غربت اور معذوری ہماری ہمّت نہیں چھین سکتی
برطانیہ آنے کے لیے روانہ ہوا تو خالد ارشاد کی کتاب ’جوہر قابل ‘ ساتھ تھی جو سفر میں ہی پڑھ ڈالی
برطانیہ آنے کے لیے روانہ ہوا تو خالد ارشاد کی کتاب 'جوہر قابل ' ساتھ تھی جو سفر میں ہی پڑھ ڈالی۔اسی میں سے دلشاد، اسد اور مہنازکی سچّی کہانیاں آپکو سنانے جارہا ہوں جنکے حوصلوں او ر جذبوں نے مایوسیوں اور پریشانیوں کے طوفانوں کا مقابلہ کیا اور ان کے رخ موڑ دیے ۔ ہمارے ملک کے کروڑوں باصلاحیّت مگر بے وسیلہ نوجوان غربت کے باعث احساس محرومی اور کرب کا شکار ہیں مگر ہمیں نہ ان کی خبر ہے اور نہ احساس ۔ مالکِ کائنات نے اگر کچھ لوگوں کو مال ودولت کے خزانے عطا کیے ہیں تو کچھ کوہمت اور حوصلوں سے مالامال کیاہے۔
مفلسی حسِ لطافت تو مٹاتی ہی ہے بعض اوقات ایمان اور یقین کے قلعے بھی مسمار کر دیتی ہے، مگر عزم وہمت کے کچھ ایسے پیکر بھی ملتے ہیں کہ غربت مالی پریشانی اور جسمانی معذوری جنکی ہمّت توڑ سکی اور نہ حوصلے پست کر سکی ۔ انھوں نے تہیّہ کیاکہ ہم غربت سے شکست نہیں کھائیں گے جسمانی معذوری سے ہار نہیں مانیں گے ! ہم اس معاشرے میں ایک باوقار شہری کے طور پر زندہ رہ کر بھرپور کردار ادا کریں گے اورانھوں نے ایسا کرکے دکھا دیا۔
ضلع لیّہ کے قصبے کروڑ کا رہائشی دلشاد خود بتاتا ہے کہ" اعلیٰ تعلیم کی خواہش کے پیشِ نظر میرے والدین نے مجھے لیّہ میں داخل کرادیا جو میرے گھر سے تیس کلومیٹر دور ہے روزانہ آنے اور جانے کے لیے دس روپے کرایہ لگتا تھا اور میرے پاس وہ بھی نہیں تھا۔مجھے اپنی بے بسی اور محرومی کا شدّت سے احساس ہوا چونکہ بس کا کرایہ نہیں تھا اس لیے نیک دل پرنسپل نے کمرۂ جماعت میں رہنے کی اجازت دے دی۔ یعنی ہم صبح جس کمرے میں پڑھتے رات کو وہیں ایک کونے میں سوجاتے۔گھر سے آٹا، چاول اور دالیں وغیرہ لے آتے اور خود ہی کھانا پکالیتے اگر کبھی سبزی وغیرہ پکانے کے لیے پیسے نہ ہوتے تو ہم پانی میں نمک مرچ گھول کر روٹی کھالیتے"۔ دلشاد ایم بی بی ایس ڈاکٹربننا چاہتا تھا۔
ایف ایس سی میں اچھے نمبر آئے مگر وسائل نہ ہونے کے باعث کسی بڑے شہر میں انٹری ٹیسٹ کے لیے نہ جاسکا جس سے اس کے خواب چکنا چور ہوگئے۔ مگر اس نے ہمّت نہ ہاری۔ ویٹنری سائینس یونیورسٹی میں داخلے کا اشتہار آیا تو وہاں درخواست دے دی۔ وہ بتاتا ہے کہ" جس روز بھائی کی شادی تھی اسی روز میرا داخلہ ہوگیا۔ فیس اور ہوسٹل کا خرچہ ملا کرساڑھے سترہ ہزار روپے درکار تھے مگر بھائی کی شادی کی سلامیوں کے کُل تیرہ ہزار روپے ہوئے جو ماں نے مجھے داخلے کے لیے دے دیے جب فیس داخلہ جمع کرانے کے لیے میں قطار میں کھڑا تھا تو میرے ایک ہاتھ میں معمولی سا بیگ تھا جسمیں کپڑوں کے دو جوڑے پھٹا ہوا سویٹر اور پاؤں میں ٹوٹی ہوئی جوتی تھی، میں اپنے اردگرد کھڑے خوش لباس لڑکوں کو حسرت سے دیکھ رہا تھا۔
