کہ میں زمین کے رشتوں سے کٹ گیا یارو
اور یہ بالکل صحیح بات ہے کیوں کہ ’’رستم‘‘ نے اپنے بیٹے سہراب کو بہت دیر کر کے اس وقت مارا جب وہ جواں ہو گیا تھا
اس شخص کا نام پتہ تو ہمیں معلوم نہیں ہو سکا لیکن ''کام'' اس نے ایسا کیا تھا کہ رہتی دنیا تک کے لیے ریکارڈ پر ثبت ہو گیا ہے۔کچھ علماء کے نزدیک وہ شیخ چلی کا کوئی رشتہ دار تھا جب کہ چند مستند محققین کے مطابق وہ خود شیخ چلی بہ نفس نفیس تھا۔
کچھ عربی فارسی پسند دانشوروں کا بیان ہے کہ اس کا خواجہ یا ملا نصیر الدین سے بھی کوئی ننھیالی دریالی یا سسرالی رشتہ تھا لیکن تازہ ترین تحقیق جو ہم نے پشتو اکیڈمی، اکادمی ادبیات، مقتدرہ قومی زبان اور قانون نافذ کرنے والے ''اداروں'' کے اصول تحقیق کے مطابق کی ہے کہ وہ کوئی اور نہیں بلکہ پاکستان کے لیڈران کرام اور راہ نمایان عظام کا کوئی جد امجد یا جد غیر امجد تھا کیوں کہ اس نے جو کام کیا تھا اور جس کے وجہ سے نیک نام اور مشہور عام بل کہ طشت ازبام ہوا ویسے ہی کام مذکورہ لوگ اب بھی کرتے رہتے ہیں جس کا غالب نے یوں ذکر کیا ہے کہ
نام میں میرے ہے وہ دکھ کہ کسی کو نہ ملا
کام میں میرے ہے وہ ''فتنہ'' کہ برپا نہ ہوا
جو کام اس مذکورہ شخص نے کیا تھا وہ تو کیا تھا لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ چلتے چلتے وہ کام سیاست کا اور پھر خاص طور پر پاکستانی سیاست کا مین آئٹم بن گیا، اس کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح سقراط کو افلاطون ، افلاطون کو ارسطو اور ارسطو کو سکندر جیسا شاگرد ملا، ٹھیک اسی طرح ہمارے لیڈران کرام اور راہ نمایان عظام کو امریکا جیسا استاد اور آئی ایم ایف جیسا سرپرست ملا اور اس نے ایک نعرہ مستانہ بنا کر اس کام کا آغاز کر دیا جو دن دونی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے اور یہ لوگ خوش ہو کر تالیاں بجاتے ہیں کہ
کودا ترے گھر میں کوئی یوں دھم سے نہ ہو گا
جو کام کیا ہم نے وہ رستم سے نہ ہو گا
اور یہ بالکل صحیح بات ہے کیوں کہ ''رستم'' نے اپنے بیٹے سہراب کو بہت دیر کر کے اس وقت مارا جب وہ جواں ہو گیا تھا جب کہ ہمارے یہ رستم اپنے انسٹرکٹر امریکا اور پیر و مرشد آئی ایم ایف کی ہدایت پر اپنے بچوں کو پیدا ہونے سے پہلے ہی مار ڈالتے ہیں، اب وہ اتنے قرض دار ہو کر بھی زندہ رہ جاتے ہیں تو اسے سخت جانی کے ساتھ بے شرمی بھی کہا جا سکتا ہے۔
اتنے قرضوں کے نیچے تو پہاڑ بھی اپنی پیدائش سے پہلے ہی دب کر مر جائے۔ اتنی ہی تمہید کافی ہو گی کیوں کہ ایک شریف آدمی کا دماغ ''بلونے'' کے لیے اتنی ہی تمہید کافی ہے۔ اب وہ ''کام'' جو بظاہر کارنامہ لگتا ہے وہ شخص درخت کی ایک موٹی سی شاخ پر بیٹھا تھا اور اسی شاخ کو ذرا اوپر کر کے کاٹ رہا تھا، اس وقت ایک ''عوام'' نے جو اس راستے سے گزر رہا تھا دیکھا تو بولا ، دیکھو اس طرح تو تم اس شاخ کے ساتھ ہی گر جاؤ گے لیکن وہ لیڈروں کا جد امجد تھا جو ''عوام'' کی بات مانے چنانچہ ویسے ہی لگا رہا ۔۔۔۔ ابھی وہ عوام اپنا سا منہ لے کر کچھ زیادہ دور نہیں گیا تھا کہ واقعی وہ شاخ کٹ گئی اور وہ شخص گر پڑا، اچھی خاصی چوٹیں آئیں لیکن چوٹوں کی پروا نہ کرتے ہوئے سوچا کہ وہ مشورہ دینے والا ''عوام'' تو بڑا ہوشیار ہے چنانچہ دوڑ کر اسے روکا اور بولا، مجھے یہ بتا دو کہ آخر تجھے پہلے سے یہ علم کیسے ہو گیا تھا کہ اس شاخ کے ساتھ میں بھی گر پڑوں گا، تم تو بڑے دور اندیش مستقبل بین بلکہ دوربین ہو۔ اس پر ''عوام'' نے کہا، اے احمق الذی اس میں دوربینی دور اندیشی اور کمال کی بات کیا ہے جس شاخ پر تم بیٹھے تھے اسی کو کاٹ رہے تھے تو نتیجہ اس کے سوا اور کیا ہو سکتا تھا۔
ترے ''بھیجے'' میں حماقت کے سوا کچھ بھی نہیں
اس لیے زندگی درگت کے سوا کچھ بھی نہیں
اب اس دوسری تمہید کے بعد بحیثیت عوام کے ہم یہ پیش گوئی کر سکتے ہیں کہ تقریباً دس بارہ سال بعد پاکستان میں اتنی سی بھی زمین نہیں بچے گی جس کے اوپر بغیر سینگوں والا جانور کھڑا ہو کر ڈھنیچوں ڈھنیچوں کر سکے، کیوں کہ جس رفتار کے ساتھ ہاؤسنگ اسکیمیں لانچ ہو رہی ہیں۔
اس حساب سے زمین تو نہیں بڑھے گی البتہ کھیت سکڑتے سکڑتے پودینے کے لیے بھی باقی نہیں بچیں گے، پارسیوں کے مذہبی اسطورہ ''اوستا'' میں ایک بڑی دل چسپ کہانی درج ہے جو عین ہمارے حال پر منطبق ہوتی ہے۔ کہانی کے مطابق ''آہو رمزدا'' یعنی خدائے خیر ''یزدان'' نے ''یما''سے کہا کہ تمہاری آبادی یہاں بہت بڑھ گئی اور وہ دن بہت قریب ہے جب یہاں بھیڑ کے بچے کو اپنے پیر ٹکانے کے لیے بھی جگہ نہیں ملے گی، اس لیے تم چنیدہ لوگوں، جانوروں اور بیجوں کو لے کر کسی ہموار اور گرم علاقے کی طرف نکل جاؤ۔ یما یا یم وہی ہستی ہے جسے عام طور پر ''جمشید'' کہا جاتا ہے۔ ''یم'' سے ''جم'' اور جم سے جمشید ۔۔۔ اس کا ایک ''جام'' بھی مشہور ہے۔
اور بازار سے لے آئیں گے گر ٹوٹ گیا
ساغر جم سے میرا جام سفال اچھا ہے
جمشید چل پڑا لیکن خدائے شرانگرامینو (اہرمن) نے ان پر برف کا طوفان بھیج دیا اور وہ راستہ بھٹک کر موجودہ بلخ کے مقام پر پہنچے اور یہاں ''نیا وارہ'' آباد کیا، یہ ''وارہ'' ہوبہو کشتی نوح منو کی کشتی (ہند) اتنا پشتم کی کشتی (عراق) اور ڈیوکلین کے صندوق (یونان) کی مماثل ہے جو طوفان سے نسل انسانی کو اور چنیدہ جانوروں پرندوں اور بیجوں کے بچا لانے کا قصہ ہے لیکن ہمیں اس قصے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے کہ آخر بہت ساری اقوام میں اس طوفان اور اس سے بچنے کی کہانی ایک جیسی کیوں ہے بلکہ بتانا یہ مقصود ہے کہ انسانی نسل پر ''زمین تنگ'' ہونے کا یہ قصہ بہت پرانا ہے۔
