سیاست اور جرائم
نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ملک کے بعض سیاستدانوں کی وجہ شہرت سیاست سے زیادہ بدمعاشی رہی ہے۔
ابھی ضلع قصور میں بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی کے سنگین واقعے کی سیاہی خشک بھی نہ ہونے پائی تھی کہ گزشتہ 19 اگست کو صوبہ سندھ میں سکھر سے یہ افسوسناک خبر موصول ہوئی کہ گھوٹکی کے گوٹھ علی مہر میں بدمعاشوں کے ایک ٹولے نے دس سالہ بچوں تک کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ان ظالموں نے اس انسانیت سوز واقعے کی ایک ویڈیو بھی بنائی جسے دیدہ دلیری کی انتہا کہنا چاہیے۔
ہوسناکی کا نشانہ بننے والے ایک لڑکے کے نانا نے اس واقعے میں ملوث مشتبہ افراد کے خلاف تھانے میں کیس درج کراکے بڑی ہمت و جرأت کا مظاہرہ کیا ہے۔ شنید ہے کہ بدمعاشوں کے اسی گروہ نے کچھ عرصہ قبل ایک اور دس سالہ لڑکے کے ساتھ زیادتی کا ارتکاب کیا تھا اور تب بھی واقعے کی ویڈیو بنائی تھی۔ لیکن مظلوم لڑکے کے رشتے داروں نے ان بدمعاشوں کے ڈر اور خوف کی وجہ سے ان کے خلاف کوئی کارروائی کرنے سے گریز کیا تھا۔
قصور اور سکھر سے رپورٹ ہونے والے ان واقعات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سب پولیس اور انتظامیہ کی غفلت یا پشت پناہی کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتا۔ یہ بات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ ہمارے ملک میں پروان چڑھنے والی بہت سی برائیوں کا بنیادی سبب سیاسی اثر و رسوخ ہے جس کے آگے قانون نافذ کرنے والے ادارے اکثر و بیشتر بالکل بے بس اور لاچار نظر آتے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ غنڈے پالنا اور پھر ان کی پشت پناہی کرنا ہمارے بہت سے سیاست دانوں کا پرانا اور محبوب مشغلہ ہے، جس کے بل بوتے پر ان کی سیاست ہر دور میں چمکتی رہتی ہے۔ اسی پس منظر میں تو کسی شاعر نے وطن عزیز کی سیاست کے حوالے سے یہ فرمایا تھا کہ:
مرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ملک کے بعض سیاستدانوں کی وجہ شہرت سیاست سے زیادہ بدمعاشی رہی ہے۔ سب سے زیادہ دکھ اس بات پر ہوتا ہے کہ یہ حال اس ملک کے سیاستدانوں کا ہے جس کے بانی سیاست کو عبادت کا درجہ دیا کرتے تھے۔ یہاں ہماری مراد بابائے قوم اور ان کے رفقائے کار سے ہے جن کی محنت اور دیانتداری کے بغیر اس وطن عزیز کا معرض وجود میں آنا ممکن ہی نہیں تھا۔
وطن عزیز کے آئین میں عوامی نمایندوں کے انتخاب کے حوالے سے بعض اخلاقی قواعدوضوابط کا واضح حوالہ موجود ہے جس کا وقتاً فوقتاً ہمارے میڈیا پر تذکرہ بھی ہوتا رہتا ہے۔ ان میں بعض شرائط ایسی بھی شامل ہیں جن پر پورا نہ اترنے کی صورت میں کوئی امیدوار نااہل بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ مگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس معاملے میں زبانی جمع خرچ تو بہت زیادہ ہے لیکن عملاً کسی پیش رفت کا بڑا شدید فقدان ہے۔ سیدھی اور سچی بات یہ ہے کہ اگر ہمارے سیاست دانوں کا قبلہ درست ہوتا تو ہمارا پیارا وطن بہت سے سنگین مسائل کا شکار نہ ہوا ہوتا۔
افسوس صد افسوس کہ ہمارے بہت سے سیاست دانوں نے سیاست کو عبادت کا درجہ دینا توکجا اسے عملاً اپنا محبوب ترین مشغلہ اور پیشہ بنایا ہوا ہے۔ اس میں صرف قومی اور صوبائی سطح کے سیاست داں ہی نہیں بلکہ مقامی سیاست سے تعلق رکھنے والے عوام کے منتخب نمایندے بھی شامل ہیں۔ ان لوگوں کا ایک بہت بڑا حلقہ اثر ہے جسے اگر باقاعدہ نیٹ ورک کہا جائے تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔کرپٹ سیاست دانوں کے یہ کارندے ہی ان کا آلہ کار ہوتے ہیں جنھیں یہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے موقع بہ موقع خوب استعمال کرتے رہتے ہیں۔
