ریہام خان اورعمران کے بھمپو بردار ساتھی
لیجیے، جسٹس وجیہہ الدین کے بعد اب خیر سے ریہام خان کو بھی گراؤنڈ کر دیا گیا ہے
لیجیے، جسٹس وجیہہ الدین کے بعد اب خیر سے ریہام خان کو بھی گراؤنڈ کر دیا گیا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم ان معاملات کو موضوعِ سخن بنائیں، ایک گزارش ریہام خان کے نام اور اس کی املا سے متعلق!
ویسے تو ہماری پوری کوشش ہوتی ہے کہ زبان و بیان، غلط العام اور اس قماش کی دیگر آلائشوں سے اپنے کالم کو پاک ہی رکھیں کہ یہ سب کچھ ٹی وی شو میں ہی مناسب لگتا ہے مگر ہم بھی چور کی مانند چوری سے تو باز آجاتے ہیں مگر ہیرا پھیری سے نہیں۔ تو جناب سب سے پہلے عرض یہ ہے کہ ریہام کا مطلب ہلکی بارش یا پھوار ہے جسے ہم انگریزی میں ڈرزل (Drizzle) کہتے ہیں۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ اس لفظ کی املا اکثر لوگ بشمول محترمہ ریہام خان صاحبہ غلط ہی کرتی ہیں۔
گویا یہ بھی غلط العام ہو چکا ہے۔ آپ اردو، عربی یا فارسی کا کوئی بھی مستند اور مشترکہ لغت دیکھیں، آپ کو ریحام کی جگہ ریہام ہی ملے گا۔ موصوفہ کی اردو چونکہ بہت سوں سے اچھی ہے، اس لیے ہم توقع رکھتے ہیں کہ آپ اس نقطے پر غور ضرور کریں گی۔ بلکہ ہم تحریک انصاف سے ایک عمومی استعدا بھی کریں گے کہ اور کچھ نہیں کم از کم یہ املا ہی درست کر لیں تاکہ کچھ تو تبدیلی آئے، ہیں جی؟
اب آتے ہیں تحریک انصاف کے حالیہ واقعات کی طرف۔ ریہام خان کو ہری پور میں جلسہ عام سے خطاب کرتے دیکھ اور سن کر ہمارے منہ سے جو بات بے ساختہ نکلی وہ یہ تھی کہ ''جسٹس وجیہہ الدین کے بعد اب ان کی باری ہے''۔ خیر، فی الحال انھیں جسٹس صاحب کی طرح پارٹی سے تو فارغ نہیں کیا گیا البتہ پارٹی معاملات کے حوالے سے ان پر انواع و اقسام کی پابندیاں ضرور عاید کر دی گئی ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ حرکت عمران خان کی نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ اپنی تمام تر محدود ذہنی صلاحیتوں کے باوجود بزدل اور ڈرپوک ہرگز نہیں ہو سکتے۔
یہ خوف ان نام نہاد سیاسی اکابر کا ہو سکتا ہے جو اپنی اپنی ذاتی کلہاڑیاں تیز کرکے ہمہ وقت عمران کے آس پاس منڈلاتے نظر آتے ہیں۔ اپنے آپ کو عوامی لیڈر کہنے والے یہ تمام ارب پتی خوب سمجھتے ہیں کہ ریہام کی شکل میں تحریک انصاف کو ایک بنا بنایا نائب کپتان مل سکتا ہے جس کے سبب ان سب کی اپنی مارکیٹ ویلیو ڈائون ہو جائے گی۔
چنانچہ کپتان کے کانوں میں ایک نئی اور انتہائی مخولیہ بات یہ ڈالی گئی کہ ہری پور کے جلسے میں ریہام خان کی تقریر نے پانسہ پلٹ دیا اور ووٹروں کی اکثریت نواز لیگ کے ساتھ ہو لی۔ حالانکہ ایک سنجیدہ تبصرہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کا حال ویسے ہی آج کل انتہائی پتلا ہے اور اگر ریہام خان بھی وہاں نہ جاتیں تو حالات اس سے بھی ابتر رہتے۔ البتہ اس میں بھی شک نہیں کہ ہری پور کے ضمنی انتخابات عمران خان کے روایتی تساہل اور ان کے ارب پتی ساتھیوں کی نالائقی کا شکار ہوئے ہیں ورنہ دونوں جماعتوں کے ووٹوں میں اتنا زیادہ فرق ناقابل فہم ہے۔