میں پوری فیس بھی جمع نہ کراسکا۔ میرے نمبروں کی وجہ سے مجھے داخلہ دے دیا گیا لیکن رہائش کے لیے نہ جگہ تھی اور نہ خرچہ ۔ لہٰذا کچھ دن داتا دربار میں سوتا رہا پھر یونیورسٹی کے کچھ خدا ترس اساتذہ کو رحم آگیا اور انھوں نے مجھے ہوسٹل میں کمرہ دلادیا"۔ اس دوران کسی نے جناب الطاف حسن قریشی کے بھائی ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی صاحب کی کاروانِ علم فاؤنڈیشن سے رابطے کا مشورہ دیا۔
رابطہ ہوا تو فاؤنڈیشن نے ہاتھ پکڑلیااورتعلیمی اخراجات اٹھالیے۔ آخری سال ختم ہونے سے پہلے ہی دلشاد کو چکوال کے ایک ڈیری فارم میں ملازمت مل گئی "کچھ دنوں بعد رینالہ میں ڈیری فارم پر تعینات ڈاکٹر فیصل نے فون کرکے بتایا کہ ان کے ایک انگریز دوست جان ڈی وٹ کو ایک نئے ڈیری فارم میں ایک با صلاحیت ویٹرنری ڈاکٹر کی ضرورت ہے اس کے لیے انٹرویو دے دو۔ ڈاکٹر فیصل نے پوچھا کتنی تنخواہ چاہتے ہو۔ میں نے کہا پندرہ ہزار مِل جائے تو کافی ہے۔ انٹرویو کے بعد جان ڈی وٹ نے مجھے پچاس ہزار روپے ماہوارکی پیشکش کردی "۔ کَل کا مجبور نوجوان آج ڈاکٹر دلشاد رشید کی حیثیّت سے اس ملک کا ٹیکس گزار شہری ہے۔
اسد علی سلطان حافظ آباد کا رہائشی ہے۔ اس باہمّت طالب علم کے دادا تانبے کی دھات سے تعویزوں کے خول تیار کرتے تھے کم آمدنی والے پیشے سے اس کے والد اور چچا بھی منسلک ہوگئے ایک چارمرلے کے تین منزلہ گھر میں چار خاندان رہائش پذیرہیں۔ گھر کی تیسری منزل کے دو چھوٹے کمروں میں اسد علی کا گھرانہ سکونت پذیر ہے۔ وہ والدین کی پہلی نرینہ اولاد تھی جسکی پیدائش پر بہت خوشیاں منائی گئیں ماں باپ نے اسے اعلیٰ تعلیم دلاکر بڑا افسر بنانے کے خواب دیکھنے شروع کردیے ابھی اسے تعلیم حاصل کرتے ایک سال ہی گزراتھا کہ ایک حادثے نے اس کی زندگی ہی بدل دی۔
اسدجس نے خاندان کا دست وبازو بننا تھا خود دونوں ہاتھوں سے محروم ہوگیا۔ بجلی کی تاروں سے لگ کر اس کے دونوں ہاتھ کہنیوں تک جل کر کوئلہ بن گئے ۔ اس کا علاج سرگودھا ، پھر لاہور اور اس کے بعد آغا خان اسپتال کراچی میں ہوتا رہا کئی ماہ کے علاج معالجے میں دکھی والدین بھاری قرض تلے دب گئے بلآخر اسد علی کے دونوں ہاتھ کہنیوں سے کاٹ دیے گئے۔ اور زخم بھرنے کے بعد اسے گھر بھیج دیا گیا اب والدین کے لیے سب سے بڑا مسئلہ اپنے معذور بیٹے کی تعلیم تھا۔ والدہ راتوں کو جاگ کر خالقِ کائنات سے اپنے بیٹے کے بہتر مستقبل کے لیے دعائیں اور التجائیں کرتی رہتی۔
ایک دن ماںنے بیٹے کو پاس بٹھاکر کہا " بیٹا اگر تم نے اس معذوری کو مجبوری بنا لیا تو بے بسی کی زندگی تمہارا مقدّر بن جائے گی میں چاہتی ہوں تم کسی کے محتاج نہ رہو۔میرے بھی نہیں!۔ "ماں کی نصیحت اور خواہش کو بیٹے نے حرزِجاں بنالیا۔ اسے دوبارہ اسکول داخل کرادیا گیا والدہ روزانہ اسکو تیار کرتی اور دعائیں دیکررخصت کرتی۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس نے اپنا ہر کام کرنا خود سیکھ لیا۔ اس نے دونوں کٹے بازؤوں سے قلم پکڑ کر لکھنا سیکھا اور ہر جماعت میں اوّل آنے لگا۔ پھر اسد نے بتایا کہ" اس کے والدین کے اتنے وسائل نہیں تھے کہ اسے مصنوعی ہاتھ لگوادیتے ایک مخیّرشخص نے پشاور سے مصنوعی ہاتھ لگوادیے۔
