’’امّی کہانی سنائیں نا ۔۔۔‘‘

ایک دورتھارات ہوتےہی بچوں کی زبان پر’’دادی،ہمیں کہانی سنائیں!‘‘ یا ’’امی،ہمیں آج کون سی کہانی سنائیں گی؟‘‘کےجملےتھے


فرحین ریاض August 24, 2015
پرانے زمانے کے لوگ بچوں کو سبق آموز کہانیاں، انبیائے اکرام اور بزرگانِ دین یا تاریخی شخصیت کی کہانیاں سناتے تھے۔۔ فوٹو : فائل

KARACHI: ایک دور تھا را ت ہوتے ہی بچوں کی زبان پر ''دادی، ہمیں کہانی سنائیں!'' یا ''امی، ہمیں آج کون سی کہانی سنائیں گی؟'' جیسے جملے رہا کرتے تھے، روز رات کو بستر پر لیٹتے ہی بچوں کی فرمائشیں شروع ہو جاتی تھیں، بلکہ دوپہر میں سونے والوں بچوں کے لیے بھی کہانی کے بغیر سونے کا تصور نہیں ہوتا تھا۔

دادی، نانی، یا والدین کی یہ کہانیاں کوئی عام کہانیاں نہیں ہوتی تھیں، بلکہ اپنے اندر بہت سی نصیحتیں، ادب و آداب، مذہبی تہذیب و ثقافت کا عکس، اور شخصیت سازی کے لوازمات لیے ہوئے ہوتی تھیں۔ یہ کہانیاں بچوں کے ذہنوں کی تعمیر، ان کی تشکیل میں مدد گار ہوتی تھیں۔ کہانیاں بچوں کو دنیا سے روشناس کراتی ہیں۔ جس طرح ننھے پودے کو بڑھنے کے لیے پانی کھاد اور سورج کی روشنی کی ضرورت ہوتی ہے، بالکل اُسی طرح بچوں کی نشوونما کے لیے بھی بنیادی ضروریات کے ساتھ ذہنی تربیت بھی ضروری ہے۔

پرانے زمانے کے لوگ بچوں کو سبق آموز کہانیاں، انبیائے اکرام اور بزرگانِ دین یا تاریخی شخصیت کی کہانیاں سناتے تھے۔ جس سے ان کی شخصیت میں مزید پختگی آتی تھی۔ زندگی کی اصل حقیقت سے پرُ کہانیاں سنانا بچوں کو بے تکی تخیلاتی دنیا میں لے جانے سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ بچہ جب اس طرح کی کہانی سنے یا پڑھے گا، تو اس کے ذہن میں کہانی کے انداز بیان اور منظر کی تصویر کشی ہوتی ہے، یوں اس کا ذہن کہانی کو اچھی طرح سمجھ لے گا۔

کل کے بچوں نے ان کہانیوں سے بہت کچھ سیکھا اور سمجھا۔ یہ کہانیاں ان کی سوچ وفکر کو سنوارنے کے ساتھ انہیں معاشرے کا کام یاب فرد بنانے میں مدد گار ثابت ہوئیں۔ اگر آپ بھی ذہن پر زور ڈالیں تو آپ کو یاد ہوگا، کیا آج کے بچے کہانی سننا نہیں چاہتے یا آپ کے پاس انہیں کہانی سنانے کا وقت نہیں ہے۔

ٹیلی وژن پر آنے والے رنگا رنگ پروگرام یا مشترکہ خاندانی نظام کی توڑ پھوڑ کو اس صورت حال کی وجہ بتایا جاتا ہے۔ جس نے بچوں کو اپنی نانی، دادی اور دیگر قریبی رشتوں سے الگ کر دیا ہے۔ کہیں والدین کی حد سے بڑھی ہوئی مصروفیت تو نہیں، جس نے بچوں سے ان کا بچپن چھین لیا ہے، فی زمانہ بچوں کو کہانیاں سنانے کا رواج تو اب شاید ہی کسی گھرانے میں باقی ہو۔ گھروں میں بچوں کے ساتھ والدین اور بزرگوں کی بیٹھک اب مفقود ہوتی جا رہی ہے۔