ویسے تو آج کل بڑے بڑے چور اُچکوں اور ڈکیتوں کا شمار ہمارے قومی لیڈروں میں ہوتا ہے مگر سنتے ہیں کہ نیب و دیگر احتسابی قوتیں آجکل دوسرے درجے کی کرپٹ قیادت کے گرد گھیرا تنگ کر رہی ہیں اور عنقریب یہ عمل اب تو تیز تر دکھائی دے گا۔ لیکن جب تک صفِ اول کے مگر مچھوں پر ہاتھ نہ ڈالا گیا، تب تک معاملات جوں کے توںہی رہیں گے کہ چور اگر پکڑا بھی گیا تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ اس کی ماں بدستور کرپشن کے بچے دیتی رہے گی۔
خیر، یہ ذکر خواہ مخواہ بیچ میں آن ٹپکا، ہم بات کر رہے تھے عمران خان کی مگر نکل گئی نجانے کس طرف۔ ہاں یاد آیا، آصف علی زرداری اور نواز شریف اگر کسی کو اپنی دوستی یا پارٹی سے خارج کریں بھی تو وہ بیچارہ ہلکی پھلکی آہ و بکا کے بعد یا تو خاموش ہو جاتا ہے یا کر دیا جاتا ہے مگر عمران خان اس معاملے میں قدرے بد قسمت واقع ہوئے ہیں۔ آپ جس شخص کو بھی اپنے حلقہ یاراں سے خارج کرتے ہیں وہ ہاتھ میں بڑا سا بھمپو پکڑ کر عین چوراہے کے بیچ کھڑا ہو جاتا ہے اور ہر آتے جاتے کے سامنے قبلہ خان صاحب کے اوصافِ حمیدہ اور بعض ''عاداتِ پوشیدہ'' بیان کرنے لگتا ہے۔
تازہ مثالوں میں سر فرست ہمارے پرانے دوست حفیظ اللہ نیازی ہیں جو اٹھتے بیٹھتے موصوف کی خبر گیر ی کرتے رہتے ہیں۔ حالانکہ عمران کی سگی ہمشیرہ انکی زوجہ محترمہ ہیں۔ پچھلے دنوں ہم بذریعہ ہیلی کاپٹر کہیں جانے لگے تو عین پرواز کے وقت شدید بارش شروع ہو گئی۔ ایئرپورٹ کے گرائونڈ اسٹاف نے کچھ انتظار کرنے کا بولا۔ ہم دیگر دوستوں کے ساتھ بیٹھے بارش رکنے کا انتظار کرنے لگے کہ اچانک اطلاع ملی کہ حفیظ اللہ نیازی گھر واپس چلے گئے ہیں۔
ہم نے فوراً فون پر دریافت کیا کہ حضرت صاحب ایسا بھی کیا ڈرنا۔ زیادہ سے زیادہ حادثہ ہی ہو جاتا، مگر آپ پٹھان ہو کر بھی اس قدر بزدل نکلے۔ کہنے لگے، ''تم مجھے کئی سال سے جانتے ہو، میں موت سے نہیں ڈرتا البتہ اس خوشی سے ضرور ڈرتا ہوں جو میری موت کی خبر سن کر عمران خان کے چہرے پر نمایاں ہو سکتی ہے''۔
یہ تو صرف حفیظ اللہ نیازی کا قصہ ہے، محترم جاوید ہاشمی، ایڈمرل جاوید اقبال، اکبر ایس بابر اور جسٹس وجیہہ الدین ان کے کے علاوہ ہیں اور آپ اگر ان سب کے بھمپو کا سائز اور اس سے نکلنے والی پاٹ دار آواز دیکھ لیں تو آپ کو بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے کہ عمران کے یہ پرانے رفیق آج کل ان کا کیا حشر کر رہے ہیں۔
خدا کرے کہ ریہام خان کا نام بھی ان پرانے رفیقوں کی فہرست میں شامل نہ ہو جائے کیونکہ عمران کے دائیں بائیں موجود ان کے ارب پتی دوست پوری شدومد کے ساتھ اس خاتون کو کارنر کرنے پر تلے نظر آتے ہیں۔ اس ضمن میں کچھ باتیں سیاست سے ہٹ کر بھی ہیں مگر فی الحال ہم انہیں نہ ہی چھیڑیں تو اچھا ہے!