اس حقیقت سے انکارنہیں کیا جاسکتا کہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں، والی کہاوت کے مصداق تمام سیاست دانوں کو ہی برائی کا مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ اس پرآشوب دور میں بھی کچھ سیاست دان ایسے ضرور موجود ہوں گے جنھیں مثالی یا رول ماڈل قرار دیا جاسکتا ہے۔ لیکن ایسے نیک اعمال اور مخلص لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔
اول تو عام انتخابات میں حصہ لینا ہی اتنا مہنگا سودا ہے کہ متوسط درجے کا کوئی شہری اسے باآسانی Afford ہی نہیں کرسکتا۔ پھر اگر وہ اپنی تمام جمع پونجی اکٹھا کرکے الیکشن لڑنے کی ہمت بھی کرلے تو غنڈہ گردی کی سیاست اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن کر حائل ہوجاتی ہے۔ دوسری سب سے بڑی رکاوٹ سیاسی اکھاڑے ہیں جن کے بغیر کسی بھی شریف اور نیک نام شہری کا میدان سیاست میں قدم رکھنا کنوئیں میں چھلانگ لگانے کے مترادف ہے۔
ہمارے دیہی علاقوں میں ذاتوں اور برادریوں کے بل بوتے پر سیاست کرنے کا رواج ہے جس کی وجہ سے بڑے سے بڑا ایماندار اور جذبہ خدمت سے سرشار کوئی بھی مخلص شہری سیاست کے میدان میں قدم رکھتے ہوئے ڈرتا اور ہچکچاتا ہے۔ جس شخص کی برادری جتنی تگڑی ہوگی۔
اس کے امیدوار کی کامیابی کے امکانات بھی اتنے ہی زیادہ اور روشن ہوں گے۔ دیہی علاقوں میں ذات اور برادری کے بعد دوسری بالادستی وڈیروں اور زمینداروں کو حاصل ہے جن کا مقابلہ کرنا کسی بھی عام آدمی کے بس کی بات نہیں خواہ وہ کتنا ہی لائق، قابل، مخلص، ایماندار اور خدمت گزار کیوں نہ ہو۔ ہماری دیہی سیاست میں فیصلہ کن کردار امیدوارکی مالی حیثیت ہی ادا کرتی ہے۔ بقول شاعر:
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا
دوسری جانب شہروں میں سیاسی گروہ بندی کے علاوہ ووٹوں کے لیے نوٹوں کا سہارا بھی لیا جاتا ہے کیونکہ اب سیاست کاروبار کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ جس طرح تجارت میں سرمایہ لگا کر منافع کمایا جاتا ہے اسی طرح اب سیاست میں سرمایہ کاری کرکے منافع پر منافع کمانے کا چلن بھی ہمارے ملک میں اب عام ہوچکا ہے۔ آخر ہمارے ملک کے بڑے بڑے سرمایہ دار اپنی اپنی سیاسی جماعتیں بناکر اور دیگر سیاسی جماعتوں میں شمولیت اختیار کرکے جمہوریت کی لیلیٰ کے مجنوں یوں ہی تو نہیں بن رہے۔
سیاسی اثر و رسوخ سے دولت کمانا اور جائز و ناجائز طریقوں سے کمائی ہوئی بے تحاشا دولت پر ٹیکس کی ادائیگی سے بچنا نہایت آسان اور محبوب نسخہ بن چکا ہے۔
یہ بڑی خوش آیند بات ہے کہ وطن عزیز میں کرپشن اور بدعنوانی میں انتہا سے زیادہ اضافے کے بعد انسداد بدعنوانی کی ایک زبردست لہر اٹھی ہے، جس کے نتیجے میں اب بڑی بڑی سیاسی مچھلیوں بلکہ مگر مچھوں پر ہاتھ ڈالنے کی خبریں بھی بڑے زورو شور کے ساتھ ہمارے میڈیا پر آرہی ہیں۔
اس سلسلے میں ہمارے میڈیا پر بڑی بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنا کردار زیادہ سے زیادہ ہمت و جرأت اور حب الوطنی کے جذبہ سے سرشار ہوکر ادا کرے۔ سیاست کی تطہیر جتنی زیادہ ہوگی جرائم کے ارتکاب میں اسی نسبت سے کمی آتی جائے گی۔ کیونکہ اس کے نتیجے میں ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