جدوجہد آزادی کے حوالے سے
اس سال چودہ اگست کچھ زیادہ دھوم دھام سے منانے کی تیاریاں ہوئیں۔
اس سال چودہ اگست کچھ زیادہ دھوم دھام سے منانے کی تیاریاں ہوئیں۔ ہر شخص خوش نظر آرہا تھا۔ جیسے نیا پاکستان بننے جارہا ہے، لیکن پاکستان تو ایک بار ہی اﷲ کے حکم سے معرض وجود میں آگیا تھا، تا قیامت تک قائم رہنے کے لیے (انشاء اﷲ) بچوں اور بڑوں کی خوشی کی اصل وجہ دہشت گردی میں کمی کا واقع ہونا ہے، اسی وجہ سے دکانیں رات گئے تک کھلی رہتی تھیں اور خریداروں کا جم غفیر تاحد نگاہ تک نظر آرہا تھا۔ دلکش و دلفریب چھوٹے بڑے پرچم آزاد فضاؤں میں لہرارہے تھے اور ہوائیں گنگنا رہی تھیں۔ بے شمار اسٹالز سجے ہوئے تھے ان اسٹالوں میں چوڑیاں، گاڑیوں میں نصب ہونیوالے جھنڈے اور سفید اور سبز رنگت کے کڑے، بریسلیٹ غرض ہر شے جھنڈے کے رنگوں سے مزئین تھی، میرے بچوں نے گاڑی کے بونٹ پر دیدہ زیب جھنڈا لگوایا ۔
یوں محسوس ہوا جیسے پاکستان واقعی آزادی کی طرف لوٹ رہا ہے اس کے چہرے پر سیاہ دھبے لگانیوالوں کا قلع قمع تقریباً ہوچکا ہے اب یہ چہرہ چاندکی طرح چمکنے والا ہے اﷲ کرے پاکستان اور پاکستانی ہمیشہ شاد و آباد رہیں اور پاکستانی پرچم سربلند رہے۔ 14اگست کے موقعے پر پاکستانی پرچم کا پس منظر یاد آرہا ہے کہ کس طرح اس آزاد مملکت کا جھنڈا تخلیق کے مرحلے سے گزرا۔قیام پاکستان کے وقت پاکستان و ہندوستان کے نمائندوں پر مشتمل کئی کمیٹیاں بنائی گئی تھیں۔ وزرا کی کمیٹی کی صدارت گورنر جنرل کیا کرتے تھے۔
بھارت کی طرف سے پٹیل اور بھارت کے سابقہ صدر بابو راجندر پرشاد اس کمیٹی کے ممبران تھے، پاکستان کی طرف سے لیاقت علی خان اور سردار عبدالرب نشتر، لیکن تھوڑے عرصے بعد قائد اعظم اور جواہر لعل نہرو بھی اپنی اپنی کمیٹیوں میں شامل ہوگئے، کمیٹی کے اجلاس زیادہ تر وائسرائے کے گھر پر ہوا کرتے جہاں آیندہ ہونیوالے جلسوں پر غور و خوض کیا جاتا تھا اور دوسرے مسائل کو حل کرنے کی بھی بات کی جاتی۔ ایک خاص دن وائسرائے نے جناب قائد اعظمؒ سے پرچم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہاکہ بھارت کے نمائندے تو اس بات پر راضی ہوگئے ہیں کہ باقی نو آبادیوں کے حوالے سے اپنے جھنڈے میں پانچواں حصہ برطانوی پرچم (یونین جیک) کے لیے مخصوص کردیں۔ آپ بھی ایسا ہی کریں۔ قائد اعظمؒ نے جواب دیا کہ میں اپنے رفقائے کار سے مشورہ کروںگا تب ہی کوئی جواب دیا جاسکتا ہے۔
اس موقعے پر تحریک آزادی اور مسلم لیگ کے مشہور رہنما جناب سردار عبدالرب نے مدلل جواب دیا کہ:''ہمیں ان کی یہ تجویز نہیں ماننی چاہیے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا معاملہ برطانوی نو آبادیوں سے جدا ہے وہ ممالک جو برطانیہ کے قبضے میں ہیں انھیں قدرتاً برطانوی جھنڈے سے خاص تعلق ہے جب کہ ہم تو برطانیہ سے آزادی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور برطانیہ کے ساتھ نہ ہمارا نسلی تعلق ہے نہ مذہبی، ہمارا ملک ایک اسلامی ملک ہوگا اور اس ملک کے پرچم میں ایک ایسے جھنڈے کو جگہ دینا جو ہماری غلامی کی یادگار ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس میں صلیب کا نشان موجود ہے، ہماری قوم کوکیسے قابل قبول ہوسکتا ہے''۔سب کی رائے کو مد نظر رکھتے ہوئے قائد اعظمؒ نے وائسرائے کو نفی میں جواب دے دیا، جسے وائسرائے نے قبول کیا۔ پاکستان کے پرچم کے حوالے سے قائد اعظمؒ نے اپنے رفقا کی مرضی جاننا چاہی تو ان کی رائے یہی تھی کہ مسلم لیگ کے جھنڈے کے نیچے ہی پاکستان کی تحریک کو کامیابی حاصل ہوئی ہے لہٰذا اسے تو رکھنا لازمی ہے جب کہ اقلیتوں کی نمائندگی کی کوئی صورت ہونی چاہیے، چنانچہ سفید رنگ اقلیتوں کی نمائندگی کے لیے مختص کردیا۔
دوسری سفید رنگ کے انتخاب کی وجہ قائد اعظم نے پاکستان کے جھنڈے پر پانچ ستاروں کی تجویز پاکستان کے پانچ صوبوں کی وجہ سے دی اس تجویز کے جواب میں عبدالرب نشترنے اس بات کی وضاحت کی پاکستان کے ساتھ دوسری ریاستوں کا الحاق ہوگا، نیز کئی وجوہات کی وجہ سے صوبوں میں کمی بیشی کا بھی امکان ہے اس لیے اگر یونٹوں کی تعداد میں تبدیلی واقع ہوگی تو وقتاً فوقتاً ستاروں کی تعداد بدلنا پڑے گی اگر نہ بدلیں تو ستاروں کی تعداد بے معنی ہوجائے گی۔''اس پر قائد اعظمؒ نے مسکراکر فرمایا کہ ایسی صورت میں ہم پانچ ستاروں کی توجیہ یہ کریںگے کہ ان سے مراد پنج تن ہیں۔ باہمی مشاورت کے بعد یہ طے پایا کہ مسلم لیگ کے جھنڈے میں ایک ہی ستارہ رہے گا۔
بحریہ والوں نے اس کا فارمولا تیار کرکے دیا اور اسی کے مطابق پاکستان کا پرچم بنایا جاتا ہے سبز ہلالی پرچم فضاؤں میں لہرانے لگا ، غلامی کی آہنی زنجیریں ٹوٹ کر بکھر گئیں، دنیا کی سب سے بڑی اسلامی حکومت دنیا کے نقشے پر نمودار ہوئی اور شاعر مشرق علامہ اقبال کے خواب کو تعبیر مل گئی اور پاکستان آخر کار وجود میں آگیا، ہزاروں ، لاکھوں مسلمانوں کے خون سے آزادی کا چراغ روشن ہوا، پاکستان کا قیام ماہ رمضان میں عمل میں آیا ، گویا اﷲ رب العزت کی مدد تھی۔ مملکت جمہوریہ پاکستان مسلمانوں کے لیے مالک دو جہاں کی طرف سے لازوال نعمت اور کسی معجزے سے کم نہ تھا۔
قائد اعظم نے تعمیر پاکستان کی خوشی میں جو تقریر کی اس میں انھوں نے فرمایا کہ میں انتہائی مسرت و شادمانی اور قلبی احساسات کے ساتھ آج آپ کی خدمت میں تہنیت پیش کرتا ہوں۔ 14 اگست ہماری آزاد خود مختار مملکت پاکستان کے وجود میں آنے کا دن ہے آج کا دن مسلم قوم کی برآوری کا دن ہے جس نے اپنا وطن حاصل کرنے کے لیے گزشتہ کئی برسوں میں بڑی بڑی قربانیاں دی ہیں، ہمارا مطمع نظر، امن ہونا چاہیے، اندرون ملک بھی اور بیرون ملک بھی۔ میرے عزیز ہم وطنو! میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرزمین، عظیم وسائل سے مالا مال ہے، لیکن اسے ایسا ملک بنانے کی ضرورت ہے، جو مسلم قوم کے شایان شان ہو۔ مجھے بھروسہ ہے اس مقصد کے حصول کے لیے سب لوگ دل وجان سے اپنی تمام صلاحیتیں وقف کردیںگے۔ پاکستان زندہ باد۔ ''
