سبد گل

میں آپ کو بھولا نہیں ہوں، میں بہت سی باتیں بھول جاتا ہوں، لیکن دوستوں، عزیزوں کو نہیں بھول سکتا،


Saeed Parvez August 24, 2015

یہ کتاب امام اکبر آبادی نے لکھی ہے، یہ کتاب پہلی بار آگرہ (ہندوستان) میں شایع ہوئی تھی اور تاریخ اشاعت مارچ 1956 ہے، اس کتاب کی اشاعت دوئم کراچی میں ہوئی، آفتاب اکیڈمی نے معروف اشاعتی ادارے فضلی سنز کراچی سے چھپوا کر کتاب کو جاری کیا۔ یہ کتاب قریباً گزرے سو سال کا ادبی منظر نامہ ہے، کتاب کے دیباچے میں حضرت مکیش اکبر آبادی لکھتے ہیں ''ایک زمانے میں آگرے میں چند اہم شخصیتیں اور ستھری جماعتیں موجود تھیں۔

ان کے مختلف حلقے اور دائرے تھے، جو اپنی جگہ بڑی اہمیت رکھتے تھے، یہ اس زمانے کی بات ہے جب میں نے ہوش سنبھالا ہی تھا۔ مرزا رئیس اور واصف کا ساغر لبریز ہوچکا تھا، شیخ بزرگ علی عالی شاعر سے مرثیہ گو بن چکے تھے اور اس طبقے میں سے مولوی نثار علی صاحب نثار گو تارک ہوگئے تھے مگر بحیثیت استاد فضائے شعر پر چھائے ہوئے تھے۔

ان سے بعد کی منزل پر فلک شاہ دلگیر، اخضر، شوخ، سیماب، مظہر، صوفی، شام صاحبان، بساطِ شعر پر پرے جمائے بیٹھے تھے لیکن ان سب سے علیحدہ ایک بڑی ہی سلیس ستھری اور سلجھے ہوئے مذاق کی جماعت تھی ''یارانِ نجد'' اس جماعت میں ل احمد، شاہ دلگیر، محمود اور امام صاحبان آگرے کے تھے اور نیاز صاحب (نیاز فتح پوری)، ڈاکٹر ضیا عباس ہاشمی، جوش ملیح آبادی وغیرہ آگرے سے باہر کے اہل فن تھے، پھر اس جماعت میں مانی جالسئی اور اس کے کچھ دن بعد فانی بدایونی بھی شامل ہوگئے۔

آخر زمانے میں مجھے بھی ان حضرات کی ہم نشینی اور ان کے علم و تجربے سے استفادے کا موقع ملا مگر اس وقت یہ بزم برخاست ہونی شروع ہوگئی تھی اور اب حال یہ ہے کہ امام صاحب کی حیثیت آگرہ میں ''اک شمع رہ گئی ہے'' کی سی ہے مگر شکر ہے کہ یہ شمع خاموش نہیں ہے۔ امام صاحب اب بھی لکھ رہے ہیں ۔

انھوں نے 1909 میں لکھنا شروع کیا تھا ''نگار'' کے تو وہ بانیوں ہی میں ہیں۔ 1921 میں نگار آگرے سے جاری ہوا تھا اس کے علاوہ انھوں نے 1913-14 میں مولانا ابوالکلام آزاد کے ''الہلال'' مانی صاحب کے ''تسنیم'' جوش صاحب کے ''کلیم'' سیماب اور اعجاز صاحبان کے ''شاعر'' میں لکھا ہے، اس کے علاوہ ''الحمرا'' لاہور ''عصمت'' کراچی ''ہندوستانی ادب'' دکن اور ''تنویر'' بمبئی میں بھی لکھا۔ امام صاحب کی تصانیف میں ہندوستانی زبان، پردہ اور تعلیم اور قصر بلند شایع ہوچکی ہیں اور اب ''سبدِ گل'' آپ کے ہاتھ میں ہے''۔

امام اکبر آبادی حافظ قرآن تھے، حج بیت اﷲ کو بھی گئے، یوں وہ اپنا نام حاجی حافظ امام اکبر آبادی بھی لکھتے تھے۔ امام صاحب کے خاندان پر اﷲ تعالیٰ کا بڑا فضل و کرم یوں بھی رہا کہ ان کے بیٹے، پوتے، پوتیاں اور آگے پوتوں کی اولاد سب ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں، جب کہ خود امام صاحب کسی مدرسے سے فارغ التحصیل نہیں مگر ذاتی ذوق و شوق کے زور پر اردو، فارسی، عربی اور انگریزی زبانوں میں خاصی دستگاہ حاصل کرلی تھی۔ امام صاحب اگست 1884 آگرہ (اکبر آبادی) میں پیدا ہوئے اور اگست 1966 کراچی میں وفات پائی۔

