۔ پچھلے سرورق پر نصف درجن سے زاید مشاہیر کی آرا سے سجا ناول اردو کے بعد اب انگریزی کے قارئین کی ذوق مطالعہ کی نذر ہے۔
یورپ کے حسین ہم سفر
(رومینٹک سیاحت کی سچی داستان)
مصنف: ڈاکٹر محمد وسیع اﷲ خان،ناشر: محمد معزاللہ خان
صفحات:336، قیمت:300روپے
جیسا کے نام سے ظاہر ہے کہ اس سیاحتی مہم میں سفر ہی نہیں، ہم رکابوں کا بیان بھی شامل ہے۔ کتاب کا ذیلی عنوان اس رومانوی داستان کے مبنی برحقیقت ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔۔۔ ورق گردانی کیجیے، تو سفر اور عشق کے اس ملاپ کی داستان کا دل چسپ بیان شروع ہوتا ہے۔
جس میں قاری کو مسافر کسی افسانوی داستان کا مرکزی کردار محسوس ہوتا ہے، لیکن کتاب کے 'جملہ حقوق محفوظ' کے ساتھ ساتھ یہ وضاحت موجود ہے کہ کتاب کے سفری احوال میں حقیقت کو پیش نظر رکھا گیا ہے، چوں کہ مصلحت آڑے تھی، اس واسطے فقط ہمراہیوں کے نام فرضی ہیں۔ مصنف اظہارِخیال کرتے ہیں کہ ''دل چسپی پیدا کرنے کے لیے جھوٹ کا سہارا نہیں لیا، شاید کچھ قارئین کو میرا یہ سفرنامہ افسانوی لگے۔۔۔ اُن کے اطمینان کے لیے میں دانش وَروں کا یہ قول نقل کرنا پسند کروں گا کہ سچی کہانیاں، بناوٹی کہانیوں سے زیادہ دل چسپ اور عجیب ہوتی ہیں۔''
یہ کتاب ڈاکٹر وسیع اﷲ خان کے فرانس، سوئزرلینڈ، اٹلی، آسٹریا اور نیدرلینڈ کا سفری احوال ہے۔ کتاب کے 26 ابواب میں پانچ ابواب فرانس، سات ابواب سوئٹزرلینڈ، 10 ابواب اٹلی، جب کہ دو، دو ابواب آسٹریا اور نیدرلینڈ کے سفر پر محیط ہیں۔ سفر جس افسانوی انداز میں شروع ہوتا ہے، آخری صفحے تک اسی اسلوب میں رنگا دکھائی دیتا ہے۔
موقع محل کی مناسبت سے اشعار کا استعمال بھی کیا گیا ہے۔ کئی ذیلی عنوانوں میں بٹے ہوئے ابواب، قارئین کے لیے اس کی خواندگی کو سہل بناتے ہیں۔
مصنف اس سے پہلے ایک اور سفرنامے ''لندن اور شریر مرزا'' بھی رقم کر چکے ہیں۔ اُن کا دعویٰ ہے کہ اُن کے جیسے سفرناموں کی اس سے پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی۔
یورپ کے متذکرہ سفر کے لیے ڈاکٹر وسیع نے بحری اور فضائی سمیت زمینی سفر کے بھی ہر وسیلے کو استعمال کیا ہے۔ کتاب کے آخری صفحات میں 'غزلیات' کے تحت کچھ کلام بھی شامل ہے۔ مجلد، باتصویر سرورق، عمدہ کاغذ اور بڑھیا طباعت کی حامل اس کتاب میں تصاویر اگرچہ سیاہ سفید ہیں، لیکن ان کا طباعتی معیار اچھا ہے۔
سو عظیم مسلم خواتین
مرتب: میربابرمشتاق'قیمت:495روپے
ناشر:عثمان پبلی کیشنز،B-17، فیض آباد ماڈل کالونی کراچی
زیرنظرکتاب کا تعارف خود اس کا نام ہے۔ ویسے تو تاریخ اسلام عظیم مسلم خواتین سے بھری پڑی ہے۔ ان میں سے 100عظیم خواتین کا انتخاب بذات خود مرتب کے لئے ایک بڑا چیلنج ثابت ہوا ہوگا۔ کتاب کو نو ابواب میں منقسم کیا گیا ہے۔
اس میں جہاں انبیا ورسل کی وفا شعار بیویوں کا تذکرہ ہے، وہاں ان صحابیات کا بھی تذکرہ ہے جنھوں نے جاں نثاری ، ایثار وقربانی کے انوکھے کارنامے سرانجام دئیے۔ اس کے بعد تبع تابعین خواتین کا ذکرجنھوں نے اپنے عمل 'کردار اور حق گوئی سے نئے باب رقم کئے، اس کے بعد آنے والے ادوار میں اسلامی تحریکوں کے کردار نے اقامت دین کی جدوجہد کو ازسرنو زندہ کیا۔
ان بہادر وباہمت خواتین اسلام کا تذکرہ بھی یقیناً ایمان میں اضافے کا سبب ہے جنھوں نے اپنے والد، بیٹے، بھائی یا شوہر کی طویل جدائی برداشت کی، جن کے گھروں کی باربار تلاشی ہوئی جنہیں بری طرح زدوکوب کیاگیا، جنہوں نے جیلوں کی تاریکیوں میں زندگی کی طویل مدتیں گزاردیں، جنھوں نے اپنے عزیزوں سے ملاقات کرنے کے لئے جیلوں تک پہنچنے کے لئے طویل سفرکئے۔ پہلے باب میں ازواج وامھات انبیاء کاذکر کیاگیاہے، دوسرا باب امہات المومنین پر مشتمل ہے۔
تیسرا باب: بنات رسول ﷺ، چوتھا باب: نبی ﷺ کی جلیل القدر صحابیات، پانچواں باب: جلیل القدر تابعیات، چھٹا باب: راہ سلوک کی مسافرات، ساتواں باب: شاہی میں فقیری کا عنوان، آٹھواں باب: پاکباز مجاہدات اور عظیم المرتبت بیویاں اور نواں باب: ظلمت سے روشنی کا سفر کرنے والی نومسلم خواتین۔ میں سمجھتاہوں کہ یقینا یہ کتاب آج کی خواتین کے ذہن میں فکروعمل کے نئے چراغ جلائے گی۔
ایک مصنف، دو کتابیں
مصنف: زاہد ملک،ناشر: الجلیس پاکستانی بکس پبلشنگ سروسز
ڈاکٹرعبدالقدیر خان اور اسلامی بم
(پہلا اور دوسرا حصہ)
صفحات: 455،قیمت: درج نہیں
'پاکستان آبزرور' کے چیف ایڈیٹر زاہد ملک کی یہ تصنیف 1986ء میں منصۂ شہود پر آنے سے قبل ہی مسائل کا شکار ہوگئی، چوں کہ پاکستان نے ابھی تک جوہری قوت کا اظہار نہیں کیا تھا اور سرکار کو اندیشہ تھا کہ اس تصنیف کے ذریعے کہیں کوئی راز افشا نہ ہو جائے۔ مصنف کے الفاظ میں اس کتاب کا پہلا حصہ جون 1989ء میں شایع ہوا، جس کے بعد ان کی گرفتاری بھی عمل میں آئی، (جس کا احوال حصہ دوم میں درج ہے) اسی دوران اس کا انگریزی ترجمہ ملائیشیا سے طبع ہوا۔
1998ء میں جب پاکستان کی جانب سے جوہری صلاحیت کا اظہار کیا گیا، تو اس کا دوسرا حصہ منظر عام پر آیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر کے ایک نہایت قریبی واقف کار اور ایک صحافی کی حیثیت سے مصنف کے مشاہدات اور تجربات کو انفرادیت حاصل ہے۔ اس کتاب میں اوائل سے ڈاکٹر عبدالقدیر کی جدوجہد اور پیش آمدہ مسائل اور ان کے خلاف ہونے والی سازشوں کا مفصل بیان ہے۔ یوں تو یہ تصنیف ڈاکٹر عبدالقدیر کے گرد گھومتی ہے، لیکن مصنف کی جانب سے جنرل ضیاء الحق کی حادثاتی موت پر بھی ایک سازش کا انکشاف کیا گیا ہے۔ کتاب کے حصہ اول کے مشمولات میں 13، جب کہ حصہ دوم کے ذیل میں 30 عنوانات استوار ہیں۔
محسن پاکستان کی ڈی بریفنگ
(پاکستان اور اسلامی بم، حصہ سوئم)
صفحات:280،قیمت:450 روپے
اس کتاب میں مصنف نے 2004ء میں جوہری پھیلاؤ کے حوالے سے ڈاکٹر عبدالقدیر کے ساتھ پیش آنے والی صورت حال کو موضوع بنایا ہے اور ان کے ساتھ پیش آنے والے مسائل اور حکومتی برتاؤ سے لے کر ڈاکٹر عبدالقدیر کی کردار کشی تک کے سلسلوں کو قلم بند کیا ہے۔ عرض مصنف میں زاہد ملک کہتے ہیں، ''پاکستان میں ڈی بریفنگ کے حوالے سے جو کچھ ہوا، وہ ہماری قومی زندگی کا ایک انتہائی الم ناک باب ہے۔''
اندرونی سرورق پر کتاب کو'ڈاکٹر عبدالقدیر اور اسلامی بم' کے سلسلے کا تیسرا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ 20 مختلف عنوانات کے تحت بانٹی گئی نگارشات سے مصنف کی ریاست سے محبت اور ڈاکٹر عبدالقدیر سے عشق بخوبی جھلکتا ہے۔ کتاب کی فہرست میں درج مضامین کے غلط صفحہ نمبر شاید 'غفلتِ پروف خوانی' کی نذر ہوئے۔۔۔ امید ہے کتاب کی اگلی اشاعت میں اس غلطی کو درست کر لیا جائے گا۔
زاہد ملک کی دونوں کتابیں رنگین تصاویر سے آراستہ اور مجلد ہیں، طباعت عمدہ اور کاغذ بڑھیا ہے۔