تشدد کی معنویت
پسماندہ معاشروں میں کیے گئے تشدد میں معنویت ’ترقی یافتہ معاشروں‘ میں برپا کیے گئے تشدد کی نسبت کم ہوتی ہے
تشدد کی تعریف یوں کی جاسکتی ہے کہ کسی بھی جاندارکو اذیت دینے کی غرض سے اس کے جسم پر طاقت کے اطلاق کو جسمانی تشدد اور انسان کی سوچ کو تبدیل کرنے کی غرض سے اس کے دماغ پر سائنس اور تکنیک کے جبری اطلاق کے عمل کو نفسیاتی تشدد کہا جاسکتا ہے۔تشدد خواہ جسمانی ہو یا نفسیاتی، اس کے نتائج ہمیشہ تشدد کی صورت میں تشکیل پائی معنویت کی شکل میں نکلتے ہیں۔ لہذا دونوں ہی صورتوں میںتشدد بامعنی ہوتا ہے۔
اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ متشدد طبقات تشدد سے پہلے ہمیشہ ہی تشدد کی معنویت کا کوئی واضح مفہوم اپنے ذہن میں رکھتے ہیں یا ان کے ذہن میں یہ خیال موجود ہوتا ہے کہ وہ تشدد کے نتیجے میں کسی خاص قسم کی آئیڈیالوجی کا احیا کرنا چاہتے ہیں۔یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ جس انسان پر تشدد مسلط کیا جاتا ہے اس انسان پر تشدد کے معنوی اثرات مرتب نہ ہوتے ہوں ۔ فلسفیانہ حوالے سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ موضوع اور معروض کا تضاد اور موضوع کے ذریعے معروض کی حقیقت کا انکار یا اس معروض کی تخفیف کے عمل میں متشدد پہلو موجود ہوتے ہیں۔
اسی فلسفیانہ رجحان کی عکاسی ظالم اور مظلوم کے درمیان جنم لینے والے اس حقیقی تضاد کی تشکیل کی صورت میں ہوتی ہے، جو خارجی سطح پر موجود ہوتا ہے۔ تشدد کرنے کی وجوہات اور محرکات مختلف ہوسکتے ہیں، مگر کسی بھی انسان پر منظم تشدد کا مقصد یا تو اسے اپنے نظریات، عقائد اور اخلاقی اقدار کے مطابق ڈھالنا ہوتا ہے، یا پھر اپنے متشدد جذبات کی تسکین کی خاطر کسی پر اتنا ظلم کیا جاتا ہے کہ اسے دانستہ یا غیر دانستہ طور پر اس کی زندگی ہی سے محروم کردیا جاتا ہے۔ دونوں ہی صورتوں میں انفرادی اور اجتماعی سطح پر تشدد کے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ تشدد کے اثرات میں ہی اس کی معنویت کا تصور پیوست ہوتا ہے۔
عمومی طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ 'پسماندہ' اور ''غیر مہذب''معاشروں میں مقتدر طبقات ریاستی اداروں کے ذریعے اپنے مخالفین پر تشدد مسلط کر کے ، انھیں اذیت پہنچا کرخود کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔''غیر مہذب'' تشدد کسی حد تک غیر منظم تشدد ہوتا ہے۔اسے طالبانی نوعیت کا تشد د بھی کہا جاسکتا ہے اس میں لوگوں کی گردنیں کاٹ کر،ان میںخوف وہراس پھیلا کر اپنی مذہبی، سیاسی، اخلاقی اور نظریاتی ترویج کی جاتی ہے۔
اسی طرح کا تشدد ہمیں ''مہذب اور روشن خیال ممالک'' کے برسراقتدار طبقات کی جانب سے قائم کردگوانٹاناموبے اور ابوغریب جیسی جیلوں میں بھی دکھائی دیتا ہے، جہاں 'مہذب' حیوانیت کھل کر اپنا اظہار کرتی ہے۔ایسے تشدد کو مغربی ممالک کے روشن خیال ماہر نفسیات کی رہنمائی حاصل نہیں ہوتی ہے، نہ ہی ایسے تشدد کو انتہائی منظم ایجنسیوں کی رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔
اس قسم کا تشدد اپنی سرشت میں انتہائی وحشیانہ نوعیت کا ہوتا ہے۔ پسماندہ معاشروں میں کیے گئے تشدد میں معنویت 'ترقی یافتہ معاشروں' میں برپا کیے گئے تشدد کی نسبت کم ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر'' دہشت گرد'' تنظیمیں تشددکرتی ہیں تو اس کا محرک صرف یہ ہے کہ خوف و ہراس کو پھیلاکر لوگوں کو اپنا تابع کیا جائے۔''ترقی یافتہ'' ممالک میں برپا کیے گئے نفسیاتی تشدد کا مقصد ایک نئے انسان کی تخلیق کرنا ہوتا ہے۔
اس کے ذہن کو پہلے سے موجود آئیڈیالوجی سے جسمانی تشدد کے ذریعے نہیں، بلکہ نفسیاتی تشدد کے ذریعے ختم کیا جاتا ہے۔نفسیاتی تشدد سے معنویت کو جنم دینے کے عمل کے لیے جس نوعیت کے فلسفیانہ و منطقی علم، سماجی شعور، انسانی نفسیات کے گہرے علم اور سائنسی تکنیک کی ضرورت ہوتی ہے ، دہشت گرد تنظیمیں حتیٰ کہ ''غیر مہذب'' معاشروں کے برسرِ اقتدار طبقات بھی ان سے محروم ہوتے ہیں۔ ''مہذب معاشروں'' میں فلسفہ و فکر کی رہنمائی میں انسانی جسم پر مسلط تشدد کے انسانی نفسیات پر اثرات کا جائزہ لیا جاتا ہے تاکہ مستقبل میں اسے بہتر طریقے سے بامعنی بنایا جاسکے ۔
'مہذب اور ترقی یافتہ' معاشروں میں جب تشدد کو بروئے کار لایا جاتا ہے تو کوشش یہی کی جاتی ہے کہ انسانی جسم پر طاقت کے اطلاق کا یہ عمل محض وقت کا زیاں نہ ہو، یہ تشدد منظم ہو اور تشدد کے سارے عمل کا انتہائی گہرائی میں تجزیہ کرتے ہوئے اسے ایک تھیوری کی شکل میں تشکیل دیا جاسکے۔ اس طرح جہاں ایک طرف فلسفہ و فکر یا تھیوری تشدد کی رہنمائی کرتی ہے تو دوسری طرف تشدد فلسفیانہ تھیوری کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
سرد جنگ کے زمانے میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے امریکن اور کینیڈین نفسیاتی ایسوسی ایشن کے صدر ایون کیمرون کی سربراہی میں چوالیس جامعات اور بارہ اسپتالوں کی سربراہی میں نفسیاتی تشدد سے مطلوبہ معنویت کو حاصل کرنے کا ایک ایسا ہی منصوبہ شروع کیا تھا۔ اس منصوبے میں بروئے کار لائی گئی تکنیک کا اگر انتہائی باریکی سے تجزیہ کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ کس طرح سائنس، تکنیک، فلسفہ، علم البشریات اور نفسیات کی اعلیٰ تفہیم کے بعد تشدد کا انتہائی منظم طریقے سے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا۔
اس کا مقصد دشمن ممالک کی آئیڈیالوجی کے نقائص کو دشمنوں پر نفسیاتی تشدد کرکے، ان کے ذریعے ہی واضح کرنا ہوتا ہے،اس میں دشمن خود اپنے زبان سے یہ کہتا ہے کہ ان کے عزائم ''دہشت پسندانہ'' تھے۔قیدیوں کے اذہان کو بجلی کے جھٹکے دے کر، انھیں ''حسیاتی محرومی'' (Sense Deprivation)کے اذیت ناک عمل سے گزار کر، ان کے ذہن سے ان تمام خیالات کو حذف کردیا جاتا ہے، جن کے تحت ان کی تربیت ہوئی ہوتی ہے، اور اس کے بعد اپنی مرضی کے خیالات کو ان قیدیوں کے اذہان میں راسخ کر کے انھیں اپنی مرضی کے مطابق کہیں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ انھیں ذرایع ابلاغ کے سامنے یا عدالتوں میں پیش کیا جاسکتا ہے۔
تشدد کا 'مہذب' استعمال اس حد تک فلسفیانہ فکر اور جدید نفسیات کے دائرے میں داخل ہوچکا ہے کہ یہ ایک پیچیدہ سائنس بنتی جا رہی ہے۔ سرمایہ داری نظام محض اس وجہ سے نہیں چل رہا کہ یہ انسان کی فطرت سے ہم آہنگ ہے، بلکہ اس کے قائم رہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس میں جنگوں کی لازمیت کے علاوہ نفسیاتی تشدد ایک اہم عنصر کی حیثیت رکھتا ہے۔
بعض اقسام کے تشدد میں قوت کا استعمال حد سے زیادہ ہوتا ہے، جس میں جاہلانہ شدت پسندی کا عنصر غالب رہتا ہے۔ بعض اوقات قوت کا استعمال شدید نہیں ہوتا ہے ، اس قسم کے تشدد کی نوعیت علمیاتی اور فلسفیانہ ہوتی ہے، یہ طریقہ کار جدید سرمایہ داری کا تخلیق کردہ ہے۔تشدد کا یہ طریقہ براہِ راست جدید مغربی فلسفے سے ماخوذ ہے۔ جدید مغربی فلسفے کا سب سے اہم سوال یہ رہا ہے کہ انسان کے علم کا مآخذ کیا ہے؟ فلسفیوں نے اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے کہ علم کا مآخذ انسان کی حسیات ہیں۔
حسیات کی اسی مرکزیت پر جرمن مثالیت، برطانوی تجربیت اور فرانسیسی مادیت کی روایت استوار رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ اگر انسان سے اس کی حسیات کو واپس لے لیا جائے تو اس کا ذہن بالکل کورے کاغذ کی مانند ہوجاتا ہے۔وہ اس بچے کی مانند ہوجاتا ہے جس کا نیا جنم ہوا ہوتا ہے اور اس کے باطن میں کوئی خیال ، تصور اور عقیدہ پنہاں نہیں ہوتا ہے۔ ایک بار انسان کو اس کی حسیات سے محروم کردیا جائے تو ازسرِ نو اس کے ذہن میں صحیح یا غلط مگر کسی بھی آئیڈیالوجی کو ٹھونسا جاسکتا ہے۔
فلسفے کی رہنمائی میںجدید نفسیات اس علمیاتی قضیے کو تسلیم کرتی ہے اور انتہائی باریکی سے علمیات کے اس پہلو کو انسانی نفسیات سے جوڑ دیتی ہے۔ انسان کو جب اس کی حسیات سے محروم کردیا جاتا ہے تو اس کے خالی یا تجریدی ذہن کو کسی بھی دوسری آئیڈیالوجی سے پُر کیا جاسکتا ہے۔
حسیات کو ہرقسم کے علم کے حصول کے اولین مآخذ کے طور پر تسلیم کرنے کے اس خیال کو 1950 کے بعد امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کی فنڈنگ سے ''حسیات کی محرومی' کے عنوان سے ایک تھیوری کی شکل میں پیش کیا گیاتھا۔ تشدد کی اس تھیوری کی تشکیل ماہر نفسیات ایون کیمرون نے کی تھی۔ کیمرون نے 1960 کے عشرے میں''حسیات سے محرومی'' کے طریقہ کار کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے نہ صرف لیکچرز کا ایک وسیع سلسلہ شروع کیا بلکہ اس کے عملی اطلاق کے لیے باقاعدہ انسٹیٹیوٹ بھی قائم کیے گئے۔ان اداروں کا مقصد پیچیدہ نفسیاتی تشدد کے ذریعے مطئمن کر دینے والی سائنسی شہادت کا حصول تھا۔
ان اداروں میں جن لوگوں کو رکھا جارہا تھا ان کو ان کی تمام تر حسیات سے محروم کیا جارہا تھا، نہ وہ سن سکتے تھے، نہ محسوس کرسکتے تھے، نہ دیکھ سکتے تھے۔ مختصر یہ کہ ان کی کسی حس کا کوئی بھی تفاعل باقی نہ تھا۔ان کی یاداشت کو ختم کیا جارہا تھا، یہاں تک کہ زمان و مکاں کی تفریق کرنے کا احساس بھی ان میں محو ہوچکا تھا۔اس سارے عمل کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ ایک نئے انسان کی تخلیق ہو اور پرانے کو منہدم کیا جائے۔تاکہ ان کے اذہان کو سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی سے بھرا جاسکے۔ اس قسم کے نفسیاتی تشدد کی معنویت منطقی علمیات کی مرہونِ منت ہوتی ہے۔
اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ متشدد طبقات تشدد سے پہلے ہمیشہ ہی تشدد کی معنویت کا کوئی واضح مفہوم اپنے ذہن میں رکھتے ہیں یا ان کے ذہن میں یہ خیال موجود ہوتا ہے کہ وہ تشدد کے نتیجے میں کسی خاص قسم کی آئیڈیالوجی کا احیا کرنا چاہتے ہیں۔یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ جس انسان پر تشدد مسلط کیا جاتا ہے اس انسان پر تشدد کے معنوی اثرات مرتب نہ ہوتے ہوں ۔ فلسفیانہ حوالے سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ موضوع اور معروض کا تضاد اور موضوع کے ذریعے معروض کی حقیقت کا انکار یا اس معروض کی تخفیف کے عمل میں متشدد پہلو موجود ہوتے ہیں۔
اسی فلسفیانہ رجحان کی عکاسی ظالم اور مظلوم کے درمیان جنم لینے والے اس حقیقی تضاد کی تشکیل کی صورت میں ہوتی ہے، جو خارجی سطح پر موجود ہوتا ہے۔ تشدد کرنے کی وجوہات اور محرکات مختلف ہوسکتے ہیں، مگر کسی بھی انسان پر منظم تشدد کا مقصد یا تو اسے اپنے نظریات، عقائد اور اخلاقی اقدار کے مطابق ڈھالنا ہوتا ہے، یا پھر اپنے متشدد جذبات کی تسکین کی خاطر کسی پر اتنا ظلم کیا جاتا ہے کہ اسے دانستہ یا غیر دانستہ طور پر اس کی زندگی ہی سے محروم کردیا جاتا ہے۔ دونوں ہی صورتوں میں انفرادی اور اجتماعی سطح پر تشدد کے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ تشدد کے اثرات میں ہی اس کی معنویت کا تصور پیوست ہوتا ہے۔
عمومی طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ 'پسماندہ' اور ''غیر مہذب''معاشروں میں مقتدر طبقات ریاستی اداروں کے ذریعے اپنے مخالفین پر تشدد مسلط کر کے ، انھیں اذیت پہنچا کرخود کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔''غیر مہذب'' تشدد کسی حد تک غیر منظم تشدد ہوتا ہے۔اسے طالبانی نوعیت کا تشد د بھی کہا جاسکتا ہے اس میں لوگوں کی گردنیں کاٹ کر،ان میںخوف وہراس پھیلا کر اپنی مذہبی، سیاسی، اخلاقی اور نظریاتی ترویج کی جاتی ہے۔
اسی طرح کا تشدد ہمیں ''مہذب اور روشن خیال ممالک'' کے برسراقتدار طبقات کی جانب سے قائم کردگوانٹاناموبے اور ابوغریب جیسی جیلوں میں بھی دکھائی دیتا ہے، جہاں 'مہذب' حیوانیت کھل کر اپنا اظہار کرتی ہے۔ایسے تشدد کو مغربی ممالک کے روشن خیال ماہر نفسیات کی رہنمائی حاصل نہیں ہوتی ہے، نہ ہی ایسے تشدد کو انتہائی منظم ایجنسیوں کی رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔
اس قسم کا تشدد اپنی سرشت میں انتہائی وحشیانہ نوعیت کا ہوتا ہے۔ پسماندہ معاشروں میں کیے گئے تشدد میں معنویت 'ترقی یافتہ معاشروں' میں برپا کیے گئے تشدد کی نسبت کم ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر'' دہشت گرد'' تنظیمیں تشددکرتی ہیں تو اس کا محرک صرف یہ ہے کہ خوف و ہراس کو پھیلاکر لوگوں کو اپنا تابع کیا جائے۔''ترقی یافتہ'' ممالک میں برپا کیے گئے نفسیاتی تشدد کا مقصد ایک نئے انسان کی تخلیق کرنا ہوتا ہے۔
اس کے ذہن کو پہلے سے موجود آئیڈیالوجی سے جسمانی تشدد کے ذریعے نہیں، بلکہ نفسیاتی تشدد کے ذریعے ختم کیا جاتا ہے۔نفسیاتی تشدد سے معنویت کو جنم دینے کے عمل کے لیے جس نوعیت کے فلسفیانہ و منطقی علم، سماجی شعور، انسانی نفسیات کے گہرے علم اور سائنسی تکنیک کی ضرورت ہوتی ہے ، دہشت گرد تنظیمیں حتیٰ کہ ''غیر مہذب'' معاشروں کے برسرِ اقتدار طبقات بھی ان سے محروم ہوتے ہیں۔ ''مہذب معاشروں'' میں فلسفہ و فکر کی رہنمائی میں انسانی جسم پر مسلط تشدد کے انسانی نفسیات پر اثرات کا جائزہ لیا جاتا ہے تاکہ مستقبل میں اسے بہتر طریقے سے بامعنی بنایا جاسکے ۔
'مہذب اور ترقی یافتہ' معاشروں میں جب تشدد کو بروئے کار لایا جاتا ہے تو کوشش یہی کی جاتی ہے کہ انسانی جسم پر طاقت کے اطلاق کا یہ عمل محض وقت کا زیاں نہ ہو، یہ تشدد منظم ہو اور تشدد کے سارے عمل کا انتہائی گہرائی میں تجزیہ کرتے ہوئے اسے ایک تھیوری کی شکل میں تشکیل دیا جاسکے۔ اس طرح جہاں ایک طرف فلسفہ و فکر یا تھیوری تشدد کی رہنمائی کرتی ہے تو دوسری طرف تشدد فلسفیانہ تھیوری کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
سرد جنگ کے زمانے میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے امریکن اور کینیڈین نفسیاتی ایسوسی ایشن کے صدر ایون کیمرون کی سربراہی میں چوالیس جامعات اور بارہ اسپتالوں کی سربراہی میں نفسیاتی تشدد سے مطلوبہ معنویت کو حاصل کرنے کا ایک ایسا ہی منصوبہ شروع کیا تھا۔ اس منصوبے میں بروئے کار لائی گئی تکنیک کا اگر انتہائی باریکی سے تجزیہ کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ کس طرح سائنس، تکنیک، فلسفہ، علم البشریات اور نفسیات کی اعلیٰ تفہیم کے بعد تشدد کا انتہائی منظم طریقے سے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا۔
اس کا مقصد دشمن ممالک کی آئیڈیالوجی کے نقائص کو دشمنوں پر نفسیاتی تشدد کرکے، ان کے ذریعے ہی واضح کرنا ہوتا ہے،اس میں دشمن خود اپنے زبان سے یہ کہتا ہے کہ ان کے عزائم ''دہشت پسندانہ'' تھے۔قیدیوں کے اذہان کو بجلی کے جھٹکے دے کر، انھیں ''حسیاتی محرومی'' (Sense Deprivation)کے اذیت ناک عمل سے گزار کر، ان کے ذہن سے ان تمام خیالات کو حذف کردیا جاتا ہے، جن کے تحت ان کی تربیت ہوئی ہوتی ہے، اور اس کے بعد اپنی مرضی کے خیالات کو ان قیدیوں کے اذہان میں راسخ کر کے انھیں اپنی مرضی کے مطابق کہیں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ انھیں ذرایع ابلاغ کے سامنے یا عدالتوں میں پیش کیا جاسکتا ہے۔
تشدد کا 'مہذب' استعمال اس حد تک فلسفیانہ فکر اور جدید نفسیات کے دائرے میں داخل ہوچکا ہے کہ یہ ایک پیچیدہ سائنس بنتی جا رہی ہے۔ سرمایہ داری نظام محض اس وجہ سے نہیں چل رہا کہ یہ انسان کی فطرت سے ہم آہنگ ہے، بلکہ اس کے قائم رہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس میں جنگوں کی لازمیت کے علاوہ نفسیاتی تشدد ایک اہم عنصر کی حیثیت رکھتا ہے۔
بعض اقسام کے تشدد میں قوت کا استعمال حد سے زیادہ ہوتا ہے، جس میں جاہلانہ شدت پسندی کا عنصر غالب رہتا ہے۔ بعض اوقات قوت کا استعمال شدید نہیں ہوتا ہے ، اس قسم کے تشدد کی نوعیت علمیاتی اور فلسفیانہ ہوتی ہے، یہ طریقہ کار جدید سرمایہ داری کا تخلیق کردہ ہے۔تشدد کا یہ طریقہ براہِ راست جدید مغربی فلسفے سے ماخوذ ہے۔ جدید مغربی فلسفے کا سب سے اہم سوال یہ رہا ہے کہ انسان کے علم کا مآخذ کیا ہے؟ فلسفیوں نے اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے کہ علم کا مآخذ انسان کی حسیات ہیں۔
حسیات کی اسی مرکزیت پر جرمن مثالیت، برطانوی تجربیت اور فرانسیسی مادیت کی روایت استوار رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ اگر انسان سے اس کی حسیات کو واپس لے لیا جائے تو اس کا ذہن بالکل کورے کاغذ کی مانند ہوجاتا ہے۔وہ اس بچے کی مانند ہوجاتا ہے جس کا نیا جنم ہوا ہوتا ہے اور اس کے باطن میں کوئی خیال ، تصور اور عقیدہ پنہاں نہیں ہوتا ہے۔ ایک بار انسان کو اس کی حسیات سے محروم کردیا جائے تو ازسرِ نو اس کے ذہن میں صحیح یا غلط مگر کسی بھی آئیڈیالوجی کو ٹھونسا جاسکتا ہے۔
فلسفے کی رہنمائی میںجدید نفسیات اس علمیاتی قضیے کو تسلیم کرتی ہے اور انتہائی باریکی سے علمیات کے اس پہلو کو انسانی نفسیات سے جوڑ دیتی ہے۔ انسان کو جب اس کی حسیات سے محروم کردیا جاتا ہے تو اس کے خالی یا تجریدی ذہن کو کسی بھی دوسری آئیڈیالوجی سے پُر کیا جاسکتا ہے۔
حسیات کو ہرقسم کے علم کے حصول کے اولین مآخذ کے طور پر تسلیم کرنے کے اس خیال کو 1950 کے بعد امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کی فنڈنگ سے ''حسیات کی محرومی' کے عنوان سے ایک تھیوری کی شکل میں پیش کیا گیاتھا۔ تشدد کی اس تھیوری کی تشکیل ماہر نفسیات ایون کیمرون نے کی تھی۔ کیمرون نے 1960 کے عشرے میں''حسیات سے محرومی'' کے طریقہ کار کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے نہ صرف لیکچرز کا ایک وسیع سلسلہ شروع کیا بلکہ اس کے عملی اطلاق کے لیے باقاعدہ انسٹیٹیوٹ بھی قائم کیے گئے۔ان اداروں کا مقصد پیچیدہ نفسیاتی تشدد کے ذریعے مطئمن کر دینے والی سائنسی شہادت کا حصول تھا۔
ان اداروں میں جن لوگوں کو رکھا جارہا تھا ان کو ان کی تمام تر حسیات سے محروم کیا جارہا تھا، نہ وہ سن سکتے تھے، نہ محسوس کرسکتے تھے، نہ دیکھ سکتے تھے۔ مختصر یہ کہ ان کی کسی حس کا کوئی بھی تفاعل باقی نہ تھا۔ان کی یاداشت کو ختم کیا جارہا تھا، یہاں تک کہ زمان و مکاں کی تفریق کرنے کا احساس بھی ان میں محو ہوچکا تھا۔اس سارے عمل کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ ایک نئے انسان کی تخلیق ہو اور پرانے کو منہدم کیا جائے۔تاکہ ان کے اذہان کو سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی سے بھرا جاسکے۔ اس قسم کے نفسیاتی تشدد کی معنویت منطقی علمیات کی مرہونِ منت ہوتی ہے۔