’’بس کا اِک سفر‘‘

بس پر چڑھے ہی تھے کہ یہ پڑھنے کو ملا ’’سفر کرنے سے قبل اپنے گناہوں کی معافی مانگ لیجئے کہیں یہ آپ کا آخری سفرنہ ہو‘‘۔


فہیم زیدی August 26, 2015
پہلے جو مسافر ڈرائیور کو بس چلانے کا کہہ رہے تھے اب کہنے لگ گئے کہ بھائی آہستہ چلاو، مگر اب ڈرائیور کہاں کسی کی سننے والا تھا۔

قارئین! ایک مرتبہ ہمیں بس میں سفر کرنے کا اتفاق ہوا۔ آپ اس کا مقصد یہ ہرگز نہ سمجھ لیجئے گا کہ یہ ہماری زندگی کا پہلا سفر تھا یا پھر ہمیں پہلی بار بس میں سفر کرنے کا موقع ملا، ہاں البتہ یہ سفر ہماری زندگی کا آخری سفر ضرور ثابت ہو سکتا تھا۔ یوں تو ہم نے بچپن میں ویگنوں، ٹیکسی، رکشوں اور بسوں میں بھی کافی سفر کیا ہے، اور تاحال کرتے بھی ہیں مگر یہ سفر ایک یادگار سفر ضرور ثابت ہوا۔

ہوا کچھ یوں کہ ایک دفعہ ہم شہر کی معروف شاہراہ، شاہراہِ فیصل سے صدر جانے کے لئے بس میں سوار ہوئے تو بس کے پائیدان پر قدم رکھتے ہی ہماری پہلی نظر سامنے کی نشست کے عین اوپر لگی کھڑکی سے تھوڑا اوپر ایک مختصر سی عبارت پر پڑی وہاں کچھ اس طرح تحریر تھا کہ،
''سفر کرنے سے قبل اپنے گناہوں کی معافی مانگ لیجئے کہیں یہ آپ کا آخری سفرنہ ہو''۔

اس لکھی عبارت پر ہم بُری طرح چونکے کہ یہ کیا ہے بھائی! کیا ان ڈرائیور صاحب کو اپنے ڈرائیونگ پر ذرا بھی اعتقاد نہیں جو انھوں نے کھڑکی پر مذکورہ عبارت تحریر ثبت کروا رکھی ہے۔ ہم اسی ادھیڑ بن میں ایک خالی مگر تنگ نشست پر بیٹھ گئے۔ چوں کہ ہم باہر والی نشست پر براجمان تھے اور بس کی نشستیں اس انداز میں ترتیب دی گئی تھیں کہ بس میں زیادہ سے زیادہ نشستیں با آسانی لگائی جا سکیں جس کی وجہ سے نشستوں کے درمیان جگہ نہ ہونے کے برار تھی ایسی صورت میں ہماری ٹانگوں کا باہر کی جانب آ جانا فطری عمل تھا۔

سخت گرمی نے ہر ذی نفس کا بُرا حال کیا ہوا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے بس مکمل طور پر بھرگئی۔ ہمارے سر کے عین اوپر کھڑے مسافر کا پسینہ ٹپ ٹپ کسی بِن موسم کے ہونے والی برسات کی مانند ہم پر برس رہا تھا۔ لیکن ناجانے اچانک اُس کو اچانک کیا ہوا کہ اُس نے اپنے چہرے اور ماتھے کا پسینہ اپنی انگلیوں کی مدد سے صاف کیا۔ ایسی صورت میں ایک لمحہ کے لئے ہم پر بوندا باندی کے بجائے موسلا دھار بارش کا گمان ہونے لگا۔ چوںکہ غصہ کرنا ہماری فطرت میں نہیں، اِس لیے انتہائی متحمل انداز میں برداشت کے ساتھ ہم نے اپنے اوپر کھڑے مسافر کو تھوڑا آگے سرکنے کا کہا تو وہ تھوڑا آگے ہوگیا۔ مگر اب یہ سلسلہ ہمارے بجائے ہم سے اگلی نشست پر بیٹھے مسافر پر جاری ہوگیا اور شاید اگلے مسافر میں قوتِ برداشت کا فقدان تھا، اس نے نرمی سے بات کرنے کے بجائے کھڑے مسافر پر برہمی کا مظاہرہ کیا، جواب میں کھڑے مسافر نے بھی غیر مناسب رویہ اپنایا۔ بس پھر کیا تھا نوبت تلخ کلامی سے ہوتی ہوئی گالم گلوچ او ر بعد ازاں ہاتھا پائی تک جاپہنچی۔ بڑی مشکل سے چند دیگر مسافروں نے ان دونوں کا بیچ بچاؤ کرایا، مگر سلام ہو ڈرائیور صاحب کو، کہ شاید اسے بس میں اب بھی کافی گنجائش نظر آرہی تھی اور وہ بس کو آگے بڑھانے پر قطعی آمادہ نظر نہیں آرہے تھے۔

صورتحال کچھ یوں تھی کہ مسافر ''گاڑی چلاؤ ۔۔۔۔۔ گاڑی چلاؤ، گرمی بہت ہے۔۔۔۔۔ گاڑی چلاؤ'' کا گردان کئے ہوئے تھے مگر دوسری جانب ایسا لگتا تھا کہ جیسے ڈرئیوار صاحب مباداً قوتِ سماعت سے یکسر محروم ہیں اور اسی لئے پریشانِ حال مسافروں کی حد درجہ التماس اور غصے کے باوجود اس کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی تھی۔ دوسری طرف ہم تو فی الحال ان تمام باتوں اور کچھ لمحہ پہلے ہونے والے جھگڑے سے بے نیاز ابھی تک لکھی ہوئی تحریر کی شش و پنج میں مبتلا تھے کہ اسی اثناء میں ایک برق رفتار بس ہماری بس کے قریب سے گزری۔

اس کے بعد تو پوچھئے مت جناب! ہماری بس کے ڈرائیور کی غیرت نے جوش مارا اور ہماری بس کے ڈرائیور نے بس میں سوار معزز حضرات کے ساتھ ساتھ بس میں موجود خواتین کو بھی ملحوظ خاطر لائے بغیر ایک انتہائی غلیظ قسم کی گالی اگلی بس کے ڈرائیور کو دی، اور اپنی بے عزتی کا بدلہ لینے کے لئے بس کی رفتار تیز کردی۔ ماجرا جاننے کے لئے ہم نے برابر بیٹھے شخص سے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ ہماری بس اور اگلی بس ایک ہی روٹ کی ہیں اس لئے بازی لے جانے کی دوڑ لگی ہوئی ہے، اور اُس دوڑ کو جیتنے کے لیے دونوں بسوں کے آگے پیچھے ہونے کا ایک سلسلہ چل نکلا۔

پہلے جو مسافر ڈرائیور کو بس چلانے کا کہہ رہے تھے اب کہنے لگ گئے کہ بھائی آہستہ چلاو، مگر اب ڈرائیور کہاں کسی کی سننے والا تھا۔ مسافروں کے چہرے پر خوف کے آثار نمایاں ہونے لگے کہ خدانخواستہ کہیں بسوں کو کوئی حادثہ پیش نہ آجائے۔ ان دونوں ڈرائیور حضرات کی اس مسابقت سے ہمیں بس میں لکھی گئی تحریر کے سچا اور صحیح ہونے اور اپنی موت یقینی نظرآنے لگی، اور ہمیں خوف کے عالم میں ہی اس تحریر کے درست ہونے کا 100 فیصد یقین ہو چلا تھا۔

مگر خوفناک ڈرائیونگ پر کڑھتے، ٹریفک کے اژدھام پر کلستے ہوئے اور ڈرائیور کی غفلتوں سے بچتے بچاتے آخر کار ہم منزل مقصود پر پہنچ ہی گئے۔ خوش قسمتی سے کوئی حادثہ یا ناخوشگوار واقعہ بھی پیش نہیں آیا اور پروردگارِ کی امان میں ہم بخیر و عافیت اپنی منزل مقصود تک پہنچ گئے۔ لیکن قارئین آپس کی بات ہے ان دونوں ڈرائیورز حضرات کے اس خوفناک عمل سے ہمیں ایک فائدہ ضرور ہوا، اور وہ یہ کہ ہم اپنے مطلوبہ مقام پر مقررہ وقت سے بہت پہلے پہنچ گئے۔

[poll id="625"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں