ناکام ڈرامہ

ماحول ایسا بنایاگیا کہ اچھے اچھوں کو یقین ہو چلا اس کہانی میں حقیقت ہے اور اب یہ نشست اس جماعت کے ہاتھ سے نکل جائے


نجمہ عالم August 22, 2015
[email protected]

یہ قصہ اس وقت کا ہے جب ہماری کالم نگاری کا سال مکمل ہی ہوا تھا۔ ایک صاحب نے اپنی دیرینہ جماعت کو خیر باد کہہ کر متوسط طبقے کی پارٹی کو جوائن کرلیا۔ ان صاحب کی خوب آؤ بھگت ہوئی، جماعت کے مرکز پر پہنچے تو پھول نچھاور کیے گئے شاندار استقبال ہوا اور فوراً ہی 2013 کے عام انتخابات کے لیے اس حلقے سے ان کو ٹکٹ دے دیا گیا جو اس جماعت کے گھر کاآنگن تھا۔

اس موقعے پر ہم نے جوکالم لکھا اس کا عنوان تھا ''مشورہ'' ۔ سیاسی جماعت کے بھائی کو پر خلوص مشورہ دیا کہ آپ کی جماعت کو کئی بار آپریشن کے مراحل سے گزرنا پڑا ہے لیکن آپ کے مخلص و وفادار کارکنان نے آپ کا ساتھ چھوڑا نہ شکوہ و شکایت کی ،کیا ان کو نظر انداز کرکے ایک ایسے شخص کو ٹکٹ دینا جو آپ کی پارٹی کے بنیادی اصولوں اور نظریات تک سے ناواقف ہے ایک طرح مخلص و جانثاروں کی حق تلفی ہے (مگر اس پارٹی کی مضبوط تنظیم کے باعث کسی نے بھی ''بھائی'' کے فیصلے پر کوئی اعتراض نہ کیا) اور آج ہمیں فخر ہے کہ ہمارا مشورہ بہت صائب تھا۔ مگر کوئی ہمارے مشورے پر کب غور کرتا۔ وہاں تو سیاسی فائدہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ یہ دکھانا بھی تھا کہ ہم کسی لسانی، سیاسی، صوبائی تعصب سے بالاتر ہوکر اور خود آنے والوں کو بھی بھرپور پذیرائی دیتے ہیں۔

یہ صاحب ایوان کے نمایندہ رہنے کے عادی تھے کوئی پہلی بار تو انتخاب نہیں لڑ رہے تھے اپنی چھوڑی ہوئی پارٹی پر بھی رعب ڈالنا تھا کہ ہم صرف تمہاری شہرت کے باعث ایوان میں نہیں پہنچتے بلکہ اپنی ذاتی لیاقت و اہلیت کی بنا پر یہ اعزاز ہمیں حاصل ہوتا ہے اور اس بار بھی لوگ ہمیں صرف اورصرف ہماری ذاتی خوبیوں کی بنا پر ووٹ دیں گے ورنہ اس پارٹی میں کیا رکھا ہے جس کے ٹکٹ پر ہم اکھاڑے میں اترے ہیں اور ہوا بھی یہی کہ وہ بھاری اکثریت سے منتخب ہوگئے اور پھر ایوان کا حصہ بن گئے۔

مگر جو اپنی دیرینہ پارٹی چھوڑ کر دوسری پارٹی میں آئے تو سمجھ لیجیے کہ ''دال میں کچھ کالا ہے'' مگر جب انھوں نے ایک سال بعد ہی جیتی ہوئی نشست سے استعفیٰ دیا اور ان کی چھوڑی ہوئی نشست پر ضمنی انتخابات کا مرحلہ آیا تو اس پارٹی کی دیرینہ مخالف پارٹی جو عام انتخابات میں کراچی سے قومی اسمبلی کی صرف ایک نشست (وہ بھی محض باقی تمام جماعتوں کے بائیکاٹ کے باعث) حاصل کرسکی تھی نے اس نشست کے حصول میں خصوصی دلچسپی کا مظاہرہ کیا تب لوگوں کو اصل سینس نظر آیا کہ یہ کیوں آئے تھے اور کیوں کہ بلا جواز مستعفی ہوئے شاید کوئی بہت ہی ''شاندار آفر'' ادھر سے کی گئی تھی کہ اس طرح ایک پارٹی کی ہمیشہ سے مضبوط نشست پر قبضہ کیاجائے۔ لہٰذا بڑے بڑے دعوے کیے گئے خوب منفی پروپیگنڈا ہوا کہ یہ جماعت تو ہمیشہ دھاندلی سے جیتی ہے۔ کراچی کے عوام ان سے خوف زدہ ہیں اور اب ہم کراچی والوں کو اس خوف سے آزاد کریں گے ۔

ماحول ایسا بنایاگیا کہ اچھے اچھوں کو یقین ہو چلا اس کہانی میں حقیقت ہے اور اب یہ نشست اس جماعت کے ہاتھ سے نکل جائے گی مگر اس ضمنی انتخاب سے اس پارٹی کے خلاف پروپیگنڈے کا ایک طرف پول کھل گیا اور دوسری جانب خوش فہمی غلط فہمی ثابت ہوئی۔ جن صاحب نے یہ سارا کھیل کھیلا تھا انھوں نے ببانگ دہل فرمایا تھا کہ ''میرے پولنگ بوتھس پر تو سناٹا تھا مگر پارٹی کے رہنما مجھے تسلی دے رہے تھے کہ آپ کئی لاکھ ووٹوں کی اکثریت سے جیت رہے ہیں'' مخالف دو جماعتوں کی طرف سے زبردست مطالبہ تھا کہ یہ انتخاب فوج یا کم از کم رینجرز کی نگرانی میں کرائے جائیں۔

غرض ہر روز نئی نئی شرائط سامنے آتی رہیں کہ اس جماعت کے رہنما و ممبران اسمبلی پولنگ کے وقت بوتھس کے قریب بھی نہ بھٹکیں۔ پارٹی کے استقبالیہ کیمپ اتنے فاصلے پر ہوں وغیرہ وغیرہ، حکومت سندھ اور رینجرز اہلکار ان دونوں جماعتوں کی ہر فرمائش (شرائط) پر آمناو صدقنا عمل کرتے رہے۔ اس انتخابی مہم کے دوران کئی معرکے بھی ہوئے۔ جناح گراؤنڈ میں جلسے کی بھرپورکوشش ہوئی اور مخالفین کے مثبت رویے اور اس گراؤنڈ پر شاندار استقبال کو بھی بے رحمی سے مسترد کردیاگیا۔

ایک دوسرے کے خلاف مقدمے بھی درج کیے گئے۔ استقبالیہ کیمپ اکھاڑنے اور عین جلسے کے دوران بجلی غائب ہونے کو بھی مخالفین کی سازش قرار دیا گیا۔ قصہ مختصر یہ کہ انتخاب ہوا اور ووٹرز نے پورے جوش و خروش سے اس میں حصہ لیا۔ مگر ہوا وہی جس کا ڈر تھا یعنی سارے انتظامات کے باوجود جیتے وہی جو اس حلقے سے ہمیشہ جیتتے رہے اور جیتے بھی واضح اکثریت سے۔ اس دوران دو پارٹیوں کے چھوڑنے والے صاحب نت نئے انکشافات فرماتے رہے آخر پارٹی چھوڑنے کی وجہ انھوں نے اپنی پاکدامنی، اعلیٰ کردار اور اس پارٹی کی بد عنوانی، غنڈہ گردی جس کے بارے میں وہ شاید تحقیقات کرنے ہی کچھ عرصے کے لیے آئے تھے مگر ثبوت حاصل کرنے میں بہر حال ناکام رہے) بتاتے رہے۔ مگر یہ ڈرامہ کھل کر سامنے آچکا ہے کہ موصوف کیوں آئے تھے اور کیوں اچانک درمیان میں مستعفی ہوئے۔

دروغ برگردن راوی ان کی چھوڑی ہوئی نشست میں بے حد دلچسپی اور زور لگانے والی پارٹی نے ان کو اس ڈرامے میں بہترین اداکاری کرنے پر کسی بڑے ایوارڈ کا وعدہ کیا تھا مگر جب ان کو سیٹ ہی نہ ملی تو انھوں نے بھی موصوف کو منہ نہ لگایا شاید غلط اطلاعات فراہم کرنے کی پاداش میں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ اپنی سابقہ جماعت میں جا نہیں سکتے اور انھوں واپس لینے پر تیار بھی نہیں۔ جس اس پر یہ سب کچھ کہا تھا وہ پوری نہ ہوسکی۔ لہٰذا وقتاً فوقتاً کچھ نہ کچھ گل افشانیاں ذرایع ابلاغ کی زینت بنتی رہتی ہیں۔

اس سارے ڈرامے میں جو بات سب سے اہم ہے وہ یہ کہ یہ ضمنی انتخاب جیتنا اس جماعت کو کچھ مہنگا پڑ گیا اگر ہمارے متذکرہ مشورے پر عمل کیا ہوتا تو یہ نوبت نہ آتی۔ واضح سرکاری جانبداری کے باوجود ''بھائی'' کے چاہنے والوں نے اپنے وجود کا بھرپور ثبوت فراہم کیا ۔ حالات بتارہے ہیں کہ یہ فیصلہ کن آپریشن ہے کیوں کہ الزام یہ ہے کہ متوسط طبقے کو جاگیرداروں کے برابر ایوان میں لاکر بٹھایاگیا ہے جو ناقابل معافی جرم ہے اور اس طبقے کی کمر توڑنا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بے حد ضروری ہے تاکہ آیندہ کوئی بھی جاگیردار، وڈیرے اور سرداروں کو للکارنے کی جرأت (حماقت) نہ کرے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |