آگہی بھی کیا کر لے گی
کون بتائے کہ نفسیاتی پیچیدگی، ڈیپریشن، شیزو فزینیا جیسے مسائیل پاگل پن سے بالکل جدا کیفیات ہیں
آٹھ اکتوبر دو ہزار پانچ کو شمالی پاکستان کے زلزلہ متاثرین میں مانسہرہ کے ڈھڈیال مینٹل اسپتال کے مریض بھی شامل تھے۔ زلزلے سے تین برس قبل اس اسپتال کی زمین پر ہزارہ یونیورسٹی قائم ہوئی تو مریضوں کو ڈاڈر قصبے میں انگریز دور کی بیرک نما عمارات میں منتقل کر دیا گیا۔ جب میں ان مریضوں سے ملا تو اکثر زلزلے کے خوف میں مسلسل مبتلا تھے اور بہت سے چاہتے تھے کہ میں جس گاڑی میں یہاں تک پہنچا ہوں واپسی میں انھیں بھی ساتھ لے جاؤں۔
میرے انھی دوستوں میں ادھیڑ عمر خشخشی داڑھی والا محمد عرفان بھی تھا۔ ضیا کے مارشل لا دور میں پیپلز پارٹی کا جیالا تھا۔ مگر ڈھلتی عمر کے ساتھ ساتھ متشدد ہوتا چلا گیا اور جب گھر کے اندر مارپیٹ اور ہنگامہ آرائی بڑھ گئی تو خاندان نے اسے تنگ آمد یہاں پر جمع کرا دیا۔ گھنٹے بھر کی ملاقات میں عرفان یہی بتاتا رہا کہ اس کے بچے اور بیوی دراصل ضیا الحق کے ایجنٹ ہیں لہذا انھوں نے مجھے انتقاماً یہاں داخل کروا رکھا ہے۔ سال میں چند دنوں کے لیے مجھے گھر لے جاتے ہیں۔ مگر پھر وہ کوئی ایسی سازش کر دیتے ہیں کہ مجبوراً مجھے ڈنڈا اٹھانا پڑتا ہے اور وہ مجھے زبردستی یہاں چھوڑ کے چلے جاتے ہیں۔
عرفان نے اپنے کئی اشعار بھی سنائے۔ بس ایک مقطع حافظے میں رہ گیا۔
ہزار سال حملہ آور رہے جملہ مسلمان
جدون، ترین، قاضی تے گروپِ محمد عرفان
معالج نے بتایا کہ عرفان سنگین ڈیپریشن میں چلا جاتا ہے اور کبھی کبھی متشدد ہو جاتا ہے تو انجکشن یا برقی جھٹکے دے کے نارمل کیا جاتا ہے۔ آج اس ملاقات کو دس برس ہو گئے۔ جانے عرفان کیسا ہو گا؟
مسئلہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں زیادہ تر طبی توجہ سامنے کے جسمانی امراض و پیچیدگیوں پر دی جاتی ہے۔ لیکن جنگ، تشدد، ریپ، بے گھری، عدم تحفظ، شخصی گرہ اور احساسِ محرومی سمیت سیکڑوں دیگر اسباب سے جنم لینے والے جو نفسیاتی مسائل ہم میں سے کسی کو بھی ذاتی و اجتماعی لاپرواہی اور بروقت طبی عدم سہولت کے سبب چلتی پھرتی لاش میں بدل سکتے ہیں تو اس بحران کا کیا ہو؟ جسمانی بیماری و ظاہری زخم کے برعکس روح اور ذہن کا زخم فوری دکھائی نہیں دیتا اور ذہنی بیماری کسی معلوم وائرس سے نہیں ہوتی لہذا اس کی درست تشخیص کے لیے صبر آزما کھوج اور مستقل مزاجی سے علاج درکار ہے۔ شائد یہی سبب ہو کہ بے صبرے سماج اور فوری نتائج کی عادی میڈیکل کمیونٹی میں اسے بہت زیادہ قابلِ توجہ نہیں سمجھا جاتا۔
آج کے مغرب میں اگرچہ معیشت، سماج و سیاست مستحکم دکھائی دیتے ہیں پھر بھی عالمی ادارہِ صحت کی رپورٹوں کے مطابق لگ بھگ تیس فیصد مغربی آبادی کسی نہ کسی انگزائیٹی سے بچنے کے لیے کم از کم ایک بار اعصابی و نفسیاتی مشورے و علاج کا سہارا ضرور لیتی ہے۔ اس کے باوجود دنیا کے جن دس ممالک میں سب سے زیادہ خود کشیاں ہوتی ہیں ان میں سے چھ مغربی ہیں۔
اگر مغرب کا یہ حال ہے تو سوچیے کہ شام، عراق اور افغانستان جیسے ملکوں کی آبادی کیسے کیسے نفسیاتی عذاب سے نہ گزر رہی ہو گی۔ خود پاکستان کے اندر بالخصوص خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں نائن الیون کے بعد سے جو حالات ہیں اور پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی گزشتہ تیس برس سے جس طرح روز جینے روز مرنے کی مسلسل کیفیت میں ہے وہاں کیسے کیسے نفسیاتی مسائل سے عام آدمی نہ گزر رہا ہو گا؟ لیکن طبی داد رسی و دیکھ بھال تو رہی ایک طرف، آج تک یہ جاننے کے لیے کوئی ڈھنگ کا سروے تک نہ ہو پایا کہ جن حالات کا عام آدمی براہ ِراست ذمے دار نہیں ان حالات کی نفسیاتی چکی میں وہ کس کس طرح پس رہا ہے۔
بم دھماکے میں تو ایک مرتا ہے لیکن پیچھے رہ جانے والا خاندان اس سانحے کے بعد نارمل زندگی گزارنے کے کتنا قابل رہتا ہے؟ سب کی نظریں قصور کے بچوں سے ہونے والی جسمانی زیادتی پر ہیں۔ کیا کوئی یہ بھی سوچتا ہے کہ جسمانی تشدد کے اثرات تو شائد وقت کے ساتھ ساتھ مندمل ہو جائیں مگر اس المیئے کے سبب ذہن اور روح پر لگے زخم کیسے بھر پائیں گے۔ ان کے اندمال کے لیے ضرورت ہے کم از کم ایک مہربان کندھے کی، ایک کاؤنسلنگ کرنے والے کی اور ایک ماہرِ نفسیات کی۔
سوئٹزر لینڈ میں ہر ایک لاکھ شہریوں کے لیے تیس ماہرِ نفسیات اور اسی اعتبار سے مناسب تعداد میں مددگار طبی عملہ بھی موجود ہے۔ یورپی یونین کے رکن ممالک میں ایک لاکھ آبادی پر نفسیاتی ماہرین کا اوسط نو ہے۔ مگر دنیا کی پینتالیس فیصد آبادی ان حالات میں ہے کہ ایک تا ڈھائی لاکھ افراد پر بس ایک نفسیاتی معالج ہے۔ اس تناظر میں پاکستان کا جائزہ لیا جائے تو حالات خاصے دگرگوں ہیں۔
وہ تمام بڑے بڑے اسباب و مسائل پاکستان میں موجود ہیں جو کسی بھی نارمل انسان کو ایبنارمل رویے کی طرف دھکیل سکتے ہیں۔ کہا جاتا ہے پاکستان کی دس تا پندرہ فیصد آبادی کسی نہ کسی ذہنی مسئلے میں مبتلا ہے۔ تاہم یہاں کے غیر یقینی حالات کو دیکھتے ہوئے یہ تخمینہ بہت کم لگتا ہے۔
پاکستان میں صحت کا بجٹ ویسے بھی ڈھائی سے ساڑھے تین فیصد کے درمیان معلق رہتا ہے اور اس بجٹ میں سے بھی نفسیاتی علاج معالجے کے لیے محض صفر اعشاریہ چار فیصد رقم مہیا ہوتی ہے۔ تقسیم کے وقت حیدرآباد، لاہور اور پشاور میں تین مینٹل اسائلم تھے جنھیں بعد میں مینٹل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا ٹیچنگ اسپتال کی سطح تک اپ گریڈ کیا گیا۔ لیکن آج بھی دماغی امراض کے سرکاری اسپتالوں کی تعداد پانچ سے زیادہ نہیں۔ جہاں تک جنرل اسپتالوں کا معاملہ ہے تو پہلا نفسیاتی یونٹ انیس سو پینسٹھ میں جناح اسپتال کراچی اور انیس سو سڑسٹھ میں میو اسپتال لاہور میں قائم ہوا۔ چھوٹے سرکاری اسپتالوں یا دیہی مراکزِ صحت میں نفسیاتی علاج معالجے اور کاؤنسلنگ کی سہولتوں کا آج بھی تصور نہیں۔ سرکاری اسپتالوں میں آج بھی ہر ایک لاکھ کی آبادی کے لیے صرف پونے دو بستر نفسیاتی مریضوں کے لیے مختص ہیں۔
