ارے… یہ میں تو نہیں
پانچویں کا اردو کا پریڈ تھا،ٹیچر پڑھانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی
پانچویں کا اردو کا پریڈ تھا،ٹیچر پڑھانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی اور بچے منہ چھپا چھپا کر کھی کھی ہنسے جا رہے تھے۔ٹیچر نے ان سے استفسار کیا کہ کسی نے کوئی لطیفہ سنایا تھا کیا!! تب ایک بچے نے انکشاف کیا کہ کسی بچے کے پاس فون تھا اور وہ اپنے فون میں سے تصاویر دکھا دکھا کر بچوں کو ہنسا رہا تھا۔ کون سی ایسی تصویر ہو سکتی ہے جسے دیکھ کر بچے یوں کھی کھی کر کے ہنس سکتے ہیں؟ تجسس سے مجبور ہو کر ٹیچر نے کہا کہ اسے بھی وہ تصاویر دکھائی جائیں، حالانکہ اس بچے کا اسکول میں موبائل فون لے کر آنا پہلا جرم تھا، گیارہ سال کے لگ بھگ کی عمر کی کلاس میں سے اس بچے نے ٹیچر کے مجبور کرنے پر اپنا فون ان کے حوالے کر دیا، البم کھول کر ٹیچر نے دیکھا، اخلاقیات سے گری ہوئی تصاویر... پوری کلاس کی ایک تصویر... مگر سب بچے بے لباس بیٹھے ہوئے، ایسا کب اور کیسے ہو سکتا ہے، اس کا سر گھوم گیا، بلیک بورڈ کے سامنے کھڑے ہوئے نہ صرف باقی اساتذہ بلکہ اسی ٹیچر کی اپنی تصویر بھی تھی۔
سبق اس کے بعد تو وہ کیا پڑھاتی، بچے کو کان سے پکڑا اور میرے پاس لے آئی، فون پکڑ کر میں نے جب دو تین تصاویر دیکھیں تو میرے کان بھی لال ہو گئے اور چہرہ غصے سے جلنے لگا، جی چاہا کہ اسے پکڑوں اور دھنک ڈالوں ، مگر... '' کیا ہے یہ سب بیٹا؟؟ '' میں نے دانت پیس کر پوچھا۔'' just a joke madam '' اس نے شانے اچکا کر کہا۔'' تم اسے مذاق کہہ رہے ہو... عمر کیا ہے تمہاری اور حرکتیں کیا، کس نے بنائی ہیں یہ سب تصویریں؟ '' میںنے سوال کیا۔'' یہ سب میں نے خود کیا ہے '' اس نے بلا جھجک اعتراف کیا، '' میرے پاس ایک app ہے میڈم، اس سے آپ کسی بھی شخص کی تصویر میں سے اس کا سر استعمال کر کے اس کو کوئی بھی لباس تبدیل کروا سکتے ہیں، پردہ دار کو بے لباس بھی بنا سکتے ہیں اور بے لباس کو لباس پہنا سکتے ہیں، اور ایک اور app میں تو آپ دو لوگوں کی تصویریں کو استعمال کر کے انھیں اکٹھے ڈانس بھی کروا سکتے ہیں اور اس سے زیادہ بھی!!!''
میںنے اسے اور اس کی ٹیچر کو کلاس میں واپس بھیجا، فون میرے پاس ہی تھا، میں نے اس کے والدین کو فون کر کے بلوایا تا کہ میں ان سے بات کر سکوں ، ممکن ہے کہ وہ اپنے بچے کو سمجھا سکیں، دس گیارہ سال کے بچے کی منفی قابلیت کا اندازہ کر لیں آپ، گھر سے اسے کس قدر آزادی حاصل ہے کہ وہ جو کرتا پھررہا ہے ، اس کے والدین کو اس کی خبر بھی نہیں۔
ہم سب اپنے فون یا کیمرہ سے اپنی تصاویر کھینچتے ہیں، سیلفی بناتے ہیں اور انھیں اپنے دوستوں اور اہل خاندان کو دکھانے کے لیے فیس بک یا انسٹا گرام پر اپ لوڈ کرتے ہیں (مجھے ان دو پروگراموں کا ہی علم ہے اس لیے قارئین سے اپنی ناقص معلومات پر معذرت خواہ ہوں) ہمیں علم ہی نہیں کہ ہماری فیس بک یا انسٹا گرام پر اپ لوڈ کی گئیں سادہ اور ذاتی تصاویر کو کس کس طرح منفی استعمال میں لایا جا سکتا ہے!!! اپنے اور اپنے بچوں کی ہر طرح کی تصاویر ہم لا پروائی سے انٹرنیٹ کے سمندر میں بھونک دیتے ہیں جہاں سے وہ ایک سے دوسرے سے ہوتی ہوئی جانے کہاں سے کہاں تک گھوم جاتی ہیں اور ان کے کیا کیا استعمالات ہو جاتے ہیں!!!
ذرا آپ تصور کریں کہ گزشتہ دنوں ، قصور میں پکڑے جانے والا گروہ کیا کر رہا تھا، بچوں کی اس قدر کثیر تعداد کے ساتھ ہونیوالے زیادتی کے واقعات، دس سال تک ان مجرموں کی رسی دراز رہی اور وہ معصوم بچوں کی معصومیت سے کھیلتے رہے، ان میں سے کوئی بچہ آپ کا بھی ہو سکتا تھا! ان بچوں کے بارے میں سوچیں کہ جن کو کھلونے سے بھی بدتر سمجھ کر برتا گیا اور انھیں دنیا بھر میں وڈیو فلموں کے ذریعے نشرکر کے گھناؤنا جرم کیا گیا، مجرم دندناتے پھرتے رہے اور انھیں سرکردہ شخصیات کی سر پرستی بھی حاصل رہی۔ ان بچوں کے اذہان کی سلیٹ سے ان واقعات کو مٹانا تا عمر ممکن نہیں، اس گھناؤنے کاروبار میں ... جانے کس کس نوعیت کے ذہنی مریضوں کی جنسی تسکین کے لیے... ان بچوں کے نازک اور معصوم اجسام کو استعمال کیا گیا، کیا ان پھول جیسے بچوں کے جسموں سے نوچنے اور کھسوٹنے کے وہ نشان مٹ سکتے ہیں، ہر گز نہیں!!!
جب تک اس ملک میں ایسے گھناؤنے جرائم کرنے والوں کو سر عام اور قرار واقعی سزا نہیں ملے گی، اس نوعیت کے واقعات ہر گلی محلے میں آئے دن ہوتے رہیں گے بلکہ اس وقت بھی اگر ایک سرے میں غوغا اٹھا ہے تو کسی اور کونے میں یہ سب اس وقت بھی چل رہا ہو گا!
میں نے چند ماہ قبل ایک کالم لکھ کر بچوں کی حفاظت کے خیال سے ماؤں کی تھوڑی راہنمائی کرنے کی کوشش کی تھی، کیونکہ بچے تو معصوم، نا سمجھ اور کمزور ہوتے ہیں، انہیں چھوٹے سے لالچ سے ورغلا کر ان سے باآسانی زیادتی کی جا سکتی ہے۔ بدقسمتی سے دنیا بھر میں جنس زیادتی کا شکار ہونیوالے ستر فیصد سے زائد بچے اپنے خونی رشتوں کے ہاتھوں پامال ہوتے ہیں، باقی تیس فیصد میں والدین کے دوست، ہمسائے اور اڑوس پڑوس والے، گھریلو ملازمین، اس کے بعد اسکولوں میں اساتذہ، چوکیدار، مالی، ڈرائیور وغیرہ ہوتے ہیں۔ ہمیں اپنے بچوں کی تربیت میں اس پہلو پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے، انھیں آسان الفاظ میں سمجھا دینا اور خود بھی ہمہ وقت محتاط رہنا اس سے کہیں بہتر ہے کہ بچہ کسی '' حادثے '' کا شکار ہو کر اپنی معصومیت کھو دے اور پھر بعد میں ہم اسے خبردار کریں۔ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں تعلیم کا تناسب سب سے کم اور انٹرنیٹ کا استعمال دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے، بچوں کے ہاتھوں میں کمپیوٹر، ٹیبلٹ اور حتی کہ چھوٹے سے ٹیلی فون پر بھی انٹرنیٹ کی سہولت بہت ارزاں دستیاب ہے، اگر میسر نہیں تو وہ راہنمائی ہے کہ اچھا کیا ہے اور برا کیا ہے۔
اچھائی اور برائی کے درمیان کی حد کو بچے کم عمری میں ہی پھلانگ جاتے ہیں، ان بچوں میں سے زیادہ تر بچے وہ ہیں جن کے والدین کو یہ علم ہی نہیں کہ انٹر نیٹ کا منفی استعمال کتنا بڑا عفریت ہے، اسے ان کے بچے اپنے ننھے ننھے ہاتھوں میں لے کر ادراک اور آگہی کے سارے مراحل وقت سے پہلے ہی طے کر لیتے ہیں۔والدین جان ہی نہیں پاتے اور ان کے بچے اپنی ہر طرح کی تسکین کا سامان مفت و مفت پا لیتے ہیں۔ توہین رسالت پر مبنی خاکوں کی تصاویر یو ٹیوب پر جاری ہوئیں تو پاکستان میں کئی سال سے یو ٹیوب بند ہے... مگر ہم نے اسے بند کب رہنے دیا ہے، ہم نے اسے کھولنے کے کئی short cut یا متبادل سائیٹ ڈھونڈ نکالی ہیںاور ہماری زندگیوں میں تفریح کی کوئی کمی نہیں۔کیا ملک میں یو ٹیوب کی طرح پورنو گرافی کی سائیٹ بین نہیں کی جا سکتیں؟خلیجی ممالک میں پورنو گرافی کی تصاویر اور وڈیوز بین ہیں ، جب وہاں بین ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ واقعی بین ہیں، آپ کہیں بھی، کسی بھی پروگرام کو استعمال کر کے پورنو گرافی کی سائیٹ کو کھول نہیں سکتے، اگر کوئی ایسا کرے تو اسے جرم قرار دیا جاتا ہے، کیونکہ وہاں انٹر نیٹ پر کڑی مانیٹرنگ ہے۔
ہمارے ہاں یو ٹیوب اور پورنو گرافی کی تصاویر اور وڈیوز کو اس طرح بین نہیں کیا جا سکتا کہ وہ کسی بھی پروگرام کو استعمال کر کے نہ کھولی جا سکیں؟؟ تعلیم کی کمی اور فہم و شعور کے عدم وجود نے ہمیں مزید جاہل بنا دیا ہے اور ہم ایسی قوم بن گئے ہیں جن کے دلوں میں حیا رہی ہے نہ شرم۔ بے روزگاری کے ہاتھوں ذہنی مریض بن جانے والے یہ آوارہ نوجوان...جن کی ہوس زدہ نظریں بچیوں اور لڑکیوں کے وجودوں میں برمے مارتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں، معصوم بچوں کو دیکھ کر بھی لالچی کتوںکی طرح ان کی رالیں ٹپکنے لگتی ہیں، جیسے کسی درندے کی آنکھوں میں شکار کو دیکھ کر چمک آ جاتی ہے اسی طرح انھیں ہر گلی کوچے میں اپنا شکار نظر آ جاتا ہے۔جتنا دماغ یہ منفی سرگرمیوں میں صرف کرتے ہیں، اس سے کم میں یہ لوگ ملک کو ترقی کی راہ پر کہیں سے کہیں لے جا سکتے ہیں، مدقوق چہروں اور بیمارذہنوں والے یہ لوگ، ہمارے درمیان ہی دندناتے پھر رہے ہیں، ان سے خود بھی محتاط رہیں اور اپنے بچوں کو بھی بچا کر رکھیں، اپنی تصاویر انٹر نیٹ پر اپ لوڈ کرتے وقت بھی خیال رکھیں، ورنہ کسی دن انٹرنیٹ پر آپ کو اپنی یا اپنے بچے کو کوئی تصویر غلط استعمال کے ساتھ نظر آ سکتی ہے، آپ کسی اور کے ساتھ ڈانس نہ کر رہے ہوں اور پھرخود سے حیران ہو کر نہ پوچھ رہے ہوں '' ارے، میں نے تو اس تصویر میں لباس بھی پہن رکھا تھا اور میں تو اس سے واقف بھی نہیں جو اس تصویر میں میرے ساتھ رقص میں مصروف ہے!!!