چانکیہ کوٹلیا کا ففتھ کالم
چونکہ یہ کتاب سنسکرت میں تھی جس کی وجہ سے ہندو جاتی، اس میں درج شدہ اصولوں سے فیضاب نہیں ہو سکتی تھی
ہماری آج کی سیاسی پالیسیاں یہی ہیں کہ ہم سب کچھ جانتے بوجھتے بھی انجان بن جاتے ہیں یا پھر نوجوانوں کے اذہان میں یہ بات سما جاتی ہے کہ فلاں ملک سے، فلاں قوم سے ہمیں کیا لینا دینا، ہمارا ان سے کیا واسطہ، ماضی چھوڑو اور مستقبل کی جانب چلو۔ زیادہ تر مخالفت بھارت کے معاملے میں الجھن پیدا کرتی ہے کہ جب پاکستان میں، پاکستان کا مطلب کیا، کے مفہوم کو ہی تبدیل کر دیا گیا ہو تو موجودہ پاکستان و بھارت میں دشمنی کیوں بڑھائی جائے اور ایسے پاکستان کا کیا فائدہ، جس میں انھیں وہ آزادی نہیں، جو ان کے تئیں، بھات یا امریکا میں ہے۔
مسئلہ یہ ہے جانوروں میں پہچان کے لیے فطرت نے ان میں خُو ڈال دی ہے اور وہ چہرے کو دیکھ کر سمجھ جاتے ہیں کہ سامنے جو جانور آ رہا ہے وہ بکری ہی ہے شیر نہیں، اور جب شیر سامنے آتا ہے تو یہ بات بھی باآسانی سمجھ میں آ جاتی ہے کہ شیر درندہ ہے جس کا کام ضرر پہنچانا ہے۔
لیکن انسانوں میں یہ صورت حال مختلف ہے یہاں انسان دوسرے انسان کو اس کے افعال، اقوال اور عملی اقدامات سے ہی پہچان سکتا ہے کہ ان کے سامنے جو انسان کھڑا ہے وہ کسی خونخوار درندے سے بھی زیادہ خطرناک ہے یا کسی بھی لومڑی سے بھی زیادہ چالاک۔ ہمارے نوجوان انھیں بھی انسان ہی سمجھتے ہیں جو اپنے پیکروں کے پیرہن میں مہیب و اثر دار یا مکار لومڑیاں ہیں۔
پہلے ہم اکھنڈ بھارت کے اساسی سیاس اصولوں کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ آخر اس کی طرز سیاست میں تبدیلی واقع کیوں نہیں ہو رہی۔ ہندوؤں کی ساری تاریخ، اگر اسے بھان متی کے تاریخ کہا جا سکے، صرف ایک سیاسی فلاسفر پیدا ہوا ہے، نام تو اس کا چانکیہ تھا لیکن وہ اپنے آپ کو نہایت فخر سے 'کوٹلیا' کہتا تھا اور ہندو بھی اسے اسی لقب سے پکارتے ہیں، کوٹلیا کے معنی ہیں ''مکار اور فریب کار''۔ انھوں نے اصول سیاست پر ایک کتاب لکھی، جس کا نام ارتھ شاستر ہے۔
چونکہ یہ کتاب سنسکرت میں تھی جس کی وجہ سے ہندو جاتی، اس میں درج شدہ اصولوں سے فیضاب نہیں ہو سکتی تھی، اسی لیے اس کا انگریزی ترجمہ شایع کیا گیا جس میں سیاست کے جو اصول بطور ضابطہ ہدایت دیے گئے ہیں' وہ قابل غور ہیں۔
پہلا اصول: حصول اقتدار اور ملک گیری کی ہوس کبھی ٹھنڈی نہ ہونے پائے۔ دوسرا اصول: ہمسایہ سلطنتوں سے وہی سلوک رکھا جائے جو دشمنوں سے رکھا جاتا ہے، تمام ہمسایہ سلطنتوں پر ہمیشہ کڑی نگرانی رکھی جائے۔تیسرا اصول: غیر ہمسایہ سلطنتوں سے دوستانہ تعلقات قائم کیے جائیں۔چوتھا اصول: جن سے دوستی رکھی جائے ان سے دوستی میں ہمیشہ اپنی غرض پیش نظر رہے اور مکارانہ سیاست کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے۔پانچواں اصول: دل میں ہمیشہ رقابت کی آگ مشتعل رکھی جائے، ہر بہانہ سے جنگ کی چنگاریاں سلگائی جاتی رہیں۔
