جادوئی اثر والی ادویات …

خاتون تخت پر بیٹھی تھیں کہ ان کے وزن سے گھر میں دو کرسیاں ٹوٹ چکی تھیں۔


Raees Fatima August 23, 2015
[email protected]

خاتون تخت پر بیٹھی تھیں کہ ان کے وزن سے گھر میں دو کرسیاں ٹوٹ چکی تھیں۔ مٹاپے کی وجہ سے وہ فرش پر بالکل نہیں بیٹھ سکتی تھیں۔ گاؤ تکیے کے ساتھ شربت کی دو بوتلیں اور مٹاپا دور کرنے کے عرق اور سفوف رکھے تھے۔ مجھے دیکھ کر انھوں نے اٹھنے کی کوشش کی مگر ہائے کرکے وہیں کمر پکڑ کر بیٹھ گئیں اور ان بوتلوں کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگیں ''بھلا دیکھئے تو اشتہار میں لکھا تھا کہ صرف دو بوتل شربت اور دو بوتل عرق پینے سے حیرت انگیز نتائج سامنے آئینگے اور وزن میں غیر معمولی کمی ہوجائے گی لیکن میں تو لگاتار چھ بوتلیں پی چکی ہوں، عرقیات اس کے علاوہ ہیں لیکن ایک چھٹانک بھی وزن کم نہیں ہوا۔''مٹاپا دور کرنے سے لے کر، شوگر، بلڈ پریشر، السر، بڑھے ہوئے پیٹ سے فالتو چربی کا خاتمہ گارنٹی کے ساتھ۔ جوڑوں کے درد سے مکمل نجات۔ چھوٹے قد اور کمزور جسم کا علاج صرف ایک ماہ کے کورس میں۔ نشے سے چھٹکارا پانے والی دوائیں۔ بے اولاد جوڑوں کے لیے 100% فیصد گارنٹی کا علاج سے لے کر دائمی قبض اور نظر کی ہر قسم کی کمزوری چند دنوں میں دور کردینے والی دواؤں کے اشتہارات برسوں سے عوام الناس کو جھوٹے دعوؤں کے ساتھ بے وقوف بنارہے ہیں۔

مزے کی بات یہ ہے کہ ان تمام دواؤں کے بنانے والے جو بلند و بانگ دعوے کرتے ہیں وہ اپنا پتہ، فون نمبرز اور موبائل نمبرز کے ساتھ ساتھ دوائیں بذریعہ ڈاک منگانے کی ترغیب دیتی ہیں۔ ساتھ ساتھ تمام ادویات کی قیمت بھی درج ہوتی ہے جن میں سے کوئی بھی 2000/= روپے سے کم نہیں ہوتی۔ ڈاک کا خرچ خریدار کے ذمے ہوتا ہے۔ ایسے پرکشش ترغیبات اکثر لوگوں کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں اور یہ سوچ کر کہ ''چلو ایک بار تو استعمال کرکے دیکھیں'' بہت سے لوگ ناواقفیت کی بنا پر انھیں خرید لیتے ہیں۔ اس طرح دوائیں بیچنے والوں کا ہدف پورا ہوجاتا ہے۔ یہ اتائی وارداتیے ہیں، لوگوں کے ممکنہ مسائل سے اچھی طرح واقف ہیں کہ لڑکیوں کا گورا رنگ، مٹاپا اور جوڑوں کا درد آج کے معاشرے کا اہم مسئلہ ہیں اسی لیے یہ موقع پرست عناصر ہر خوف اور سزا سے بے نیاز ہوکر اپنا کھیل کھیل رہے ہیں۔

خواہ جعلی دواؤں کا کاروبار ہو یا راتوں رات رنگ گورا کرنے اور مٹاپا دورکرنے کا اشتہار۔ انھیں ڈر اور خوف اس لیے نہیں ہے کہ یہاں تو لوگ کھلے عام گدھوں اور کتوں کا گوشت بیچ رہے ہیں۔ گلی سڑی غذائی اشیا، کیمیکل ملا دودھ بیچنے پر جب کوئی کارروائی نہیں ہوتی تو انھیں بھلا کون پکڑے گا؟ اور کون سزا دے گا، پیسے کا حصول اور لالچ اس ملک میں اتنا بڑھ گیا ہے کہ حکمرانوں، سیاستدانوں، صنعتکاروں اسمبلی اور سینیٹ کے ممبران سے لے کر ایک دودھ فروش، قصائی، فاسٹ فوڈز اور تکے، کباب بیچنے والوں تک سب اس دوڑ میں شامل ہیں۔ ''میں بھی کھاؤں، تو بھی کھا'' اب موجودہ پاکستان کا Logo ہے۔

گزشتہ حکومت نے اس نعرے کو مقبول بنانے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے اور اس کے ثمرات موجودہ حکومت تک بڑی فیاضی سے پہنچے ہیں اسی لیے گمراہ کن اور پروپیگنڈے سے بھرپور یہ اشتہارات جن میں ان ادویات کے ''جادوئی اثر'' کا دل کھول کر ذکر کیا جاتا ہے۔ کسی پکڑ میں نہیں آتے ۔ کیونکہ ہر ایک ''لکشمی دیوی'' کے چرنوں میں بیٹھا ہے۔ ضمیر کی ذلتیں مدت ہوئی ختم ہوگئی۔ اب تو دولت کی دیوی کی بھینٹ کے لیے دن دھاڑے انسانوں کا خون بہایا جارہاہے۔ تو یہ اشتہار باز کیوں کسی سے پیچھے رہیں؟ دہشتگرد بندوق کی گولی سے مارتے ہیں، یہ جعلسازی سے، بس طریقۂ واردات الگ الگ ہیں۔ مقصد سب کا ایک کہ ''کھاؤ ... کھاؤ... خوب کھاؤ... مگر مل کر کھاؤ۔

لوگ دھڑلے سے غیر معیاری غذائی اشیا، گٹکا، آئس کریم اور بھوسی ٹکڑوں سے بنا حلیم بیچ رہے ہیں۔ دوسری طرف یہ عیار، مکار اور دھوکے باز جو اپنی کرشماتی دواؤں کے بارے میں جھوٹ بول کر عوام کو بے وقوف بنارہے ہیں، ان سب سے بڑھ کر ذمے داری خود ان لوگوں پر بھی عائد ہوتی ہے جو بلا سوچے سمجھے مشتہرین کی چرب زبانی کے شکار ہوجاتے ہیں۔ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ کوئی بھی دوا طلسماتی اثر نہیں رکھتی۔ اگر کوئی کریم چوبیس گھنٹے میں رنگ گورا کرنے کا دعویٰ کرتی ہے، یا کوئی روحانی گولیاں ایک گھنٹے میں گھٹنوں اور کمر کا درد دور کردیتی ہیں تو یہ ایک سفید جھوٹ اور فریب ہے۔

الہ دین کے چراغ کا جن صرف ''الف لیلیٰ'' تک محدود ہے۔ جنات کا وجود ہے مگر وہ ان دھوکے باز اشتہاری مجرموں کی پہنچ سے بہت دور ہیں ... ایسے میں خود اپنی آگہی سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ ہم کالم نگاروں نے اپنا اپنا فرض بحیثیت ادا کیا ہے۔ برسوں پہلے میں نے ایک کالم میں منٹوں میں درد دور کردینے والی گولیوں کے بارے میں ''خدارا زہر مت کھایئے'' نامی کالم میں توجہ دلائی تھی جس کا مشورہ ڈاکٹر احسان الحق نے دیا تھا۔ اس کالم کا بہت اچھا رسپانس ملا تھا کہ ان ہی دنوں ایلوپیتھک، ہومیوپیتھک اور یونانی طریقۂ علاج میں ''کارٹی زون'' شامل کرکے مال بنارہے تھے۔

سارا مسئلہ اخبار اور طبی رسائل کا نہ پڑھنا ہے۔ مطالعے کی کمی اور کتابوں سے دوری نے جہاں آتشیں کھلونوں کے کاروبار کو فروغ دیا ہے وہیں صحت و تندرستی کے مسائل میں بھی بے پناہ اضافہ کیا ہے۔ اگر آپ خود سمجھدار ہیں تو لاکھوں اشتہارات آتے رہیں نہ تو آپ ان دواؤں کا بغیر اپنے معالج کے مشورے کے استعمال کریںگے نہ ہی ان کی چکنی چپڑی باتوں اور دھوکا دہی سے بھرپور اشتہاروں سے مرعوب ہوںگے۔ بلا سوچے سمجھے محض اشتہار دیکھ کر کسی بھی دوا کا استعمال خطرناک ہے۔ بہت سے واقعات ہوچکے ہیں۔ ان مہلک دواؤں کے استعمال سے بہت سے لوگ معذور بھی ہوچکے ہیں اور دیگر عوارض میں بھی مبتلا ہوچکے ہیں۔ اس لیے خود سوچئے اور سمجھئے کہ کیا غلط ہے؟ کیا صحیح؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں