سرقہ سازی کی صنعت

ہمارے شہر میں بھی دوسرے شہروں کی طرح کئی صاحبان ’’کئی کئی صاحب دیوان‘‘ ہوچکے ہیں

ادب پر قلم اٹھانا خاصی بے ادبی ہوتی کبھی مگر اب نہیں! فی زمانہ مفہوم ادب ہی ''بے ادبی'' ہے، ہماری مراد اس ادب سے نہیں ہے جو چھوٹے بڑوں کا کیا کرتے تھے اس کا زمانہ تو کب کا ''لد'' گیا، ہماری گفتگو کا محور تحریری ادب ہے، ادب ہی کی ایک صنف کالم نگاری، مضمون نگاری ہے اور آج کل اس میں ہر ایک کا ''طوطی'' بول رہا ہے پتہ نہیں چل رہا کہ ''طوطی'' ہے یا طوطی کا ''ساؤنڈ ایفیکٹ''۔ جب سے ہم نے کالم لکھنا شروع کیا تو ایک اپنا انداز بغیر کسی پرواہ کے کہ لوگ پسند نہ کریں یا کریں ہے۔

بات کہنے کا اپنا ایک ڈھنگ ہے جو سدا سے ہے۔ ادھر ادھر ''فرسٹ ڈویژن'' والے دونوں طریقے اپنے بس کی بات نہیں تھی، پاگل پن کی حد تک پڑھنا یا نقل کرنا۔ بس اتنا پڑھا کہ آرام سے تین گھنٹے میں اپنی سوچ کے مطابق لکھا نتیجہ سیکنڈ ڈویژن۔ خیر بات جو کر رہے تھے اس پر واپس آتے ہیں۔

تو ہم نے مشاہدہ کیا اور دیکھا کہ اخبارات میں ظاہر ہے کہ لکھتے ہیں تو لکھنے والے سب کچھ پڑھتے بھی ہیں ایک تو یہ نظر آیا کہ ہر شخص مزاح لکھنے کی کوشش میں ہے اور انداز وہی گھسا پٹا کوئی فرضی کردار جو ایک زمانے سے پشاور کے ایک کالم نویس صاحب رکھتے آئے جو انھوں نے شوکت تھانوی اور ایسے ہی اس زمان کے لکھنے والوں سے ''مستعار'' لیا۔ مدتوں وہ لکھتے رہے اور بہت سے دوسرے صاحبان اس زمانے میں ہم لکھتے نہیں تو پڑھتے تھے! تو اب یہ ''مذاق'' پرانا ہوچکا ہے۔

مذاق کو ہر دو معنی میں سمجھ لیجیے گا (سہیل صاحب کی اجازت سے) دوسرے ہم نے یہ بھی دیکھا کہ کچھ صاحبان اچھا خاصا اپنے میدان میں لکھتے لکھتے دوسروں کے قلم دان سے اور دوات سے لکھنا شروع ہوگئے۔ یہ ہے ''ادبی باریکی کے ساتھ سرقہ '' کچھ لوگوں نے آسان راستہ ڈھونڈ لیا چار کتابیں خرید لیں سابقہ دانشوروں کی اور ان سے کچھ واقعات کچھ ''اقوال'' ، ''کچھ حادثات'' قسم کے معاملات اٹھائے اور کالم میں ڈالے ادھر ادھر چلایا اور ''جامن'' تیار۔ اب یہ ''جامن تیار'' سمجھ میں نہ آئے تو میرا قصور نہیں عام سی بات ہے۔

تو تھوڑا سا افسوس بھی ہوتا ہے کہ لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں اپنے ساتھیوں یعنی کالم نگاروں کی بات میں نے پہلے کی ہے تاکہ جانبداری کا الزام نہ ثبت ہوجائے ہم پر۔ اب جناب مضامین اور شاعری کو دیکھ لیجیے یاد رکھیے کہ یہ وہ ملک ہے جس نے دنیا میں ریکارڈ جعلسازی کی ہے دنیا بھر میں اور دنیا بھر کو اس کا فائدہ (ان کے خیال کے مطابق جنھوں نے کیا ہے) پہنچایا اور جہاں ایک صوبے کے وزیر اعلیٰ کا جعلی ڈگری پر تبصرہ تھا ڈگری ڈگری ہوتی ہے۔ ہم بات کر رہے تھے شعر و ادب کے ڈھٹائی سے ''سرقے'' کی۔

