دو لٹکے ہوئے نوجوان اور دو عورتیں
جب ظلم کی داستان کو تحریر کیا جا رہا ہوتا ہے تو ہم خوابوں کی دنیا میں ہوتے ہیں
جب ظلم کی داستان کو تحریر کیا جا رہا ہوتا ہے تو ہم خوابوں کی دنیا میں ہوتے ہیں۔ جب ننھے پھولوں کو پیروں تلے روندا جا رہا ہوتا ہے تو ہم سیاسی چالوں میں مصروف ہوتے ہیں۔ جہاں ستاروں کی روشنی کو تاریکی نگل رہی ہوتی ہے وہاں ہم چائے کے کپ پر ٹوئیٹ کو انجوائے کر رہے ہوتے ہیں ۔ وہ جب دریا کارخ موڑ کر ہمیں پیاس سے مار دینے کا منصوبہ بنا رہے ہوتے ہیں تو ہم کسی اور فضول بحث میں الجھے ہوتے ہیں۔
یہ عجیب لوگوں کا ملک ہے جو ہمیشہ گزر جانے والے سانحات پر آنسو بہا کر آگے نکل جاتے ہیں ان کے پاس سوچنے کا موقعہ ہی نہیں ملتا۔ یہ لوگ روزانہ ایک نئے سانحے کی زد میں ہوتے ہیں کسی دن کوئی سانحہ نہ ملے تو یہ خود کوئی ڈراما پیدا کر لیتے ہیں، ان کے پاس اگر وقت نہیں تو بس اپنے لیے نہیں ہے۔ انھیں امریکا میں اوباما کے ناشتے سے لے کر جاپان تک کی فکر ہو گی مگر اپنے گریبان میں جھانکنے کے لیے ایک لمحہ نہیں ہوگا۔ انھیں معلوم ہی نہیں کہ یہ کس چنگاری کوروز ہوا دیتے ہیں اور پھر آگ انھیں اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔
اس کی کوئی ابتدا ہے اور نہ ہی کوئی اس کا انجام ہوتا ہوا مجھے نظر آ رہا ہے۔ اس اسلامی جمہوریہ پاکستان کے کس حصے سے شروع کروں۔ یہاں تو ہر حصہ درد سے تڑپ رہا ہے۔ ایک لمحے کے لیے سوچیں کہ آپ کے سامنے دو زندہ عورتیں تڑپ رہی ہوں اور آپ سے کہا جائے کہ انھیں ہاتھ مت لگانا اس تڑپ میں ہی زندگی ہے اور پھر تھوڑی دیر کے بعد وہ زندہ عورتیں مردہ لاشوں میں تبدیل ہو جائیں۔
یہ کوئی جھوٹی دل کو بہلانے والی کہانی نہیں ہے بلکہ یہ پاکستان میں پچھلے دنوں ہونے والا سچا قصہ ہے۔ یہ ملتان سے قریب ہے۔ وہ ہی ملتان کہ جہاں سے ہمارے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی ہیں۔ وہ ہی گیلانی صاحب جن کا دعوی ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی فرسودہ رسموں کے خلاف ہے۔ وہ ہی گیلانی صاحب جو جدت اور جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ وہ ہی ملتان ہے جہاں تبدیلی کے نعرے کا ساتھ دینے والے مخدوم شاہ محمود قریشی رہتے ہیں جن کے لاکھوں مرید ہیں۔
جو عمران خان کا الٹا یا سیدھا بازو ہیں۔ وہ ہی عمران خان جو اس ملک کو نیا کرنا چاہتے ہیں۔ یہ وہ ہی ملتان ہے جہاں ایک باغی بھی رہتا ہے۔ جس کے لیے لوگ کہتے ہے کہ ایک سچا آدمی ہے جس کا نام جاوید ہاشمی ہے۔ ان سب کے ہوتے ہوئے وہاں دو عورتوں کو تڑپا تڑپا کر کیوں مار دیا گیا؟