جیسا کہ میں نے ابتدائی سطور میں عرض کیا تھا کہ پاکستان ترقی کی طرف گامزن ہے اور انشا اﷲ جلد ہی ہر شعبے اور ہر میدان سے نا انصافی کا خاتمہ ہوگا، خوشی اور خوشحالی پاکستانی عوام کے قدم چومے گی کہ اب جہالت اور زرپرستی کا اندھیرا چھٹنے اور ایک نیا سورج طلوع ہونے والا ہے جہاں انصاف ہوگا، سکون و آشتی کی فضا پروان چڑھے گی اور درندہ صفت ملزمان اور مجرمان اپنے انجام کو پہنچیںگے اور عزتیں محفوظ رہیںگی، معصوم بچوں کے پڑھنے لکھنے اور کھیلنے کودنے کے لیے آنگن سے باہر تک تحفظ ہوگا۔ پاکستان کا ہر شخص امن کے ترانے گائے گا اور پھر یہ وہی پاکستان بن جائے جس کا خواب قائداعظمؒ نے دیکھا تھا۔
یوں محسوس ہوا جیسے پاکستان واقعی آزادی کی طرف لوٹ رہا ہے اس کے چہرے پر سیاہ دھبے لگانیوالوں کا قلع قمع تقریباً ہوچکا ہے اب یہ چہرہ چاندکی طرح چمکنے والا ہے اﷲ کرے پاکستان اور پاکستانی ہمیشہ شاد و آباد رہیں اور پاکستانی پرچم سربلند رہے۔ 14اگست کے موقعے پر پاکستانی پرچم کا پس منظر یاد آرہا ہے کہ کس طرح اس آزاد مملکت کا جھنڈا تخلیق کے مرحلے سے گزرا۔قیام پاکستان کے وقت پاکستان و ہندوستان کے نمائندوں پر مشتمل کئی کمیٹیاں بنائی گئی تھیں۔ وزرا کی کمیٹی کی صدارت گورنر جنرل کیا کرتے تھے۔
بھارت کی طرف سے پٹیل اور بھارت کے سابقہ صدر بابو راجندر پرشاد اس کمیٹی کے ممبران تھے، پاکستان کی طرف سے لیاقت علی خان اور سردار عبدالرب نشتر، لیکن تھوڑے عرصے بعد قائد اعظم اور جواہر لعل نہرو بھی اپنی اپنی کمیٹیوں میں شامل ہوگئے، کمیٹی کے اجلاس زیادہ تر وائسرائے کے گھر پر ہوا کرتے جہاں آیندہ ہونیوالے جلسوں پر غور و خوض کیا جاتا تھا اور دوسرے مسائل کو حل کرنے کی بھی بات کی جاتی۔ ایک خاص دن وائسرائے نے جناب قائد اعظمؒ سے پرچم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہاکہ بھارت کے نمائندے تو اس بات پر راضی ہوگئے ہیں کہ باقی نو آبادیوں کے حوالے سے اپنے جھنڈے میں پانچواں حصہ برطانوی پرچم (یونین جیک) کے لیے مخصوص کردیں۔ آپ بھی ایسا ہی کریں۔ قائد اعظمؒ نے جواب دیا کہ میں اپنے رفقائے کار سے مشورہ کروںگا تب ہی کوئی جواب دیا جاسکتا ہے۔
اس موقعے پر تحریک آزادی اور مسلم لیگ کے مشہور رہنما جناب سردار عبدالرب نے مدلل جواب دیا کہ:''ہمیں ان کی یہ تجویز نہیں ماننی چاہیے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا معاملہ برطانوی نو آبادیوں سے جدا ہے وہ ممالک جو برطانیہ کے قبضے میں ہیں انھیں قدرتاً برطانوی جھنڈے سے خاص تعلق ہے جب کہ ہم تو برطانیہ سے آزادی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور برطانیہ کے ساتھ نہ ہمارا نسلی تعلق ہے نہ مذہبی، ہمارا ملک ایک اسلامی ملک ہوگا اور اس ملک کے پرچم میں ایک ایسے جھنڈے کو جگہ دینا جو ہماری غلامی کی یادگار ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس میں صلیب کا نشان موجود ہے، ہماری قوم کوکیسے قابل قبول ہوسکتا ہے''۔سب کی رائے کو مد نظر رکھتے ہوئے قائد اعظمؒ نے وائسرائے کو نفی میں جواب دے دیا، جسے وائسرائے نے قبول کیا۔ پاکستان کے پرچم کے حوالے سے قائد اعظمؒ نے اپنے رفقا کی مرضی جاننا چاہی تو ان کی رائے یہی تھی کہ مسلم لیگ کے جھنڈے کے نیچے ہی پاکستان کی تحریک کو کامیابی حاصل ہوئی ہے لہٰذا اسے تو رکھنا لازمی ہے جب کہ اقلیتوں کی نمائندگی کی کوئی صورت ہونی چاہیے، چنانچہ سفید رنگ اقلیتوں کی نمائندگی کے لیے مختص کردیا۔
دوسری سفید رنگ کے انتخاب کی وجہ قائد اعظم نے پاکستان کے جھنڈے پر پانچ ستاروں کی تجویز پاکستان کے پانچ صوبوں کی وجہ سے دی اس تجویز کے جواب میں عبدالرب نشترنے اس بات کی وضاحت کی پاکستان کے ساتھ دوسری ریاستوں کا الحاق ہوگا، نیز کئی وجوہات کی وجہ سے صوبوں میں کمی بیشی کا بھی امکان ہے اس لیے اگر یونٹوں کی تعداد میں تبدیلی واقع ہوگی تو وقتاً فوقتاً ستاروں کی تعداد بدلنا پڑے گی اگر نہ بدلیں تو ستاروں کی تعداد بے معنی ہوجائے گی۔''اس پر قائد اعظمؒ نے مسکراکر فرمایا کہ ایسی صورت میں ہم پانچ ستاروں کی توجیہ یہ کریںگے کہ ان سے مراد پنج تن ہیں۔ باہمی مشاورت کے بعد یہ طے پایا کہ مسلم لیگ کے جھنڈے میں ایک ہی ستارہ رہے گا۔
بحریہ والوں نے اس کا فارمولا تیار کرکے دیا اور اسی کے مطابق پاکستان کا پرچم بنایا جاتا ہے سبز ہلالی پرچم فضاؤں میں لہرانے لگا ، غلامی کی آہنی زنجیریں ٹوٹ کر بکھر گئیں، دنیا کی سب سے بڑی اسلامی حکومت دنیا کے نقشے پر نمودار ہوئی اور شاعر مشرق علامہ اقبال کے خواب کو تعبیر مل گئی اور پاکستان آخر کار وجود میں آگیا، ہزاروں ، لاکھوں مسلمانوں کے خون سے آزادی کا چراغ روشن ہوا، پاکستان کا قیام ماہ رمضان میں عمل میں آیا ، گویا اﷲ رب العزت کی مدد تھی۔ مملکت جمہوریہ پاکستان مسلمانوں کے لیے مالک دو جہاں کی طرف سے لازوال نعمت اور کسی معجزے سے کم نہ تھا۔
قائد اعظم نے تعمیر پاکستان کی خوشی میں جو تقریر کی اس میں انھوں نے فرمایا کہ میں انتہائی مسرت و شادمانی اور قلبی احساسات کے ساتھ آج آپ کی خدمت میں تہنیت پیش کرتا ہوں۔ 14 اگست ہماری آزاد خود مختار مملکت پاکستان کے وجود میں آنے کا دن ہے آج کا دن مسلم قوم کی برآوری کا دن ہے جس نے اپنا وطن حاصل کرنے کے لیے گزشتہ کئی برسوں میں بڑی بڑی قربانیاں دی ہیں، ہمارا مطمع نظر، امن ہونا چاہیے، اندرون ملک بھی اور بیرون ملک بھی۔ میرے عزیز ہم وطنو! میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرزمین، عظیم وسائل سے مالا مال ہے، لیکن اسے ایسا ملک بنانے کی ضرورت ہے، جو مسلم قوم کے شایان شان ہو۔ مجھے بھروسہ ہے اس مقصد کے حصول کے لیے سب لوگ دل وجان سے اپنی تمام صلاحیتیں وقف کردیںگے۔ پاکستان زندہ باد۔ ''
جیسا کہ میں نے ابتدائی سطور میں عرض کیا تھا کہ پاکستان ترقی کی طرف گامزن ہے اور انشا اﷲ جلد ہی ہر شعبے اور ہر میدان سے نا انصافی کا خاتمہ ہوگا، خوشی اور خوشحالی پاکستانی عوام کے قدم چومے گی کہ اب جہالت اور زرپرستی کا اندھیرا چھٹنے اور ایک نیا سورج طلوع ہونے والا ہے جہاں انصاف ہوگا، سکون و آشتی کی فضا پروان چڑھے گی اور درندہ صفت ملزمان اور مجرمان اپنے انجام کو پہنچیںگے اور عزتیں محفوظ رہیںگی، معصوم بچوں کے پڑھنے لکھنے اور کھیلنے کودنے کے لیے آنگن سے باہر تک تحفظ ہوگا۔ پاکستان کا ہر شخص امن کے ترانے گائے گا اور پھر یہ وہی پاکستان بن جائے جس کا خواب قائداعظمؒ نے دیکھا تھا۔