ہوتا رہا ہے اور اکثر ہوتا رہے گا کہ موجود زمین یا خطے پر زور آور قابض ہو جاتے ہیں اور قلت خوراک اور کثرت آبادی کے باعث ''کم زوروں''کو ہجرت اور نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑتا ہے حالانکہ انسان آسانی سے وہ مٹی چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوتا ہے جہاں اس نے گھٹنوں کے بل چلنا اور گھٹسنا سیکھا ہو اور جہاں کی بچپن میں اس نے جب مٹی کھائی ہو، لیکن دوسری درد ناک حقیقت وہ ہے کہ جب کسی پر اپنی زمین تنگ کر دی جاتی ہے تو اسے یہ زہر کا گھونٹ بھی پینا ہی پڑتا ہے، ایک پشتو ٹپہ ہے
سوک پہ رضا د ملکہ نہ زی
یا ڈیر غریب شی یا دیار دلاسہ زینہ
یعنی کوئی خوشی سے اپنا وطن اپنی زمین اپنا ملک نہیں چھوڑتا لیکن بہت غریب ہو جائے یا بے بس ہو جاتا ہے تو یہ بھی کرنا پڑتا ہے کیوں کہ زندہ تو بہرحال رہنا پڑتا ہے ، چاہے کہیں بھی ہو اور کیسا ہی کیوں نہ ہو۔
بیٹھ جاتے ہیں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے
اس وقت پاکستان پر ایسا لگتا ہے جیسے دیوؤں نے حملہ کر دیا ہو جو راتوں رات زمینوں کو اپنے اصل کام سے روک کر سیمنٹ اور سریئے کے جنگل اُگائے جائے جارہے ہیں، خوب صورت چہروں کے ساتھ جنت نما رہائشی اسکیموں کا ایک سیلاب بلا امڈ رہا ہے جس کے پاس ''ٹکے'' ہیں جو یقینی طور پر ناجائز ہوتے ہیں ورنہ جائز کاموں میں تو زندہ رہنا تک مشکل ہو چکا ہے۔
وہ اچھی بھلی سرسبز زمینوں کو اجاڑنے پر تلا ہوا ہے ہو گا اور یقیناً ایسا بہت جلد ہی ہونے والا ہے کہ یہ لوگ پرکشش پرتعیش رہائشی اسکیمیں چھابڑیوں میں ڈال کر سر پر رکھے ہوئے گلی گلی کوچہ کوچہ پھریں گے اور خریدار ہاتھ نہیں لگیں گے ۔۔۔۔ لیکن تب جب ''سارے کھیت'' چہرے اور اجڑے ہوئے ہوں گے کیوں کہ کئی ممالک میں ایسا ہو چکا ہے، ہمیں ایسا لگتا ہے کہ دنیا کے سب سے عجوبہ اور نرالے ملک پاکستان میں بھی یہ طوفان برپا ہو چکا ہے۔
جمشید کے پاس تو پھر ایک ''عصا'' تھا جس سے اس نے تین بار زمین کو آہو رمزدا کی مدد سے فراخ کیا تھا اور زمین میں بھی اور فراخ ہونے کی گنجائش نہیں رہی ہے بلکہ روز بروز گھٹ رہی ہے، تنگ ہو رہی ہے اور یہ بہت زیادہ ڈرا دینے والی بات اس لیے ہے کہ کثرت آبادی اور قلت خوراک کا سلسلہ پہلے سے بھی زیادہ شروع ہو چکا ہے اور یہ کم بخت انسان ۔۔۔۔ نہ تو سیمنٹ سریا اور اینٹ کھا سکتا ہے نہ کرنسی اس کا پیٹ بھر سکتی ہے نہ بینک کارخانے اور مشینریاں اس کی بھوک مٹا سکتی ہیں، بھوک مٹانے کا ''سامان'' صرف زمین کے پاس ہے اور زمین کو اگر سیمنٹ پوش سریا پوش تارکول پوش کر دیں گے تو پھر
ملی ہواؤں میں اڑنے کی یہ سزا یارو
کہ میں زمین کے رشتوں سے کٹ گیا یارو
کچھ عربی فارسی پسند دانشوروں کا بیان ہے کہ اس کا خواجہ یا ملا نصیر الدین سے بھی کوئی ننھیالی دریالی یا سسرالی رشتہ تھا لیکن تازہ ترین تحقیق جو ہم نے پشتو اکیڈمی، اکادمی ادبیات، مقتدرہ قومی زبان اور قانون نافذ کرنے والے ''اداروں'' کے اصول تحقیق کے مطابق کی ہے کہ وہ کوئی اور نہیں بلکہ پاکستان کے لیڈران کرام اور راہ نمایان عظام کا کوئی جد امجد یا جد غیر امجد تھا کیوں کہ اس نے جو کام کیا تھا اور جس کے وجہ سے نیک نام اور مشہور عام بل کہ طشت ازبام ہوا ویسے ہی کام مذکورہ لوگ اب بھی کرتے رہتے ہیں جس کا غالب نے یوں ذکر کیا ہے کہ
نام میں میرے ہے وہ دکھ کہ کسی کو نہ ملا
کام میں میرے ہے وہ ''فتنہ'' کہ برپا نہ ہوا
جو کام اس مذکورہ شخص نے کیا تھا وہ تو کیا تھا لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ چلتے چلتے وہ کام سیاست کا اور پھر خاص طور پر پاکستانی سیاست کا مین آئٹم بن گیا، اس کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح سقراط کو افلاطون ، افلاطون کو ارسطو اور ارسطو کو سکندر جیسا شاگرد ملا، ٹھیک اسی طرح ہمارے لیڈران کرام اور راہ نمایان عظام کو امریکا جیسا استاد اور آئی ایم ایف جیسا سرپرست ملا اور اس نے ایک نعرہ مستانہ بنا کر اس کام کا آغاز کر دیا جو دن دونی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے اور یہ لوگ خوش ہو کر تالیاں بجاتے ہیں کہ
کودا ترے گھر میں کوئی یوں دھم سے نہ ہو گا
جو کام کیا ہم نے وہ رستم سے نہ ہو گا
اور یہ بالکل صحیح بات ہے کیوں کہ ''رستم'' نے اپنے بیٹے سہراب کو بہت دیر کر کے اس وقت مارا جب وہ جواں ہو گیا تھا جب کہ ہمارے یہ رستم اپنے انسٹرکٹر امریکا اور پیر و مرشد آئی ایم ایف کی ہدایت پر اپنے بچوں کو پیدا ہونے سے پہلے ہی مار ڈالتے ہیں، اب وہ اتنے قرض دار ہو کر بھی زندہ رہ جاتے ہیں تو اسے سخت جانی کے ساتھ بے شرمی بھی کہا جا سکتا ہے۔
اتنے قرضوں کے نیچے تو پہاڑ بھی اپنی پیدائش سے پہلے ہی دب کر مر جائے۔ اتنی ہی تمہید کافی ہو گی کیوں کہ ایک شریف آدمی کا دماغ ''بلونے'' کے لیے اتنی ہی تمہید کافی ہے۔ اب وہ ''کام'' جو بظاہر کارنامہ لگتا ہے وہ شخص درخت کی ایک موٹی سی شاخ پر بیٹھا تھا اور اسی شاخ کو ذرا اوپر کر کے کاٹ رہا تھا، اس وقت ایک ''عوام'' نے جو اس راستے سے گزر رہا تھا دیکھا تو بولا ، دیکھو اس طرح تو تم اس شاخ کے ساتھ ہی گر جاؤ گے لیکن وہ لیڈروں کا جد امجد تھا جو ''عوام'' کی بات مانے چنانچہ ویسے ہی لگا رہا ۔۔۔۔ ابھی وہ عوام اپنا سا منہ لے کر کچھ زیادہ دور نہیں گیا تھا کہ واقعی وہ شاخ کٹ گئی اور وہ شخص گر پڑا، اچھی خاصی چوٹیں آئیں لیکن چوٹوں کی پروا نہ کرتے ہوئے سوچا کہ وہ مشورہ دینے والا ''عوام'' تو بڑا ہوشیار ہے چنانچہ دوڑ کر اسے روکا اور بولا، مجھے یہ بتا دو کہ آخر تجھے پہلے سے یہ علم کیسے ہو گیا تھا کہ اس شاخ کے ساتھ میں بھی گر پڑوں گا، تم تو بڑے دور اندیش مستقبل بین بلکہ دوربین ہو۔ اس پر ''عوام'' نے کہا، اے احمق الذی اس میں دوربینی دور اندیشی اور کمال کی بات کیا ہے جس شاخ پر تم بیٹھے تھے اسی کو کاٹ رہے تھے تو نتیجہ اس کے سوا اور کیا ہو سکتا تھا۔
ترے ''بھیجے'' میں حماقت کے سوا کچھ بھی نہیں
اس لیے زندگی درگت کے سوا کچھ بھی نہیں
اب اس دوسری تمہید کے بعد بحیثیت عوام کے ہم یہ پیش گوئی کر سکتے ہیں کہ تقریباً دس بارہ سال بعد پاکستان میں اتنی سی بھی زمین نہیں بچے گی جس کے اوپر بغیر سینگوں والا جانور کھڑا ہو کر ڈھنیچوں ڈھنیچوں کر سکے، کیوں کہ جس رفتار کے ساتھ ہاؤسنگ اسکیمیں لانچ ہو رہی ہیں۔
اس حساب سے زمین تو نہیں بڑھے گی البتہ کھیت سکڑتے سکڑتے پودینے کے لیے بھی باقی نہیں بچیں گے، پارسیوں کے مذہبی اسطورہ ''اوستا'' میں ایک بڑی دل چسپ کہانی درج ہے جو عین ہمارے حال پر منطبق ہوتی ہے۔ کہانی کے مطابق ''آہو رمزدا'' یعنی خدائے خیر ''یزدان'' نے ''یما''سے کہا کہ تمہاری آبادی یہاں بہت بڑھ گئی اور وہ دن بہت قریب ہے جب یہاں بھیڑ کے بچے کو اپنے پیر ٹکانے کے لیے بھی جگہ نہیں ملے گی، اس لیے تم چنیدہ لوگوں، جانوروں اور بیجوں کو لے کر کسی ہموار اور گرم علاقے کی طرف نکل جاؤ۔ یما یا یم وہی ہستی ہے جسے عام طور پر ''جمشید'' کہا جاتا ہے۔ ''یم'' سے ''جم'' اور جم سے جمشید ۔۔۔ اس کا ایک ''جام'' بھی مشہور ہے۔
اور بازار سے لے آئیں گے گر ٹوٹ گیا
ساغر جم سے میرا جام سفال اچھا ہے
جمشید چل پڑا لیکن خدائے شرانگرامینو (اہرمن) نے ان پر برف کا طوفان بھیج دیا اور وہ راستہ بھٹک کر موجودہ بلخ کے مقام پر پہنچے اور یہاں ''نیا وارہ'' آباد کیا، یہ ''وارہ'' ہوبہو کشتی نوح منو کی کشتی (ہند) اتنا پشتم کی کشتی (عراق) اور ڈیوکلین کے صندوق (یونان) کی مماثل ہے جو طوفان سے نسل انسانی کو اور چنیدہ جانوروں پرندوں اور بیجوں کے بچا لانے کا قصہ ہے لیکن ہمیں اس قصے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے کہ آخر بہت ساری اقوام میں اس طوفان اور اس سے بچنے کی کہانی ایک جیسی کیوں ہے بلکہ بتانا یہ مقصود ہے کہ انسانی نسل پر ''زمین تنگ'' ہونے کا یہ قصہ بہت پرانا ہے۔
ہوتا رہا ہے اور اکثر ہوتا رہے گا کہ موجود زمین یا خطے پر زور آور قابض ہو جاتے ہیں اور قلت خوراک اور کثرت آبادی کے باعث ''کم زوروں''کو ہجرت اور نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑتا ہے حالانکہ انسان آسانی سے وہ مٹی چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوتا ہے جہاں اس نے گھٹنوں کے بل چلنا اور گھٹسنا سیکھا ہو اور جہاں کی بچپن میں اس نے جب مٹی کھائی ہو، لیکن دوسری درد ناک حقیقت وہ ہے کہ جب کسی پر اپنی زمین تنگ کر دی جاتی ہے تو اسے یہ زہر کا گھونٹ بھی پینا ہی پڑتا ہے، ایک پشتو ٹپہ ہے
سوک پہ رضا د ملکہ نہ زی
یا ڈیر غریب شی یا دیار دلاسہ زینہ
یعنی کوئی خوشی سے اپنا وطن اپنی زمین اپنا ملک نہیں چھوڑتا لیکن بہت غریب ہو جائے یا بے بس ہو جاتا ہے تو یہ بھی کرنا پڑتا ہے کیوں کہ زندہ تو بہرحال رہنا پڑتا ہے ، چاہے کہیں بھی ہو اور کیسا ہی کیوں نہ ہو۔
بیٹھ جاتے ہیں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے
اس وقت پاکستان پر ایسا لگتا ہے جیسے دیوؤں نے حملہ کر دیا ہو جو راتوں رات زمینوں کو اپنے اصل کام سے روک کر سیمنٹ اور سریئے کے جنگل اُگائے جائے جارہے ہیں، خوب صورت چہروں کے ساتھ جنت نما رہائشی اسکیموں کا ایک سیلاب بلا امڈ رہا ہے جس کے پاس ''ٹکے'' ہیں جو یقینی طور پر ناجائز ہوتے ہیں ورنہ جائز کاموں میں تو زندہ رہنا تک مشکل ہو چکا ہے۔
وہ اچھی بھلی سرسبز زمینوں کو اجاڑنے پر تلا ہوا ہے ہو گا اور یقیناً ایسا بہت جلد ہی ہونے والا ہے کہ یہ لوگ پرکشش پرتعیش رہائشی اسکیمیں چھابڑیوں میں ڈال کر سر پر رکھے ہوئے گلی گلی کوچہ کوچہ پھریں گے اور خریدار ہاتھ نہیں لگیں گے ۔۔۔۔ لیکن تب جب ''سارے کھیت'' چہرے اور اجڑے ہوئے ہوں گے کیوں کہ کئی ممالک میں ایسا ہو چکا ہے، ہمیں ایسا لگتا ہے کہ دنیا کے سب سے عجوبہ اور نرالے ملک پاکستان میں بھی یہ طوفان برپا ہو چکا ہے۔
جمشید کے پاس تو پھر ایک ''عصا'' تھا جس سے اس نے تین بار زمین کو آہو رمزدا کی مدد سے فراخ کیا تھا اور زمین میں بھی اور فراخ ہونے کی گنجائش نہیں رہی ہے بلکہ روز بروز گھٹ رہی ہے، تنگ ہو رہی ہے اور یہ بہت زیادہ ڈرا دینے والی بات اس لیے ہے کہ کثرت آبادی اور قلت خوراک کا سلسلہ پہلے سے بھی زیادہ شروع ہو چکا ہے اور یہ کم بخت انسان ۔۔۔۔ نہ تو سیمنٹ سریا اور اینٹ کھا سکتا ہے نہ کرنسی اس کا پیٹ بھر سکتی ہے نہ بینک کارخانے اور مشینریاں اس کی بھوک مٹا سکتی ہیں، بھوک مٹانے کا ''سامان'' صرف زمین کے پاس ہے اور زمین کو اگر سیمنٹ پوش سریا پوش تارکول پوش کر دیں گے تو پھر
ملی ہواؤں میں اڑنے کی یہ سزا یارو
کہ میں زمین کے رشتوں سے کٹ گیا یارو