یہ ملتان سے تھوڑے ہی فاصلے پر کوٹ ادو کا علاقہ ہے۔ جہاں 40 سال کی ماں اور اُس کی 15 سال کی بیٹی کو لایا گیا۔ ہمارے پرانے وزیر اعظم اور نئے پاکستان کے داعی کے علاقے میں ان خواتین کو علاج کے لیے ایک عامل بابا کے پاس لایا گیا۔ اُس عامل بابا نے ان کے ہر مسئلے کا حل منٹوں میں ڈھونڈھ لیا اور کہا کہ ان کے اندر ایسی روحیں جن کا نکالنا ضروری ہے۔اُس نے گھر والوں کو باہر بیٹھا کر اس معصوم ماں اور بیٹی کو ایک کمرے میں بند کر دیا۔ وہاں پہلے آگ پیدا کی گئی اور پھر اُسے بجھا کر دھواں بنایا گیا اور اس دھویں میں مرچیں ڈال کر کمرہ بند کر دیا گیا۔
ماں اور بیٹی چلاتی رہی کہ انھیں باہر نکالا جائے لیکن کسی نے اُن کی ایک بھی نا سنی۔ نئے پاکستان کی طرف بڑھنے والی یہ عورتیں جب چلاتی تو بابا کہہ دیتے کہ یہ عورتیں نہیں ہیں بلکہ ان کے اندر کی بدروحیں جو باہر نکلنے سے پہلے چلا رہی ہیں۔ ستم پر ستم ہوتا رہا۔ ہر آنے والی سانس جانے والی سانس کا راستہ روکتی رہی۔ اب اُن کا کھانس کھانس کر برا حال تھا۔ بابا کہتے رہے کہ بس اب مسئلہ حل ہونے کے قریب ہے۔ ماں کا سانس رکنے لگا۔ بیٹی کی حالت بھی ٹھیک نہیں تھی۔ انھوں نے دروازے کو مارنا شروع کر دیا۔ بابا نے کہا بس علاج مکمل ہونے والا ہے۔
مجھے یہ سب لکھتے ہوئے یاد آ رہا ہے کہ جب ملالہ کو نوبل انعام دیا جا رہا تھا تو اُس وقت اس تقریب میں یوسف رضا گیلانی بھی کھڑے ہو کر تالیا ں بجا رہے تھے۔ کاش اُس وقت وہ کچھ اسکول کھول لیتے۔ تو کیا ان عورتوں کو یہ وقت دیکھنا پڑتا۔ یہ عورتیں اسی طرح اپنی سانس سے لڑتی لڑتی مر گئیں۔ بابا کہتے رہے کہ اب سب ٹھیک ہو جائے گا اور شاید ٹھیک ہی ہو گیا کہ اب وہ اس دنیا میں نہیں رہیں۔ پولیس کہتی ہے کہ ملزمان بھاگ گئے۔ آپ خود بتائیں کہ کیا یہ سب یہاں پہلی بار ہوا ہے۔ کسی نے پہلی بار اس طرح معصوم جان لی ہے۔ جو پولیس یہ کہتی ہے کہ ملزمان بھاگ گئے۔
میں نے شروع میں یہ کہا کہ میں کہاں سے شروع کروں اور کہاں سے ختم کروں۔ یہاں تو جسم کے ہر حصے سے خون بہہ رہا ہے۔ آپ کو آج کے دور میں اگر یہ منظر دیکھنے کے لیے ملے کہ نوجوانوں کو درخت سے باندھ دیا گیا ہو۔ وہ چلا چلا کر کہہ رہے ہوں کہ خدا کے واسطے ہمیں نیچے اتارو اور ہر گزرنے والا ان کی فریاد کو نظر انداز کر کے گزر جاتا ہو ۔ ایسا ہو رہا ہے دو نوجوان کوئی چھ مہینے تک درختوں سے لٹکے رہے اس لیے کہ ان کا علاج ہو رہا ہے۔ یہ سندھ ہے۔
جہاں حکومت وہ لوگ کر رہے ہیں جن کو امید ہے کہ اب اصل نوجوانوں کے ہاتھ میں پاکستان کی سب سے بڑی لبرل جماعت کی قیادت آ رہی ہے۔ وہ نوجوان جو باہر سے تعلیم حاصل کر کے آیا ہے۔ جو برگر کھاتا ہے۔ لاڑکانہ کا راستہ روہڑی سے دور نہیں ہے۔ جہاں دو نوجوانوں کو چھ مہینے سے درختوں سے اس لیے باندھا گیا ہے کہ اُن کا علاج مکمل ہو رہا ہے ۔
