وفاق آئینجمہوری نظام اورعدلیہ فوج کیخلاف پروگرام نہیں ہونگےالیکٹرانک میڈیا کا ضابطہ اخلاق جاری

اسلامی اقدار،نظریہ پاکستان،قائدواقبال کے تصورات کے منافی بات کی اجازت ہوگی نہ تشدد،جرم یا دہشت گردی کوابھارا جائیگا

ضابطہ اخلاق پرعملدرآمدکے میکنزم پر پی بی اے کوتحفظات ہوئے توحکومت کھلے دل سے بات چیت پرآمادہ ہے،عرفان صدیقی فوٹو: فائل

وفاقی حکومت نے الیکٹرانک میڈیا کوڈ آف کنڈکٹ باضابطہ طور پر جاری کر دیا ہے۔ضابطہ اخلاق میں کہا گیا ہے کہ الیکٹرانک میڈیا پر اس بات کو یقینی بنایا جانا چاہیے کہ ایسا کوئی پروگرام یا مواد نشر یا ٹیلی کاسٹ نہ ہو جو اسلامی اقدار، نظریہ پاکستان، قائداعظم اور علامہ اقبال کے تصورات کیخلاف ہو اور نہ ہی کوئی ایسی بات پیش کی جائے گی جو آئین کیخلاف ہو یا اس سے جمہوری نظام کو نقصان پہنچے۔

ایسی کوئی اپیل نہیں کی جائے گی جو وفاق پاکستان یا ملکی سالمیت، سلامتی اور دفاع کیخلاف ہو۔ضابطہ اخلاق میں کہا گیا ہے کہ کسی مذہب، فرقہ کیخلاف ناشائستہ ریمارکس نہ دیے جائیں اور نہ ہی فرقہ واریت یا عدم ہم آہنگی کو فروغ دیا جائے،ایسا کوئی پروگرام پیش نہیں کیا جانا چاہیے جو ناشائستہ یا فحش موادکا حامل ہو۔کسی فرد یا گروپ کیخلاف نسل، ذات، قومیت، زبان، رنگ، مذہب، فرقہ، جنس، عمر، ذہنی یا جسمانی معذوری کی بنیاد پر ناشائستہ الفاظ پیش نہ کیے جائیں اور نہ ہی کوئی ایسا پروگرام پیش کیا جائے جو تشدد، جرم یا دہشتگردی کو ابھارنے پر مبنی ہو یا اس سے سنگین بدامنی کا احتمال ہو یا یہ عدلیہ یا پاکستان کی مسلح افواج کیخلاف ہو۔کالعدم تنظیموں یا ان کے نمائندوں اور ارکان کے بیانات جاری نہیں کیے جائیں گے۔

الیکٹرانک میڈیا کے لائسنس یافتگان اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ کنفلکٹ زون کی کوریج متعلقہ قانون نافذکرنے والے اداروں کی جانب سے دی گئی گائیڈ لائن کے مطابق ہے۔ایسا کوئی پروگرام یا اشتہارات جاری نہیں کیے جائیں جو بچوں کیلیے پریشانی یا تکلیف کا باعث ہوں یا کسی طرح ان سے بچوں کی عمومی بہبود پر منفی اثر پڑتا ہو۔وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی پیشگی اجازت کے بغیر صحت سے متعلق کوئی اشتہارات جاری نہیں کیے جائیں گے۔الزام تراشی پر مبنی پروگرام پیش نہیں کیے جا سکتے اور منافرت انگیز تقاریر پیش نہیں کی جا سکتیں۔


میڈیا ضابطہ اخلاق کے مطابق کسی شخص کو بلیک میل یا دھمکی نہیں دی جا سکتی اور نہ ہی جھوٹی الزام تراشی کی جا سکے گی، ایسا کوئی رویہ نہیں دکھایا جائے گا جو سگریٹ نوشی، الکوحل یا منشیات کے استعمال کا حامل ہو، خبروں کا تبصرے، رائے یا تجزیہ سے واضح فرق ہونا چاہیے، خون آلود مناظر یا لاشوں کے خونی مناظرکی تصاویر یا ایسی غیر ضروری تفصیلات پیش نہیں کی جائیں گی۔

ضابطہ اخلاق میں کہا گیا ہے کہ جمہوری بہتری کیلیے مباحثے یا منصفانہ تبصرے پیش کیے جا سکتے ہیں۔نیوز اورکرنٹ افیئرزکے پروگراموں کے حوالے سے ضابطہ اخلاق میں بیان کیا گیا ہے کہ خبریں، حالات حاضرہ یا دستاویزی پروگرام صحیح اور منصفانہ انداز میں معلومات کی حامل ہوں۔کوئی بھی سیاسی یا تجزیاتی پروگرام خواہ وہ ٹاک شو یا کسی اور صورت میں ہو معروضی انداز میں منعقدکیا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ متعلقہ فریقین کی نمائندگی ہو اور مہمانوں کا جائز احترام کیا جائے۔ دریں اثنا وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قومی امور اور ضابطہ اخلاق کمیٹی کے چیئرمین عرفان صدیقی نے میڈیا ضابطہ اخلاق کے اجرا کے موقع پر اپنے بیان میں کہا ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کیلیے ضابطہ اخلاق الیکٹرانک میڈیا کی تاریخ میں سنگِ میل کا درجہ رکھتا ہے، اس کی تیاری کیلیے پی بی اے نے بھرپور تعاون کیا۔

عرفان صدیقی نے کہا کہ اب جبکہ اس ضابطہ اخلاق کو پی بی اے کی رضاکارانہ منظوری بھی حاصل ہے، توقع کی جاسکتی ہے کہ اس پر عملدرآمد میں مشکلات پیش نہیں آئیں گی۔ انھوں نے کہا کہ عمل درآمد میکنزم کے بارے میں اگر پی بی اے کے کوئی تحفظات ہیں توحکومت ان پر کھلے دل سے بات چیت پر آمادہ ہے۔
Load Next Story