سوشل میڈیا پر یہ ''چوریاں'' عام ہوچکی ہیں بالکل اسی طرح جس طرح اب مضامین اور شاعری کی چوری کا سلسلہ ''دھڑلے'' سے جاری ہے اور کم بخت شرماتے بھی نہیں کہ کسی شاعر کے کلام کا چربہ اس شاعرکے سامنے ہی پڑھ رہے ہیں۔ ''بے شرمی'' اور ''ڈھٹائی'' کا یہ عالم ہے۔ میں نام نہیں لکھوں گا بڑے بڑے نامور لکھنے والے جن کے نام قلم کی نوک پر ہیں مگر ان کا ادب مانع ہے اور ادب کی حرمت بھی پیش نظر کہ اب یہ قصہ ''پارینہ'' ہوا۔ وہ بھی اپنے وقتوں میں غیر ملکی ادب کی خوشہ چینی کرکے ملکوں میں معروف ہوئے دونوں میں بھارت اور پاکستان میں شعرا تنگدستی کے سبب اپنا کلام ''غیر شعرا'' کو فروخت کرکے اپنے سامنے سنا کرتے تھے اور داد بھی دینا ہوتی تھی کہ صرف تخلص تبدیل تھا اس شخص کا شاعری سے کوئی ''علاقہ'' نہیں تھا۔


یہ اب بھی ہو رہا ہے پہلے لوگ پیسہ خرچ کرکے کلام خریدتے تھے اپنا پڑھنے اور شاعر کہلانے کا شوق پورا کرتے تھے اب براہ راست ''چرا'' لیتے ہیں اور جاہلانہ ترمیم و تنسیخ کرکے ''اپنا '' قرار دے دیتے ہیں۔ اردو کے کئی افسانہ نگار بین الاقوامی ''سرقہ'' کیا کرتے تھے اور وہ پلاٹ اس طرح اپنا لیتے تھے جیسے آج کل ''قبضہ مافیا'' خالی پلاٹس کے ساتھ کرتا ہے اور چونکہ وہ غیر ملکی پلاٹ ہوتے تھے ان کو اردو میں تبدیل کرنے سے ایک ''خوبصورت یاسیت'' ان میں آجاتی تھی جو اصل افسانے میں تھی اور جس سے کسی طرح ''مفر'' نہ تھا تو وہ ایک عجیب ''دلکش تحریر'' بن جاتی تھی اور ان افسانہ نگار کی واہ واہ ہوجاتی تھی آج تک ہے۔

کم لوگ جانتے ہیں کہ یہ ''مال'' کہاں کا ہے۔ ہمارے شہر میں بھی دوسرے شہروں کی طرح کئی صاحبان ''کئی کئی صاحب دیوان'' ہوچکے ہیں اگر سامنے بٹھا کر کہا جائے کہ ذرا ''ہوا'' پر ایک دو شہر کہہ دو تو ان کی ساری شاعری ''ہوا'' ہوجائے گی مگر کوئی قانون نہیں ہے نا۔ ادب کو آپ قانون میں نہیں لاسکتے یہ تو آپ کا اپنا اندر کا قانون ہے جسے ''ضمیر'' کہتے ہیں وہ آپ کو بیدار کرتا رہتا ہے مگر آپ ہیں کہ ''الٹنے'' کا نام ہی نہیں لیتے۔اب آپ کو اردو بہت صاف کرکے لکھنا پڑتی ہے اب وہ لوگ نہیں رہے جو ''کاتب کی کانٹ چھانٹ'' کا کام کرتے تھے اب وہ تو جو سمجھ میں آتا ہے لکھ دیتے ہیں چاہے آپ کے کالم یا مضمون کا کچھ بھی ''حشر'' ہوجائے۔ بات دراصل یہ ہے کہ ان کا کام ہے یہ ان کو اس سے دلچسپی نہیں ہے کہ آپ نے کیا اور کتنا اچھا لکھا ہے۔ یہ ایک مجموعی حال ہے معاشرے کا کسی ایک کا کوئی قصور نہیں۔ یہ ایک زوال پذیر معاشرہ ہے۔

