پلاننگ اور فیملی پلاننگ

تیسرے سال میں کھیلوں کے میدان، اسٹیڈیم، پارک اور دیگر تفریحی مقامات بنانا تھا اور دیگر شعبوں میں مرمت کا کام۔


ظفرالحق میمن August 24, 2015

روس نے انقلاب 1917 کے بعد 5 سالہ منصوبہ بندی کا نظام قائم کیا، جس کے تحت ملک کی تعمیر کے سلسلے میں جو بھی کام کرنا تھے، ان کی درجہ بندی کی گئی اور اس کے بعد ان پر عمل در آمد شروع کیا گیا۔ مثال کے طور پر پہلے سال میں صرف سڑکیں بنانا تھا، باقی کام جیسا کہ اسکولوں، اسپتالوں کی صرف مرمت کرنا تھا، دوسرے سال میں صرف اسکول، اسپتال بنانا تھا، اور سرکاری عمارتوں کی مرمت کرنا تھا۔

تیسرے سال میں کھیلوں کے میدان، اسٹیڈیم، پارک اور دیگر تفریحی مقامات بنانا تھا اور دیگر شعبوں میں مرمت کا کام۔ اس طرح بقیہ دو سالوں میں بھی باری باری نئی تعمیرات اور مرمت کا کام کیا جاتا تھا۔ اس طرح نئے کام بھی ہوتے رہے اور پرانے شعبوں میں مرمت،keep up and maintenance کے کام کیے جاتے تھے۔ چونکہ ان کے ہاں کسی ناقص کام کرنے کا تصور بھی نہیں تھا، اس لیے بجٹ کی ایک ایک پائی ان کاموں پر لگائی جاتی تھی۔ کسی انجینئر یا سرکاری عامل کو رشوت دینے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔

روس کے اس نظام کو مغربی دنیا نے بہت سراہا، بلکہ اپنایا اور کامیابیاں حاصل کیں اورکر رہے ہیں۔ پاکستان میں 1960 کی دہائی میں یہ نظام رائج کیا گیا، لیکن بعد میں مختلف حکومتوں نے اس نظام کو نظر انداز کیا۔

ساٹھ کی دہائی میں جو کام ہوئے، ان سے ہم غیر ترقی یافتہ ملکوں کی صف سے باہر نکل کر ترقی پذیر ممالک کی صف میں جا کھڑے ہوئے، جس کی خوشبو دنیا میں پھیل گئی، جس کی وجہ سے ایشیا کے کچھ ملکوں نے ہماری ترقی کو دیکھنے کے لیے اپنے وفود بھیجے اور ہماری حکومت سے کچھ ماہرین بھی مانگے۔ان میں جنوبی کوریا، سنگاپور اور مشرق وسطیٰ کے ممالک بھی تھے۔نہ صرف یہ بلکہ اپنی ایئر لائنوں کی تعمیر بلکہ ان کو صحیح کرنے کے لیے بھی ہماری پی آئی اے، جس کا باکمال لوگ، لاجواب سروس کا نعرہ دنیا میں گنگنا یا جانے لگا۔ ابوظہبی کی امارات ایئرلائن آج دنیا کے بڑے بڑے ایئر لائنوں میں شمار ہوتی ہے، پی آئی اے کی مہارت کی مرہون منت ہے۔ افسوس ہے کہ آج اسی لاجواب سروس کا جو حال ہے، وہ ناگفتہ بہ ہے۔

دنیا کے بہت سارے ممالک نے ایسے ایسے معجزات کر کے دکھائے ہیں کہ آدمی انگشت بد دندان رہ جاتا ہے اور افسوس ہوتا ہے کہ کیا ہم ایسا کچھ کیوں نہیں کرسکتے؟ کچھ مہینے پہلے میں نے سنگاپورکے مرد آہن لی کوان یو کی وفات کے موقعے پر ایک کالم لکھا تھا، جس میں ان کے کارہائے نمایاں کا جزوی ذکر کیا تھا۔ آج کچھ تفصیل سے ذکر کر رہا ہوں۔ 1959 میں سنگاپور نے ملائیشیا کے ساتھ ایک ملک بنا کر برطانیہ سے آزادی حاصل کی۔ نوجوانوں کی معلومات کے لیے یہ لکھتا چلوں کہ برطانیہ ایک چھوٹا سا ملک ہے، جس کا رقبہ ہمارے صوبہ سندھ کے برابر ہوگا، لیکن اس نے پوری دنیا پر حکومت کی۔ عام مثل تھی کہ