جنگ میں انتہائی تشدد سے کام لیا جائے حتیٰ کہ خود اپنے شہریوں کے مصائب و آلام کی بھی پروا نہ کی جائے۔چھٹا اصول: دوسرے ملکوں میں مخالفانہ پروپیگنڈا، تخریبی کارروائیاں، ذہنی انتشار پیدا کرنے کی مہم جاری رکھی جائے، وہاں اپنے آدمی ناجائز طریقہ سے داخل کر کے ففتھ کالم بنایا جائے اور یہ سب کچھ مسلسل انداز سے کیا جائے۔ساتواں اصول: رشوت اور دیگر اسی قسم کے ذرایع سے اقتصادی جنگ جاری رکھی جائے اور دوسرے ملکوں کے آدمیوں کو خریدنے کی کوشش کی جائے۔آٹھواں اصول: امن کا خیال تک بھی دل میں نہ لایا جائے خواہ ساری دنیا تمہیں اس پر مجبور کیوں نہ کرے۔
عزیزان من یہ ہیں مختصراً الفاظ میں سیاست کے وہ اصول جو بھارت کے ایک مہاتما نے انھیں دیے۔ یہ مہاتما ان کے ست جگ کے زمانے کے پیداوار تھے، یعنی وہ زمانہ جس میں (ان کے عقیدے کے مطابق بھارت میں) سچائی کا دور تھا، اس کے بعد کل جُگ میں ایک اور مہاتما پیدا ہوئے جنھیں گاندھی جی کہا جاتا ہے۔ ان کی کیفیت قائداعظم خود اس طرح بیان کرتے ہیں، قائداعظم نے مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن (جالندھرا کے اجلاس منعقدہ 1933ء) میں پبلک پلیٹ فارم سے کہا تھا کہ ''مشکل یہ ہے کہ گاندھی کا مقصد وہ نہیں ہوتا جو زبان سے کہتے ہیں اور جو ان کا درحقیقت مقصد ہوتا ہے۔
اسے کبھی زبان پر نہیں لاتے۔'' اسی طرح انھوں نے اگست 1945ء میں ایک جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''ہمیں جس حریف سے پالا پڑا ہے وہ گرگٹ کی طرح اپنا رنگ بدلتا رہتا ہے، جب ان کے (یعنی گاندھی کے) مفید مطلب ہوتا ہے وہ کہہ دیتے ہیں کہ وہ کسی کے نمایندہ نہیں، وہ محض انفرادی حیثیت سے گفتگو کر رہے ہیں، وہ کانگریس کے چار آنہ کے ممبر بھی نہیں، اور جب ضرورت ہوتی ہے تو سارے ہندوستان کے واحد نمایندہ بن جاتے ہیں، جب اور حربوں سے کام نہی چلتا تو مرن بھرت رکھ لیتے ہیں، جب کوئی دلیل بن نہیں پڑتی تو 'اندرونی آواز' کو بدل لیتے ہیں، کہیے کہ ایسے شخص سے ہم کس طرح بات کر سکتے ہیں، وہ تو ایک چیستان ہیں، معمہ ہیں۔''کوٹلیا کے طرز سیاست اور دوسرے مہاتما گاندھی کی سیمابی کیفیت نے ہی پاکستان کے وجود کو ہمیشہ خطرے میں رکھا ہوا ہے۔
حصول اقتدار کی ہوس میں 68 سال گزر جانے کے باوجود پاکستان کو واپس متحدہ ہندوستان بنانے کی خواہش بھارت سے ختم نہیں ہو سکی اور اس کی یہی جبلت کشمیریوں کو حق خود ارادیت دینے میں حائل ہے، کیونکہ ملک گیری کی ہوس کو وہ ٹھنڈی نہیں رکھنا چاہتے۔ کوٹلیا کی سیاست کے دوسرے اصول کے تحت پاکستان کے ساتھ بھارت کا سلوک دشمنوں سے بھی بدتر ہے اور کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا، جس میں پاکستان کو نقصان نہ پہنچا سکے۔
