پریس کلب سے آرٹس کونسل تک

ہماری باری آنے تک صرف منتظمین حضرات ہی باقی رہ جائیں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔


Amjad Islam Amjad August 24, 2015
[email protected]

کوئٹہ سے کراچی کے سفر میں ڈاکٹر پیرزادہ قاسم میرے ہم سفر تھے جن کو میں اپنے محبوب ترین ہم عصروں اور انتہائی عزیز دوستوں میں شامل کرتا ہوں۔ سو سوا گھنٹے کا سفر ایک طرح سے پلک جھپکتے میں گزر گیا۔ مجھے اسی شام کراچی پریس کلب کے جشن آزادی مشاعرے میں شریک ہونا تھا جس میں انھوں نے بھی آنا تھا۔

سو ہم چند گھنٹے بعد پھر ملنے کا وعدہ کر کے جدا ہوئے۔ میری بکنگ کراچی آرٹس کونسل کے مدار المہام برادرم احمد شاہ نے مہران ہوٹل میں کروا رکھی تھی جن کی گاڑی ایئرپورٹ پر موجود تھی ان کا مشاعرہ 14 اگست کی رات یعنی اگلے دن تھا مگر ایک دن قبل آنے کی وجہ کراچی پریس کلب کے صدر اور بہت عمدہ نوجوان شاعر فاضل جمیلی کی فون کال بنی کہ لگے ہاتھوں پریس کلب کے مشاعرے سے بھی ہوتے جائیے کہ اسی بہانے بہت سے ادبی اور صحافی دوستوں سے بھی ملاقات ہو جائے گی۔

میرے اندازے اور معلومات کے مطابق فی الوقت کراچی پریس کلب وطن عزیز کی سب سے فعال اور زوردار پریس کلب ہے کہ ہر روز اتنی خبریں باقی کے سارے پاکستان سے نہیں آتیں جتنی اکیلے کراچی سے آتی ہیں۔ اس کے اعزازی ممبران میں فیضؔ صاحب اور حبیب جالبؔ سمیت شعر و ادب اور سماجی خدمات کے حوالے سے کئی قابل قدر لوگ شامل ہیں۔ مشاعرہ بھی دل ناتواں نے خوب کیا مگر میرے لیے زیادہ یہ بات اہم اور مسرت انگیز تھی کہ کئی برس کے بعد میں نے کراچی کی ہوا میں سانس لینے کی گنجائش کو فراوانی کی حالت میں دیکھا۔

معلوم ہوا کہ اس بار عید کے دنوں کے ساتھ ساتھ پورے رمضان میں کراچی نسبتاً آباد، خوش، پہلے سے کہیں زیادہ پر امن اور روشنیوں سے معمور نظر آیا اور بازاروں اور تجارتی مراکز میں بھی وہ چہل پہل نظر آئی جو ایک محاورے کے مطابق ''نصیب دشمناں'' ہو چکی تھی۔

قیام پاکستان کے دنوں میں انڈیا کے مختلف علاقوں سے جن لوگوں نے یہاں ہجرت کی تھی ان میں سے تو اب خال خال ہی زندہ ہوں گے لیکن اس شہر کی آبادی کا بیشتر حصہ ان کی اولادوں، پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں پر مشتمل ہے جنھیں عرف عام میں اردو بولنے والا بھی کہا جاتا ہے گویا الطاف بھائی اور ان کے قریبی ساتھیوں سمیت ہمارے بیشتر دوست اور بہن بھائی مہاجروں کی اولاد تو ضرور ہیں مگر ان کا پیدائشی ڈومیسائل پاکستان ہی کا ہے اور وہ ہر اعتبار سے اتنے یہ Son of the Soil ہیں جتنا کوئی اور۔ اس سے خیال آیا کہ اب ہمارے ایم کیو ایم کے دوستوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے مسائل کو مہاجروں کے مسائل کے بجائے کراچی اور پاکستان کے شہریوں کے مسائل کے طور پر دیکھنے اور پیش کرنے کا رویہ اختیار کریں کہ اس سے نہ صرف ان کی قوت میں اضافہ ہو گا بلکہ پورے کا پورا شہر ان کی آواز میں آواز ملانے پر قائل اور مجبور ہو جائے گا۔

میری ذاتی رائے میں یہ کارڈ اور سکہ اب زیادہ دیر چلنے والا نہیں لیکن میں یہ بھی تسلیم کرتا ہوں کہ ان کے پیش کردہ بیشتر مسائل حقیقی ہیں جن کا فوری حل ہونا چاہیے مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے شہر کے ان لوگوں کو بھی ساتھ لے کر چلیں جن کی مادری زبان تو اردو نہیں ہے مگر اس کے باوجود وہ اپنی مادری زبانوں سے بھی زیادہ اردو سے محبت کرتے ہیں کہ ان کے نزدیک اردو صرف رابطے کی زبان نہیں بلکہ ہمارے قومی وجود اور تہذیبی شناخت کی ایک زندہ اور روشن علامت بھی ہے۔ یقین نہ آئے تو گزشتہ ایک صدی کے اردو میں لکھنے والے اہم اور عہد ساز ادیبوں اور شاعروں کی فہرست پر ایک نظر ڈال لیجیے۔ آپ کو قدم قدم پر غیر اہل زبان لوگ ہی ملیں گے۔

اس سے میرا مقصد خدانخواستہ کسی قسم کی تقسیم یا تفرقہ پیدا کرنا نہیں صرف اس بات کی وضاحت کرنا ہے کہ ہمیں اپنے اپنے نسلی اور تہذیبی گروہوں میں رہتے ہوئے اپنے پاکستانی ہونے پر اصرار اور فخر کرنا چاہیے کہ دشمن ہمیں آپس میں لڑاتا تو ہے مگر خود گولی چلاتے وقت سب کو ایک ہی نظر سے دیکھتا ہے۔ بات کسی اور طرف نکل گئی لیکن اس ''اور طرف'' کا تذکرہ بھی ضروری تھا کہ اس بار میں نے زیادہ تر احباب کو کسی ''اور'' واسطے کے بجائے پاکستان اور کراچی کے شہری کی زبان بولتے سنا جو ایک بہت ہی خوش آیند بات ہے جسے بہت پہلے ہوجانا چاہیے تھا۔ ایسے موقعوں پر عام طور پر better late than never کا استعمال کیا جاتا ہے لیکن میرے نزدیک اردو میں یہ بات زیادہ بہتر انداز میں کہی گئی ہے کہ؎

دیر لگی آنے میں تم کو، شکر ہے پھر بھی آئے تو

پریس کلب کے اس مشاعرے کی خوشبو میں لپٹا لپٹایا اگلی شام آرٹس کونسل پہنچا تو وہاں یہ مجھ سے پہلے موجود تھی۔ ایک میلے کا سا عالم تھا معلوم ہوا کہ احمد شاہ اور ان کے ساتھیوں نے تقریبات کا ایک ایسا گلدستہ سجا رکھا ہے کہ جس میں ہر رنگ کے پھول ہیں اور اتنی کثرت سے ہیں کہ صبح سے شام تک آرٹس کونسل کا علاقہ ان میں حصہ لینے والے لوگوں سے مہکا رہتا ہے۔ مشاعرے سے پہلے کھانے کے دوران برادرم فرہاد زیدی اور مسرت بھابی سے خوب گپ شپ رہی کہ دونوں گنی بھی ہیں اور پرانے دوست بھی یہ تو میں بتانا بھول ہی گیا کہ شام کی فلائٹ سے اسلام آباد سے انور مسعود بھی پہنچ چکے تھے چنانچہ کچھ لطیفوں کی آڑ میں کئی پرانے اور مشترکہ دوستوں کو بھی یاد کیا گیا۔

صدر مشاعرہ رسا چغتائی، پیرزادہ قاسم، فاطمہ حسن، اجمل سراج، اعجاز رحمانی، فاضل جمیلی، صابر ظفر، خالد معین، احمد نوید اور عباس تابش بھی پہنچ چکے تھے لیکن ناظمہ مشاعرہ عزیزہ عنبرین حسیب عبر کا دور دور تک پتہ نہ تھا۔ معلوم ہوا کہ موصوفہ ایک شدید ٹریفک جام میں گزشتہ ایک گھنٹے سے پھنسی ہوئی ہیں۔ سو اب ان کے فرائض اجمل سراج انجام دیں گے۔ یہ بھی پتہ چلا کہ بھائی سحر انصاری امریکا کے ایک مشاعراتی دورے پر ہیں اور یوں بہت دنوں بعد آرٹس کونسل کا کوئی مشاعرہ ان کے بغیر ہو گا۔ عنبرین پہنچ تو گئی مگر اس کے نظامت سنبھالنے سے قبل آدھا مشاعرہ گزر چکا تھا۔

سامعین میں یوں تو بہت سے شناسا چہرے تھے لیکن بیگم اور واجد جواد کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ اب ایسے سخن فہم لوگ اگر نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہو گئے ہیں۔ ڈائریکٹر پروگرام ندیم ظفر اور احمد شاہ نے دوران مشاعرہ اتنی بار جگہ بدلی (جس کی بنیادی وجہ انتظامی مجبوریاں تھیں کہ وہ بیک وقت کئی پروگراموں کی خبر گیری کر رہے تھے) کہ کئی بار جی میں آیا کہ انھیں ''اے فتنۂ برخواستہ ازبہر خدا بیٹھ'' کی صدا لگائیں مگر ان کی برق رفتاریوں نے اس کا موقعہ ہی نہیں دیا۔ مشاعرہ گیارہ بجے سے رات دو بجے تک چلا حالانکہ احمد شاہ نے شاعروں کی تعداد (پتہ نہیں کیسے) پندرہ سے بھی کم رکھی تھی۔ کمشنر کراچی شعیب صدیقی قدرے دیر سے آئے مگر آخر تک بیٹھے رہے۔

انور مسعود نے میرے کان میں کہا، لگتا ہے ہماری باری آنے تک صرف منتظمین حضرات ہی باقی رہ جائیں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ لوگ کم ضرور ہوئے لیکن جو بیٹھے رہے وہ ایسے سخن شناس تھے کہ ایک ایک دس دس پر بھاری تھا۔ سو سنانے کا بھی مزا آیا اور اس بات پر مزید خوشی ہوئی کہ اس پیارے شہر کی بہاریں پھر لوٹ رہی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