ایک ہفتے پہلے کا آنکھوں دیکھا حال ہے۔ دونوں نوجوانوں کا تعلق جوگی برداری سے ہے۔ ایک سکھرڈسٹرکٹ اور دوسرا شکارپور کا رہائشی ہے۔ ایک نوجوان کہتا ہے کہ مجھے خاندان والوں نے مجبور کیا کہ میں اپنی عمر سے زیادہ بڑی عورت سے شادی کر لوں۔ جب میں نے منع کیا تو مجھے مارنا شروع کر دیا۔ اس وجہ سے میں چڑ چڑا ہو گیا۔ وہ سمجھ رہے ہیں کہ میں پاگل ہو گیا۔ جب کہ میں پاگل نہیں۔ اس لیے مجھے اس قبرستان میں لائے ہیں اور یہاں علاج کرنے والوں نے مجھے درخت سے باندھ دیا ہے۔ وہ درخت سے بندھا ہوا کہہ رہا تھا کہ میری مدد کرو۔ دوسرا کہتا ہے کہ آج سے چند سال پہلے میں شدید بخار میں مبتلا ہو گیا تھا۔ جس کی وجہ سے مجھے کچھ بھی اچھا نہیں لگتا تھا۔
مجھے یہاں علاج کے لیے لایا گیا اور باندھ دیا گیا ہے کہ کہیں میں بھاگ نہ جاؤں۔ میرا مشورہ اُن کے لیے یہ تھا کہ وہ یہاں انتظار کرے کہ شاید نیا پاکستان بن جائے تو یہ لوگ آزاد ہو جائیں یا پھر کم سے کم اتنی دیر تو یہاں لٹکے رہیں جب تک پیپلز پارٹی کو یہ یقین نا ہو جائے کہ اُن کا چئیرمین بڑا ہو گیا۔ اور چئیرمین بڑے ہونے کے بعد کوئی ٹھوس قدم اٹھائیں۔ جہاں تک صوبائی حکومت کا تعلق ہے تو وہ آج کل وفاق کے پاس مصروف ہے اس لیے انھیں انتظار کرنا ہو گا۔
آپ مجھے ایک دن ایسا بتا دیجیے کہ جب اس طرح کی خبریں آپ کو نہ مل رہی ہوں۔ مجھے کوئی ایسا علاقہ بتادیجیے کہ جہاں بنیادی انسانی حقوق کو پیروں تلے نہ روندا جا رہا ہو۔ آپ مجھے کوئی ایسا طاقتور شخص بتا دیجیے کہ جو واقعی ظلمت میں روشنی پھیلانے کے لیے نکلا ہو۔ ایسے میں جب انسانیت کا روز قتل ہو رہا ہو وہاں آپ مجھے بڑے بڑے فیشن شو میں نئے پاکستان کا درس دے رہے ہوں تو میں کیسے یہ ہضم کر سکتا ہوں۔ آپ سمجھادیجیے کہ جب نوجوان درختوں سے لٹکے ہوں تو مجھے کیسے یقین آئے گا کہ چئیرمین کوئی کارنامہ کرے گا۔ اوہ۔ میں تو بھول گیا کہ نیا پاکستان بن چکا اور اسپیکر ہار گئے ۔ اب ایسا کچھ نہیں ہو گا ۔
یہ عجیب لوگوں کا ملک ہے جو ہمیشہ گزر جانے والے سانحات پر آنسو بہا کر آگے نکل جاتے ہیں ان کے پاس سوچنے کا موقعہ ہی نہیں ملتا۔ یہ لوگ روزانہ ایک نئے سانحے کی زد میں ہوتے ہیں کسی دن کوئی سانحہ نہ ملے تو یہ خود کوئی ڈراما پیدا کر لیتے ہیں، ان کے پاس اگر وقت نہیں تو بس اپنے لیے نہیں ہے۔ انھیں امریکا میں اوباما کے ناشتے سے لے کر جاپان تک کی فکر ہو گی مگر اپنے گریبان میں جھانکنے کے لیے ایک لمحہ نہیں ہوگا۔ انھیں معلوم ہی نہیں کہ یہ کس چنگاری کوروز ہوا دیتے ہیں اور پھر آگ انھیں اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔
اس کی کوئی ابتدا ہے اور نہ ہی کوئی اس کا انجام ہوتا ہوا مجھے نظر آ رہا ہے۔ اس اسلامی جمہوریہ پاکستان کے کس حصے سے شروع کروں۔ یہاں تو ہر حصہ درد سے تڑپ رہا ہے۔ ایک لمحے کے لیے سوچیں کہ آپ کے سامنے دو زندہ عورتیں تڑپ رہی ہوں اور آپ سے کہا جائے کہ انھیں ہاتھ مت لگانا اس تڑپ میں ہی زندگی ہے اور پھر تھوڑی دیر کے بعد وہ زندہ عورتیں مردہ لاشوں میں تبدیل ہو جائیں۔
