ہر چند بگولا مضطر ہے
ہم نے مسلمان حکومت اور ملک کا تصور اچھے مسلمان حکمران سے لیا ہے جس میں کم از کم انصاف کیا جاتا تھا
یاد نہیں پڑتا کہ میں اتنی کم عمر میں لاہور کیوں اور کس بزرگ کے ساتھ آیا تھا بہر حال لاہور کی اس مختصر سی دو تین روزہ ابتدائی زیارت کی ایک بات تب سے اب تک ذہن پر نقش ہے۔ اسلامیہ کالج لاہور میں ایک جلسہ منعقد ہوا ہال حاضرین سے بھرا ہوا تھا یہ تحریک پاکستان کے عروج کا زمانہ تھا اور پاکستان بننے ہی کو تھا۔
مسلمانوں میں جو غیر معمولی جوش تھا اس کا اندازہ آج بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس زمانے میں غیر مسلم بھی مجوزہ پاکستانی خطے میں بدستور موجود تھے اور مسلمانوں کی ان کے ساتھ بھی بحثیں ہوتی ہوں گی اس طرح یہ ایک خوب با رونق اور نظریاتی گہما گہمی کا زمانہ ہو گا۔ بات اسلامیہ کالج کے جلسے کی ہو رہی تھی جس سے جناب مولانا شبیر احمد عثمانی نے خطاب کیا تھا۔ انھوں نے اپنے خطاب کے دوران جہاں پاکستان کے مختلف علاقوں کی خوبیوں کا ذکر کیا وہاں مسلمانوں کا عام حال بھی بیان کیا اور پاکستان کے لیے ان کی بے چینی اور بے تابی کا ذکر کیا لیکن ایک شعر میں
ہر چند بگولا مضطر ہے اک جوش تو اس کے اندر ہے
ایک وجد تو ہے اک رقص تو ہے بے چین سہی برباد سہی
مولانا کی تقریر کا پمفلٹ بنایا گیا تھا جو حاضرین میں تقسیم کیا گیا۔ مجھے بھی ملا جو میرے لیے لاہور کا ایک تحفہ تھا۔ اس وقت یہ واقعہ اور مولانا کی تقریر کا ایک حصہ آج کا پاکستان دیکھ کر یاد آ گیا ہے اور مذکورہ شعر ہمارے اس پاکستان کی 69 سال بعد کی حالت پر بھی صادق آتا ہے جو ہم نے بنا دی ہے اور جس زمانے میں مولانا تحریک پاکستان کی مہم چلا رہے تھے کوئی آج کے پاکستان کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔
شکر ہے کہ اس زمانے میں آج کے پاکستان کا تصور بھی نہیں تھا ورنہ پاکستان کبھی نہ بن سکتا۔ ہمارا پاکستان جو ہمارے سامنے ہے اور جس کے ہم شہری ہیں کیا یہ ایک 'اسلامی جمہوریہ پاکستان' کہلانے کا مستحق ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ نہ یہ ایک اسلامی ملک ہے نہ جمہوری ہے اور نہ وہ پاکستان ہے جو مشرقی اور مغربی پاکستان پر مشتمل تھا اور یقیناً اس جنت کا نمونہ نہیں جس کا خواب تحریک پاکستان میں دیکھا گیا تھا۔
ہم نے مسلمان حکومت اور ملک کا تصور اچھے مسلمان حکمران سے لیا ہے جس میں کم از کم انصاف کیا جاتا تھا اور مساوات جس کے آئین کا بنیادی حصہ تھا۔ ایک اسلامی حکومت اور مسلمان ملک کا ہر شہری ہر حق اور عزت میں برابر تھا اور اگر کوئی بڑا تھا تو اپنے کردار کی وجہ سے بڑا تھا کسی اور وجہ سے نہیں۔ میں یہاں ایک اچھی مسلمان حکومت اور حکمرانوں کی مثالیں پیش نہیں کرتا کہ ہمارے پاکستانی یہ پڑھ کر گھبرا جاتے ہیں اور یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ وہ تو اور لوگ تھے ہم ان کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں جیسے ان کے چار ہاتھ اور چار ٹانگیں تھیں۔
بات صرف اتنی ہے کہ انھوں نے اسلام کو پیدائشی طور پر ورثے میں ہی نہیں نظریاتی طور پر بھی قبول کیا تھا اور مسلمان بن کر زندگی بسر کرنے کو ترجیح دی تھی یعنی اپنی زندگیاں اسلامی تعلیمات کے مطابق بسر کرنی شروع کر دی تھیں۔ ہمارے ہاں کئی غلط تصورات پائے جاتے ہیں جن میں ایک یہ ہے کہ دولت مند ہونا جیسے اسلام کے خلاف ہے اور اس حدیث مبارک کو یاد رکھنا بھول جاتے ہیں کہ غریبی انسان کو کفر کے قریب لے جاتی ہے۔