2005 میں اسلام آباد کے ایک ادارے ہوپ (Hope) کے ذریعے میرا رابطہ امریکا میں قائم ایک ادارے ہاؤس آف چیریٹی کی سربراہ حشمت آفندی سے ہوا وہ مجھے امریکا کے شہر ہوسٹن لے گئیں وہاں اسپتال میںمجھے مصنوعی ہاتھ لگائے گئے اور نو ماہ بعد دوبارہ امریکا آنے کا کہا اور 'بائیو الیکٹرانک ہینڈ' لگانے کا وعدہ کیا ۔
میں خوش تھا کہ میں ایک تندرست آدمی کی طرح زندگی گزارنے کے قابل ہوسکونگا۔ مگر تقدیر کو کچھ اور ہی منظور تھا ابھی مرے عزم اور ہمّت کا مزید امتحان لیا جانا تھا۔ حشمت آفندی مجھے پاکستان لے آئیں مگرانھوں نے مجھے میرا پاسپورٹ واپس نہیں کیا میرے پاسپورٹ پر امریکا کا پانچ سال کا ویزہ لگا تھا میرے پاس اپنا پاسپورٹ رہتا تو کسی مخیّر ادارے کی مدد سے امریکا جاکر بائیوالیکٹرانک ہینڈ لگوا لیتا۔
حشمت آفندی کی اس حرکت نے مجھے مایوس کیا کہ ایسے لوگ ایک معذور شخص کو بھی نہیں بخشتے لیکن میرے والدین نے میرے شکستہ حوصلے کو پھر سے توانا کیا اورمیں نے مایوسی کو شکست دیکر پڑھائی پر توجّہ مرکوز کردی اور آج میں گورنمنٹ کالج یونیوورسٹی جیسے اعلیٰ ادارے میں زیرِ تعلیم ہوں۔ اور منزل جی سی کے عظیم الشان ٹاور کیطرح میرے سامنے کھڑی ہے"۔
مانسہرہ کے قریبی گاؤں کی رہنے والی مہناز کا تعلق ایک خوشحال گھرانے سے تھا اس نے بتایا کہ" جرمنی سے واپس آکر میرے والد صاحب نے مانسہرہ میںزرعی ادویات کی بہت بڑی دکان کھول لی ایک دن اچانک ان کا انتقال ہوگیا اور ہم عرش سے فرش پر آگرے لالچی رشتے داروں اور دوستوں نے دھوکے دیے کاروبار ختم ہوگیا۔
دکان بِک گئی، بڑابھائی نفسیاتی مریض بن گیا۔ میں ڈاکٹر بننا چاہتی تھی مگر وسائل نہیں تھے، ہماری چار کنال اراضی تھی جو امّی نے بیچ دی،حالات سے مزید مجبور ہوکر امّی اپنا زیور بیچنے لگیں کیونکہ وہ ہر قیمت پر ہمیں تعلیم دلانا چاہتی تھیں۔ ایف ایس سی میں میرے بہت اچھے نمبر آئے۔ ایوب میڈیکل کالج ایبٹ آباد میں میرے داخلے کے وقت میرے امی نے بچا کچھا زیور بھی بیچ دیا اور بڑی مشکل سے داخلے کے لیے تیس ہزار روپے جمع کرائے۔
دوسرے سال کی فیس اَمّی نے ادھار لے کر جمع کرائی۔ سالِ سوئِم کی فیس جمع کرانے کا وقت آیا تو میں فیس معافی کے لیے درخواست لے کر وائس پرنسپل کے پاس گئی تو انھوں نے بڑے تلخ لہجے میں کہا "اگر تم میڈیکل کالج کی فیس ادا نہیں کرسکتی تھی تو داخلہ کیوں لیا تھا؟"اُس روز مجھے غربت اور بے بسی پر بہت رونا آیا"۔ ربِِّ ذوالجلال کی شانِ کریمی نے اپنی ایک عاجز بندی کے آنسو موتی سمجھ کر چن لیے۔ چند روز بعد اس کا رابطہ کاروانِ علم فاؤنڈیشن سے ہوا جنہوں نے فیس ادا کرنے کی حامی بھرلی۔ اُس روز پرنسپل آفس کے باہر رونے والی بچی آج ماہر گائناکالوجسٹ ڈاکٹر مہناز اکبر ہمدانی ہے۔ جونہ صرف خود باروزگار ہے بلکہ اپنے بھائیوں اور بہنوں کو بھی تعلیم دلارہی ہے۔
قابل تحسین ہیں وہ لوگ جو اﷲ کی دی ہوئی دولت اس کے نادار بندوںپر خرچ کرتے ہیں۔ لاہور کی کاروانِ علم اور گوجرانوالہ کی پاکستان ایجوکیشن فاؤنڈیشن وہ روشن قندیلیںہیں جو جوہرِ قابل کو ڈھونڈتی ہیں اور حصولِ علم کی منزلِ تک پہنچنے میں اس کی رہنمائی اور مدد کرتی ہیں ۔