Merit ختم ہوچکا تو اب ''کوالٹی'' بھی ختم سمجھو۔ ایسے ہی ''تن آسان'' شاعر اور ادیب آپ کو نظر آئیں گے جو دوسروں کے کیے ہوئے کام کو اپنا نام لکھیں گے اور نامور کہلائیں گے۔ کراچی اور دوسری کئی یونیورسٹیوں میں تو بہت سے Ph.D. بھی ایسے رہے جن کا Thesis چوری کا تھا۔ بھلا بتائیے جہاں استاد دو نمبر ہے تو شاگرد تو دس نمبر ہوگا ہی۔ اور یہ معاشرہ ایسے استاد شاگردوں سے بھرا پڑا ہے۔ مرد و خواتین اساتذہ کو صرف تنخواہ اور سہولیات سے غرض ہے رزلٹ اچھا کرنے کے اب یہ طریقے نہیں ہیں ''وہ'' طریقے ہیں۔ یہ طریقے سے مراد طالب علموں کو پڑھانا اور پڑھنا ہے۔

اساتذہ زیادہ کلاس لینا نہیں چاہتے بس ایک کلاس دن بھر میں یعنی ایک پیریڈ ۔انھیں گھر پر دوسرے کام ہیں خصوصاً خواتین ٹیچرز کو۔ وہ لوگ کون تھے جو بلامعاوضہ Extra Classes لیا کرتے تھے جن کے طالب علم قائد اعظم، سرسید، علامہ، آئی آئی قاضی تھے۔ گزر گیا وہ زمانہ، چلے گئے وہ لوگ، اب ہر میدان میں ''بونے'' ہیں، عقل، کردار اور علم کے ''بونے'' جب تعلیمی اداروں سے یہ بونے نکلیں گے تو وہ جھوٹے ادیب، جھوٹے شاعر، جھوٹے مضمون نگار اور زندگی کے ہر میدان میں جھوٹوں کے بادشاہ ہوں گے۔ اور ان کے تربیت کردہ اور کتنے ''جھوٹے اور بونے'' ہوں گے اندازہ لگا لیجیے۔

اس ملک کے عوام سے اچھے لوگوں کو باہر لانے کی ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ اس ملک پر خاندانوں کی اجارہ داری ہے ہر میدان میں تو وہ کس طرح عوام کو وہ منصب وہ فائدے حاصل کرنے دیں گے جو انھوں نے اپنے اور اپنی اولاد کے لیے مختص کر رکھے ہیں۔ اگر عوام میں سچے آگئے، جو ایک آدھ آ بھی جاتا ہے اللہ کی مہربانی سے اور اپنی محنت سے تو یہ جھوٹے اس کا گھیراؤ کرکے اسے Corner کردیتے ہیں کہ وہ خاموشی سے تنخواہ لے اور اپنے کام سے کام رکھے۔

آج تو ہم نے اپنے کالم میں تقریباً ''سارے جھوٹے'' عریاں کردیے کہ یہ ہمارا کام ہے۔ ہمیں اللہ نے قلم دیا ہے، علم دیا ہے اور پیغام دیا ہے اپنے اکابرین کے ذریعے کہ سچ بولو، سچ کرو، سچ لکھو! سندھی کا محاورہ ہے کہ ''سچ تے بیٹو نچ'' اور اردو کا محاورہ ہے ''سانچ کو آنچ نہیں'' یہ دونوں سچ ہیں ہم نے انھیں سچ ہوتے ہوئے دیکھا ہے اور آج بھی کہیں کہیں دیکھ رہے ہیں۔ ٹھیک ہے جہالت کی کالی گھٹائیں اس ملک پر چھائی ہوئی ہیں مگر کب تک، انھیں بہرحال چھٹنا تو ہے اور سویرا ان میں سے ہی ''ہویدا'' ہونا ہے۔ لوگو سچے ہو جاؤ ورنہ مالک تو وہ سچ کر ہی دے گا جو سب کے لیے سچ ہوگا اور اس وقت آپ کو جائے پناہ نہیں ملے گی۔
Load Next Story