ان کی تصنیف ''سبدِ گل'' ان کے عہد کے ادیبوں، شاعروں کے تذکروں پر مشتمل ہے، ان ادیبوں، شاعروں میں اس عہد کے معروف و کم معروف سبھی کا تذکرہ ہے جسے پڑھ کر اس دور کی ادبی، سماجی، معاشی زندگی کا خوبصورت احساس ہوتا ہے۔ امام صاحب کے خط کا منظوم جواب بھی اس کتاب میں شامل ہے جو حضرت فانی بدایونی نے لکھا تھا یہ منظوم خط کلیات فانی میں بھی شامل ہے اسی طرح مولانا ابوالکلام آزاد کے خط کی نقل بھی کتاب میں شامل ہے اور حضرت جوش ملیح آبادی کے تین اشعار بھی امام صاحب کے لیے کتاب میں شامل ہے، پہلے فانی کے منظوم خط سے اقتباس ملاحظہ ہو۔ ''بنام حافظ امام الدین امام اکبر آبادی (ماہ جنوری 1933 از حیدرآباد دکن)

مشفق و مہرباں جناب امام
خط ملا، بعد انتظار تمام
خط کے ہمراہ یہ پیام بھی تھا
یاد ہے دوستوں کو تیرا نام

حضرت فانی کا یہ خط اکیس اشعار کا ہے، اب مولانا ابوالکلام آزاد کے خط سے اقتباس، مولانا کی نثر اﷲ اﷲ خط کی چند سطور ملاحظہ ہوں:
''پونا، 10 ستمبر 1945

میں آپ کو بھولا نہیں ہوں، میں بہت سی باتیں بھول جاتا ہوں، لیکن دوستوں، عزیزوں کو نہیں بھول سکتا، آپ نے جن لفظوں میں اپنے حالات کی سرگزشت سنائی اس سے دل دردمند بہت متاثر ہوا، میں جانتا ہوں کہ زخم خوردہ دلوں سے کیسی صدائیں اٹھ سکتی ہیں۔ پیش ازیں صد داغ بردل داشتم'' اور اب حضرت جوش ملیح آبادی کے تین اشعار جو انھوں نے امام اکبر آبادی صاحب کے لیے لکھے ہیں:

''کیا کہوں کس مزے سے کھیتی ہے
کشتیٔ جاں کو دل کی باد مراد
جوش و حافظ امام کے مابین
یوں پڑی اتحاد کی بنیاد
معنوی حیثیت سے ایک ہوئے
اکبر آباد اور ملیح آباد
جوش (29 مئی 1953، آگرہ)''

کیا دور تھا، کیا ادبی زرخیزی کا زمانہ تھا۔ خوش نصیب تھے امام اکبر آبادی کہ وہ اس زمانے میں ہاتھ میں قلم لیے نہایت متحرک تھے، سبدِ گل میں کیسے کیسے بلند پایہ ادیب و شاعر مرکوز ہیں کہ پڑھنے والا اسی دور میں پہنچ جاتا ہے، رستے رستے، محفل محفل ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ اس مختصر کالم میں مکمل احاطہ نہیں کیا جاسکتا، ہوسکے تو یہ کتاب ضرور پڑھ لیجیے گا۔ یقیناً معروف لائبریریوں میں کتاب موجود ہوگی۔ کتاب کا حصہ اول نثر کا ہے اور اس حصے میں تذکرہ ہے علامہ شبلی نعمانی، علامہ ابوالکلام آزاد، نیاز فتح پوری، مولوی عبدالحق، مولانا ظفر علی خان، مولانا محمد علی جوہر، مولانا عبدالماجد دریا آبادی، ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری، علامہ راشد الخیری، ڈاکٹر سید علی بلگرامی، آغا حشر کاشمیری، شرر لکھنوی، لطیف الدین احمد اکبر آبادی، پروفیسر مجنوں گورکھ پوری، رشید احمد صدیقی، آلِ احمد سرور، سر عبدالقادر، خواجہ حسن نظامی اور رام بابو سکینہ۔

باب دوم (حصہ نظم) میں مندرجہ ذیل شعرا کا تذکرہ ہے خواجہ الطاف حسین حالی، اکبر الٰہ آبادی، علامہ سر اقبال، شاعر انقلاب جوش، فانی بدایونی، اصغر گونڈوی، وحشت کلکتوی، حسرت موہانی، سیماب اکبر آبادی، جگر مراد آبادی، حفیظ جالندھری، برج نرائن چکسبت، مکیش اکبر بیخود دہلوی، سائل دہلوی، دل شاہجہان پوری، تلوک چند محروم، پروفیسر فراق گورکھ پوری، محمود اکبر آبادی، مانی جالسئی، جگن ناتھ آزاد، ملا لکھنوی، گوپی ناتھ امن، فیض احمد فیض اور پروفیسر بھٹناگھر۔

کتاب میں شامل ادیب و شاعر صرف وہ ہیں کہ جنھوں نے اردو زبان کو اپنے فن کا ذریعہ بنایا ہے اور ان میں ہندو ادیب و شاعر بھی شامل ہیں۔ حافظ امام اکبر آبادی صاحب اردو زبان کے لیے نہایت نرم گوشہ رکھتے تھے اور اسی جذبے کے تحت انھوں نے سبدِ گل لکھی تھی میں ایک اور خاص و دلچسپ بات بھی ضرور لکھنا چاہوںگا کہ امام صاحب کی چھوٹی بیٹی بلقیس کو غالب کے آخری شاگرد بیتاب اکبر آبادی سے فارسی زبان پڑھنے کا شرف حاصل تھا۔

حاجی حافظ امام الدین امام اکبر آبادی کا خاندان آج اعلیٰ تعلیمی مدارج کے حصول کے ساتھ باوقار زندگی گزار رہا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں