اساتذہ کا قتل اور پولیس

مختلف نیوز ایجنسیوں اور اخبارات میں کام کیا مگر علم حاصل کرنے کے شوق میں کمی نہیں آئی


Dr Tauseef Ahmed Khan August 22, 2015
[email protected]

ڈاکٹر وحید الرحمن المعروف یاسر رضوی اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے۔ ان کے والد کا بچپن میں انتقال ہوا۔ ڈاکٹر وحید کو اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے سخت محنت کرنی پڑی۔ انھوں نے مختلف نوعیت کی ملازمتیں کیں پھر اردو کالج سے ابلاغ عامہ میں ایم اے کیا اور اخباری دنیا سے وابستہ ہوگئے۔

مختلف نیوز ایجنسیوں اور اخبارات میں کام کیا مگر علم حاصل کرنے کے شوق میں کمی نہیں آئی۔جب اردوکالج کو یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا تو ڈاکٹر وحید نے اسلامی امور کے ماہر ڈاکٹر شکیل اوج کی زیر نگرانی پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ پہلے وہ اردو یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ میں جز وقتی استاد کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے تھے پھر اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے پر فائزہوئے۔ اردو یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ کی ترقی میںاہم کردار ادا کیا ۔شعبے کے تحت ہونے والی 5 بین الاقوامی کانفرنسوں کے انعقاد میں ڈاکٹر وحید کا بنیادی کردار رہا ۔ ان کی کوششوں سے شعبہ ابلاغ عامہ میں ٹی وی لیب اورانٹرنیٹ ریڈیوقائم ہوا۔

کراچی یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ سے وابستہ ہوئے اوریونیورسٹی میں مقبول ہوگئے۔اردو یونیورسٹی کے اساتذہ کی وائس چانسلر کے خلاف مہم کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر وحید کراچی پریس کلب کی انتخابی کمیٹی میں شامل رہے۔ ان کے مشورے سے پریس کلب کے انتخابات میں Electoric Verification شروع ہوا۔ ڈاکٹر وحید الرحمن کے استاد پروفیسر ڈاکٹر شکیل اوج کو اکتوبر 2014میں وفاقی اردو یونیورسٹی کے قریب نامعلوم افراد نے اس وقت ایک گولی مار کر شہید کیا جب وہ ایرانی قونصل خانے جا رہے تھے۔ ڈاکٹر وحید نے پروفیسر شکیل اوج کے قاتلوں کی گرفتاری کی کوششوں میں کردار ادا کیا۔

ڈاکٹر وحید الرحمن 29اپریل کو صبح 10بجے اپنے گھر سے کراچی یونیورسٹی کے لیے نکلے تھے کہ فیڈرل بی ایریا 16نمبر میں ہارٹ اسپتال کے قریب موٹر سائیکل سوار نوجوانوں نے گولی مارکر شہید کر دیا۔ ڈاکٹر وحید الرحمن کے قتل کی صد رپاکستان، وزیر اعظم ، وزیر اعلیٰ، دوسرے قومی رہنماؤں نے شدید مذمت کی۔ پولیس اور رینجرز نے ملزمان کی گرفتاری کے لیے خصوصی کمیٹی قائم کی۔ ایجنسیوں نے سڑک کے اطراف پر لگے سی سی ٹی وی کے فوٹیج حاصل کیے۔

تحقیقات کے دوران پتہ چلا کہ ڈاکٹر وحید الرحمن کا قتل منظم منصوبہ بندی کا نتیجہ تھا ان کی ریکی ان کے گھر سے شروع ہو گئی تھی اور اس میں 6کے قریب ملزمان شریک تھے۔ پولیس نے ملزمان کے خاکے تیار کر کے کئی سو افراد جن کا تعلق ان کے خاندان، ان کے محلے، علاقے، اردو یونیورسٹی اور کراچی یونیورسٹی سے تھا' پوچھ گچھ کے لیے مختلف تھانوں میں بلایاگیا۔ ڈاکٹر وحید الرحمن کے مقدمہ قتل کی تحقیقات کرنے والی ٹیم کے سربراہ نے راقم الحروف کو یقین دلایا کہ پولیس ملزمان کے قریب پہنچ گئی پھر ایک ملزم کی تصویر ٹی وی اسکرین پر چلائی گئی۔

وزیر اعلیٰ نے تحقیقاتی ٹیم کی کارکردگی کو سراہا۔ وزیر اعلیٰ اور کراچی یونیورسٹی کے اساتذہ کی انجمن کے عہدیداران کو ملاقات میں یقین دلایا کہ ملزمان کی گرفتاری یقینی ہے اور ڈاکٹر وحید الرحمن کے لواحقین کو اس طرح معاوضہ ادا کیا جائے گاجس طرح دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں شامل عسکری ایجنسیوں اور پولیس اہلکاروں کے لواحقین کو دیاجاتا ہے۔ وزیر اعلیٰ کی اس یقین دہانی پر سندھ کی یونیورسٹی کے اساتذہ نے غیر معینہ مدت تک ہڑتال کا فیصلہ واپس لے لیا۔

پولیس نے ڈاکٹر وحید کے قتل کے الزام میں ایک شخص کو گرفتار کیا جس پر ڈاکٹر شکیل اوج کو دھمکی آمیز ایس ایم ایس بھیجنے کا الزام تھا، پولیس نے تحقیقات میں روایتی طریقے استعمال کیے یوں جب مقدمہ عدالت کے سامنے پہنچا تو عدالت نے اس شخص کو رہا کر دیا اور ڈاکٹر وحید الرحمن کے قتل کا مقدمہ داخل دفتر کر دیا۔

کراچی سے ایم کیو ایم کے رکن قومی اسمبلی رشید گوڈیل اپنی والدہ سے ملنے کے بعد اپنے گھر جا رہے تھے کہ بہادرآباد میں نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے انھیں نشانہ بنایا۔ رشید گوڈیل کا ڈرائیور موقع پر جاں بحق ہو گیا۔ رشید گوڈیل لیاقت نیشنل اسپتال میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ پولیس نے رشید گوڈیل پر قاتلانہ حملے کی اپنے طریقہ کار کے مطابق تحقیق شروع کی۔ قریب لگے ہوئے سی سی ٹی وی کیمروں سے فوٹیج حاصل کی گئی۔

رشید گوڈیل اوران کے ڈرائیور کو لگنے والی گولیوں کو فارنسک لیب بھیج دیا گیا۔ پولیس کے ماہرین نے احتیاط سے جائے واردات کا نقشہ تیار کیا۔ ماہرین کی ابتدائی رپورٹ میں بتایا گیا کہ رشید گوڈیل پر حملے کے لیے جو اسلحہ استعمال کیا وہ جدید نوعیت کا ہے۔ پولیس، رینجرز اور خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں نے اس دفعہ پھر اس اعتماد کا اظہار کیا کہ ملزمان کی گرفتاری جلد ہو جائے گی۔کراچی میں ڈاکٹر، اساتذہ، وکلاء، سیاسی کارکنوں، علماء، اور سماجی کارکنوںکے قتل کا سلسلہ کافی عرصے سے جاری ہے۔ گزشتہ سال تک ٹارگٹ کلنگ میں6سے زائد اساتذہ قتل ہوئے مگر کسی کا قاتل گرفتار نہیں ہوا۔ پولیس کراچی یونیورسٹی کے اسلامیات کے ڈین ڈاکٹر شکیل اوج کے قتل کا معمہ حل نہ کرسکی مگر آپریشن ضرب عضب شروع ہونے کے بعد کراچی کے حالات بہتر ہونا شروع ہوئے۔

لیاری گینگ وار میں کمی ہوئی،اغواء برائے تاوان، بھتہ وصول کرنے کی وارداتوں میں کم آئی مگر ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ مکمل طور پررک نہ سکا۔ اس سال سماجی کارکن سبین محمود، ڈاکٹر وحید الرحمن ٹارگٹ کلنگ میں شہید ہوئے۔مذہبی انتہا پسندوں نے صفورا چوک کے قریب اسماعیلی برادری کی بس پر حملہ کر کے 40سے زیادہ افراد فائرنگ کر کے قتل کر دیا مگر پولیس صرف سبین محمود اور صفورا فائرنگ کے ملزمان کو گرفتار کر پائی۔

کراچی کی رپورٹنگ کرنے والے ایک رپورٹر کا کہنا ہے کہ اسماعیلی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کے قتل پر پوری دنیا میں احتجاج ہوا ۔پولیس نے عالمی دباؤ پر اس کیس میں دلچسپی لی۔ ان کا کہنا ہے کہ پولیس اساتذہ، ڈاکٹروں، سماجی کارکنوں کے قتل کے مقدمات میں دلچسپی نہیں لیتی۔ پولیس والے روایتی طریقوں سے تحقیقات کرتے ہیں۔ ایسے افراد کو گواہ بنایا جاتا ہے جوموقعے پر موجود نہیں ہوتے۔اس صورتحال میں ڈاکٹروحید کی بیوہ ، بچوں اور دوستوں کو مایوسی تو قسمت کا لکھا سمجھ کر خاموشی کا راستہ اختیار کرنا چاہیے مگر کیا اساتذہ ، ڈاکٹر، سیاسی کارکنوں کو تحفظ نہ دے کر معاشرہ تباہی سے بچ پائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے