سبزے کا حسن
چائے کے باغات میں کھڑے ہو کر سامنے دیکھا تو ایک خوبصورت جھرنا سبزے کی مانگ میں سیندور کی طرح چمک رہا تھا
PESHAWAR:
چائے کے باغات میں کھڑے ہو کر سامنے دیکھا تو ایک خوبصورت جھرنا سبزے کی مانگ میں سیندور کی طرح چمک رہا تھا۔ اس وقت نوارا ایلیا میں موجود ہیں جو سیاحوں کی جنت کہلاتا ہے۔ خوبصورت پہاڑ، دریا، بادل اور سبزے سے مہکتا ہوا یہ ایک ایسا منظر ہے، جو مدتوں ذہن کو طراوت دیتا رہے گا۔ یہاں خوبصورت مناظر جا بجا بکھرے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ ایک غیر محسوس دوست ہمارے درمیان رہتا ہے۔ یہ ہم سے آلودہ رویوں کا بوجھ بانٹ لیتا ہے۔ تھکن اور افسردگی اپنی تازگی میں سمیٹ کر ہمیں ڈھارس دیتا ہے۔ یہ دوست چائے کا وہ گرم گھونٹ ہے، جو ہمیں حقیقت کی دنیا میں واپس لے کر آتا ہے۔ ذہن کی الفا لہریں دوبارہ متحرک ہو جاتی ہیں اور ذہنی کارکردگی میں بہتری لاتی ہیں۔ چائے ہمارا قومی مشروب ہے۔چائے کے بغیر ہماری صبح کا آغاز نہیں ہو سکتا۔ پورا دن چائے کے دور چلتے رہتے ہیں۔
وہ احساس جو انسانوں سے نہیں ملتا، ڈھارس کا وہ لمحہ چائے کا کپ فراہم کر دیتا ہے۔ جو معاشرے اچھے احساس کے بغیر جیتے ہیں، وہاں عادت کا کوئی نہ کوئی سرور عوامی صفوں میں گھس آتا ہے۔ بعض اوقات یہ عادات اندرکی کمی اور محرومی کا اظہار ہوتی ہیں۔ چائے پینے کی عادت ہمارے ملک میں بہت پختہ ہے۔ لہٰذا روس، برطانیہ اور مصر کے بعد پاکستان چوتھا ملک ہے، جہاں چائے کا استعمال زیادہ ہوتا ہے۔ پاکستان یہ چائے اکیس ممالک سے درآمد کرتا ہے۔
جن میں کینیا، انڈونیشیا، انڈیا، بنگلہ دیش اور سری لنکا شامل ہیں۔ جب کہ امریکا، آسٹریلیا، ایران، سری لنکا، انڈیا، چائنا، جاپان اور ترکی بھی چائے کا استعمال کرتے ہیں مگر یہ چائے کی پیداوار کے حوالے سے خود کفیل ہیں۔ پاکستان میں چائے کے بہت کم باغات ہیں جب کہ طلب کا گراف بہت اونچا ہے۔ 2010ء میں 170.000 ٹن چائے ہمارے ملک نے درآمد کی۔ لہٰذا پاکستان ہر سال کھربوں روپے دوسرے ممالک کو ادا کرتا ہے۔ فقط گزشتہ سال نو مہینوں میں 16.9 بلین کی چائے ملک نے درآمد کی۔ ہماری لاپرواہی اور عادات کس طرح ہماری معیشت پر بوجھ بنی ہوئی ہیں ذرا سوچیے۔
اٹھارویں صدی میں چائنا سے لایا جانے والا چھوٹا سا پودا یہاں لگایا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے سری لنکا چائے سے زیادہ زرمبادلہ کمانے والا تیسرا بڑا ملک بن گیا۔ یہ لوگ نباتات سے عشق کرتے ہیں۔ یہ پودوں، پھولوں اور درختوں کو محبت سے سنبھال کے رکھتے ہیں۔ جیسے ان پودوں و درختوں کی کوئی شخصیت ہو۔ ان کی مہک و چھاؤں سے اپنائیت بھرا احساس لیتے ہیں۔ احساس بانٹنے کا سلیقہ انھوں نے یقینا سبزے سے لیا ہے۔
ہم اس وقت St. Clair ریسٹورنٹ میں کھڑے ہیں۔ تھوڑی دیر پہلے یہاں موجود ہائیڈرو پاور پلانٹ دیکھا جو بجلی پیدا کرنے کا ایک منفرد طریقہ ہے۔ تھوڑی دیر بعد چائے کے میوزیم چلتے ہیں۔
یہ جگہ بڑی خوبصورت ہے۔ سنا ہے کہ یہاں بہار پورا سال مہکتی ہے۔ لیکن ذہن میں تمام وقت خزاں نے ڈیرا ڈال رکھا ہو تو حقیقی بہار محض واہمہ بن کے رہ جاتی ہے۔
فطرت بھی انسان کے مزاج کی طرح ہے۔ آپ دو قدم اس کی طرف بڑھیں گے تو وہ پوری کی پوری آپ پر نچھاور ہو جائے گی۔
چیزوں کی اہمیت قبولیت کے احساس سے جڑی ہے۔ فطرت، انسان سے بھی رابطے کا ہنر اور ہم آہنگی چاہتی ہے۔ پھر اس کے ذہن کو نخلستان بناتی ہے۔
صحرا باہر کہیں نہیں ہے۔ یہ ہماری سوچوں میں پھلتا و پھولتا ہے۔
نووارا ایلیا کا پورا علاقہ عمارت سازی میں قدیم برطانوی طرز تعمیر کی جھلک لیے ہوئے ہے۔ سامنے خوبصورت کاٹیجزکی قطار ہے، جو ڈھلوان پر چائے کے باغات کے قریب بنائے گئے ہیں۔
''جب دوبارہ یہاں آئیں گے تو میں یہاں کسی کاٹیج میں پندرہ دن رہوں گی۔'' میں نے میاں سے کہا جو میری بات سن کر مسکرائے۔ اشتیاق انصاری جو پوری دنیا گھوم چکے ہیں۔ انھیں دنیا بھر میں سری لنکا بہت پسند آیا۔ چھٹیوں میں جب بچوں نے باہر کوئی ملک دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا تو یہ ہمیں سری لنکا لے آئے۔ کچھ لوگوں نے سن کر کہا دبئی، انگلینڈ اور امریکا جاؤ یہ بھی کوئی جگہ ہے گھومنے کی۔ یہاں آ کر فطرت کی خوبصورتی نے تو متاثر کیا ہی مگر ان لوگوں میں یکجہتی کا رنگ دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی۔ یہ مغربی تہذیب سے ہرگز متاثر نہیں ہیں۔ آپس میں اپنی زبان میں بات کرتے ہیں۔ یہ انگریزوں کی ذہنی غلامی سے بھی آزاد ہو چکے ہیں۔ جسمانی طور پر کسی بھی آزادی کا جشن ادھورا ہوتا ہے، جب تک انسان ذہنی طور اس غلامی سے آزاد نہ ہو۔
اب چائے کے میوزیم میں کھڑے ہیں۔ گائیڈ ہمیں چائے کی اقسام کے بارے میں معلومات فراہم کر رہی ہے۔ سیلون کی سفید، سبز و سیاہ چائے کی الگ تاثیر ہے۔ ذہن کو متحرک کرنے کے ساتھ، یہ چائے ہر طرح کے جراثیم سے لڑنے کا اختیار رکھتی ہے۔ یہ عمر افزا مشروب ہے، جو بڑھتی عمر کو بہت پیچھے دھکیل دیتا ہے۔ ہمارے ہاں دودھ اور چینی کا چائے میں زیادہ استعمال رہتا ہے۔ جس کی وجہ سے یہ مضر صحت بن کے رہ جاتی ہے۔ سبز چائے بہت کم استعمال ہوتی ہے۔ جب کہ ہمارے تھکے اور پژمردہ احساس کو سبز چائے کا تحرک زیادہ درکار ہے۔
