مردم شماری کیوں ہے ضروری کیا ہیں تقاضے
مردم شماری کے اعداد و شمار کے حصول کا ایک مخصوص نظریہ ہے جس کے مطابق ملک میں ایک دن کا انتخاب کیا جاتا ہے
BAHAWALPUR:
پاکستان ایک ایسا ترقی پذیر ملک ہے جہاں بسنے والے افراد اپنی شناخت زبان، علاقائی نسبت اور برادری کی بنیاد پر کرتے ہیں، جس کے سبب ان کے درمیان بھروسے کا شدید فقدان ہے۔
اس طرز عمل کے سب سے بڑا ذمے دار اس ملک کا وہ گروہ ہے جس کے ہاتھوں میں اس ملک کا نظم و نسق پر اختیار قائداعظم کے انتقال کے بعد آگیا، جس کی ہمیشہ سے یہی کو شش رہی کہ اس ملک میں ایسا ماحول بنایا جائے کہ زیادہ سے زیادہ اس کے مفادات کو تحفظ حاصل رہے۔
ایسے میں کسی حد تک مردم شماری سے حاصل شدہ اعدادوشمار کے ذریعے مفاد عامہ کی ترقی کے پیمانے کو جا نچنا ترقی کے لیے معاون و مددگار رہا ہے۔ مردم شماری صرف لوگوں کی تعداد یا آبادی بتانے کا کام نہیں کرتی بل کہ لوگوں سے منسلک دوسرے افعال کا انتہائی قریب سے جائزہ لیتی ہے اور اسے مختلف اشاریوں کے تحت ایک نظام میں حد بندی کرکے عوام الناس کے سامنے پیش کرتی ہے۔
مردم شماری کے اعداد و شمار کے حصول کا ایک مخصوص نظریہ ہے جس کے مطابق ملک میں ایک دن کا انتخاب کیا جاتا ہے، جیسے 16 مارچ 2016 کو صبح 8 بجے سے شام 5 بجے تک۔۔۔۔ اس دوران ملک بھر میں موجود Enumerators گھر گھر جاکر لوگوں سے معلومات جمع کرتے ہیں جس کے نتیجے میں پاکستان کی کل آبادی، مردوں کی تعداد، عورتوں کی تعداد، ہر عمر کے لوگوں کی تعداد، شرح نمو، شرح اموات، مائیں بننے والی خواتین کی تعداد، ملک کے اندرونی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والے گھرانے اور ان کی شرح، بیرونی ملک نقل مکانی کرنے والے کی تعداد، بیرون ملک کام کرنے والوں کی تعداد، گھرانے کے افراد کی تعداد، گھروں کی تعداد، گھروں کی کثافت، گھروں میں کچن کی تعداد، گھروں میں بیت الخلاء کی تعداد، بجلی کے کنکشن والے گھروں کی تعداد، گیس کے کنکشن والے گھروں کی تعداد، ان گھرانوں کی تعداد جن کے گھروں کے اندر پانی کے نلکے کی سہولت موجود ہے۔
گھرانوں کی کثافت، غیرشادی شدہ خواتین کی تعداد، شادی شدہ خواتین کی تعداد، کمروں میں آبادی کی کثافت، ان گھرانوں کی تعداد جن کے اپنے گھر ہیں، ان گھروں کی تعداد جو کرائے کے گھروں میں رہتے ہیں، شرح خواندگی، پرائمری جماعت تک تعلیم حاصل کرنے والوں کی تعداد، میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے والے افراد، اسکول جانے والے بچوں کی تعداد، کالج جانے والوں کی تعداد، جامعات جانے والوں کی تعداد، اساتذہ کی تعداد، ذریعہ آمدن، پیدائشی نقص والے بچوں کی اور بڑوں کی تعداد، ڈاکٹروں کی تعداد، نرسوں کی تعداد، دائیوں کی تعداد، گھروں میں مواصلاتی سہولیات، زراعت سے وابستہ لوگوں کی تعداد، صنعتوں سے وابستہ افراد کی تعداد، ذاتی کاروبار سے منسلک افراد کی تعداد، کان کنی سے وابستہ افراد کی تعداد، دکانوں کی تعداد، غربت کی شرح وغیرہ۔
مردم شماری کے ذریعے حاصل شدہ اعداد و شمار پر مختلف مضامین کے محققین اور تجزیہ کار اپنے ضرورت کے تحت مختلف امور پر تحقیق و تجزیہ کرتے ہیں اور ملک میں معاشی اور معاشرتی تبدیلیوں اور ختم یا پیدا ہونے والے کسی رحجان کی نشان دہی کرتے ہیں۔ مزید برآں مردم شماری سے حاصل کردہ ڈیٹا سے ملک میں مختلف یونٹوں کی سطح پر عوام الناس کے معیار زندگی کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ اس طرح مختلف معاشی، معاشرتی اور سماجی نظریے وجود میں آتے ہیں، جو تہذیب کے ارتقاء میں معاون و مددگار ثابت ہوتے ہیں، جس پر محققین کو ایم۔ فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریوں تفویض کی جاتی ہیں۔