یہ کوئی جھوٹی دل کو بہلانے والی کہانی نہیں ہے بلکہ یہ پاکستان میں پچھلے دنوں ہونے والا سچا قصہ ہے۔ یہ ملتان سے قریب ہے۔ وہ ہی ملتان کہ جہاں سے ہمارے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی ہیں۔ وہ ہی گیلانی صاحب جن کا دعوی ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی فرسودہ رسموں کے خلاف ہے۔ وہ ہی گیلانی صاحب جو جدت اور جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ وہ ہی ملتان ہے جہاں تبدیلی کے نعرے کا ساتھ دینے والے مخدوم شاہ محمود قریشی رہتے ہیں جن کے لاکھوں مرید ہیں۔
جو عمران خان کا الٹا یا سیدھا بازو ہیں۔ وہ ہی عمران خان جو اس ملک کو نیا کرنا چاہتے ہیں۔ یہ وہ ہی ملتان ہے جہاں ایک باغی بھی رہتا ہے۔ جس کے لیے لوگ کہتے ہے کہ ایک سچا آدمی ہے جس کا نام جاوید ہاشمی ہے۔ ان سب کے ہوتے ہوئے وہاں دو عورتوں کو تڑپا تڑپا کر کیوں مار دیا گیا؟
یہ ملتان سے تھوڑے ہی فاصلے پر کوٹ ادو کا علاقہ ہے۔ جہاں 40 سال کی ماں اور اُس کی 15 سال کی بیٹی کو لایا گیا۔ ہمارے پرانے وزیر اعظم اور نئے پاکستان کے داعی کے علاقے میں ان خواتین کو علاج کے لیے ایک عامل بابا کے پاس لایا گیا۔ اُس عامل بابا نے ان کے ہر مسئلے کا حل منٹوں میں ڈھونڈھ لیا اور کہا کہ ان کے اندر ایسی روحیں جن کا نکالنا ضروری ہے۔اُس نے گھر والوں کو باہر بیٹھا کر اس معصوم ماں اور بیٹی کو ایک کمرے میں بند کر دیا۔ وہاں پہلے آگ پیدا کی گئی اور پھر اُسے بجھا کر دھواں بنایا گیا اور اس دھویں میں مرچیں ڈال کر کمرہ بند کر دیا گیا۔
ماں اور بیٹی چلاتی رہی کہ انھیں باہر نکالا جائے لیکن کسی نے اُن کی ایک بھی نا سنی۔ نئے پاکستان کی طرف بڑھنے والی یہ عورتیں جب چلاتی تو بابا کہہ دیتے کہ یہ عورتیں نہیں ہیں بلکہ ان کے اندر کی بدروحیں جو باہر نکلنے سے پہلے چلا رہی ہیں۔ ستم پر ستم ہوتا رہا۔ ہر آنے والی سانس جانے والی سانس کا راستہ روکتی رہی۔ اب اُن کا کھانس کھانس کر برا حال تھا۔ بابا کہتے رہے کہ بس اب مسئلہ حل ہونے کے قریب ہے۔ ماں کا سانس رکنے لگا۔ بیٹی کی حالت بھی ٹھیک نہیں تھی۔ انھوں نے دروازے کو مارنا شروع کر دیا۔ بابا نے کہا بس علاج مکمل ہونے والا ہے۔
مجھے یہ سب لکھتے ہوئے یاد آ رہا ہے کہ جب ملالہ کو نوبل انعام دیا جا رہا تھا تو اُس وقت اس تقریب میں یوسف رضا گیلانی بھی کھڑے ہو کر تالیا ں بجا رہے تھے۔ کاش اُس وقت وہ کچھ اسکول کھول لیتے۔ تو کیا ان عورتوں کو یہ وقت دیکھنا پڑتا۔ یہ عورتیں اسی طرح اپنی سانس سے لڑتی لڑتی مر گئیں۔ بابا کہتے رہے کہ اب سب ٹھیک ہو جائے گا اور شاید ٹھیک ہی ہو گیا کہ اب وہ اس دنیا میں نہیں رہیں۔ پولیس کہتی ہے کہ ملزمان بھاگ گئے۔ آپ خود بتائیں کہ کیا یہ سب یہاں پہلی بار ہوا ہے۔ کسی نے پہلی بار اس طرح معصوم جان لی ہے۔ جو پولیس یہ کہتی ہے کہ ملزمان بھاگ گئے۔
میں نے شروع میں یہ کہا کہ میں کہاں سے شروع کروں اور کہاں سے ختم کروں۔ یہاں تو جسم کے ہر حصے سے خون بہہ رہا ہے۔ آپ کو آج کے دور میں اگر یہ منظر دیکھنے کے لیے ملے کہ نوجوانوں کو درخت سے باندھ دیا گیا ہو۔ وہ چلا چلا کر کہہ رہے ہوں کہ خدا کے واسطے ہمیں نیچے اتارو اور ہر گزرنے والا ان کی فریاد کو نظر انداز کر کے گزر جاتا ہو ۔ ایسا ہو رہا ہے دو نوجوان کوئی چھ مہینے تک درختوں سے لٹکے رہے اس لیے کہ ان کا علاج ہو رہا ہے۔ یہ سندھ ہے۔
جہاں حکومت وہ لوگ کر رہے ہیں جن کو امید ہے کہ اب اصل نوجوانوں کے ہاتھ میں پاکستان کی سب سے بڑی لبرل جماعت کی قیادت آ رہی ہے۔ وہ نوجوان جو باہر سے تعلیم حاصل کر کے آیا ہے۔ جو برگر کھاتا ہے۔ لاڑکانہ کا راستہ روہڑی سے دور نہیں ہے۔ جہاں دو نوجوانوں کو چھ مہینے سے درختوں سے اس لیے باندھا گیا ہے کہ اُن کا علاج مکمل ہو رہا ہے ۔
ایک ہفتے پہلے کا آنکھوں دیکھا حال ہے۔ دونوں نوجوانوں کا تعلق جوگی برداری سے ہے۔ ایک سکھرڈسٹرکٹ اور دوسرا شکارپور کا رہائشی ہے۔ ایک نوجوان کہتا ہے کہ مجھے خاندان والوں نے مجبور کیا کہ میں اپنی عمر سے زیادہ بڑی عورت سے شادی کر لوں۔ جب میں نے منع کیا تو مجھے مارنا شروع کر دیا۔ اس وجہ سے میں چڑ چڑا ہو گیا۔ وہ سمجھ رہے ہیں کہ میں پاگل ہو گیا۔ جب کہ میں پاگل نہیں۔ اس لیے مجھے اس قبرستان میں لائے ہیں اور یہاں علاج کرنے والوں نے مجھے درخت سے باندھ دیا ہے۔ وہ درخت سے بندھا ہوا کہہ رہا تھا کہ میری مدد کرو۔ دوسرا کہتا ہے کہ آج سے چند سال پہلے میں شدید بخار میں مبتلا ہو گیا تھا۔ جس کی وجہ سے مجھے کچھ بھی اچھا نہیں لگتا تھا۔
مجھے یہاں علاج کے لیے لایا گیا اور باندھ دیا گیا ہے کہ کہیں میں بھاگ نہ جاؤں۔ میرا مشورہ اُن کے لیے یہ تھا کہ وہ یہاں انتظار کرے کہ شاید نیا پاکستان بن جائے تو یہ لوگ آزاد ہو جائیں یا پھر کم سے کم اتنی دیر تو یہاں لٹکے رہیں جب تک پیپلز پارٹی کو یہ یقین نا ہو جائے کہ اُن کا چئیرمین بڑا ہو گیا۔ اور چئیرمین بڑے ہونے کے بعد کوئی ٹھوس قدم اٹھائیں۔ جہاں تک صوبائی حکومت کا تعلق ہے تو وہ آج کل وفاق کے پاس مصروف ہے اس لیے انھیں انتظار کرنا ہو گا۔
آپ مجھے ایک دن ایسا بتا دیجیے کہ جب اس طرح کی خبریں آپ کو نہ مل رہی ہوں۔ مجھے کوئی ایسا علاقہ بتادیجیے کہ جہاں بنیادی انسانی حقوق کو پیروں تلے نہ روندا جا رہا ہو۔ آپ مجھے کوئی ایسا طاقتور شخص بتا دیجیے کہ جو واقعی ظلمت میں روشنی پھیلانے کے لیے نکلا ہو۔ ایسے میں جب انسانیت کا روز قتل ہو رہا ہو وہاں آپ مجھے بڑے بڑے فیشن شو میں نئے پاکستان کا درس دے رہے ہوں تو میں کیسے یہ ہضم کر سکتا ہوں۔ آپ سمجھادیجیے کہ جب نوجوان درختوں سے لٹکے ہوں تو مجھے کیسے یقین آئے گا کہ چئیرمین کوئی کارنامہ کرے گا۔ اوہ۔ میں تو بھول گیا کہ نیا پاکستان بن چکا اور اسپیکر ہار گئے ۔ اب ایسا کچھ نہیں ہو گا ۔