اگرچہ میڈیکل کالجوں میں پڑھائے جانے والے لگ بھگ ستائیس فیصد مضامین نفسیاتی عارضوں کے بارے میں ہوتے ہیں۔ آپ کو ہر قصبے میں بیسیوں کوالیفائیڈ ایلوپیتھک فزیشنز مل جائیں گے۔ لیکن ہم میں سے کتنوں کو معلوم ہے کہ پاکستان کی بیس کروڑ آبادی کے لیے کل ملا کے سینئیر جونئیر ماہرینِ نفسیات کی تعداد آٹھ سو سے زیادہ نہیں اور ان میں بھی زیادہ تر پرائیویٹ پریکٹشنرز ہیں۔ گویا ہر ایک لاکھ آبادی کے لیے محض صفر اعشاریہ چالیس معالج میسر ہیں۔ جب کہ ہر چالیس لاکھ بچوں کے لیے ایک چائلڈ سائیکاٹرسٹ ہے۔ فورینزک سائکالوجی کا اگر کوئی ماہر پاکستان میں پایا جاتا ہو تو مجھے بھی مطلع کیجیے گا۔ ان حالات میںصرف دس تا پندرہ فیصد نفسیاتی مریضوں کی رسائی کوالیفائیڈماہرین تک ہو پاتی ہے۔ باقی سب کو جنرل فزیشن، نیم حکیم، عطائی، جھاڑ پھونک والے، ماہرینِ جنات، درگاہی مجاوروں کے تعویزاتی ایجنٹ اور پانی پڑھ کے پلانے والے اچک لے جاتے ہیں۔
عمومی رویہ یہ ہے کہ مریض یا اہلِ خانہ کی معالج یا کاؤنسلر کی تلاش سے زیادہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ غیروں کو پتہ نہ چلے کہ ان کے ہاں کوئی ''پاگل'' بھی رہتا ہے۔ خصوصاً معاملہ اگر کسی خاتون بالخصوص کسی جوان لڑکی کا ہو تو۔ تاوقتیکہ مریض کی حالت نہ بگڑ جائے اور وہ آپے سے باہر نہ ہو جائے۔
لیکن کون بتائے کہ آج کی دنیا میں پچانوے فیصد نفسیاتی مسائل اور عوارض کا علاج یا ان پر کنٹرول دواؤں، تھراپی، کاؤنسلنگ اور ماحول کی تبدیلی کے ذریعے ممکن ہے۔ سو میں سے صرف تین تا پانچ مریض اس مرحلے تک پہنچتے ہیں کہ ناقابلِ علاج ہو جائیں یا پھر انھیں چوبیس گھنٹے کی نگرانی میں رکھنا پڑے۔ تاہم ان میں سے بھی بیشتر کو بہتر علاج اور دیکھ بھال کے ذریعے زندگی میں کسی حد تک واپس لایا جا سکتا ہے۔
کون بتائے کہ نفسیاتی پیچیدگی، ڈیپریشن، شیزو فزینیا جیسے مسائیل پاگل پن سے بالکل جدا کیفیات ہیں اور مناسب علاج، توجہ اور محبت ایسے ننانوے فیصد مسائل کے لیے اکسیرِ اعظم ہے۔ دنیا کے ہر اہم شعبے میں جتنے بھی لوگوں نے کارہائے نمایاں انجام دیے ان میں سے بہت سوں کو کوئی نہ کوئی نفسیاتی مسئلہ یا پیچیدگی یا گرہ لاحق تھی مگر ان کی شخصیت کے دیگر گوشے اتنے طاقتور تھے کہ انھوں نے نہ صرف بہتر زندگی گزاری بلکہ خلق کو بھی اپنی صلاحیتوں سے فیضیاب کیا۔
پر میں جتنی بھی تقریر کر لوں تان وہیں ٹوٹتی ہے کہ جب تک آگہی نہ پھیلائی جائے اور اس آگہی کے نتیجے میں نفسیاتی مسائل کے لیے رجوع کرنے والے لوگوں کے لیے مناسب تعداد میں ماہرینِ نفسیات اور انفراسٹرکچر نہ ہو تو تنہا آگہی بھی کیا کر لے گی؟