اس حوالے سے ایک کثیر تعداد میں تحقیقی پرچہ جات اور مقالے گوگل پر تلاش کیے جاسکتے ہیں۔ یہ مطالعے پالیسی سازوں اور اتھارٹیز کا محاسبہ کرتے ہیں کہ ا نکے ترقیاتی منصوبوں سے قوم کو کس حد تک فائدہ پہنچا، پالیسی یکساں آبادی کی خصوصیات پر بنا ئی گئی یا کسی خاص گروہ یا زبان کے لوگوں کو فائدہ پہنچایا گیا۔
نادرا کا ڈیٹا خاص طور پر شہریت کے حوالے سے بنایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ مختلف Administrative Boundires کا احاطہ نہیں کرتا۔ مزیدبرآں نادرا کا ڈیٹا بالغ اور نابالغ مردوخواتین کی تعداد کے علاوہ چند انفرادی خصوصیات تعلیم، شادی وغیرہ کا ا حاطہ کرتا ہے۔ یہ اعدادوشمار مختلف اوقات؍عرصے کی معلومات پر منحصر ہوتی ہیں۔ نہ تو ان میں دیہی؍شہری کی درست نشان دہی ہوتی ہے اور نہ ہی انتظامی حد بندیوں کے لحاظ سے فوری تبدیلیاں کی جاتی ہیں۔ واضح رہے کہ صرف سَروں کی گنتی کا نام مردم شماری نہیں۔ اب بھی پاکستان کے نہ صرف دیہی بل کہ بہت سے پس ماندہ شہری علاقوں میں بھی عوام کی معتد بہ تعداد ایسی ہے جس کا تازہ ترین ڈیٹا نادرا کے ڈیٹا بیس میں دست یاب نہیں۔
اس کے ساتھ نادرا کا ڈیٹا عوام کے معیار زندگی کو جانچنے کے لیے ناقص ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ نادرا کا ڈیٹا مکمل طور پر ممنوعہ ہوتا ہے اور عوام تک اس ڈیٹا کی رسائی نہیں، جس کے باعث اس ڈیٹا پر مکمل اختیار رکھنے والا گروہ جس طرح سے چاہے اسے عوام کے سامنے پیش کرسکتا ہے۔ اگر بعض ناعاقبت اندیشوں کے مطالبے کو تسلیم کر کے مردم شماری کو مکمل طور ختم کردیا جائے اور نادرا کے Head Counts پر کی بنیاد پر وسائل کی تقسیم کی جائے تو محققین ں تک ڈیٹا کی رسائی نہ ہونے کی وجہ سے اس کیCredibility متنازعہ بن جائے گی، کیوںکہ اس طرح زبان اور برادری میں منقسم عوام وسائل میں اپنے حصے کے حوالے سے کبھی اطمینان حاصل نہیں کر پائیں گے، جس کے سبب معاشی ناہمواریوں سے معاشرتی اور سماجی بگاڑ میں مزید اضافہ ہوتا رہے گا اور پاکستان میں بسنے والے کبھی تہذیب یافتہ اقوام کے قریب بھی نہیں پہنچ پائیں گے۔
اگر نادرا جیسے ادارے ہونے کی بنا پر مردم شماری کا عمل ہی موقوف کر دیا جائے تو بتایا جائے اس سے زیادہ جدید ادارے تو ترقی یافتہ ممالک میں کئی عشروں سے موجود ہیں، لیکن ان ممالک میں ہر دس سال بعد تواتر سے مرد م شماری کیوں کروائی جاتی ہے؟ واضح رہے کہ لبنان اور افغانستان جیسے گنتی کے ممالک ہیں، جہاں گذشتہ نصف صدی سے زاید عرصے سے مردم شماری نہیں ہوسکی، جس کے سبب ان کا معاشی، معاشرتی اور سماجی حال عیاں ہے۔
یہ ضروری ہے کہ مردم شماری کے عمل کو شفاف بنایا جائے اور اسے جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے، نہ کہ اس عمل کو سرے سے ختم کردیا جائے۔ نادرا کے ڈیٹا کو بنیادی طور پر پاکستانیوں کے شناخت کے حوالے سے ترتیب دیا گیا، لہٰذا اس ادارے کے نظام کو ہر دوسرے نظام کے لئے بھی لازم و ملزوم قرار دینے سے احتراز کیا جائے اور دوسرے اداروں جیسے مردم شماری، الیکشن کمیشن وغیرہ کی تخفیف کرنے کے مشورے دینے کے بجائے ان اداروں میں اصلاحات کی جانب توجہ دلائی جائے۔
پاکستان ایک ایسا ترقی پذیر ملک ہے جہاں بسنے والے افراد اپنی شناخت زبان، علاقائی نسبت اور برادری کی بنیاد پر کرتے ہیں، جس کے سبب ان کے درمیان بھروسے کا شدید فقدان ہے۔
اس طرز عمل کے سب سے بڑا ذمے دار اس ملک کا وہ گروہ ہے جس کے ہاتھوں میں اس ملک کا نظم و نسق پر اختیار قائداعظم کے انتقال کے بعد آگیا، جس کی ہمیشہ سے یہی کو شش رہی کہ اس ملک میں ایسا ماحول بنایا جائے کہ زیادہ سے زیادہ اس کے مفادات کو تحفظ حاصل رہے۔
ایسے میں کسی حد تک مردم شماری سے حاصل شدہ اعدادوشمار کے ذریعے مفاد عامہ کی ترقی کے پیمانے کو جا نچنا ترقی کے لیے معاون و مددگار رہا ہے۔ مردم شماری صرف لوگوں کی تعداد یا آبادی بتانے کا کام نہیں کرتی بل کہ لوگوں سے منسلک دوسرے افعال کا انتہائی قریب سے جائزہ لیتی ہے اور اسے مختلف اشاریوں کے تحت ایک نظام میں حد بندی کرکے عوام الناس کے سامنے پیش کرتی ہے۔
مردم شماری کے اعداد و شمار کے حصول کا ایک مخصوص نظریہ ہے جس کے مطابق ملک میں ایک دن کا انتخاب کیا جاتا ہے، جیسے 16 مارچ 2016 کو صبح 8 بجے سے شام 5 بجے تک۔۔۔۔ اس دوران ملک بھر میں موجود Enumerators گھر گھر جاکر لوگوں سے معلومات جمع کرتے ہیں جس کے نتیجے میں پاکستان کی کل آبادی، مردوں کی تعداد، عورتوں کی تعداد، ہر عمر کے لوگوں کی تعداد، شرح نمو، شرح اموات، مائیں بننے والی خواتین کی تعداد، ملک کے اندرونی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والے گھرانے اور ان کی شرح، بیرونی ملک نقل مکانی کرنے والے کی تعداد، بیرون ملک کام کرنے والوں کی تعداد، گھرانے کے افراد کی تعداد، گھروں کی تعداد، گھروں کی کثافت، گھروں میں کچن کی تعداد، گھروں میں بیت الخلاء کی تعداد، بجلی کے کنکشن والے گھروں کی تعداد، گیس کے کنکشن والے گھروں کی تعداد، ان گھرانوں کی تعداد جن کے گھروں کے اندر پانی کے نلکے کی سہولت موجود ہے۔
گھرانوں کی کثافت، غیرشادی شدہ خواتین کی تعداد، شادی شدہ خواتین کی تعداد، کمروں میں آبادی کی کثافت، ان گھرانوں کی تعداد جن کے اپنے گھر ہیں، ان گھروں کی تعداد جو کرائے کے گھروں میں رہتے ہیں، شرح خواندگی، پرائمری جماعت تک تعلیم حاصل کرنے والوں کی تعداد، میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے والے افراد، اسکول جانے والے بچوں کی تعداد، کالج جانے والوں کی تعداد، جامعات جانے والوں کی تعداد، اساتذہ کی تعداد، ذریعہ آمدن، پیدائشی نقص والے بچوں کی اور بڑوں کی تعداد، ڈاکٹروں کی تعداد، نرسوں کی تعداد، دائیوں کی تعداد، گھروں میں مواصلاتی سہولیات، زراعت سے وابستہ لوگوں کی تعداد، صنعتوں سے وابستہ افراد کی تعداد، ذاتی کاروبار سے منسلک افراد کی تعداد، کان کنی سے وابستہ افراد کی تعداد، دکانوں کی تعداد، غربت کی شرح وغیرہ۔
مردم شماری کے ذریعے حاصل شدہ اعداد و شمار پر مختلف مضامین کے محققین اور تجزیہ کار اپنے ضرورت کے تحت مختلف امور پر تحقیق و تجزیہ کرتے ہیں اور ملک میں معاشی اور معاشرتی تبدیلیوں اور ختم یا پیدا ہونے والے کسی رحجان کی نشان دہی کرتے ہیں۔ مزید برآں مردم شماری سے حاصل کردہ ڈیٹا سے ملک میں مختلف یونٹوں کی سطح پر عوام الناس کے معیار زندگی کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ اس طرح مختلف معاشی، معاشرتی اور سماجی نظریے وجود میں آتے ہیں، جو تہذیب کے ارتقاء میں معاون و مددگار ثابت ہوتے ہیں، جس پر محققین کو ایم۔ فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریوں تفویض کی جاتی ہیں۔
اس حوالے سے ایک کثیر تعداد میں تحقیقی پرچہ جات اور مقالے گوگل پر تلاش کیے جاسکتے ہیں۔ یہ مطالعے پالیسی سازوں اور اتھارٹیز کا محاسبہ کرتے ہیں کہ ا نکے ترقیاتی منصوبوں سے قوم کو کس حد تک فائدہ پہنچا، پالیسی یکساں آبادی کی خصوصیات پر بنا ئی گئی یا کسی خاص گروہ یا زبان کے لوگوں کو فائدہ پہنچایا گیا۔
نادرا کا ڈیٹا خاص طور پر شہریت کے حوالے سے بنایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ مختلف Administrative Boundires کا احاطہ نہیں کرتا۔ مزیدبرآں نادرا کا ڈیٹا بالغ اور نابالغ مردوخواتین کی تعداد کے علاوہ چند انفرادی خصوصیات تعلیم، شادی وغیرہ کا ا حاطہ کرتا ہے۔ یہ اعدادوشمار مختلف اوقات؍عرصے کی معلومات پر منحصر ہوتی ہیں۔ نہ تو ان میں دیہی؍شہری کی درست نشان دہی ہوتی ہے اور نہ ہی انتظامی حد بندیوں کے لحاظ سے فوری تبدیلیاں کی جاتی ہیں۔ واضح رہے کہ صرف سَروں کی گنتی کا نام مردم شماری نہیں۔ اب بھی پاکستان کے نہ صرف دیہی بل کہ بہت سے پس ماندہ شہری علاقوں میں بھی عوام کی معتد بہ تعداد ایسی ہے جس کا تازہ ترین ڈیٹا نادرا کے ڈیٹا بیس میں دست یاب نہیں۔
اس کے ساتھ نادرا کا ڈیٹا عوام کے معیار زندگی کو جانچنے کے لیے ناقص ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ نادرا کا ڈیٹا مکمل طور پر ممنوعہ ہوتا ہے اور عوام تک اس ڈیٹا کی رسائی نہیں، جس کے باعث اس ڈیٹا پر مکمل اختیار رکھنے والا گروہ جس طرح سے چاہے اسے عوام کے سامنے پیش کرسکتا ہے۔ اگر بعض ناعاقبت اندیشوں کے مطالبے کو تسلیم کر کے مردم شماری کو مکمل طور ختم کردیا جائے اور نادرا کے Head Counts پر کی بنیاد پر وسائل کی تقسیم کی جائے تو محققین ں تک ڈیٹا کی رسائی نہ ہونے کی وجہ سے اس کیCredibility متنازعہ بن جائے گی، کیوںکہ اس طرح زبان اور برادری میں منقسم عوام وسائل میں اپنے حصے کے حوالے سے کبھی اطمینان حاصل نہیں کر پائیں گے، جس کے سبب معاشی ناہمواریوں سے معاشرتی اور سماجی بگاڑ میں مزید اضافہ ہوتا رہے گا اور پاکستان میں بسنے والے کبھی تہذیب یافتہ اقوام کے قریب بھی نہیں پہنچ پائیں گے۔
اگر نادرا جیسے ادارے ہونے کی بنا پر مردم شماری کا عمل ہی موقوف کر دیا جائے تو بتایا جائے اس سے زیادہ جدید ادارے تو ترقی یافتہ ممالک میں کئی عشروں سے موجود ہیں، لیکن ان ممالک میں ہر دس سال بعد تواتر سے مرد م شماری کیوں کروائی جاتی ہے؟ واضح رہے کہ لبنان اور افغانستان جیسے گنتی کے ممالک ہیں، جہاں گذشتہ نصف صدی سے زاید عرصے سے مردم شماری نہیں ہوسکی، جس کے سبب ان کا معاشی، معاشرتی اور سماجی حال عیاں ہے۔
یہ ضروری ہے کہ مردم شماری کے عمل کو شفاف بنایا جائے اور اسے جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے، نہ کہ اس عمل کو سرے سے ختم کردیا جائے۔ نادرا کے ڈیٹا کو بنیادی طور پر پاکستانیوں کے شناخت کے حوالے سے ترتیب دیا گیا، لہٰذا اس ادارے کے نظام کو ہر دوسرے نظام کے لئے بھی لازم و ملزوم قرار دینے سے احتراز کیا جائے اور دوسرے اداروں جیسے مردم شماری، الیکشن کمیشن وغیرہ کی تخفیف کرنے کے مشورے دینے کے بجائے ان اداروں میں اصلاحات کی جانب توجہ دلائی جائے۔