ویسے تو ہماری پوری کوشش ہوتی ہے کہ زبان و بیان، غلط العام اور اس قماش کی دیگر آلائشوں سے اپنے کالم کو پاک ہی رکھیں کہ یہ سب کچھ ٹی وی شو میں ہی مناسب لگتا ہے مگر ہم بھی چور کی مانند چوری سے تو باز آجاتے ہیں مگر ہیرا پھیری سے نہیں۔ تو جناب سب سے پہلے عرض یہ ہے کہ ریہام کا مطلب ہلکی بارش یا پھوار ہے جسے ہم انگریزی میں ڈرزل (Drizzle) کہتے ہیں۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ اس لفظ کی املا اکثر لوگ بشمول محترمہ ریہام خان صاحبہ غلط ہی کرتی ہیں۔
گویا یہ بھی غلط العام ہو چکا ہے۔ آپ اردو، عربی یا فارسی کا کوئی بھی مستند اور مشترکہ لغت دیکھیں، آپ کو ریحام کی جگہ ریہام ہی ملے گا۔ موصوفہ کی اردو چونکہ بہت سوں سے اچھی ہے، اس لیے ہم توقع رکھتے ہیں کہ آپ اس نقطے پر غور ضرور کریں گی۔ بلکہ ہم تحریک انصاف سے ایک عمومی استعدا بھی کریں گے کہ اور کچھ نہیں کم از کم یہ املا ہی درست کر لیں تاکہ کچھ تو تبدیلی آئے، ہیں جی؟
اب آتے ہیں تحریک انصاف کے حالیہ واقعات کی طرف۔ ریہام خان کو ہری پور میں جلسہ عام سے خطاب کرتے دیکھ اور سن کر ہمارے منہ سے جو بات بے ساختہ نکلی وہ یہ تھی کہ ''جسٹس وجیہہ الدین کے بعد اب ان کی باری ہے''۔ خیر، فی الحال انھیں جسٹس صاحب کی طرح پارٹی سے تو فارغ نہیں کیا گیا البتہ پارٹی معاملات کے حوالے سے ان پر انواع و اقسام کی پابندیاں ضرور عاید کر دی گئی ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ حرکت عمران خان کی نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ اپنی تمام تر محدود ذہنی صلاحیتوں کے باوجود بزدل اور ڈرپوک ہرگز نہیں ہو سکتے۔
یہ خوف ان نام نہاد سیاسی اکابر کا ہو سکتا ہے جو اپنی اپنی ذاتی کلہاڑیاں تیز کرکے ہمہ وقت عمران کے آس پاس منڈلاتے نظر آتے ہیں۔ اپنے آپ کو عوامی لیڈر کہنے والے یہ تمام ارب پتی خوب سمجھتے ہیں کہ ریہام کی شکل میں تحریک انصاف کو ایک بنا بنایا نائب کپتان مل سکتا ہے جس کے سبب ان سب کی اپنی مارکیٹ ویلیو ڈائون ہو جائے گی۔
چنانچہ کپتان کے کانوں میں ایک نئی اور انتہائی مخولیہ بات یہ ڈالی گئی کہ ہری پور کے جلسے میں ریہام خان کی تقریر نے پانسہ پلٹ دیا اور ووٹروں کی اکثریت نواز لیگ کے ساتھ ہو لی۔ حالانکہ ایک سنجیدہ تبصرہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کا حال ویسے ہی آج کل انتہائی پتلا ہے اور اگر ریہام خان بھی وہاں نہ جاتیں تو حالات اس سے بھی ابتر رہتے۔ البتہ اس میں بھی شک نہیں کہ ہری پور کے ضمنی انتخابات عمران خان کے روایتی تساہل اور ان کے ارب پتی ساتھیوں کی نالائقی کا شکار ہوئے ہیں ورنہ دونوں جماعتوں کے ووٹوں میں اتنا زیادہ فرق ناقابل فہم ہے۔
ویسے تو آج کل بڑے بڑے چور اُچکوں اور ڈکیتوں کا شمار ہمارے قومی لیڈروں میں ہوتا ہے مگر سنتے ہیں کہ نیب و دیگر احتسابی قوتیں آجکل دوسرے درجے کی کرپٹ قیادت کے گرد گھیرا تنگ کر رہی ہیں اور عنقریب یہ عمل اب تو تیز تر دکھائی دے گا۔ لیکن جب تک صفِ اول کے مگر مچھوں پر ہاتھ نہ ڈالا گیا، تب تک معاملات جوں کے توںہی رہیں گے کہ چور اگر پکڑا بھی گیا تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ اس کی ماں بدستور کرپشن کے بچے دیتی رہے گی۔
خیر، یہ ذکر خواہ مخواہ بیچ میں آن ٹپکا، ہم بات کر رہے تھے عمران خان کی مگر نکل گئی نجانے کس طرف۔ ہاں یاد آیا، آصف علی زرداری اور نواز شریف اگر کسی کو اپنی دوستی یا پارٹی سے خارج کریں بھی تو وہ بیچارہ ہلکی پھلکی آہ و بکا کے بعد یا تو خاموش ہو جاتا ہے یا کر دیا جاتا ہے مگر عمران خان اس معاملے میں قدرے بد قسمت واقع ہوئے ہیں۔ آپ جس شخص کو بھی اپنے حلقہ یاراں سے خارج کرتے ہیں وہ ہاتھ میں بڑا سا بھمپو پکڑ کر عین چوراہے کے بیچ کھڑا ہو جاتا ہے اور ہر آتے جاتے کے سامنے قبلہ خان صاحب کے اوصافِ حمیدہ اور بعض ''عاداتِ پوشیدہ'' بیان کرنے لگتا ہے۔
تازہ مثالوں میں سر فرست ہمارے پرانے دوست حفیظ اللہ نیازی ہیں جو اٹھتے بیٹھتے موصوف کی خبر گیر ی کرتے رہتے ہیں۔ حالانکہ عمران کی سگی ہمشیرہ انکی زوجہ محترمہ ہیں۔ پچھلے دنوں ہم بذریعہ ہیلی کاپٹر کہیں جانے لگے تو عین پرواز کے وقت شدید بارش شروع ہو گئی۔ ایئرپورٹ کے گرائونڈ اسٹاف نے کچھ انتظار کرنے کا بولا۔ ہم دیگر دوستوں کے ساتھ بیٹھے بارش رکنے کا انتظار کرنے لگے کہ اچانک اطلاع ملی کہ حفیظ اللہ نیازی گھر واپس چلے گئے ہیں۔
ہم نے فوراً فون پر دریافت کیا کہ حضرت صاحب ایسا بھی کیا ڈرنا۔ زیادہ سے زیادہ حادثہ ہی ہو جاتا، مگر آپ پٹھان ہو کر بھی اس قدر بزدل نکلے۔ کہنے لگے، ''تم مجھے کئی سال سے جانتے ہو، میں موت سے نہیں ڈرتا البتہ اس خوشی سے ضرور ڈرتا ہوں جو میری موت کی خبر سن کر عمران خان کے چہرے پر نمایاں ہو سکتی ہے''۔
یہ تو صرف حفیظ اللہ نیازی کا قصہ ہے، محترم جاوید ہاشمی، ایڈمرل جاوید اقبال، اکبر ایس بابر اور جسٹس وجیہہ الدین ان کے کے علاوہ ہیں اور آپ اگر ان سب کے بھمپو کا سائز اور اس سے نکلنے والی پاٹ دار آواز دیکھ لیں تو آپ کو بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے کہ عمران کے یہ پرانے رفیق آج کل ان کا کیا حشر کر رہے ہیں۔
خدا کرے کہ ریہام خان کا نام بھی ان پرانے رفیقوں کی فہرست میں شامل نہ ہو جائے کیونکہ عمران کے دائیں بائیں موجود ان کے ارب پتی دوست پوری شدومد کے ساتھ اس خاتون کو کارنر کرنے پر تلے نظر آتے ہیں۔ اس ضمن میں کچھ باتیں سیاست سے ہٹ کر بھی ہیں مگر فی الحال ہم انہیں نہ ہی چھیڑیں تو اچھا ہے!