نکاح کا قانون اور ہمارا نظریہ حیات

راقم نے توجہ دلانے کی کوشش کی تھی کہ جس ملک میں پہلے ہی نکاح کرنا مشکل تر ہو

apro_ku@yahoo.com

راقم نے اپنے گزشتہ کالم ''نکاح مزید مشکل کیوں بن گیا؟'' میں اس طرف توجہ دلائی تھی کہ پنجاب اور سندھ کی صوبائی پارلیمنٹ نے شادی کرنے کے لیے کم از کم عمر 18 سال کا قانون پاس کر دیا ہے جس کے تحت خلاف ورزی کرنے والوں کو تین سال قید اور جرمانے کی سزا ہو گی۔

راقم نے توجہ دلانے کی کوشش کی تھی کہ جس ملک میں پہلے ہی نکاح کرنا مشکل تر ہو، وہاں اس قسم کے قانون بنا کر بالغ افراد کو 18 سال کی عمر تک پابند کرنا درست نہیں۔ یہ ان کے بنیادی حقوق کی نفی ہو گی اس لیے بھی کہ ہمارے ہاں بالغ ہونے کی عمر تقریباً گیارہ سال کے قریب ہے، عموماً لڑکیاں 7 ویں جماعت میں ہی بالغ ہو رہی ہیں یوں کسی بالغ فرد کو تقریباً سات سال تک قانونی جبر کے تحت نکاح جیسی ضرورت سے روکنا کہاں کی عقلمندی ہے؟

راقم کے اس کالم کے ردعمل میں ظہیر بابر، ظہور عالم اور شاہد اقبال وغیرہ کی ای میل آئیں اور بعض نے بالمشافہ بھی اس کالم پر اپنے ردعمل کا اظہار کیا۔ یہاں پہلے ذکر ایک تنقیدی ''ای میل'' کا کرنا زیادہ مناسب ہو گا۔ ظہیر بابر نے اپنی ای میل میں چند تنقیدی نقاط اٹھائے ہیں مثلاً (1)۔ کیا کسی ایک والدین کی بھی مثال مل سکتی ہے جو اپنے بچوں کی شادی مڈل کلاس (ساتویں/آٹھویں جماعت) میں کرنا چاہے؟ (2)۔دیر سے شادی کرنے سے خاندان میں ایڈجسٹ ہونے اور شادی کے بعد آنے والے مسائل کو حل کرنے میں مدد ملتی ہے۔(3)۔دیگر اور بھی مسائل ہیں جن کے حل پر کالم میں بات نہیں کی گئی۔

راقم کا خیال ہے کہ ظہیر بابر نے بہت عقلی و مناسب سوالات اٹھائے ہیں ان پر غور ضروری ہے اور اس قانون سے مستقبل میں آنے والے معاشرتی معاملات و مسائل پر بھی غور کرنا ضروری ہے اس لیے کہ یہ ایک بہت بڑا قدم ہے اس کی نوعیت معمولی نہیں ہے۔

محترم قاری کا پہلا سوال خود بہت بڑا سوال پیدا کر رہا ہے کہ جب پہلے ہی ہمارے معاشرے میں ایسی مثالیں بمشکل ملتی ہیں کہ بالغ ہوتے ہی (میٹرک کرنے سے قبل ہی) کسی کی شادی کر دی جاتی ہو تو پھر ایسا کون سا بڑا معاشرتی مسئلہ پیدا ہوا کہ سرکاری سطح پر ایک بہت ہی معمولی تعداد کو نکاح کرنے سے روکنے کے لیے قانون سازی کی ضرورت پیش آئی؟ پھر اس قانون سازی کے پس پشت کون سے مقاصد ہیں؟ اور کون سی قوتیں ہیں؟ اور وہ کیا چاہتی ہیں۔

دوسرا سوال قاری نے یہ اٹھایا کہ زائد عمر میں شادی کرنے پر لڑکی کو نئے گھر میں ایڈجسٹ (یا نئے گھر سے مانوس ہونے اور مل کر رہنے) میں مدد ملتی ہے اور شادی کے بعد آنے والے مسائل کو حل کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ اس سلسلے میں عرض ہے کہ اعداد و شمار دیکھ لیں یا اپنے بزرگوں اور اپنے مشاہدے کا خود جائزہ لے لیں، ہمارے ہاں ماضی کے مقابلے میں طلاق کی شرح بہت بڑھ گئی ہے۔ (پڑوسی ممالک بھارت اور ایران میں بھی بڑھی ہے)۔

