اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں۔۔۔۔۔۔
فراز کی شاعری، صرف علامتوں کے استعمال کی جدت پسندی نہیں بلکہ احساس اور فکر کی جدت پسندی ہے۔
یہ شاید 1948 یا 1949 کی بات ہے جب پاکستان میں پہلی بار بین المکتبی مشاعرے منعقد ہونا شروع ہوئے تھے، ایک ایسے ہی مشاعرے میں گجرات کے زمیندار کالج میں ہماری ملاقات ہوئی۔ مشاعرہ شروع ہونے سے پہلے بغیر کسی تعارف کے ہم نے ایک دوسرے پر فقرہ بازی شروع کردی، مگر اس فقرے بازی کا نتیجہ غیر متوقع نکلا یعنی ہمارے درمیان دشمنی کے بجائے دوستی پیدا ہوگئی۔ مگر ایسا شاید اس کی زندگی میں بہت ہی کم ہوا ہو کیونکہ عام طور پر اس نے بہت سے دوست اپنی فقرے بازی کے باعث کھو دئیے۔ دوستوں کے بعد اس کے پبلشرز کو بھی اس سے بہت سے شکایات تھیں۔
مجموعی طور پر اسکی شخصیت ایک ایسے کھلنڈرے بچے کی سی ہے جو کسی بھی کھلونے سے زیادہ دیر تک دل نہیں بہلایا جاسکتا، مگر ہر دم بدلتے ہوئے اس مزاج کو مسلسل قائم رکھتا ہے اور اسکی شاعری اسکی شخصیت کی طرح لا ابالی نہیں ہے۔ اس کا ''نظریہ شعر'' پہلے شعر سے لے کر ہر مجموعے تک نہ صرف قائم رہا بلکہ مستحکم بھی رہا، اِس کے بارے یہ رائے اِس کے ایک دوست شہزاد احمد کی تھی۔
سید احمد شاہ کو دنیا ''احمد فراز'' کے نام سے جانتی ہے۔ ایک انٹرویو میں کسی نے شاعری کی ابتداء کے بارے میں سوال کیا تو انہیں نے جواب دیا۔ میں نویں میں تھا، عشق وشق جو ہوتا ہے وہی صورت حال تھی۔ وہ جو پہلی لڑکی جس سے شناسائی ہوئی تو اس نے ایک دن کہا کہ تمہیں بیت بازی آتی ہے؟ میں نے کہا کہ وہ کیا چیز ہوتی ہے؟ وہ دسویں میں تھی ہم نویں میں تھے۔ پھر اس نے سمجھایا کہ کس طرح ہوتی ہے، ہم نے اس کے لئے شعر یاد کئے پھر جب بھی بیت بازی ہوتی تھی وہ جیت جاتی تھی، پھر میں نے سوچا کہ یہ تو بات نہیں بنتی پھر شعر گھڑنے شروع کئے۔ والد صاحب کے ہاں نامی گرامی شعرا آتے تھے۔ ہم نے بھی اُن محفلوں میں بیٹھنا شروع کردیا۔ ایک دفعہ ڈرتے ڈرتے اپنی غزل والدہ کو دی کہ وہ والد صاحب کو دکھائیں، دو دن تک کوئی جواب نہ آیا تو والدہ سے کہا کہ پوچھیں۔ بس پھر میری حاضری ہوگئی اور انہوں نے کہا کہ شرم نہیں آتی۔
احمد فراز جدید شاعروں میں ایک نمایاں مقام رکھتے تھے۔ انہوں نے نظمیں بھی لکھیں اور غزلیں بھی۔ جو چیز نمایاں نظر آتی ہے وہ جدت پسندی ہے۔ جدت پسندی صرف الفاظ کے استعمال کی جدت پسندی نہیں، صرف علامتوں کے استعمال کی جدت پسندی نہیں بلکہ احساس اور فکر کی جدت پسندی ہے۔ جدت پسندی کے مختلف نقوش مختلف انداز میں اپنی بہار دکھاتے ہیں مثلاً موجودہ دور کے نوجوانوں کی جو ذہنی و جذباتی کیفیت ہے اور موجودہ معاشرے میں جو اقدار کی نا ہمواری ہے اس کے سائے میں جو ذہنی و جذباتی کیفیت اس نوجوان کی ہوسکتی ہے اس کو نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ اپنی غزلوں میں پیش کیا اور یہی وجہ ہے کہ ان کی غزلوں نے بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔
احمد فراز نہ صرف نئی نسل کے شاعر تھے بلکہ حقیقی جمہوریت کے وجود پر یقین رکھتے تھے اور یہی وجہ تھی کہ وہ ایسی باتیں بھی بیان کر جاتے تھے جن پر دوسرے شاعر آنکھیں اور ضمیر کی کھڑکیاں بند کر کے جی حضوری کی بانگیں دینے میں ہی عافیت تصور کرتے تھے۔
زیر عتاب بھی رہے، خود ساختہ جلا وطنی بھی اختیار کی۔ اکادمی ادبیات کے بانی سربراہ بھی مقرر ہوئے اور بعد میں نیشنل بک فاؤنڈیشن میں بھی مرکزی عہدے پر رہے۔ 13 کے قریب شاعری مجموعے اپنے سننے والوں کی نظر کئے اور فراز کو بے شمار اعزازات و انعامات سے نوازا بھی گیا، مگر اعلی سرکاری اعزاز ہلال امتیاز واپس کردیا۔ 25 اگست 2008 کو78 برس کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوئے۔ اپنی شاعری سے متعلق فراز کا کہنا تھا کہ،
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس
مجموعی طور پر اسکی شخصیت ایک ایسے کھلنڈرے بچے کی سی ہے جو کسی بھی کھلونے سے زیادہ دیر تک دل نہیں بہلایا جاسکتا، مگر ہر دم بدلتے ہوئے اس مزاج کو مسلسل قائم رکھتا ہے اور اسکی شاعری اسکی شخصیت کی طرح لا ابالی نہیں ہے۔ اس کا ''نظریہ شعر'' پہلے شعر سے لے کر ہر مجموعے تک نہ صرف قائم رہا بلکہ مستحکم بھی رہا، اِس کے بارے یہ رائے اِس کے ایک دوست شہزاد احمد کی تھی۔
سید احمد شاہ کو دنیا ''احمد فراز'' کے نام سے جانتی ہے۔ ایک انٹرویو میں کسی نے شاعری کی ابتداء کے بارے میں سوال کیا تو انہیں نے جواب دیا۔ میں نویں میں تھا، عشق وشق جو ہوتا ہے وہی صورت حال تھی۔ وہ جو پہلی لڑکی جس سے شناسائی ہوئی تو اس نے ایک دن کہا کہ تمہیں بیت بازی آتی ہے؟ میں نے کہا کہ وہ کیا چیز ہوتی ہے؟ وہ دسویں میں تھی ہم نویں میں تھے۔ پھر اس نے سمجھایا کہ کس طرح ہوتی ہے، ہم نے اس کے لئے شعر یاد کئے پھر جب بھی بیت بازی ہوتی تھی وہ جیت جاتی تھی، پھر میں نے سوچا کہ یہ تو بات نہیں بنتی پھر شعر گھڑنے شروع کئے۔ والد صاحب کے ہاں نامی گرامی شعرا آتے تھے۔ ہم نے بھی اُن محفلوں میں بیٹھنا شروع کردیا۔ ایک دفعہ ڈرتے ڈرتے اپنی غزل والدہ کو دی کہ وہ والد صاحب کو دکھائیں، دو دن تک کوئی جواب نہ آیا تو والدہ سے کہا کہ پوچھیں۔ بس پھر میری حاضری ہوگئی اور انہوں نے کہا کہ شرم نہیں آتی۔
احمد فراز جدید شاعروں میں ایک نمایاں مقام رکھتے تھے۔ انہوں نے نظمیں بھی لکھیں اور غزلیں بھی۔ جو چیز نمایاں نظر آتی ہے وہ جدت پسندی ہے۔ جدت پسندی صرف الفاظ کے استعمال کی جدت پسندی نہیں، صرف علامتوں کے استعمال کی جدت پسندی نہیں بلکہ احساس اور فکر کی جدت پسندی ہے۔ جدت پسندی کے مختلف نقوش مختلف انداز میں اپنی بہار دکھاتے ہیں مثلاً موجودہ دور کے نوجوانوں کی جو ذہنی و جذباتی کیفیت ہے اور موجودہ معاشرے میں جو اقدار کی نا ہمواری ہے اس کے سائے میں جو ذہنی و جذباتی کیفیت اس نوجوان کی ہوسکتی ہے اس کو نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ اپنی غزلوں میں پیش کیا اور یہی وجہ ہے کہ ان کی غزلوں نے بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔
احمد فراز نہ صرف نئی نسل کے شاعر تھے بلکہ حقیقی جمہوریت کے وجود پر یقین رکھتے تھے اور یہی وجہ تھی کہ وہ ایسی باتیں بھی بیان کر جاتے تھے جن پر دوسرے شاعر آنکھیں اور ضمیر کی کھڑکیاں بند کر کے جی حضوری کی بانگیں دینے میں ہی عافیت تصور کرتے تھے۔
سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے
ورنہ اتے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئ شمع جلاتے جلاتے
کتنا آسان تھا ترے ہجر میں مرنا جاناں
پھر بھی اک عمر لگی جان سے جاتے جاتے
جشن مقتل ہی نہ برپا ہوا ورنہ ہم بھی
پابجولاں ہی سہی ناچتے گاتے جاتے
اس کی وہ جانے اس پاس وفا تھا کہ نہ تھا
تم فراز اپنی طرف سے تو نبھاتے جاتے
زیر عتاب بھی رہے، خود ساختہ جلا وطنی بھی اختیار کی۔ اکادمی ادبیات کے بانی سربراہ بھی مقرر ہوئے اور بعد میں نیشنل بک فاؤنڈیشن میں بھی مرکزی عہدے پر رہے۔ 13 کے قریب شاعری مجموعے اپنے سننے والوں کی نظر کئے اور فراز کو بے شمار اعزازات و انعامات سے نوازا بھی گیا، مگر اعلی سرکاری اعزاز ہلال امتیاز واپس کردیا۔ 25 اگست 2008 کو78 برس کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوئے۔ اپنی شاعری سے متعلق فراز کا کہنا تھا کہ،
''جب بھی میں کسی باہر کی چیز کو دیکھتا ہوں تو میں اپنے اندر کوئی چیز محسوس کرتا ہوں، ایک بھونچال میرے اندر آتا ہے، جو باہر نہیں آتا، سو جس وقت باہر کے بھونچال اور اندر کی لرزش میں ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے تو اُسی وقت کوئی احساس جاگتا ہے اور وہی احساس کسی جذبے کو، کسی تخلیق کو زندگی بخشتا ہے یا تخلیق کرتا ہے''۔
https://www.dailymotion.com/video/x330ngt_suna-he-loq-usey-tehar-ke-dekhty-hen_news
[poll id="624"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس