انسانی تہذیب کے قتل کی کوشش
داعش نے بین الاقوامی شہرت یافتہ تاریخ دان اور آثار قدیمہ کے ماہر خالد الاسد کا سر قلم کر دیا
داعش نے بین الاقوامی شہرت یافتہ تاریخ دان اور آثار قدیمہ کے ماہر خالد الاسد کا سر قلم کر دیا ۔ خالد کی موت کا پوری دنیا میں ماتم کیا جا رہا ہے۔ خالد کی لاش کو شہر کے چوراہے پر لٹکا دیا گیا ۔ بین الاقوامی میڈیا میں شایع ہونے والی خبروں میں بتایا گیا ہے کہ خالد کو داعش کے حکام نے ایک ماہ قبل گرفتار کیا تھا ۔
داعش کے حکام خالد سے رومیوں کے قدیم شہر کے انمول نوادرات priceless ARTIFACTS کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہتے تھے مگر تاریخ دان نے اس قدیم شہر کی باقیات کو تباہی سے بچانے کے لیے داعش کے اہلکاروں کو کسی قسم کی معلومات فراہم کرنے سے انکار کیا یوں انھوں نے موت کو قبول کیا۔ شام میں فرائض انجام دینے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ داعش کے اہلکار نوادرات کی اسمگلنگ سے دولت کماتے ہیں ۔
بھارت کی قدیم علی گڑھ ہسٹریکل سوسائٹی نے خالد کی موت کو المیہ قرار دیا ہے ۔ تاریخ دان پرویز عرفان جب پروفیسر ای اے خان پروفیسر نسرین سوسوی پروفیسر عشرت اور ڈاکٹر راکیش نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ مہذب شہریوں کو اس انسانیت سوز اقدام کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔ ان اساتذہ نے امید ظاہر کی کہ خالد کے قتل میں ملوث عناصر کا ایک دن ضرور احتساب ہو گا۔ معروف تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی نے بھی خالد کے قتل کو انسانیت سوز قدم قرار دیا ہے۔
ڈاکٹر مبارک کا کہنا ہے کہ مذہبی انتہا پسندی کا خاتمہ کر کے ہی انسانیت کو بچایا جا سکتا ہے۔ عراق میں جب داعش نامی تنظیم منظم ہونا شروع ہوئی تو ابوبکر بغدادی نے اپنی خلافت کا اعلان کیا۔ مشرق وسطیٰ، ایران، افغانستان ، پاکستان کے مسلمانوں کو اپنے ہاتھوں پر بیعت کرنے کا فرمان جاری کیا تو بہت سے لوگ اس صورتحال کو سمجھ نہیں پائے۔ یورپ، وسطی ایشیائی ممالک ،پاکستان، افغانستان اور بھارت سے نوجوان شام جا کر داعش کی فوج میں شامل ہونے لگے۔
فرانس، جرمنی، برطانیہ سے نوجوانوں کی داعش میں شمولیت کی خبریں ایک اہم مسئلہ بن گئیں۔ یورپی ممالک سے مسلمان ہونے والے نوجوان لڑکوں کے شام جانے اور حافظ الاسد کی حکومت کے خلاف جنگ میں حصہ لینے کی خبروں نے ان ممالک میں آباد مسلمانوں کے لیے ایک نئی صورتحال پیدا کر دی۔ پھر عراق اور شام سے داعش کو خواتین اور اقلیتوں کے خلاف اقدامات کی بناء پر افغانستان کی طالبان حکومت کے اقدامات کی یاد تازہ ہو گئی۔
داعش کی ظلم و زیادتی سے مسلمانوں کے بارے میں منفی صورتحال پیدا ہوئی۔ افغانستان میں طالبان کے ایک گروہ کے داعش میں شامل ہونے اور کچھ علاقوں میں طالبان اور داعش کے حامیوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں جن میں متعدد افراد کی ہلاکت کی خبریں آئیں۔ اس کے ساتھ ملک کے مختلف شہروں میں دیواروں پر داعش کے حق میں نعرے لکھے گئے۔ کراچی کے شہریوں نے دیواروں پر داعش کی حمایت میں تحریر کردہ نعرے دیکھے ۔ پھر ملک میں ہونے والی دہشت گردی کی وارداتوں میں داعش کے ملوث ہونے کے بارے میں قیاس آرائیاں شایع ہونے لگیں۔
گزشتہ دسمبر میں پشاور میں آرمی پبلک اسکول اور کراچی میں اسماعیلی برادری کی بس پر صفورا چوک کے قریب نامعلوم افراد کی فائرنگ کو بھی داعش کے کسی گروپ کی کاروائی بتایا گیا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے پاکستان میں داعش کے امکانات کی تردید کی مگر عراق و شام میں بروئے کار داعش کے نظریات اور افغانستان میں قائم ہونے والی طالبان حکومت اور پاکستان میں متحرک انتہا پسند تنظیموں کے کردار میں حیرت انگیز مماثلت نظر آتی ہے۔
پاکستان میں طالبان کو منظم کرنے کا فیصلہ عسکری مقتدرہ کے ہیڈ کوارٹر میں ہوا تھا ۔ افغان امور پر70ء کی دھائی سے کام کرنے والے میجر جنرل نصر اللہ بابر جو ریٹائرڈ ہونے کے بعد پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے اور پیپلز پارٹی کی تیسری حکومت میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی کابینہ میں وزیر داخلہ تھے نے طالبان کو منظم کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ امریکا مدرسوں کے طلبا کو منظم کرنے کی حمایت کر رہا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ امریکی کمپنیوں کو وسطی ایشیائی ممالک سے تیل اور گیس پائپ لائن کے ذریعے پاکستان سے لانے کے لیے پر سکون افغانستان کی ضرورت تھی۔
امریکا اور پاکستان کی مدد سے طالبان افغانستان پر قابض ہوئے پھر انھوں نے افغانستان پر متحارب وار لارڈ کی سرکوبی کی ، یوں ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد پہلی دفعہ افغانستان میں امن قائم ہوا مگر پھر طالبان نے اپنے محدود رجعت پسندانہ ایجنڈے پر عمل درآمد کیا۔ طالبان کو اسامہ بن لادن کی حمایت حاصل ہو گئی ، اسی دوران طالبان خواتین اور اقلیتوں کے ساتھ بیہمانہ سلوک کیا۔ ۔ اس دوران خواتین کے تعلیم حاصل کرنے اور ملازمت یا کاروبار کرنے پر پابندی لگا دی گئی۔
طالبان نے اقلیتوں کے ساتھ بیہمانہ سلوک کیا۔ افغانستان میں صدیوں سے آباد ہندوؤں اور سکھوں کو مخصوص لباس پہننے پر مجبور کیا گیا۔ طالبان نے افغانستان کے تاریخی شہر بامیان میں ماتما بدھ کے مجسموں کو مسمار کیا۔ انسانی تہذیب کے ورثہ کو تہس نہس کرنے کی کوشش کی گئی جب طالبان اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد قبائلی علاقوں ، شمالی اور جنوبی وزیرستان میں آکر آباد ہوئے تو ان علاقوںمیں اسکولوں اور کالجوں کی عمارتوں کو تباہ کرنے کا سلسلہ شروع ہواجو کسی نہ کسی طرح اب تک جاری ہے۔
داعش شام اور عراق میں حکومتوں کا تختہ الٹنے میں ناکام رہی مگر داعش نے اپنے محدود ایجنڈے پر عمل درآمد شروع کر دیا ، یوں عراق اور پھر شام میں خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہوئی ۔ داعش کے سربراہ ابوبکر بغدادی نے غیر انسانی سزاؤں پر عمل درآمد کیا اور انسانی ورثہ کو پامال کرنے کی کوشش کی۔ اب سعودی عرب ،ترکی اور امریکا داعش کو اپنے لیے خطرہ محسوس کرتے ہیں ۔ اب داعش کی پالیسیوں کی بنیاد پر انسانی تہذیب کو خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔
ماہر آثار قدیمہ خالد اسد کا قتل صرف ایک ماہر آثار قدیمہ کا ہی قتل نہیں بلکہ انسانی تہذیب کو قتل کرنے کی کوشش ہے۔ انسانی تہذیب کو بچانے کے لیے مذہبی انتہا پسندتنظیموں کا قلع قمع ضروری ہے۔ پاکستان ، مشرق وسطیٰ کی ریاستیں انسانی تہذیب کو بچانے کے لیے توجہ دیں ورنہ مسلمان ممالک ہزار سال پیچھے کی طرف چلے جائیں گے۔