جب کہ اب کافی عرصے سے ہمارے ہاں شادیاں پہلے کی بہ نسبت خاصی دیر سے ہو رہی ہیں بلکہ شہروں میں تو یہ حال ہے کہ میرج بیورو والوں کے پاس ایسے رشتے لڑکیوں کے زیادہ ہیں کہ جن کی عمریں 28 برس سے بھی کہیں زیادہ ہیں۔ کیا ماضی میں ایسی صورتحال تھی؟ طلاق اتنی زیادہ ہوتی تھی؟ جب کہ ماضی میں شادی کے وقت تعلیم بھی اور عمر بھی بہت کم ہوتی تھی پھر اب طلاقیں کیوں ہو رہی ہیں؟ اکائی خاندان کا نظام پہلے کی بہ نسبت اب بہت زیادہ کیوں رواج پاگیا ہے؟ اگر شادی کے بعد کے معاملات کو نبھانے کے لیے کوئی فرد 18 برس کی عمر کے بعد زیادہ باشعور ہوتا ہے اور اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے اور بھی باشعور و ذمے دار ہوتا ہے تو پھر طلاق کی شرح میں اور اکائی خاندان کی شرح میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟


بات یہ ہے کہ انسان جب بھی قانون فطرت سے راہ فرار اختیار کرتا ہے نقصان میں رہتا ہے (ماحولیات کے اعتبار سے ہم نے فطرت کے تقاضوں سے بغاوت کی تو اس کا انجام ہم نے دیکھ لیا کہ نہ صرف اوزون کی سطح کو نقصان پہنچایا بلکہ پوری دنیا کو قدرتی آفات کے حوالے کردیا) اب اس اہم معاشرتی مسئلے کے حوالے سے بھی غیر فطری کیے گئے ان اقدامات کے نتائج کا جائزہ لے لیں جو مغرب ہم سے پہلے کرچکا ہے۔

جہاں نکاح کی پابندی تو دور کی بات زنا بالرضا کوئی جرم ہی نہیں اور ہم جنس پرستی بھی قانون فطرت کے برعکس قانونی قرار دے دی گئی۔ ان تمام قانونی سہولتوں یا تحفظات کے باوجود یورپین ایجنسی فار فنڈامینٹیل رائٹس (FRA)کے مطابق بچوں کے ساتھ جنسی تشدد، عورتوں کو مجرمانہ مقاصد سے گھورنا، انٹرنیٹ، موبائل فون کے ذریعے عورتوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنا عام بیماری ہے، یورپ میں بیس میں سے ایک عورت پندرہ سال کی عمر میں جبری زنا کا شکار ہو جاتی ہے۔ 15 سال سے لے کر 60 سال یا اس سے زائد کی عورتوں کو سائبرنیٹ کے ذریعے جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے۔

جس میں 15 سال کی لڑکیوں کی تعداد گیارہ فیصد ہے۔ یورپی یونین میں دو کروڑ دس لاکھ کے قریب 15 سال سے کم عمر لڑکیوں کو جنسی دہشت گردی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یورپ کی 53 فیصد خواتین جسمانی اور جنسی تشدد کے خوف سے بعض مقامات اور حالات کا سامنا کرنے سے گریز کرتی ہیں۔

جرمنی کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بچوں سے جنسی ہراساں اور زنا کے سالانہ 30 ہزار واقعات ہوتے ہیں جن میں بڑی تعداد ان حملہ آوروں کی ہوتی ہے جو خاندان ہی کے افراد ہوتے ہیں، کینیڈا میں 32 فیصد لڑکے لڑکیاں گھروں میں اپنوں کے ہاتھوں جسمانی اور جنسی تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔ امریکا میں 22 ملین عورتوں اور دو ملین لڑکیوں سے جبری زنا کیا جاتا ہے، اسکول، یونیورسٹی اور کالجز میں جبری زنا کی وارداتیں زیادہ ہوتی ہیں، نیز جبری زنا کرنے والے تمام مرد لڑکیوں کے جگری دوست، عشاق اور قریبی رشتے دار یا اعتماد کے لوگ ہوتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار وائٹ ہاؤس سے جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق ہیں۔

برطانیہ میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق طلبا اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے سیکس ورکر بننے لگے ہیں، ان میں طالبات تین فیصد اور طلبا پانچ فیصد شامل ہیں۔ واضح رہے کہ 1860ء میں مغرب میں لڑکی کی بلوغت کی عمر سترہ سال ہوا کرتی تھی جب کہ اب صرف 10 سال ہے۔

پاکستان میں بھی یہ عمر کم ہوئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ نکاح جلد کرنے کی ضرورت بھی فطرتی طور پر پہلے سے بڑھ گئی ہے مگر ہمارے اقدامات اور سوچ الٹی طرف چل رہی ہے۔ ہماری یہ سوچ درست ہے یا غلط اور اس کے نتائج کیا ہوں گے؟ مغرب کے تجربات سے جو مندرجہ بالا نتائج سامنے آئے ہیں کیا ہم یہ چاہیں گے کہ مستقبل میں ہمارے معاشرے کو بھی ایسے ہی نتائج کا سامنا کرنا پڑے؟ ہمارے ہاں تو پہلے ہی نکاح دیر سے کرنے کا سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے اس پر کسی انگریز یا اقوام متحدہ کے نمایندے کا پاکستان کا دورہ کرنا، مالی امداد کا یقین دلانا اور نکاح سے متعلق قوانین منظور کروا لینا کیا معنی رکھتا ہے، اور اس سے کیا مقاصد حاصل کرنا مقصود ہے؟ کیا مغربی معاشرے کی طرح تباہی یہاں بھی مقصود ہے؟ مغرب کا مشہور و معروف دانشور کامیسو کہتا ہے کہ ''مجھے ہمیشہ سے یہ محسوس ہوتا رہا ہے اگرچہ میں اس کی توجیہہ نہیں کر سکتا کہ پیرس کے باسی صرف دو باتوں میں دلچسپی لیتے ہیں، نئے نئے خیالات اور بدکاری۔ ہمیں ان کو مطعون نہیں کرنا چاہیے کیونکہ صرف وہی ایسا نہیں کرتے بلکہ تمام یورپ اس حمام میں ننگا ہے۔ مستقبل کا مورخ جدید دور کے انسان کے بارے میں ایک ہی جملہ لکھ دے تو کافی ہوگا کہ وہ زنا کرتا تھا اور اخبار پڑھتا تھا۔''

بات یہ ہے کہ اصول اور پریکٹس (یا عمل) دو الگ الگ چیزیں ہیں انسان اپنے طے کردہ اصول پر صد فی صد عمل نہیں کرتا لیکن کوشش ضرور کرتا ہے کیونکہ اصول اس کے زندگی گزارنے کے نظریے پر مبنی ہوتے ہیں اگر ہمارے اصول دین کے حوالے سے ایسے ہیں کہ کسی فرد پر بالغ ہوتے ہی نکاح کی شرط عائد ہوجاتی ہے تو بالفرض اگر فرد گیارہ سال یا مڈل جماعت میں بالغ ہو رہا ہے اور ہم نکاح کی شرط (کسی بھی وجوہ سے) برسوں بعد پوری کر رہے ہیں تو ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ یہ فاصلہ کم سے کم ہو یعنی اصول اور پریکٹس میں یا عمل میں زیادہ فاصلہ نہ ہو، نہ کہ ہم اس فاصلے کو مزید بڑھادیں کیونکہ یہ فاصلہ ہم جس قدر زیادہ بڑھائیں گے اسی قدر اپنے نظریہ حیات سے دور ہوں گے۔ آئیے غور کریں فیصلہ کریں کہ ہم اپنے نظریہ حیات (دین اسلام) سے دور ہونا چاہتے ہیں یا قریب؟ نظریہ حیات سے دور ہو کر ہمیں کامیابی ہوگی یا ناکامی؟
Load Next Story