جس میں بچے کھیل کھیل میں کئی سبق سیکھ جاتے تھے، مگر اب یہ منظر نگاہوں سے اوجھل ہو گئے ہیں۔ ضروری نہیں کہ کہانی سنانے والا کوئی بہت ماہر قصہ گو یا کہانی سنانے والا ہو۔ بلکہ مقصد صرف بچوں کو دل چسپ و سبق آموز کہانیوں کے ذریعے ان کی تربیت کا ہے۔ کہانی سنانا بذاتِ خود ایک دل چسپ امر ہے، ماہرین کے مطابق آج کل بچے بصری کہانیوں کے عادی ہو گئے ہیں، ظاہر ہے اس کی وجہ ٹی وی اور کمپیوٹر ہے۔

کارٹون فلم، بچوں کی دیگر فلموں اور ویڈیو گیمز میں بچے کو کہانی کے متعلق سوچنا نہیں پڑتا، کیوں کہ اس کے ذہن میں کوئی خاکہ یا تخیل باقاعدہ بننے کا عمل ہی نہیں ہو رہا ہوتا۔ ان کے اندر معاشرے کے مسائل سے فرار، سستی، کاہلی، خوف اور ماورائی دنیا میں رہنے جیسی منفی سوچیں غالب آرہی ہیں۔

ایسے بچے زیادہ ذہین اور با صلاحیت ہوتے ہیں۔ بچپن میں تواتر سے کہانیاں سننے والے بچے ان بچوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر ثابت ہوتے ہیں، جو سارا دن ٹی وی یا کمپیوٹر کے آگے بیٹھے رہتے ہوں، بچوں کو اپنی دنیا میں کوئی نہ کوئی مشغلہ درکار ہوتا ہے۔ کمپیوٹر، ٹی وی، ویڈیو گیم یا کھلونے۔ بہت سے کھلونے ایسے ہوتے ہیں، جو انہیں متشدد بناتے ہیں یا ان کی اخلاقیات پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں۔

 

آج کل کا بچہ والدین کے بہ جائے ٹی وی، کمپیوٹر او موبائل کو زیا دہ ترجیح دیتا ہے۔ اس غلط روش میں مبتلا کرنے کے ذمہ دار والدین ہی ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں میں ایسی عادات پروان نہ چڑھنے دیں، پورے دن میں ایک وقت مقرر کرلیں، جس میں دادا دادی، نانا نانی، یا خود والدین ہی بچوں کو اپنے پاس بٹھا کر دل چسپ، سبق آموز قصے، مسائل، پرانی باتیں، بچوں کے بچپن کے قصے، تاریخی حوالے سنائیں۔ ساتھ ہی ساتھ بچوں کے مسائل بھی سنیں، ان کا حل تلاش کریں، پرانے وقتوں میں بچوں کی تعلیمی تربیت کا سہل اور مناسب ترین انداز ہوتا تھا۔

بدقسمتی سے آج کل کے والدین بچوں کو دانستہ یا غیر دانستہ طور پر مادیت پرستی کا رحجان دے رہے ہیں، بزرگوں کے تجربے سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ یہ اُن کے لیے بھی ایک صحت مند سرگرمی ثابت ہوتی ہے۔ کہانی سننا محض تفریح یا وقت گزاری نہیں، یہ عمل بچے کو مضبوط مستحکم اور مثبت سوچ دیتا ہے۔ جس وقت بچہ اپنے باپ کے بازو، ماں کے پہلو یا دادا دادی کی گود میں سر رکھ کے کہانی سن رہا ہوتا ہے، تو وہ نہ صرف بہت کچھ سیکھ اور سمجھ رہا ہوتا ہے، بلکہ وہ سماجی اور نفسیاتی طور پر رشتوں سے منسلک اور مضبوط ہو رہا ہوتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں