چوتھا فریق
وکی لیکس میں چوہدری پرویز الٰہی کو بہترین منتظم قرار دیا گیا تھا۔
لاہور دنیا کے تاریخی شہروں میں سے ایک ہے۔ جسے ورثے میں لاتعداد شاندار روایات اور یادگاریں ملی ہیں۔
عدل جہانگیری کی اصطلاح کے معمار شہنشاہ جہانگیر کا مقبرہ بھی لاہور میں ہے اور ان کی چہیتی ملکہ نور جہاں کا مزار بھی اس شہر میں ہے۔ عدل جہانگیری کی اصطلاح کا مرکزی کردار نور جہاں تھیں۔ شاید یہی وہ وجہ ہے کہ عدل جہانگیری کی روایت لاہور کو خاص طور پر ورثے میں ملی۔
خیر اس معاملے میں مزید کچھ کہنے کے بجائے اپنے اصل موضوع کی طرف آتا ہوں۔ جس کا تعلق پاکستان کی تاریخ سے ہے۔ 64 سال سے زائد عرصے کی اس تاریخ میں شاید ہی کسی منتخب حکومت کے دور میں اتنے ضمنی الیکشن ہوئے ہوں گے' جتنے پچھلے ساڑھے چار سال میں پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت کے دور میں ہوئے ہیں۔ ایک ضمنی الیکشن کی بازگشت ابھی سنائی دے رہی ہوتی ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے اگلے ضمنی الیکشن کا شیڈول جاری ہو جاتا ہے۔ ضمنی انتخابات کا یہ کھیل' پنجابی محاورے ''تو چل تے میں آیا''، کے مصداق اس وقت بھی جاری ہے جبکہ موجودہ حکومت کی پانچ سال کی آئینی مدت پوری ہونے میں صرف چند ماہ باقی رہ گئے ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے جاری ہونے والے شیڈول کے مطابق' ضمنی انتخابات کا نیا میلہ' اگلے ماہ 17 نومبر کو سج رہا ہے۔
جس میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ق مشترکہ طور پر حصہ لیں گی۔ دونوں جماعتوں کے درمیان اس انتخابی اتحاد کا کریڈٹ اگر پیپلز پارٹی میں آصف علی زرداری کو جاتا ہے تو مسلم لیگ ق میں بلاشبہ یہ کریڈٹ چوہدری پرویز الٰہی کو دیا جانا چاہیے۔ یہ چوہدری پرویز الٰہی کی عملیت پسندی تھی' جس نے بظاہر ناممکن سمجھے جانے والے سیاسی اتحاد کو ممکن بنا دیا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ق کے درمیان موجودہ قربت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ وفاق میں چوہدری پرویز الٰہی کے لیے خصوصی طور پر نائب وزیر اعظم کا عہدہ تخلیق کیا گیا ہے۔ یہ عہدہ انتظامی طور پر با اختیار ہے یا نہیں' بہر حال ایک علامتی پیغام لیے ہوئے ہے۔ اس کا ایک فوری نتیجہ تو یہ ہے کہ مسلم لیگ ق کے اندر' جو ایک بھگدڑ مچی ہوئی تھی' وہ بتدریج تحلیل ہوتی جا رہی ہے۔ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کی طرف اڑ کر جانیوالے ق لیگ کے پرندوں کی واپسی بھی شروع ہو گئی ہے۔
وکی لیکس میں چوہدری پرویز الٰہی کو بہترین منتظم قرار دیا گیا تھا۔ اور یہ کوئی بلاوجہ بھی نہیں۔ چوہدری پرویز الٰہی اس وقت پاکستان کے واحد ایسے سیاستدان ہیں جن کا انتظامی معاملات میں تجربہ بہت وسیع ہے اور سیاسی جوڑ توڑ میں بھی وہ باکمال ہیں۔
چوہدری پرویز الٰہی' پنجاب کی انتخابی سیاست کے ماہر مانے جاتے ہیں۔ 2008ء کے انتخابی نتائج' مسلم لیگ ق کی قیادت' خاص طور پر' چوہدری پرویز الٰہی کے لیے سخت مایوس کن تھے۔ کیونکہ بطور وزیر اعلیٰ ان کی کارگزاری بہت ہی شاندار تھی تاہم بے نظیر بھٹو کی اچانک موت سے پیدا ہونے والی صورتحال میں' مسلم لیگ ق کی ہار' کوئی انہونی نہیں تھی۔ چوہدری پرویز الٰہی نے مگر ہمت نہیں ہاری اور بتدریج اپنی سیاسی طاقت کو اس طرح بڑھایا کہ پنجاب کے ضمنی انتخابات میں اپنی حریف ن لیگ کو ناکوں چنے چبوا دیے۔
سرگودھا اور گوجرانوالہ کے ضمنی انتخابات میں' انہوں نے پیپلز پارٹی کے امیدواروں کی اس طرح مدد کی کہ گوجرانوالہ میں ن لیگ کو اپنی جیتی ہوئی نشست سے ہاتھ دھونا پڑ گئے۔ گجرات کے ضمنی انتخاب میں' ن لیگ نے اپنی جیتی ہوئی نشست دوبارہ جیت تو لی لیکن اس طرح کہ گجرات میں ابھی تک کوئی یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ ن لیگ نے واقعی یہ نشست جیت لی ہے۔ یزمان کے ضمنی الیکشن میں' چوہدری پرویز الٰہی نے' ن لیگ کو اس کی جیتی ہوئی نشست پر ہرا کر سیاسی پنڈتوں کو ایک بار تو ششدر کر دیا۔ ڈیرہ غازی خان کے ضمنی انتخاب میں' اگر چوہدری پرویز الٰہی' اویس لغاری کی مدد کو نہ آتے تو اویس لغاری کے لیے اپنے طور پر ن لیگ کو شکست دینا آسان نہیں تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ انتخاب جیتنے کے بعد' اویس لغاری نے اپنے والد صاحب کی روایت کے عین مطابق' مسلم لیگ ق کی یہ نشست تحریک انصاف کی گود میں ڈال دی۔ پنجاب میں چوہدری پرویز الٰہی کی یہ کامیابیاں اس لیے بھی اہم ہیں کہ ہمارے اینکر اور کالم نگار' 2008ء کے بعد اپنے طور پر مسلم لیگ ق کا صفایا کر چکے ہیں۔ سروے کاروں کے نزدیک تو اس نام کی جماعت' پنجاب میں شاید موجود ہی نہیں۔
میں نے بطور اخبار نویس' بہت سے سیاستدانوں کو اچھے برے حالات میں دیکھا ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی کا شمار ایسے سیاست دانوں میں ہوتا ہے' جن کی سیاسی استعداد کار' مشکل حالات میں مزید بڑھ جاتی ہے۔ تاہم چوہدری پرویز الٰہی کے کام کرنے کا ایک اپنا انداز ہے' خاموش لیکن کارگر۔ ایک ایسے وقت میں' جب پنجاب کی سیاست میں' نواز شریف اور عمران خان کے درمیاں سخت مارا ماری چل رہی ہے' ایک دوسرے پر الزامات کی شدید گولہ باری ہو رہی ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف سروے پر سروے چھوڑے جا رہے ہیں' چوہدری پرویز الٰہی' خاموشی سے پنجاب میں اپنی انتخابی تیاریوں میں لگے ہوئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کو اعتماد میں لے کر اپنے انتخابی امیدواروں کے ناموں کو حتمی شکل دے رہے ہیں۔ ان کے حلقوں میں ترقیاتی کاموں کی نگرانی کر رہے ہیں۔
ان حلقوں میں اپنے حامیوں میں اختلافات ختم کرا رہے ہیں۔ لاہور اسٹیٹ گیسٹ ہائوس میں تجربہ کار بیورو کریٹ کی نگرانی میں چوہدری پرویز الٰہی کا سیکرٹریٹ بھی بروئے کار ہے۔ صرف یہی نہیں' اسلام آباد میں امریکا اور سعودی عرب سمیت تمام غیر ملکی سفیروں سے بھی رابطہ رکھے ہوئے ہیں۔ لاہور اور اسلام آباد کے درمیان' بطور نائب وزیر اعظم' چوہدری پرویز الٰہی کی یہ سیاسی سرگرمیاں کیا رنگ لاتی ہیں' یہ تو عام انتخابات کے نتائج ہی سے معلوم ہو گا تاہم ایک بات بالکل واضح نظر آ رہی ہے کہ 2013ء کے انتخابات کے بعد جو سیٹ اپ بھی صورت پذیر ہو گا' اس میں چوہدری پرویز الٰہی کا کردار بہت اہم اور بہت کلیدی ہو گا۔
ہمارا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سیاست کو ابھی تک پیپلز پارٹی' ن لیگ اور تحریک انصاف کے گردگھما رہا ہے۔ تعصب یا بے خبری کی وجہ سے اسے ابھی تک یہ ادراک نہیں ہوا کہ آئندہ انتخابات اور سیاست میں چوتھا فریق تیزی سے اپنی جگہ بنا رہا ہے۔ یہ چوتھا فریق مسلم لیگ قاف اور چوہدری پرویز الٰہی ہیں۔ جو پنجاب میں پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر کے' آئندہ انتخابات کے نتائج کے حوالے سے ساری قیاس آرائیاں اپ سیٹ کر سکتے ہیں۔