چائے کے یہ باغات خوشحالی کی ضمانت بن چکے ہیں۔ ان باغات سے سیاحت کو خوب فروغ ملا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ یہ لوگ مقامی رنگ (چاہے سبزے کے ہوں یا ثقافت کے) اجاگر کرنے اور ان کی نمائش کرنے کا بڑا سلیقہ رکھتے ہیں۔ جذبہ، احساس یا کوئی شعبہ ہو، اظہار کا سلیقہ نہ ہو تو سب کچھ بے معنی لگنے لگتا ہے۔ میں نے سری لنکا میں جابجا اظہار کے رنگ دیکھے ہیں۔ چاہے گفتگو کا ڈھنگ ہو، گھر سنبھالنے کا طریقہ ہو یا ان کے محلے، گلیاں، راستے و شاہراہیں اور باغ ہوں ہر طرف ان لوگوں کے من کا اجلا پن بول رہا ہوتا ہے۔
خوبصورت احساس سے عمل کے تمام تر راستے جڑے ہوئے ہیں۔ عمل کو سچائی کی تاثیر چاہیے۔ سچا اور مخلص احساس خاموشی میں بھی اپنی ترجمانی کر جاتا ہے۔ قرینے کے رنگ خالص اور دیرپا ہوتے ہیں۔ سنوارنا، نکھارنا اور تخلیق کرتے رہنا ان لوگوں کا قومی مزاج ہے۔
لفظوں کا خوبصورت چناؤ اور ان میں احساس کے رنگ بھرنے سے زیادہ شاید ہی کوئی تعمیری عمل ہو۔ لفظ زندگی عطا کرتے ہیں۔ لفظ زندگی چھینتے ہیں۔ یہ جوڑ کے رکھتے ہیں۔ دراڑیں بھی ڈال دیتے ہیں۔
گاڑی آگے اپنی منزل کی طرف دوبارہ سے رواں دواں ہے۔
''مجھے چائے کے باغات میں جا کر دیکھنا ہے کہ یہ عورتیں پتوں میں لپٹے ہوئے اپنے خواب کیسے چنتی ہیں۔''
میں نے کہا اورگاڑی باغات کے قریب رک گئی۔ میری بیٹی عرین بھی ساتھ چل پڑی۔ ہلکی بارش ہو رہی تھی۔ لہٰذا سر پر چھتری کا سائبان اوڑھ رکھا تھا۔ ایک تنگ راستہ اوپر جا رہا تھا۔ تنگ سیڑھی پر کائی کی پھسلن تھی۔ سنبھلتے اوپر پہنچے۔ سر سے لپٹے دوپٹے میں عورتیں پتے چن کر ڈال رہی تھیں۔ سندھ میں کپاس چننے والی عورتیں اس دوپٹے کو ''کانبھو'' بولتی ہیں۔ مزدور کی حالت ہر جگہ ایک سی ہے۔
واپس گاڑی میں بیٹھے تو عرین اور میرے پیروں سے جونک نما کیڑے لپٹے ہوئے تھے۔ مشکل سے جن سے پیچھا چھڑایا۔ پاؤں کی انگلی سے خون بہتا رہا جس کا حل ڈرائیور مالکا نے یہ نکالا کہ ایک کاغذ جلا کے مجھے راکھ دیتے ہوئے بتایا کہ راک ملنے سے افاقہ ہو گا۔ اور ایسا ہی ہوا۔ فطرت کے قریب رہنے والے حل بھی فطری ڈھونٹتے ہیں۔
''امی! یہ عورتیں چائے کے باغات میں کس طرح کام کرتی ہوں گی۔'' عرین نے ازراہ ہمدردی کہا۔
''یہ خود نقصان اٹھاکر دوسروں میں آب حیات بانٹتی ہیں۔''
بارش کی پھوار میں سبز باغات زمرد کی طرح جھلملا رہے تھے۔
چائے کے باغات میں کھڑے ہو کر سامنے دیکھا تو ایک خوبصورت جھرنا سبزے کی مانگ میں سیندور کی طرح چمک رہا تھا۔ اس وقت نوارا ایلیا میں موجود ہیں جو سیاحوں کی جنت کہلاتا ہے۔ خوبصورت پہاڑ، دریا، بادل اور سبزے سے مہکتا ہوا یہ ایک ایسا منظر ہے، جو مدتوں ذہن کو طراوت دیتا رہے گا۔ یہاں خوبصورت مناظر جا بجا بکھرے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ ایک غیر محسوس دوست ہمارے درمیان رہتا ہے۔ یہ ہم سے آلودہ رویوں کا بوجھ بانٹ لیتا ہے۔ تھکن اور افسردگی اپنی تازگی میں سمیٹ کر ہمیں ڈھارس دیتا ہے۔ یہ دوست چائے کا وہ گرم گھونٹ ہے، جو ہمیں حقیقت کی دنیا میں واپس لے کر آتا ہے۔ ذہن کی الفا لہریں دوبارہ متحرک ہو جاتی ہیں اور ذہنی کارکردگی میں بہتری لاتی ہیں۔ چائے ہمارا قومی مشروب ہے۔چائے کے بغیر ہماری صبح کا آغاز نہیں ہو سکتا۔ پورا دن چائے کے دور چلتے رہتے ہیں۔
وہ احساس جو انسانوں سے نہیں ملتا، ڈھارس کا وہ لمحہ چائے کا کپ فراہم کر دیتا ہے۔ جو معاشرے اچھے احساس کے بغیر جیتے ہیں، وہاں عادت کا کوئی نہ کوئی سرور عوامی صفوں میں گھس آتا ہے۔ بعض اوقات یہ عادات اندرکی کمی اور محرومی کا اظہار ہوتی ہیں۔ چائے پینے کی عادت ہمارے ملک میں بہت پختہ ہے۔ لہٰذا روس، برطانیہ اور مصر کے بعد پاکستان چوتھا ملک ہے، جہاں چائے کا استعمال زیادہ ہوتا ہے۔ پاکستان یہ چائے اکیس ممالک سے درآمد کرتا ہے۔
جن میں کینیا، انڈونیشیا، انڈیا، بنگلہ دیش اور سری لنکا شامل ہیں۔ جب کہ امریکا، آسٹریلیا، ایران، سری لنکا، انڈیا، چائنا، جاپان اور ترکی بھی چائے کا استعمال کرتے ہیں مگر یہ چائے کی پیداوار کے حوالے سے خود کفیل ہیں۔ پاکستان میں چائے کے بہت کم باغات ہیں جب کہ طلب کا گراف بہت اونچا ہے۔ 2010ء میں 170.000 ٹن چائے ہمارے ملک نے درآمد کی۔ لہٰذا پاکستان ہر سال کھربوں روپے دوسرے ممالک کو ادا کرتا ہے۔ فقط گزشتہ سال نو مہینوں میں 16.9 بلین کی چائے ملک نے درآمد کی۔ ہماری لاپرواہی اور عادات کس طرح ہماری معیشت پر بوجھ بنی ہوئی ہیں ذرا سوچیے۔
اٹھارویں صدی میں چائنا سے لایا جانے والا چھوٹا سا پودا یہاں لگایا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے سری لنکا چائے سے زیادہ زرمبادلہ کمانے والا تیسرا بڑا ملک بن گیا۔ یہ لوگ نباتات سے عشق کرتے ہیں۔ یہ پودوں، پھولوں اور درختوں کو محبت سے سنبھال کے رکھتے ہیں۔ جیسے ان پودوں و درختوں کی کوئی شخصیت ہو۔ ان کی مہک و چھاؤں سے اپنائیت بھرا احساس لیتے ہیں۔ احساس بانٹنے کا سلیقہ انھوں نے یقینا سبزے سے لیا ہے۔
ہم اس وقت St. Clair ریسٹورنٹ میں کھڑے ہیں۔ تھوڑی دیر پہلے یہاں موجود ہائیڈرو پاور پلانٹ دیکھا جو بجلی پیدا کرنے کا ایک منفرد طریقہ ہے۔ تھوڑی دیر بعد چائے کے میوزیم چلتے ہیں۔
یہ جگہ بڑی خوبصورت ہے۔ سنا ہے کہ یہاں بہار پورا سال مہکتی ہے۔ لیکن ذہن میں تمام وقت خزاں نے ڈیرا ڈال رکھا ہو تو حقیقی بہار محض واہمہ بن کے رہ جاتی ہے۔
فطرت بھی انسان کے مزاج کی طرح ہے۔ آپ دو قدم اس کی طرف بڑھیں گے تو وہ پوری کی پوری آپ پر نچھاور ہو جائے گی۔
چیزوں کی اہمیت قبولیت کے احساس سے جڑی ہے۔ فطرت، انسان سے بھی رابطے کا ہنر اور ہم آہنگی چاہتی ہے۔ پھر اس کے ذہن کو نخلستان بناتی ہے۔
صحرا باہر کہیں نہیں ہے۔ یہ ہماری سوچوں میں پھلتا و پھولتا ہے۔
نووارا ایلیا کا پورا علاقہ عمارت سازی میں قدیم برطانوی طرز تعمیر کی جھلک لیے ہوئے ہے۔ سامنے خوبصورت کاٹیجزکی قطار ہے، جو ڈھلوان پر چائے کے باغات کے قریب بنائے گئے ہیں۔
''جب دوبارہ یہاں آئیں گے تو میں یہاں کسی کاٹیج میں پندرہ دن رہوں گی۔'' میں نے میاں سے کہا جو میری بات سن کر مسکرائے۔ اشتیاق انصاری جو پوری دنیا گھوم چکے ہیں۔ انھیں دنیا بھر میں سری لنکا بہت پسند آیا۔ چھٹیوں میں جب بچوں نے باہر کوئی ملک دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا تو یہ ہمیں سری لنکا لے آئے۔ کچھ لوگوں نے سن کر کہا دبئی، انگلینڈ اور امریکا جاؤ یہ بھی کوئی جگہ ہے گھومنے کی۔ یہاں آ کر فطرت کی خوبصورتی نے تو متاثر کیا ہی مگر ان لوگوں میں یکجہتی کا رنگ دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی۔ یہ مغربی تہذیب سے ہرگز متاثر نہیں ہیں۔ آپس میں اپنی زبان میں بات کرتے ہیں۔ یہ انگریزوں کی ذہنی غلامی سے بھی آزاد ہو چکے ہیں۔ جسمانی طور پر کسی بھی آزادی کا جشن ادھورا ہوتا ہے، جب تک انسان ذہنی طور اس غلامی سے آزاد نہ ہو۔
اب چائے کے میوزیم میں کھڑے ہیں۔ گائیڈ ہمیں چائے کی اقسام کے بارے میں معلومات فراہم کر رہی ہے۔ سیلون کی سفید، سبز و سیاہ چائے کی الگ تاثیر ہے۔ ذہن کو متحرک کرنے کے ساتھ، یہ چائے ہر طرح کے جراثیم سے لڑنے کا اختیار رکھتی ہے۔ یہ عمر افزا مشروب ہے، جو بڑھتی عمر کو بہت پیچھے دھکیل دیتا ہے۔ ہمارے ہاں دودھ اور چینی کا چائے میں زیادہ استعمال رہتا ہے۔ جس کی وجہ سے یہ مضر صحت بن کے رہ جاتی ہے۔ سبز چائے بہت کم استعمال ہوتی ہے۔ جب کہ ہمارے تھکے اور پژمردہ احساس کو سبز چائے کا تحرک زیادہ درکار ہے۔