The sun never sets on British Empire

سنگاپور نے آزاد ہوتے ہی سب سے پہلے خواندگی اور فنی تعلیم کو اولیت دی۔ فنی تعلیم کے لیے لوگوں کو دنیا بھرکے فنی technical اداروں میں داخلے کے لیے بھیجا گیا، جو وہاں سے سیکھ کر آئے اور صنعتوں میں کام کرنا شروع کیا، جس سے لوگوں میں محنت اور لگن کا جذبہ ابھرا اور ایک صنعتی ڈھانچہ بنا اور دنیا کے ملکوں نے سرمایہ کاری کی۔ لوگ جب کام میں جْت گئے تو انھیں لسانی، مذہبی اور فرقہ واریت کے لیے فرصت ہی نہیں ملی، جو کہ ہمارے ملک میں بہت زیادہ ہے۔

آزادی کے وقت سنگاپورکی آبادی صرف 10 لاکھ تھی، جو آج 52 لاکھ ہے۔ آبادی کا 74 فی صد چینی، 13 صد ملائی، 9 فی صد ہندستانی اور بقیہ 4 فی صد متفرقہ لوگ ہیں۔البتہ وہاں بزرگ شہریوں کے تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔

تعجب کی بات یہ ہے کہ ہم سے بعد میں وجود میں آنے والے ممالک جس میں چین اور سنگاپور بھی آجاتے ہیں، نے نہ صرف پلاننگ کی بلکہ فیملی پلاننگ بھی کی۔ چین نے ایک بچہ پالیسی بنائی گئی، جس پر لوگوں نے تعاون کیا۔ ہمارے ملک کے ایک سیاح نے بتایا کہ وہ ایک وفد کے ساتھ وہاں گیا۔ ان کی گائیڈ ایک خاتون تھی، جس کے ایک بچہ تھا۔ اس نے بتایا کی وہ دوسرا بچہ بھی چاہتی ہیں، لیکن چونکہ اس کے ملک کے مفاد میں ہے کہ ایک ہی بچہ ہو، اس لیے وہ اس پالیسی پر عمل کرے گی۔ ہمارے ملک میں بچے دو ہی اچھے کا نعرہ بلند کیا گیا، لیکن اس پر حکمرانوں نے ہی عمل نہیں کیا، تو رعایا کہاں عمل کرے گی۔

ہمارے ملک آبادی میں اضافے کی صورتحال یہ ہے کہ ہمارے ہاں تقریبا دو دہائیوں سے مردم شماری نہیں ہوئی ہے، جب کہ دنیا بھر میں مستقبل کی پلاننگ مردم شماری کے بنیاد پر ہی کی جاتی ہے۔ اس سے آبادی کے اضافے کے رجحان، آیندہ سالوں میں ڈاکٹروں، انجینئروں، بینکر، استاد اور ہر شعبے میں کتنے لوگوں کی ضرورت ہوگی، ان کے لیے کتنے اسکول،کالج اور جامعات قائم کرنی ہونگی، نیز کتنے اسپتال اور دیگر ادارے قائم کرنے ہونگے، یہ سب باتیں مردم شماری کے حساب سے طے کیے جاتے ہیں۔ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ اس وقت ملک کی آبادی 18 کروڑ ہے، لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ ہم 20 کروڑ کا ہندسہ کراس کر چکے ہیں۔

بین الاقوامی اندازوں کے مطابق 2050 میں ہماری آبادی 30 کروڑ سے زیادہ ہو جائے گی۔جس کے لیے ہمیں آج سے ہی سوچنا چاہیے۔ ویسے آج کل ہمارے ملک کی آبادی کا اندازہ کسی موٹرسائیکل پر سوار اکثر صاحبان سے بھی لگایا جا سکتا ہے، کہ دو شہزادے پٹرول کی ٹنکی پر، دو شہزادے یا شہزادیاں سوار کے پیچھے،کیریئر پر بیگم صاحبہ، جس کی گود میں ایک بچہ اورہوتا ہے۔ ہم اس مسئلے پر سوچنے اور عمل کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

سب سے بڑی بات یہ ہے کہ سنگاپور میں سیاسی پارٹیوں کے لیے کھلا کھاتہ نہیں رکھا گیا، جب کہ ہمارے ملک میں الیکشن کمیشن کے پاس 305 پارٹیاں رجسٹر ہیں اور ابھی اور پہلوان اکھاڑے میں کودنے کے لیے لنگوٹ کس رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے لیے انتخابی نشانات الاٹ کرنا بہت بڑا چیلنج بن گیا ہے۔ اب صرف کچن کے سامان رہ گئے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ آیندہ انتخابات میں بیلن، چکرا، توا، چمچہ، سل، بٹا وغیرہ ہی نشان کے الاٹ کیے جائیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں