تماشا مرے آگے
اسی وجہ سے جمہوریت اور جمہوری اداروں کی تمام زندگی شدید مخالفت کرتے رہے۔
WASHINGTON:
گزشتہ اتوار کو دو جنازے اٹھے تھے۔ ایک لفٹیننٹ جنرل (ر) حمید گل کا تھا۔ دوسرا پنجاب کے وزیر داخلہ کرنل (ر) شجاع خانزادہ کا تھا۔ دونوں مرحومین دو متضاد فکری رویوں کی نمایندگی کیا کرتے تھے۔ اول الذکر طالبان کے حامی، مذہبی بنیاد پر نظم حکمرانی کے لیے عسکریت کے استعمال کو جائز سمجھتے تھے۔
اسی وجہ سے جمہوریت اور جمہوری اداروں کی تمام زندگی شدید مخالفت کرتے رہے۔ انھیں IJI کی تشکیل پر فخر تھا۔ بلکہ اکثر و بیشتر منتخب حکومت کے خاتمے کے لیے مختلف ریاستی اداروں کو اکسانے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے۔ ان کے برعکس کرنل (ر) شجاع خانزادہ مذہبی انتہاپسندی کو لگام دینے کے حامی تھے۔
اسی لیے وہ مذہب کے نام پر عسکریت پسندی اور متشدد فرقہ واریت کے خلاف سینہ سپر تھے۔ مگر ان دونوں جنازوں میں مقتدر اشرافیہ سے تعلق رکھنے والی اعلیٰ شخصیات کی شرکت اس بات کی غماز ہے کہ ریاستی مقتدرہ یا تو مذہبی شدت پسندی کے مسئلہ پر منقسم ہے یا پھر کنفیوزڈ ہے۔ جس کی وجہ سے شدت پسندی کے بارے میں کوئی واضح اور ٹھوس حکمت عملی تیار کرنے میں ناکام ہے۔
حکومت نے قبائلی علاقوں میں مذہبی عسکریت پسندی کے خلاف ضرب عضب کے نام سے جس کارروائی کا آغاز کیا تھا، توقع تھی کہ اس کا دائرہ وسیع تر کرتے ہوئے پنجاب تک پھیلایا جائے گا اور متشدد گروہوں کا قلع قمع کیا جائے گا۔ پھر کراچی میں انھی شدت پسندوں کے محفوظ ٹھکانوں کا خاتمہ کرنے پر توجہ دی جائے گی۔ مگر کراچی میں شروع ہونے والے آپریشن پر متحدہ نے تحفظات کا اظہار کر دیاہے ۔
اس نئی صورتحال نے دہشت گردوں، بھتہ خوروں اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف شروع کیے جانے والے آپریشن کو متنازع بنا دیا۔ آپریشن پر سیاسی جماعتوں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور ذرایع ابلاغ میں اٹھنے والے اعتراضات اور تحفظات اس بات کے متقاضی ہیں کہ اس کا مختلف پہلوؤں اور زاویوں سے جائزہ لیا جائے۔ جہاں تک اس آپریشن کے اہداف کا تعلق ہے تو اس پر مختلف سیاسی جماعتوں سمیت دیگر سیاسی و سماجی حلقوں کی جانب سے کوئی اعتراض یا تحفظ سامنے نہیں آیا ہے۔ لیکن آپریشن کے طریقہ کار، اس کے بعض پہلوؤں خاص طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے طرز عمل کے بارے میں سماجی تنظیموں اور شہریوں میں بہرحال بے چینی پائی جاتی ہے۔
یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اس آپریشن کے نتیجے میں بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان جیسی وارداتوں میں قابل ذکر حد تک کمی ضرور آئی ہے۔ لیکن نہ تو بینک ڈکیتیوں اور ٹارگٹ کلنگ میں کوئی خاص کمی آئی ہے اور نہ ہی اسٹریٹ کرائم کم ہوئے ہیں۔ جب کہ ایم کیو ایم کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر رشید گوڈیل پر ہونے والا حملہ اس بات کا غماز ہے کہ دہشت گرد عناصر وقتی طور پر پیچھے ہٹے ہیں اور کسی بھی وقت دوبارہ فعال ہو سکتے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ حکومت چونکہ کوئی ٹھوس اور پائیدار حکمت عملی تیار کرنے میں ناکام رہی ہے، اس لیے ان وارداتوں میں آنے والی کمی کا سبب دراصل عارضی بندوبست ہے۔
حالات و واقعات اور دو برس کی کارکردگی پر نظر ڈالی جائے تو حکومت کا یہ دعویٰ بھی کسی حد تک غلط ثابت ہوا ہے کہ آپریشن کسی جماعت کے خلاف نہیں ہے۔ کیونکہ بے شمار شواہد کے سامنے آنے کے باوجود بعض گروہوں کے خلاف اس نوعیت کی کارروائی سے گریز کیا گیا ہے، جو ایم کیو ایم کے خلاف جاری ہے۔
حالانکہ صفورہ سانحہ سمیت دہشت گردی کے کئی واقعات میں ملوث افراد کی بڑی تعداد کا تعلق جانے پہچانے گروہوں سے ہے۔ وزیراعظم کے بیانات اور حالیہ دورہ کراچی میں ان کا رویہ یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ غالباً بے بس و ہیں اور کوئی ٹھوس اور قابل عمل فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔
اسی صورتحال سے جڑا دوسرا پہلو یہ ہے کہ وزیر دفاع خواجہ آصف قومی اسمبلی میں متنازعہ گفتگو کرتے ہیں۔ ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں ISI کے اس سابق سربراہ کا نام لے کر اس پر سازشیں کرنے کا الزام عائد کرتے ہیں، مگر ان سے بازپرس ہوئی اور نہ ہی وزارت جاتی ہے۔ اس کے برعکس مشاہد اللہ خان جب یہی بات کہتا ہے تو ریاستی ادارے متحرک ہو جاتے ہیں اور اسے وزارت سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں۔
اگر متحدہ ہندوستان میں آل انڈیا مسلم لیگ کی جدوجہد کا جائزہ لیا جائے تو بابائے قوم محمد علی جناح نے دو دستاویزات اپنے ہاتھوں سے تیار کی تھیں۔ ان میں ایک لکھنو پیکٹ تھا اور دوسرے 14 نکات۔ ان دونوں دستاویزات کا لب لباب زیادہ سے زیادہ صوبائی خودمختاری اور اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ تھا۔ لیکن قیام پاکستان کے بعد وطن عزیز میں انھی دونوں اصولوں سے صریحاً انحراف کیا گیا۔ سب سے پہلے قائد کی رحلت کے بعد قرارداد مقاصد کو آئین سازی کا حصہ بنانے کی کوشش کی گئی۔
گویا ملک پہلے قائم ہوگیا اور مقاصد ڈیڑھ برس بعد متعین ہوئے۔ 1954ء میں جب آئین کا مسودہ تیار ہوگیا تو ملک غلام محمد نے دستورساز اسمبلی تحلیل کر دی۔کیونکہ انھیں خدشہ تھا کہ پارلیمانی جمہوری روایات کے مطابق گورنر جنرل (یا صدر) کی حیثیت Ceremonial ہو جائے گی اور تمام انتظامی اختیارات وزیراعظم کے دفتر کو تفویض ہو جائیں گے۔
اس سے قبل سابقہ مشرقی پاکستان میں جگتو فرنٹ نے کامیابی حاصل کر لی تھی۔ پاکستان کی مقتدر اشرافیہ کے لیے یہ دونوں صورتیں قابل قبول نہیں تھیں۔ اس لیے ایک طرف جگتو فرنٹ کی حکومت ختم کی گئی اور دوسری طرف دستور ساز اسمبلی کو تحلیل کر دیا گیا۔1955ء میں انتہائی سفاکانہ اور بدنام زمانہ پیریٹی کا نظام متعارف کرا کے ایک طرف بنگالی عوام کی عددی تعداد کو کم کرنے کی سازش کی گئی، تو دوسری طرف مغربی حصہ کے چھوٹے صوبوں کا تشخص ون یونٹ میں ڈبو دیا گیا۔
اس عمل کا فائدہ مغربی پاکستان کے بڑے صوبے کو پہنچا، جس کے بیوروکریٹس اور دیگر اہلکار بقیہ صوبوں میں پھیل گئے اور انھوں نے وہاں کی شہریت بھی اختیار کر لی۔ خاص طور پر اس صورتحال سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا صوبہ سندھ ہے۔ جس پر قیام پاکستان کے وقت ہندوستان کی مختلف ریاستوں سے آنے والے مہاجرین کا دباؤ پڑا اور پھر ون یونٹ کی شکل میں پورے مغربی پاکستان سے نقل مکانی کر کے آنے والوں نے اس کی Demography کو بری طرح متاثر کر دیا۔
اس طرح پیریٹی اور ون یونٹ نے صوبوں کی سیاسی، سماجی، معاشی اور ثقافتی خودمختاری پر ضرب کاری لگا کر وفاقیت کے تصور کو بری طرح نقصان پہنچایا۔ 1956ء کا آئین اسی پیریٹی کے اصول کو سامنے رکھتے ہوئے تشکیل دیا گیا تھا۔ مگر یہ آئین بھی اس ملک کے بالادست طبقات کو قبول نہیں ہوا اور ایوب خان نے مارشل لاء لگا کر لولی لنگڑی جمہوریت کا بھی جنازہ نکال دیا۔ جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پاکستان میں آئین و قانون کی کس قدر پاسداری کی جاتی ہے۔
اس سلسلے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ بانی پاکستان نے متحدہ ہندوستان اور پھر قیام پاکستان سے تین روز قبل دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے اقلیتوں کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا تھا، انھیں حکمران اشرافیہ نے طاق نسیاں کردیا۔ آج خواہ مذہبی اقلیتیں ہوں یا لسانی اقلیتیں سبھی ریاست کی پالیسیوں سے نالاں ہیں۔ خاص طور پر قائداعظم کی جماعت مسلم لیگ جب اقتدار میں آتی ہے تو مذہبی اقلیتوں کے ساتھ جو ہوتا ہے، وہ اپنی جگہ لیکن اربن سندھ میں آباد لسانی اقلیت بھی بے چینی محسوس کر رہی ہے لیکن آج کراچی میں جو کچھ ہورہا ہے۔
اس میں اربن سندھ میں آباد لسانی کمیونٹی کے غلط سیاسی فیصلوں کا بھی بہت بڑا دخل ہے۔ جس نے گزشتہ 68 برسوں کے دوران بنگالیوں، سندھیوں اور بلوچوں کی حقوق کے لیے جدوجہد کا حصہ بننے کے بجائے اپنا ناتا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جوڑنے کو ترجیح دی۔ جسے جب موقع ملا انھیں تاراج کرنے کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ انھیں یہ بھی سوچنا ہو گا کہ ون یونٹ کے قیام کا انھیں کس قدر فائدہ پہنچا اور ان کے کاندھوں پر سوار ہو کر دوسروں نے کتنا فائدہ حاصل کیا؟ جس کا خمیازہ آج انھیں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے ہم تو صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے۔