سال 2050 تک ذہنی مریضوں کی تعداد میں 3 گنا اضافہ ہوجائے گا رپورٹ
ڈیمنشیا، یادداشت اور شخصیت میں تبدیلی کے امراض کے شکار افراد ترقی پذیر ممالک میں زیادہ ہوں گے، ماہرین
اس وقت دنیا میں ڈیمنشیا کے 4 کروڑ 70 لاکھ مریض ہیں اور سال 2050 تک ان کی تعداد بڑھ کر 13 کروڑ 20 لاکھ سے تجاوز کرجائے گی۔
امریکی ادارے کی جانب سے الزائیمر پر 2015 میں جاری ایک رپورٹ کے مطابق جیسے جیسے آبادی بڑھتی جائے گی ویسے ویسے دماغی امراض بڑھتے جائیں گے۔ رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا میں 90 کروڑ افراد کی عمر 60 سال یا اس سے زائد ہے اور اگلے 35 برس میں امیر ممالک میں ان کی تعداد 65 فیصد بڑھے گی جب کہ اوسط آمدنی والے ممالک میں 185 فیصد اور غریب ترین ممالک میں 239 فیصد اضافہ ہوگا جس کا مطلب ہے کہ غریب ممالک پر ان کا بوجھ سب سے زیادہ پڑے گا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہےکہ سال 2010 کے مقابلے میں اس سال ڈیمنشیا اور دوسرے دماغی مریضوں کی تعداد میں 30 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے اور سال 2050 تک اس طرح مجموعی طور پر ذہنی مریضوں کی تعداد میں 3 گنا تک اضافہ ہوجائے گا۔
ماہرین کے مطابق بزرگوں میں دماغی امراض سے ان کی دواؤں کا خرچ یکلخت بڑھ جاتا ہے اور ان کے لیے مسلسل نگہداشت کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دماغی امراض کے بڑھنے سے ماہرین اورخاص اسپتالوں کی ضرورت بھی بڑھے گی جس کے لیے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔
واضح رہے کہ ڈیمنشیا بہت سے دماغی عارضوں کے مجموعے کو کہتے ہیں جس میں سوچنے ، تجزیہ کرنے اور یاد رکھنے کی صلاحیتیں رفتہ رفتہ کم ہوتی جاتی ہیں جب کہ ڈیمنشیا کے نصف کیسز میں الزائیمر کا مرض سرِفہرست ہے۔
امریکی ادارے کی جانب سے الزائیمر پر 2015 میں جاری ایک رپورٹ کے مطابق جیسے جیسے آبادی بڑھتی جائے گی ویسے ویسے دماغی امراض بڑھتے جائیں گے۔ رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا میں 90 کروڑ افراد کی عمر 60 سال یا اس سے زائد ہے اور اگلے 35 برس میں امیر ممالک میں ان کی تعداد 65 فیصد بڑھے گی جب کہ اوسط آمدنی والے ممالک میں 185 فیصد اور غریب ترین ممالک میں 239 فیصد اضافہ ہوگا جس کا مطلب ہے کہ غریب ممالک پر ان کا بوجھ سب سے زیادہ پڑے گا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہےکہ سال 2010 کے مقابلے میں اس سال ڈیمنشیا اور دوسرے دماغی مریضوں کی تعداد میں 30 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے اور سال 2050 تک اس طرح مجموعی طور پر ذہنی مریضوں کی تعداد میں 3 گنا تک اضافہ ہوجائے گا۔
ماہرین کے مطابق بزرگوں میں دماغی امراض سے ان کی دواؤں کا خرچ یکلخت بڑھ جاتا ہے اور ان کے لیے مسلسل نگہداشت کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دماغی امراض کے بڑھنے سے ماہرین اورخاص اسپتالوں کی ضرورت بھی بڑھے گی جس کے لیے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔
واضح رہے کہ ڈیمنشیا بہت سے دماغی عارضوں کے مجموعے کو کہتے ہیں جس میں سوچنے ، تجزیہ کرنے اور یاد رکھنے کی صلاحیتیں رفتہ رفتہ کم ہوتی جاتی ہیں جب کہ ڈیمنشیا کے نصف کیسز میں الزائیمر کا مرض سرِفہرست ہے۔