انتخابی اصلاحات
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ملک میں انتخابات وہی ’’غریب‘‘ لڑ سکتا ہے جو ارب پتی نہ سہی کروڑ پتی ضرور ہو
ISLAMABAD:
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ملک میں انتخابات وہی ''غریب'' لڑ سکتا ہے جو ارب پتی نہ سہی کروڑ پتی ضرور ہو جس کی وجہ عام غریب آدمی ان کروڑ پتی انتخابات میں حصہ لینے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ ہمارا کروڑ پتی اور ارب پتی طبقہ انتخابات میں شرکت کو ایک ایسا منافع بخش کاروبار سمجھتا ہے۔
جس میں منافعے کی کوئی حد نہیں ہے، یہ سرمایہ کاری کرنے والے کی ''اعلیٰ صلاحیت'' پر منحصر ہے کہ وہ ایک کے اکیس بناتا ہے یا ایک کے اکاون بناتا ہے لیکن عام تاثر یہی ہے کہ اس انڈسٹری میں گھاٹے کی کوئی گنجائش ہی نہیں اور منافعے کی شرح سرمایہ کاری کرنے والے کی اہلیت پر منحصر ہوتی ہے۔ پارلیمانی کمیٹی برائے انتخابات کی ذیلی کمیٹی نے جو سفارشات پیش کی ہیں وہ اس کے حساب سے درست ہی ہوں گی۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا ہماری مقتدر طاقتیں اور اشرافیہ معترضین کی اشک شوئی کے لیے کچھ بے معنی اصلاحات ہی چاہتی ہیں یا اس پورے کرپٹ سسٹم میں ایسی بنیادی تبدیلی لانا چاہتی ہیں کہ عام اہل اور باصلاحیت شہری بھی انتخابات میں حصہ لے سکے؟اس سوال کا منطقی جواب تو یہ ہے کہ 68 سالوں سے سیاست اور اقتدار پر قابض مافیا کبھی یہ چاہ ہی نہیں سکتی کہ عام انتخابات میں ایسی آسانیاں فراہم کردی جائیں کہ غریب طبقات انتخابات میں حصہ لے سکیں اگر عام لوگوں کو انتخابات میں شرکت کی سہولتیں فراہم کردی گئیں تو اس کا صاف مطلب یہ ہوگا کہ اقتدار میں رہنے اور حزب اختلاف کا کردار ادا کرنے والی ایلیٹ اپنے ہاتھوں سے اپنے پیروں پر کلہاڑی مارے۔
انتخابی اصلاحات کی ذیلی کمیٹی نے ازراہ کرم لامحدود انتخابی اخراجات میں کمی کرکے ایم این ایز کے لیے 50 لاکھ اور ایم پی ایز کے لیے جو 20 لاکھ کی حد مقرر کی ہے کیا اس سے ہمارے ملک کے 20 کروڑ غریب عوام فائدہ اٹھاسکتے ہیں جو طبقات نان جویں سے محتاج ہیں کیا وہ 20 اور 30 لاکھ کی رقم اکٹھی کرسکتے ہیں؟ہمارے ملک میں انتخابی نظام اس قدر ناقص اور مشکوک ہے کہ کوئی انتخاب ایسا نہیں گزرا جو دھاندلیوں کے الزامات سے پاک ہو۔
2013 کے الیکشن کی خصوصیت یہ رہی کہ ملک کی تمام سیاسی اور جمہوری پارٹیوں نے اسے دھاندلی زدہ انتخابات کہا۔ تحریک انصاف نے تو ان مبینہ دھاندلیوں کے خلاف پارلیمنٹ کے اندر اور پارلیمنٹ کے باہر مسلسل احتجاج کیا اس حوالے سے عدلیہ کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی کمیشن بھی بنایا لیکن نتیجہ ٹائیں ٹائیں فش کے علاوہ کچھ نہ نکل سکا ہمارے عاقل و بالغ کپتان کو غالباً یہ علم نہیں کہ ہمارے قانون اور انصاف کے نظام کا ڈھانچہ گواہوں اور ثبوتوں پر کھڑا ہے کیس کتنا ہی جنیوئن کیوں نہ ہو اگر مطلوبہ معیار پر پورے اترنے والے گواہ اور ثبوت موجود نہ ہوں تو فیصلہ مدعی کے خلاف ہی جاتا ہے ۔انتخابات میں دھاندلی کا رونا تو تحریک انصاف سمیت ساری جماعتوں نے رویا لیکن چونکہ اس حوالے سے تسلی بخش گواہ اور ثبوت پیش نہیں کیے گئے لہٰذا عمران خان کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔
2013 کے الیکشن کے بعد جب دھاندلیوں کا شور شدید صورت اختیار کرگیا تو اس شکایت کی تحقیق کے لیے ایک جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا گیا جو مہینوں کیس کی تحقیق کرتا رہا لیکن تحریک انصاف اس کمیشن کو مطمئن کرنے والے نہ گواہ پیش کرسکی نہ ثبوت جس کا جو نتیجہ نکلتا تھا وہی نکلا اور ہمارے کپتان اس فیصلے کو ماننے پر مجبور تو ہوئے لیکن دھاندلیوں کے خلاف ان کا احتجاج کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔
دھاندلیوں کے تسلسل اور سیاسی جماعتوں کے شور وغوغے سے تنگ آکر ہمارے حکمرانوں نے پارلیمانی کمیٹی برائے انتخابی اصلاحات تشکیل دی جس نے طویل غورو فکر کے بعد کچھ سفارشیں پیش کی ہیں جن میں ایم این اے اور ایم پی اے کے زیادہ سے زیادہ اخراجات کی حد مقرر کی گئی ہے جس کے مطابق کوئی ایم این اے 30 لاکھ سے زیادہ انتخابی اخراجات نہیں کرسکتا اور ایم پی اے کے انتخابی اخراجات کی حد 20 لاکھ مقرر کی گئی ہے جس کی تفصیلات الیکشن کمیشن کو مہیا کرنا پڑے گی۔ اسی قسم کی کچھ اور سفارشات بھی پیش کی گئی ہیں۔
ہمارے سیاسی کلچر میں انتخابی مہم کا مطلب بڑے بڑے جلسے جلوس، ٹی وی اشتہارات، ہورڈنگز، ووٹروں کو پرچانے کے لیے لنگر خانوں کا اہتمام، بینر، پوسٹر، پمفلٹ وغیرہ شامل ہیں جن پر کروڑوں سے زیادہ خرچ آتا ہے اشرافیہ اتنی بھاری سرمایہ کاری اس لیے کرتی ہے کہ یہ سرمایہ کاری سو فیصد منافع کے ساتھ واپس آتی ہے۔ جو بے چارہ غریب نہ مہربانی سے کم کی ہوئی 20-30 لاکھ کی رقم کا انتظام کرسکتا ہے نہ انتخابات میں حصہ لے سکتا ہے۔
اس ٹھوس حقیقت کے پیش نظر اس بات کا گمان تک ممکن نہیں کہ ملک کے 20 کروڑ عوام سے تعلق رکھنے والے غریب لیکن مہذب، ایماندار، باصلاحیت لوگ پارلیمنٹ میں پہنچ سکیں۔ اگر غریب طبقات کے مخلص، ایماندار اور باصلاحیت لوگوں کو پارلیمنٹ میں لانا ہو تو اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ حکومت عوامی نمایندوں کو بڑے بڑے جلسوں جلوسوں، لنچ ڈنروں سے نجات دلا کر میڈیا کے ذریعے محدود انتخابی مہم کا اہتمام کرے۔
ہمیں حیرت ہے کہ پارلیمانی کمیٹیاں ایسی سفارشات پیش کر رہی ہیں جن کا فائدہ لازماً اشرافیہ ہی کو ہوگا۔ جس طرح ہمارے ملک میں انتخابی دھاندلیوں کو ختم کرنا ممکن نہیں اسی طرح ایلیٹ کو 20 اور 30 لاکھ کے انتخابی اخراجات میں باندھنا بھی ممکن نہیں جو ایلیٹ اپنے جلسوں میں لاکھوں کرسیوں کا انتظام کرتی ہے جلوسوں پر کروڑوں روپے خرچ کردیتی ہے اور میڈیائی پبلسٹی پر 50-50 کروڑ خرچ کردیتی ہے کیا وہ 20 اور 30 لاکھ میں بند ہوکر انتخابات لڑ سکتی ہے۔
اگر انتخابی اصلاحات کا مقصد معترضین کو لالی پاپ دینا ہے تو پھر اس قسم کی اصلاحات سے کسی کو کوئی اعتراض نہیں۔ اگر ہمارے جمہوری نظام میں انقلابی تبدیلیاں لاکر مزدوروں، کسانوں، صحافیوں، ادیبوں، شاعروں، فنکاروں کے مخلص نمایندوں کو پارلیمنٹ میں لانا ہو تو کرپٹ اشرافیہ کو انتخابی نظام سے نکال باہر کرنا ہوگا اس سلسلے میں سفارشات پیش کی جانی چاہئیں ورنہ ان فضول مشقوں سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا۔