افغانستان کے داخلی معاملات میں کھلی مداخلت کے ساتھ پاکستان میں شرانگیزیاں کوٹلیا سیاست ہے۔کوٹلیا کا تیسرا اصول دیکھ لیں کہ ہمسایوں سے دشمنی بڑھائی جائے اور اپنی غرض کی پیش نظر پاکستان دشمن ممالک سے دوستی مضبوط کی جائے۔ بھارت کے غیر ہمسایہ ممالک سے دوستی کا معیار خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ اور پاکستان کی سلامتی کو نقصان پہنچانا ہے۔ کوٹلیا کے چوتھے اصول میں بھارت نے مکارانہ سیاست کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑا، جہاں وہ مجبور ہوا کہ اس کی عالم میں سبکی ہو رہی ہے یا پھر کسی ورلڈ آرگنائزیشن میں پاکستان کے ساتھ دوستی کے پیغامات کی ضرورت ہے تو ہونٹوں پر مسکراہٹ آ جاتی ہے۔ لیکن رات ڈھلتے ہی سرحدوں پر بے گناہوں کے خون سے پاک سر زمین لبریز کر دی جاتی ہے۔
کوٹلیا کا پانچواں اصول نہایت قابل غور ہے کہ بھارت میں ہونے والے جتنے متشدد واقعات رونما ہوئے وہ خود ہندو انتہاپسندوں نے کروائے جس سے بھارتی عوام میں خوف و ہراس پیدا ہوا، سمجھوتہ ایکسپریس، ممبئی حملہ، پارلیمنٹ حملہ، سمندری کشتی حملہ، گورداسپور پولیس اسٹیشن حملہ سمیت ان گنت واقعات، جس میں خود ہندو انتہاپسند تنظیمیں ملوث پائی گئیں، بغیر کسی شواہد کے بھارتی میڈیا کے ذریعے جنگ اور اشتعال کی چنگاری کو بجھنے نہیں دیا جاتا اور آگ کے شعلوں کو مزید بڑھا دیا جاتا ہے۔کوٹلیا سیاست کے چھٹے اصول کے تحت پاکستان، بھارت کی مخالفانہ پروپیگنڈا اور تخریبی کاروائیوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔
بلوچستان، کراچی، خیبر پختونخوا اور پنجاب میں دہشت گردی کے واقعات اور دہشت گرد تنظیموں کی سپورٹ کے ٹھوس شواہد کسی سے ڈھکے چھپے نہیں رہے۔ حالانکہ پاکستان میں GHQ، نیول ائیر بیس، ائیرفورس، ائیرپورٹ، حساس ادارے، قانون نافذ کرنے والے افسران، اہلکار، سیاسی افراد سمیت اہم شخصیات کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا لیکن کبھی بھی بھارتی میڈیا کی طرح بغیر کسی ٹھوس شواہد کو حاصل کیے عوام میں اشتعال پیدا کرنے کے لیے براہ راست بھارت پر الزام نہیں لگایا گیا۔
کوٹلیا کا ساتواں اصول ہی دراصل بھارت کی جانب سے پاکستان کی معاشی شہ رگ اور اقتصادی معیشت کو نقصان پہنچانا اور مفلوج کرنا رہا ہے۔ پاک، چائنا اقتصادی راہداری معاہدہ، افغانستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات اور بین الاقوامی معاشی جائزے میں پاکستان کی معاشی صورتحال کی ترقی کو امریکا سے بہتر بتائے جانا، بھارت کے سینے پر سانپ کی طرح لوٹ رہا ہے اور اسی اصول کے تحت پاکستان میں اپنے زرخرید غلاموں کے ذریعے انارکی و بدامنی پھیلانے کی سازشوں کے تحت ایسے پاکستانیوں کو خرید لیا گیا ہے۔
جن کی رگوں میں بھارت کی رشوت کا خون دوڑ رہا ہے اور حاصل جمع کوٹلیا کا آٹھواں اصول کہ امن کا خیال تک بھی دل میں نہ لایا جائے خواہ ساری دنیا تمہیں اس پر مجبور کیوں نہ کرے۔ چانکیہ 'کوٹلیا' کے انھی اصولوں کی سیاست کو بھارت نے اپنے دل و دماغ پر حاوی کیا ہوا ہے۔سرسری جائزے سے ہی یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ بھارت گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والا جانور ہے جہاں انسان جانوروں سے بھی بدتر حالت میں ہیں، شاید اب کسی نادان دوست کو بھارت سے دوستی کا مطلب سمجھ میں آ سکے۔
مسئلہ یہ ہے جانوروں میں پہچان کے لیے فطرت نے ان میں خُو ڈال دی ہے اور وہ چہرے کو دیکھ کر سمجھ جاتے ہیں کہ سامنے جو جانور آ رہا ہے وہ بکری ہی ہے شیر نہیں، اور جب شیر سامنے آتا ہے تو یہ بات بھی باآسانی سمجھ میں آ جاتی ہے کہ شیر درندہ ہے جس کا کام ضرر پہنچانا ہے۔
لیکن انسانوں میں یہ صورت حال مختلف ہے یہاں انسان دوسرے انسان کو اس کے افعال، اقوال اور عملی اقدامات سے ہی پہچان سکتا ہے کہ ان کے سامنے جو انسان کھڑا ہے وہ کسی خونخوار درندے سے بھی زیادہ خطرناک ہے یا کسی بھی لومڑی سے بھی زیادہ چالاک۔ ہمارے نوجوان انھیں بھی انسان ہی سمجھتے ہیں جو اپنے پیکروں کے پیرہن میں مہیب و اثر دار یا مکار لومڑیاں ہیں۔
پہلے ہم اکھنڈ بھارت کے اساسی سیاس اصولوں کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ آخر اس کی طرز سیاست میں تبدیلی واقع کیوں نہیں ہو رہی۔ ہندوؤں کی ساری تاریخ، اگر اسے بھان متی کے تاریخ کہا جا سکے، صرف ایک سیاسی فلاسفر پیدا ہوا ہے، نام تو اس کا چانکیہ تھا لیکن وہ اپنے آپ کو نہایت فخر سے 'کوٹلیا' کہتا تھا اور ہندو بھی اسے اسی لقب سے پکارتے ہیں، کوٹلیا کے معنی ہیں ''مکار اور فریب کار''۔ انھوں نے اصول سیاست پر ایک کتاب لکھی، جس کا نام ارتھ شاستر ہے۔
چونکہ یہ کتاب سنسکرت میں تھی جس کی وجہ سے ہندو جاتی، اس میں درج شدہ اصولوں سے فیضاب نہیں ہو سکتی تھی، اسی لیے اس کا انگریزی ترجمہ شایع کیا گیا جس میں سیاست کے جو اصول بطور ضابطہ ہدایت دیے گئے ہیں' وہ قابل غور ہیں۔
پہلا اصول: حصول اقتدار اور ملک گیری کی ہوس کبھی ٹھنڈی نہ ہونے پائے۔ دوسرا اصول: ہمسایہ سلطنتوں سے وہی سلوک رکھا جائے جو دشمنوں سے رکھا جاتا ہے، تمام ہمسایہ سلطنتوں پر ہمیشہ کڑی نگرانی رکھی جائے۔تیسرا اصول: غیر ہمسایہ سلطنتوں سے دوستانہ تعلقات قائم کیے جائیں۔چوتھا اصول: جن سے دوستی رکھی جائے ان سے دوستی میں ہمیشہ اپنی غرض پیش نظر رہے اور مکارانہ سیاست کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے۔پانچواں اصول: دل میں ہمیشہ رقابت کی آگ مشتعل رکھی جائے، ہر بہانہ سے جنگ کی چنگاریاں سلگائی جاتی رہیں۔
جنگ میں انتہائی تشدد سے کام لیا جائے حتیٰ کہ خود اپنے شہریوں کے مصائب و آلام کی بھی پروا نہ کی جائے۔چھٹا اصول: دوسرے ملکوں میں مخالفانہ پروپیگنڈا، تخریبی کارروائیاں، ذہنی انتشار پیدا کرنے کی مہم جاری رکھی جائے، وہاں اپنے آدمی ناجائز طریقہ سے داخل کر کے ففتھ کالم بنایا جائے اور یہ سب کچھ مسلسل انداز سے کیا جائے۔ساتواں اصول: رشوت اور دیگر اسی قسم کے ذرایع سے اقتصادی جنگ جاری رکھی جائے اور دوسرے ملکوں کے آدمیوں کو خریدنے کی کوشش کی جائے۔آٹھواں اصول: امن کا خیال تک بھی دل میں نہ لایا جائے خواہ ساری دنیا تمہیں اس پر مجبور کیوں نہ کرے۔
عزیزان من یہ ہیں مختصراً الفاظ میں سیاست کے وہ اصول جو بھارت کے ایک مہاتما نے انھیں دیے۔ یہ مہاتما ان کے ست جگ کے زمانے کے پیداوار تھے، یعنی وہ زمانہ جس میں (ان کے عقیدے کے مطابق بھارت میں) سچائی کا دور تھا، اس کے بعد کل جُگ میں ایک اور مہاتما پیدا ہوئے جنھیں گاندھی جی کہا جاتا ہے۔ ان کی کیفیت قائداعظم خود اس طرح بیان کرتے ہیں، قائداعظم نے مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن (جالندھرا کے اجلاس منعقدہ 1933ء) میں پبلک پلیٹ فارم سے کہا تھا کہ ''مشکل یہ ہے کہ گاندھی کا مقصد وہ نہیں ہوتا جو زبان سے کہتے ہیں اور جو ان کا درحقیقت مقصد ہوتا ہے۔
اسے کبھی زبان پر نہیں لاتے۔'' اسی طرح انھوں نے اگست 1945ء میں ایک جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''ہمیں جس حریف سے پالا پڑا ہے وہ گرگٹ کی طرح اپنا رنگ بدلتا رہتا ہے، جب ان کے (یعنی گاندھی کے) مفید مطلب ہوتا ہے وہ کہہ دیتے ہیں کہ وہ کسی کے نمایندہ نہیں، وہ محض انفرادی حیثیت سے گفتگو کر رہے ہیں، وہ کانگریس کے چار آنہ کے ممبر بھی نہیں، اور جب ضرورت ہوتی ہے تو سارے ہندوستان کے واحد نمایندہ بن جاتے ہیں، جب اور حربوں سے کام نہی چلتا تو مرن بھرت رکھ لیتے ہیں، جب کوئی دلیل بن نہیں پڑتی تو 'اندرونی آواز' کو بدل لیتے ہیں، کہیے کہ ایسے شخص سے ہم کس طرح بات کر سکتے ہیں، وہ تو ایک چیستان ہیں، معمہ ہیں۔''کوٹلیا کے طرز سیاست اور دوسرے مہاتما گاندھی کی سیمابی کیفیت نے ہی پاکستان کے وجود کو ہمیشہ خطرے میں رکھا ہوا ہے۔
حصول اقتدار کی ہوس میں 68 سال گزر جانے کے باوجود پاکستان کو واپس متحدہ ہندوستان بنانے کی خواہش بھارت سے ختم نہیں ہو سکی اور اس کی یہی جبلت کشمیریوں کو حق خود ارادیت دینے میں حائل ہے، کیونکہ ملک گیری کی ہوس کو وہ ٹھنڈی نہیں رکھنا چاہتے۔ کوٹلیا کی سیاست کے دوسرے اصول کے تحت پاکستان کے ساتھ بھارت کا سلوک دشمنوں سے بھی بدتر ہے اور کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا، جس میں پاکستان کو نقصان نہ پہنچا سکے۔
افغانستان کے داخلی معاملات میں کھلی مداخلت کے ساتھ پاکستان میں شرانگیزیاں کوٹلیا سیاست ہے۔کوٹلیا کا تیسرا اصول دیکھ لیں کہ ہمسایوں سے دشمنی بڑھائی جائے اور اپنی غرض کی پیش نظر پاکستان دشمن ممالک سے دوستی مضبوط کی جائے۔ بھارت کے غیر ہمسایہ ممالک سے دوستی کا معیار خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ اور پاکستان کی سلامتی کو نقصان پہنچانا ہے۔ کوٹلیا کے چوتھے اصول میں بھارت نے مکارانہ سیاست کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑا، جہاں وہ مجبور ہوا کہ اس کی عالم میں سبکی ہو رہی ہے یا پھر کسی ورلڈ آرگنائزیشن میں پاکستان کے ساتھ دوستی کے پیغامات کی ضرورت ہے تو ہونٹوں پر مسکراہٹ آ جاتی ہے۔ لیکن رات ڈھلتے ہی سرحدوں پر بے گناہوں کے خون سے پاک سر زمین لبریز کر دی جاتی ہے۔
کوٹلیا کا پانچواں اصول نہایت قابل غور ہے کہ بھارت میں ہونے والے جتنے متشدد واقعات رونما ہوئے وہ خود ہندو انتہاپسندوں نے کروائے جس سے بھارتی عوام میں خوف و ہراس پیدا ہوا، سمجھوتہ ایکسپریس، ممبئی حملہ، پارلیمنٹ حملہ، سمندری کشتی حملہ، گورداسپور پولیس اسٹیشن حملہ سمیت ان گنت واقعات، جس میں خود ہندو انتہاپسند تنظیمیں ملوث پائی گئیں، بغیر کسی شواہد کے بھارتی میڈیا کے ذریعے جنگ اور اشتعال کی چنگاری کو بجھنے نہیں دیا جاتا اور آگ کے شعلوں کو مزید بڑھا دیا جاتا ہے۔کوٹلیا سیاست کے چھٹے اصول کے تحت پاکستان، بھارت کی مخالفانہ پروپیگنڈا اور تخریبی کاروائیوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔
بلوچستان، کراچی، خیبر پختونخوا اور پنجاب میں دہشت گردی کے واقعات اور دہشت گرد تنظیموں کی سپورٹ کے ٹھوس شواہد کسی سے ڈھکے چھپے نہیں رہے۔ حالانکہ پاکستان میں GHQ، نیول ائیر بیس، ائیرفورس، ائیرپورٹ، حساس ادارے، قانون نافذ کرنے والے افسران، اہلکار، سیاسی افراد سمیت اہم شخصیات کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا لیکن کبھی بھی بھارتی میڈیا کی طرح بغیر کسی ٹھوس شواہد کو حاصل کیے عوام میں اشتعال پیدا کرنے کے لیے براہ راست بھارت پر الزام نہیں لگایا گیا۔
کوٹلیا کا ساتواں اصول ہی دراصل بھارت کی جانب سے پاکستان کی معاشی شہ رگ اور اقتصادی معیشت کو نقصان پہنچانا اور مفلوج کرنا رہا ہے۔ پاک، چائنا اقتصادی راہداری معاہدہ، افغانستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات اور بین الاقوامی معاشی جائزے میں پاکستان کی معاشی صورتحال کی ترقی کو امریکا سے بہتر بتائے جانا، بھارت کے سینے پر سانپ کی طرح لوٹ رہا ہے اور اسی اصول کے تحت پاکستان میں اپنے زرخرید غلاموں کے ذریعے انارکی و بدامنی پھیلانے کی سازشوں کے تحت ایسے پاکستانیوں کو خرید لیا گیا ہے۔
جن کی رگوں میں بھارت کی رشوت کا خون دوڑ رہا ہے اور حاصل جمع کوٹلیا کا آٹھواں اصول کہ امن کا خیال تک بھی دل میں نہ لایا جائے خواہ ساری دنیا تمہیں اس پر مجبور کیوں نہ کرے۔ چانکیہ 'کوٹلیا' کے انھی اصولوں کی سیاست کو بھارت نے اپنے دل و دماغ پر حاوی کیا ہوا ہے۔سرسری جائزے سے ہی یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ بھارت گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والا جانور ہے جہاں انسان جانوروں سے بھی بدتر حالت میں ہیں، شاید اب کسی نادان دوست کو بھارت سے دوستی کا مطلب سمجھ میں آ سکے۔