بہر حال کسی حکمران کے لیے عام سی زندگی بسر کرنا اور دوسرے ہموطنوں سے ملتا جلتا دکھائی دینا کسی مسلمان حکمران کے لیے ایک اچھا عمل سمجھا جاتا ہے۔ سفر میں خواہ وہ کسی شہر کا ہی ہو راستے بند کرا دینا اور پندرہ بیس گاڑیوں کے قافلے کے ساتھ سفر کرنا کہاں کی حکمرانی اور عقلمندی ہے یقین کیجیے اس سے کسی پاکستانی پر کوئی رعب نہیں پڑتا بلکہ نفرت پیدا ہوتی ہے۔ زندگی جب جانے والی ہوتی ہے تو گھر میں محفوظ ذاتی ڈیروں میں بھی چھپ کر بیٹھ جاتی ہے اور نہیں جاتی تو تاریخ کے کتنے ہی حکمران قدرتی موت مرتے ہیں۔
حکومت اور حکمرانوں کا ذکر اس لیے کر رہا ہوں کہ ایک مشہور عربی ضرب المثل کے مطابق لوگ اپنے بادشاہوں اور حکمرانوں کے مطابق زندگی بنا لیتے ہیں۔ اگر ملک کا سب سے بڑا آدمی سادہ زندگی گزارے گا تو یہی سادگی ہی اچھی زندگی کا معیار ہو گی۔ ہمارے پاکستان میں نہ صرف یہ کہ ایک معمول کی حکمرانی قائم کی گئی بلکہ ایسے لوگ بھی آئے جنہوں نے ملک کو علی الاعلان لوٹا اور جب بات نکلی تو اس پر شرمندہ بھی نہ ہوئے یہ ایک انتہا تھی کہ کسی وزیراعظم پر چوری کا الزام لگا تو اس نے کسی شرمندگی کے بغیر چوری کا مال واپس کر دیا یعنی چوری کا اقرار کر لیا۔
کسی ملک کے وزیر اعظم کا یہ کردار پوری قوم کے لیے شرمناک تھا اور کتنے ہی حکمران قسم کے پاکستانیوں نے ملک سے باہر اپنی جائیدادیں بنا رکھی ہیں اور اس سے انکار نہیں کرتے۔ یہ سب باتیں پوری قوم کو معلوم ہیں مگر ملک میں ایک ایسا نظام رائج کر دیا گیا ہے کہ اس میں احتساب برائے نام ہے۔ اپنے حالات دیکھ کروہ مذکورہ شعر یاد آتا ہے شبیر احمد عثمانی نے کبھی پڑھا تھا۔
مولانا نے یہ شعر اس وقت کی مسلمان قوم کے لیے کہا تھا اور مسلمانوں کی جو قوم اس وقت جس حال میں تھی آج پاکستان بن جانے کے بعد کیا اسی حالت میں نہیں ہے اور ہم نے غلامی سے آزادی کا سفر بھی کھوٹا تو نہیں کر دیا ہے۔
مسلمانوں میں جو غیر معمولی جوش تھا اس کا اندازہ آج بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس زمانے میں غیر مسلم بھی مجوزہ پاکستانی خطے میں بدستور موجود تھے اور مسلمانوں کی ان کے ساتھ بھی بحثیں ہوتی ہوں گی اس طرح یہ ایک خوب با رونق اور نظریاتی گہما گہمی کا زمانہ ہو گا۔ بات اسلامیہ کالج کے جلسے کی ہو رہی تھی جس سے جناب مولانا شبیر احمد عثمانی نے خطاب کیا تھا۔ انھوں نے اپنے خطاب کے دوران جہاں پاکستان کے مختلف علاقوں کی خوبیوں کا ذکر کیا وہاں مسلمانوں کا عام حال بھی بیان کیا اور پاکستان کے لیے ان کی بے چینی اور بے تابی کا ذکر کیا لیکن ایک شعر میں
ہر چند بگولا مضطر ہے اک جوش تو اس کے اندر ہے
ایک وجد تو ہے اک رقص تو ہے بے چین سہی برباد سہی
مولانا کی تقریر کا پمفلٹ بنایا گیا تھا جو حاضرین میں تقسیم کیا گیا۔ مجھے بھی ملا جو میرے لیے لاہور کا ایک تحفہ تھا۔ اس وقت یہ واقعہ اور مولانا کی تقریر کا ایک حصہ آج کا پاکستان دیکھ کر یاد آ گیا ہے اور مذکورہ شعر ہمارے اس پاکستان کی 69 سال بعد کی حالت پر بھی صادق آتا ہے جو ہم نے بنا دی ہے اور جس زمانے میں مولانا تحریک پاکستان کی مہم چلا رہے تھے کوئی آج کے پاکستان کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔
شکر ہے کہ اس زمانے میں آج کے پاکستان کا تصور بھی نہیں تھا ورنہ پاکستان کبھی نہ بن سکتا۔ ہمارا پاکستان جو ہمارے سامنے ہے اور جس کے ہم شہری ہیں کیا یہ ایک 'اسلامی جمہوریہ پاکستان' کہلانے کا مستحق ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ نہ یہ ایک اسلامی ملک ہے نہ جمہوری ہے اور نہ وہ پاکستان ہے جو مشرقی اور مغربی پاکستان پر مشتمل تھا اور یقیناً اس جنت کا نمونہ نہیں جس کا خواب تحریک پاکستان میں دیکھا گیا تھا۔
ہم نے مسلمان حکومت اور ملک کا تصور اچھے مسلمان حکمران سے لیا ہے جس میں کم از کم انصاف کیا جاتا تھا اور مساوات جس کے آئین کا بنیادی حصہ تھا۔ ایک اسلامی حکومت اور مسلمان ملک کا ہر شہری ہر حق اور عزت میں برابر تھا اور اگر کوئی بڑا تھا تو اپنے کردار کی وجہ سے بڑا تھا کسی اور وجہ سے نہیں۔ میں یہاں ایک اچھی مسلمان حکومت اور حکمرانوں کی مثالیں پیش نہیں کرتا کہ ہمارے پاکستانی یہ پڑھ کر گھبرا جاتے ہیں اور یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ وہ تو اور لوگ تھے ہم ان کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں جیسے ان کے چار ہاتھ اور چار ٹانگیں تھیں۔
بات صرف اتنی ہے کہ انھوں نے اسلام کو پیدائشی طور پر ورثے میں ہی نہیں نظریاتی طور پر بھی قبول کیا تھا اور مسلمان بن کر زندگی بسر کرنے کو ترجیح دی تھی یعنی اپنی زندگیاں اسلامی تعلیمات کے مطابق بسر کرنی شروع کر دی تھیں۔ ہمارے ہاں کئی غلط تصورات پائے جاتے ہیں جن میں ایک یہ ہے کہ دولت مند ہونا جیسے اسلام کے خلاف ہے اور اس حدیث مبارک کو یاد رکھنا بھول جاتے ہیں کہ غریبی انسان کو کفر کے قریب لے جاتی ہے۔
بہر حال کسی حکمران کے لیے عام سی زندگی بسر کرنا اور دوسرے ہموطنوں سے ملتا جلتا دکھائی دینا کسی مسلمان حکمران کے لیے ایک اچھا عمل سمجھا جاتا ہے۔ سفر میں خواہ وہ کسی شہر کا ہی ہو راستے بند کرا دینا اور پندرہ بیس گاڑیوں کے قافلے کے ساتھ سفر کرنا کہاں کی حکمرانی اور عقلمندی ہے یقین کیجیے اس سے کسی پاکستانی پر کوئی رعب نہیں پڑتا بلکہ نفرت پیدا ہوتی ہے۔ زندگی جب جانے والی ہوتی ہے تو گھر میں محفوظ ذاتی ڈیروں میں بھی چھپ کر بیٹھ جاتی ہے اور نہیں جاتی تو تاریخ کے کتنے ہی حکمران قدرتی موت مرتے ہیں۔
حکومت اور حکمرانوں کا ذکر اس لیے کر رہا ہوں کہ ایک مشہور عربی ضرب المثل کے مطابق لوگ اپنے بادشاہوں اور حکمرانوں کے مطابق زندگی بنا لیتے ہیں۔ اگر ملک کا سب سے بڑا آدمی سادہ زندگی گزارے گا تو یہی سادگی ہی اچھی زندگی کا معیار ہو گی۔ ہمارے پاکستان میں نہ صرف یہ کہ ایک معمول کی حکمرانی قائم کی گئی بلکہ ایسے لوگ بھی آئے جنہوں نے ملک کو علی الاعلان لوٹا اور جب بات نکلی تو اس پر شرمندہ بھی نہ ہوئے یہ ایک انتہا تھی کہ کسی وزیراعظم پر چوری کا الزام لگا تو اس نے کسی شرمندگی کے بغیر چوری کا مال واپس کر دیا یعنی چوری کا اقرار کر لیا۔
کسی ملک کے وزیر اعظم کا یہ کردار پوری قوم کے لیے شرمناک تھا اور کتنے ہی حکمران قسم کے پاکستانیوں نے ملک سے باہر اپنی جائیدادیں بنا رکھی ہیں اور اس سے انکار نہیں کرتے۔ یہ سب باتیں پوری قوم کو معلوم ہیں مگر ملک میں ایک ایسا نظام رائج کر دیا گیا ہے کہ اس میں احتساب برائے نام ہے۔ اپنے حالات دیکھ کروہ مذکورہ شعر یاد آتا ہے شبیر احمد عثمانی نے کبھی پڑھا تھا۔
مولانا نے یہ شعر اس وقت کی مسلمان قوم کے لیے کہا تھا اور مسلمانوں کی جو قوم اس وقت جس حال میں تھی آج پاکستان بن جانے کے بعد کیا اسی حالت میں نہیں ہے اور ہم نے غلامی سے آزادی کا سفر بھی کھوٹا تو نہیں کر دیا ہے۔