امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال
یہ امید اس لیے بھی منطقی تھی کہ ضرب عضب سے بڑی حد تک دہشتگردوں کی سرگرمیاں گم ہو گئی تھیں
شمالی وزیرستان میں ضرب عضب اور کراچی میں نیشنل ایکشن پلان کے نتیجے میں ملک بھر میں عموماً کراچی میں خصوصاً امن و امان میں تو بہتری آئی تھی، اس سے یہ امید بندھی تھی کہ اب ملک سے بدی کی طاقتوں کا خاتمہ ہو جائے گا اور عوام ایک پرامن زندگی گزارنے کے قابل ہو جائیں گے، خاص طور پر رمضان کا مہینہ اور عید جس پرامن ماحول میں گزری اس کے پس منظر میں عوام بجا طور پر یہ توقع کر رہے تھے کہ انھیں دہشت گردی اور سماجی جرائم سے اب نجات مل جائے گی۔
یہ امید اس لیے بھی منطقی تھی کہ ضرب عضب سے بڑی حد تک دہشتگردوں کی سرگرمیاں گم ہو گئی تھیں اور نیشنل ایکشن پلان سے کراچی کی صورت حال قابل ذکر حد تک بہتر ہو گئی تھی۔ اگرچہ اس عرصے میں خیبرپختونخوا میں دہشتگردی کے کچھ واقعات ہوتے رہے لیکن لگ یہ رہا تھا کہ اب عملاً دہشتگردی کا زور ٹوٹ گیا ہے لیکن اس بہتر ہوتی ہوئی صورتحال اچانک پنجاب کے وزیر داخلہ کی رہائش گاہ پر خودکش حملوں نے امن و امان کے سارے خوابوں کو چکنا چور کر دیا، ابھی عوام اس خوف سے نجات حاصل نہ کر پائے تھے کہ کراچی میں ایم کیو ایم کے سینئر رہنما رشید گوڈیل پر قاتلانہ حملے نے ایک بار پھر عوام میں خوف و ہراس کی فضا پیدا کر دی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ شمالی وزیرستان میں ہماری فوج نے بڑی قربانیاں دے کر دہشت گردوں کی طاقت کو توڑ دیا تھا لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امن دشمن طاقتیں سانس درست کرنے کی مہلت لے رہی تھیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف قربانیوں سے ہر جنگ لڑنے والوں کو یہ احساس نہ رہا کہ دہشت گرد ایک صحیح یا غلط نظریاتی جنگ لڑ رہے ہیں اور دنیا کی تاریخ میں یہی دیکھا گیا ہے کہ ان کی پسپائی مکمل شکست نہیں ہوتی، یہ عفریت دوبارہ زندہ ہو جاتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پچھلے ایک سال کے دوران امن دشمن طاقتوں کو پیہم شکستوں کا سامنا کرنا پڑا اور یہ دعویٰ بھی غلط نہ تھا کہ دہشت گردی کی کمر توڑ دی گئی ہے لیکن جیسا کہ ہم نے واضح کیا ہے، نظریاتی جنگیں اتار چڑھائو سے گزرتی ہیں، آسانی سے ختم نہیں ہوتیں، اس حوالے سے اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ جنگ بنیادی طور پر جدید تہذیب اور جہل کے درمیان لڑی جانے والی ایک ایسی خوفناک جنگ ہے جس میں جنگی اخلاقیات کو بھی جوتوں سے روند دیا جاتا ہے جو جنگ بچوں، بوڑھوں، عورتوں، گنہگاروں، بے گناہوں کی تخصیص کے بغیر لڑی جاتی ہے اور دوست اور دشمن کی تمیز بھی کھو دیتی ہے، ایسی جنگ کا ایک فریق آسانی سے اپنی شکست قبول نہیں کرتا۔
اس جنگ کا ایک المناک پہلو یہ ہے کہ دنیا کے بڑے ممالک نے اسے علاقائی جنگ کا نام دے کر اس عالمی جنگ میں متحرک شرکت سے گریزاں رہے۔ اس جنگ کو علاقوں کے حوالے سے دیکھنے والے حکمران طبقات اس جنگ کی اس وحشت و بربریت کو دانستہ یا نادانستہ سمجھنے سے قاصر رہے ہیں کہ جو جنگ اپنے ہم مذہب اور ہم ملک کا پاس نہیں رکھتی جو جنگ گنہگار اور بے گناہ پر تمیز نہیں کرتی جو جنگ بچوں، بڑوں، عورتوں، مردوں میں تفریق نہیں کرتی وہ بھلا کس حوالے سے علاقائی یا قومی جنگ ہو سکتی ہے۔ ایسی جنگ تہذیب اور جہل کی جنگ ہی ہو سکتی ہے اگر یہ خیال درست ہے تو پھر عملاً اس جنگ میں جہل کے خلاف ان تمام ملکوں کو بھرپور حصہ لینا چاہیے جو خود کو جدید تہذیب کے علمبردار سمجھتے ہیں۔
اس جنگ کا دائرہ یمن، عراق، شام، مشرق وسطیٰ سے افریقہ تک پھیلا ہوا ہے، ہمارے ترقی یافتہ ملکوں کے ترقی یافتہ اور معزز حکمران میڈیا میں یہ خبریں پڑھ رہے ہوں گے کہ دہشت گرد طاقتیں یمن، شام، عراق اور افغانستان میں کس طرح کامیابی سے آگے بڑھ رہی ہیں کیا پاکستان یمن، عراق، شام، افریقہ اس کرۂ ارض کا حصہ نہیں ہیں اگر یہ ملک اسی دنیا کا حصہ ہیں تو پھر یہ جنگ نہ علاقائی ہو سکتی ہے نہ قومی۔
کیا ہمارے حکمران طبقات اس حقیقت سے واقف نہیں کہ پچھلے ایک عشرے کے دوران ان منفی قوتوں نے پورے پاکستان میں اپنی جڑیں پھیلائی ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کا طرز حکمرانی اس قدر حیرت انگیز ہے کہ وہ ایک طرف دہشتگردی کے خلاف جنگ کر رہے ہیں دوسری طرف دہشتگردی کے الزام میں کالعدم قرار دی جانے والی جماعتوں کو سیاست میں کھل کر حصہ لینے کی اجازت بھی دے رہے ہیں۔ ایں چہ بوالعجبی است؟۔
ہمارے حکمرانوں کی ان دوغلی پالیسیوں کی وجہ سے منفی طاقتیں آزادی کے ساتھ عوام تک رسائی حاصل کر کے عوام میں منفی جذبات یا کنفیوژن پیدا کرنے میں کامیاب ہو رہی ہیں، یہ ہمارا ایسا المیہ ہے جس کی سزا ہماری نسل کو ہی نہیں ہماری آنے والی نسلوں کو بھی بھگتنا ہو گی۔
کراچی ملک کا معاشی ہب ہے اور دہشت گردی ملک کا سب سے بڑا قومی مسئلہ ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مقتدر قوتیں اپنی ساری توجہ اس اہم ترین قومی مسئلے پر مرکوز رکھتیں لیکن بدقسمتی سے ہو یہ رہا ہے کہ اس خطرناک قومی مسئلے میں ایسے علاقائی مسئلے گھسیٹ دیے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے حکومتی اداروں کی توجہ بٹ رہی ہے، جس کا فائدہ بھرپور طریقے سے منفی قوتیں اٹھا رہی ہیں۔
پنجاب کے وزیر داخلہ کی رہائش گاہ پر خودکش حملہ اور وزیر داخلہ سمیت 19 افراد کا بہیمانہ قتل عام ہماری صوبائی حکومت اور مرکزی قیادت کو یہ بتانا ہے کہ ہماری کمر ابھی ٹوٹی نہیں اب بھی ہم اس خمیدہ کمر کے ساتھ ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیر داخلہ کی رہائش گاہ تک کامیابی سے پہنچ سکتے ہیں اور انھیں 19 افراد کے ساتھ قتل کر سکتے ہیں۔ کراچی میں رشید گوڈیل پر قاتلانہ حملے سے ہماری مقتدرہ کو ہوش کے ناخن لیتے ہوئے ملک کے سب سے بڑے قومی مسئلے دہشتگردی پر اپنی ساری توجہ مرکوز رکھنی چاہیے، پنجاب کے وزیر داخلہ اور رشید گوڈیل کا المیہ اسی الجھی ہوئی چومکھی پالیسی کا نتیجہ ہے جسے ہماری مقتدرہ نے اپنائی ہے، کاش ہماری ساری توجہ سب سے بڑے قومی مسئلے پر ہی مرکوز رہتی۔
یہ امید اس لیے بھی منطقی تھی کہ ضرب عضب سے بڑی حد تک دہشتگردوں کی سرگرمیاں گم ہو گئی تھیں اور نیشنل ایکشن پلان سے کراچی کی صورت حال قابل ذکر حد تک بہتر ہو گئی تھی۔ اگرچہ اس عرصے میں خیبرپختونخوا میں دہشتگردی کے کچھ واقعات ہوتے رہے لیکن لگ یہ رہا تھا کہ اب عملاً دہشتگردی کا زور ٹوٹ گیا ہے لیکن اس بہتر ہوتی ہوئی صورتحال اچانک پنجاب کے وزیر داخلہ کی رہائش گاہ پر خودکش حملوں نے امن و امان کے سارے خوابوں کو چکنا چور کر دیا، ابھی عوام اس خوف سے نجات حاصل نہ کر پائے تھے کہ کراچی میں ایم کیو ایم کے سینئر رہنما رشید گوڈیل پر قاتلانہ حملے نے ایک بار پھر عوام میں خوف و ہراس کی فضا پیدا کر دی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ شمالی وزیرستان میں ہماری فوج نے بڑی قربانیاں دے کر دہشت گردوں کی طاقت کو توڑ دیا تھا لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امن دشمن طاقتیں سانس درست کرنے کی مہلت لے رہی تھیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف قربانیوں سے ہر جنگ لڑنے والوں کو یہ احساس نہ رہا کہ دہشت گرد ایک صحیح یا غلط نظریاتی جنگ لڑ رہے ہیں اور دنیا کی تاریخ میں یہی دیکھا گیا ہے کہ ان کی پسپائی مکمل شکست نہیں ہوتی، یہ عفریت دوبارہ زندہ ہو جاتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پچھلے ایک سال کے دوران امن دشمن طاقتوں کو پیہم شکستوں کا سامنا کرنا پڑا اور یہ دعویٰ بھی غلط نہ تھا کہ دہشت گردی کی کمر توڑ دی گئی ہے لیکن جیسا کہ ہم نے واضح کیا ہے، نظریاتی جنگیں اتار چڑھائو سے گزرتی ہیں، آسانی سے ختم نہیں ہوتیں، اس حوالے سے اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ جنگ بنیادی طور پر جدید تہذیب اور جہل کے درمیان لڑی جانے والی ایک ایسی خوفناک جنگ ہے جس میں جنگی اخلاقیات کو بھی جوتوں سے روند دیا جاتا ہے جو جنگ بچوں، بوڑھوں، عورتوں، گنہگاروں، بے گناہوں کی تخصیص کے بغیر لڑی جاتی ہے اور دوست اور دشمن کی تمیز بھی کھو دیتی ہے، ایسی جنگ کا ایک فریق آسانی سے اپنی شکست قبول نہیں کرتا۔
اس جنگ کا ایک المناک پہلو یہ ہے کہ دنیا کے بڑے ممالک نے اسے علاقائی جنگ کا نام دے کر اس عالمی جنگ میں متحرک شرکت سے گریزاں رہے۔ اس جنگ کو علاقوں کے حوالے سے دیکھنے والے حکمران طبقات اس جنگ کی اس وحشت و بربریت کو دانستہ یا نادانستہ سمجھنے سے قاصر رہے ہیں کہ جو جنگ اپنے ہم مذہب اور ہم ملک کا پاس نہیں رکھتی جو جنگ گنہگار اور بے گناہ پر تمیز نہیں کرتی جو جنگ بچوں، بڑوں، عورتوں، مردوں میں تفریق نہیں کرتی وہ بھلا کس حوالے سے علاقائی یا قومی جنگ ہو سکتی ہے۔ ایسی جنگ تہذیب اور جہل کی جنگ ہی ہو سکتی ہے اگر یہ خیال درست ہے تو پھر عملاً اس جنگ میں جہل کے خلاف ان تمام ملکوں کو بھرپور حصہ لینا چاہیے جو خود کو جدید تہذیب کے علمبردار سمجھتے ہیں۔
اس جنگ کا دائرہ یمن، عراق، شام، مشرق وسطیٰ سے افریقہ تک پھیلا ہوا ہے، ہمارے ترقی یافتہ ملکوں کے ترقی یافتہ اور معزز حکمران میڈیا میں یہ خبریں پڑھ رہے ہوں گے کہ دہشت گرد طاقتیں یمن، شام، عراق اور افغانستان میں کس طرح کامیابی سے آگے بڑھ رہی ہیں کیا پاکستان یمن، عراق، شام، افریقہ اس کرۂ ارض کا حصہ نہیں ہیں اگر یہ ملک اسی دنیا کا حصہ ہیں تو پھر یہ جنگ نہ علاقائی ہو سکتی ہے نہ قومی۔
کیا ہمارے حکمران طبقات اس حقیقت سے واقف نہیں کہ پچھلے ایک عشرے کے دوران ان منفی قوتوں نے پورے پاکستان میں اپنی جڑیں پھیلائی ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کا طرز حکمرانی اس قدر حیرت انگیز ہے کہ وہ ایک طرف دہشتگردی کے خلاف جنگ کر رہے ہیں دوسری طرف دہشتگردی کے الزام میں کالعدم قرار دی جانے والی جماعتوں کو سیاست میں کھل کر حصہ لینے کی اجازت بھی دے رہے ہیں۔ ایں چہ بوالعجبی است؟۔
ہمارے حکمرانوں کی ان دوغلی پالیسیوں کی وجہ سے منفی طاقتیں آزادی کے ساتھ عوام تک رسائی حاصل کر کے عوام میں منفی جذبات یا کنفیوژن پیدا کرنے میں کامیاب ہو رہی ہیں، یہ ہمارا ایسا المیہ ہے جس کی سزا ہماری نسل کو ہی نہیں ہماری آنے والی نسلوں کو بھی بھگتنا ہو گی۔
کراچی ملک کا معاشی ہب ہے اور دہشت گردی ملک کا سب سے بڑا قومی مسئلہ ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مقتدر قوتیں اپنی ساری توجہ اس اہم ترین قومی مسئلے پر مرکوز رکھتیں لیکن بدقسمتی سے ہو یہ رہا ہے کہ اس خطرناک قومی مسئلے میں ایسے علاقائی مسئلے گھسیٹ دیے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے حکومتی اداروں کی توجہ بٹ رہی ہے، جس کا فائدہ بھرپور طریقے سے منفی قوتیں اٹھا رہی ہیں۔
پنجاب کے وزیر داخلہ کی رہائش گاہ پر خودکش حملہ اور وزیر داخلہ سمیت 19 افراد کا بہیمانہ قتل عام ہماری صوبائی حکومت اور مرکزی قیادت کو یہ بتانا ہے کہ ہماری کمر ابھی ٹوٹی نہیں اب بھی ہم اس خمیدہ کمر کے ساتھ ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیر داخلہ کی رہائش گاہ تک کامیابی سے پہنچ سکتے ہیں اور انھیں 19 افراد کے ساتھ قتل کر سکتے ہیں۔ کراچی میں رشید گوڈیل پر قاتلانہ حملے سے ہماری مقتدرہ کو ہوش کے ناخن لیتے ہوئے ملک کے سب سے بڑے قومی مسئلے دہشتگردی پر اپنی ساری توجہ مرکوز رکھنی چاہیے، پنجاب کے وزیر داخلہ اور رشید گوڈیل کا المیہ اسی الجھی ہوئی چومکھی پالیسی کا نتیجہ ہے جسے ہماری مقتدرہ نے اپنائی ہے، کاش ہماری ساری توجہ سب سے بڑے قومی مسئلے پر ہی مرکوز رہتی۔