چائے کے یہ باغات خوشحالی کی ضمانت بن چکے ہیں۔ ان باغات سے سیاحت کو خوب فروغ ملا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ یہ لوگ مقامی رنگ (چاہے سبزے کے ہوں یا ثقافت کے) اجاگر کرنے اور ان کی نمائش کرنے کا بڑا سلیقہ رکھتے ہیں۔ جذبہ، احساس یا کوئی شعبہ ہو، اظہار کا سلیقہ نہ ہو تو سب کچھ بے معنی لگنے لگتا ہے۔ میں نے سری لنکا میں جابجا اظہار کے رنگ دیکھے ہیں۔ چاہے گفتگو کا ڈھنگ ہو، گھر سنبھالنے کا طریقہ ہو یا ان کے محلے، گلیاں، راستے و شاہراہیں اور باغ ہوں ہر طرف ان لوگوں کے من کا اجلا پن بول رہا ہوتا ہے۔
خوبصورت احساس سے عمل کے تمام تر راستے جڑے ہوئے ہیں۔ عمل کو سچائی کی تاثیر چاہیے۔ سچا اور مخلص احساس خاموشی میں بھی اپنی ترجمانی کر جاتا ہے۔ قرینے کے رنگ خالص اور دیرپا ہوتے ہیں۔ سنوارنا، نکھارنا اور تخلیق کرتے رہنا ان لوگوں کا قومی مزاج ہے۔
لفظوں کا خوبصورت چناؤ اور ان میں احساس کے رنگ بھرنے سے زیادہ شاید ہی کوئی تعمیری عمل ہو۔ لفظ زندگی عطا کرتے ہیں۔ لفظ زندگی چھینتے ہیں۔ یہ جوڑ کے رکھتے ہیں۔ دراڑیں بھی ڈال دیتے ہیں۔
گاڑی آگے اپنی منزل کی طرف دوبارہ سے رواں دواں ہے۔
''مجھے چائے کے باغات میں جا کر دیکھنا ہے کہ یہ عورتیں پتوں میں لپٹے ہوئے اپنے خواب کیسے چنتی ہیں۔''
میں نے کہا اورگاڑی باغات کے قریب رک گئی۔ میری بیٹی عرین بھی ساتھ چل پڑی۔ ہلکی بارش ہو رہی تھی۔ لہٰذا سر پر چھتری کا سائبان اوڑھ رکھا تھا۔ ایک تنگ راستہ اوپر جا رہا تھا۔ تنگ سیڑھی پر کائی کی پھسلن تھی۔ سنبھلتے اوپر پہنچے۔ سر سے لپٹے دوپٹے میں عورتیں پتے چن کر ڈال رہی تھیں۔ سندھ میں کپاس چننے والی عورتیں اس دوپٹے کو ''کانبھو'' بولتی ہیں۔ مزدور کی حالت ہر جگہ ایک سی ہے۔
واپس گاڑی میں بیٹھے تو عرین اور میرے پیروں سے جونک نما کیڑے لپٹے ہوئے تھے۔ مشکل سے جن سے پیچھا چھڑایا۔ پاؤں کی انگلی سے خون بہتا رہا جس کا حل ڈرائیور مالکا نے یہ نکالا کہ ایک کاغذ جلا کے مجھے راکھ دیتے ہوئے بتایا کہ راک ملنے سے افاقہ ہو گا۔ اور ایسا ہی ہوا۔ فطرت کے قریب رہنے والے حل بھی فطری ڈھونٹتے ہیں۔
''امی! یہ عورتیں چائے کے باغات میں کس طرح کام کرتی ہوں گی۔'' عرین نے ازراہ ہمدردی کہا۔
''یہ خود نقصان اٹھاکر دوسروں میں آب حیات بانٹتی ہیں۔''
بارش کی پھوار میں سبز باغات زمرد کی طرح جھلملا رہے تھے۔