اب پانی پر جنگیں ہوں گی

کبھی ہم نے یہ سوچا نہ تھا کہ پانی ہمیں خرید کر پینا پڑے گا مگر ہم خرید کر پانی پینے پر مجبور ہیں


شاہین رحمن August 27, 2015

کبھی ہم نے یہ سوچا نہ تھا کہ پانی ہمیں خرید کر پینا پڑے گا مگر ہم خرید کر پانی پینے پر مجبور ہیں پانی قدرت کی نعمت ہے جو تمام انسانوں کو بلاتخصیص مفت عطا کی گئی ہے۔

قدرت نے انسانوں سے اس کا کوئی معاوضہ طلب نہیں کیا۔ شروع میں جب ہم نے پانی خریدنا شروع کیا تو عقل حیران اور دماغ نے سوچنے کے سارے دروازے مفلوج کر دیے کہ ویسے ہی مہنگائی کا رونا روتے رہتے ہیں یہ پانی کا خرچ اور بڑھا۔ آبادی میں بے تحاشا اضافہ اور زرعی اور صنعتی شعبوں میں میٹھے پانی کے بڑھتے ہوئے استعمال سے میٹھے پانی کے ذخائر کم پڑ رہے ہیں، فضائی آلودگی سے پیدا ہونے والی گلوبل وارمنگ بھی میٹھے پانی میں کمی کا باعث بن رہی ہے۔

یہ درست ہے کہ پاکستان میں پانی کی قلت و کمیابی کی ایک اہم وجہ پڑوسی ملک بھارت کا پاکستان کے آبی ذخائر پر ناجائز قبضہ ہے لیکن خود ہمارے اپنے غیر ذمے دارانہ رویے بھی نظر انداز نہیں کیے جا سکتے۔ اس لیے کہ گزشتہ 60 برس میں اس حوالے سے آخر کوئی بڑی منصوبہ بندی کیوں نہیں کی گئی؟

آج حالت یہ ہے کہ سندھ کا ڈیلٹا اپنے اصل رقبے کا صرف دس فیصد رہ گیا ہے۔ یہ اب ہمارا قومی شعار بنتا جا رہا ہے کہ کسی بھی مسئلے کو ابتدا ہی میں حل کر لینے کے بجائے ہم اس کے بحران میں بدل جانے کا انتظار کرتے ہیں اور جب پانی سر سے گزر جائے تو سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں کہ اب کیا کریں۔ محکمہ موسمیات کے حکام کا کہنا ہے کہ اس سال وطن عزیز میں برف باری کم ہوئی ہے اور اگلے چھ ماہ کے دوران بارشیں بھی 30 فیصد کم ہونے کا اندیشہ ہے جس کے نتیجے میں پانی کی قلت مزید سنگین ہو جائے گی۔

ارباب حکومت اور عوام الناس کو سمجھنا ہو گا کہ اگر وہ اس انجام سے بچنا چاہتے ہیں تو قلت آب پر قابو پانے کے لیے جامع منصوبہ بندی کے سخت جنگی بنیادوں پر فوری اور ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔ پانی کی فراہمی میں روز افزوں ہونے والی کمی سے نمٹنے کے لیے دنیا کے کئی ممالک بڑے پر زور طریقے سے جدوجہد کر رہے ہیں لیکن وطن عزیز میں اس صورتحال کی سنگینی کو صحیح انداز میں محسوس نہیں کیا جا رہا۔ صرف چند برس بعد جب ہمارے ملک کی آبادی 25 کروڑ ہو جائے گی تو گندم، چینی اور تیل کے ساتھ ساتھ پانی کی فراہمی اور اس کا حصول بھی عوام کے لیے ایک بڑا مسئلہ بن جائے گا۔

ہماری آبادی میں جتنی تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے پانی کے ذخائر میں بھی اتنی ہی تیزی کے ساتھ کمی آ رہی ہے۔ اور چونکہ پانی کے ذخائر میں فوری اضافہ کسی طور ممکن نہیں اس لیے اس صورتحال سے صرف پانی کے ضیاع کو روک کر اور اس کے محفوظ ذخائر میں اضافہ کر کے ہی بچا جا سکتا ہے۔

دنیا میں ہونے والی ہر بڑی کمی کا اثر سب سے پہلے ترقی پذیر ممالک کو ہی اپنی لپیٹ میں لیتا ہے اور پھر پانی تو ہر انسان کی ضرورت ہے پاکستان بھی ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں پینے کے پانی کی قلت ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ کبھی تو یہ مسئلہ بھارت کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوتا ہے تو کبھی پانی کی بین الاقوامی تقسیم داخلی اختلافات کا سبب بن جاتی ہے۔ پانی اپنی ہمہ گیر صفات و خصوصیات کی بنا پر انسانی بقا اور ترقی و خوشحالی کی ضمانت ہے۔ اس کی حفاظت کیجیے آج اگر آپ نے اس کی حفاظت نہیں کی تو کل یہ آپ کی زندگی کی ضمانت نہیں بنے گا۔

ماحولیات کے ماہرین کے مطابق پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے اگلے دو عشرے نہایت اہم ہیں۔ ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے باعث ملک میں کہیں بارشیں بہت کم اور کہیں بہت زیادہ ہوں گی کہیں گرمی بہت زیادہ ہو گی۔ جہاں بارشیں بہت زیادہ ہوئیں وہاں ہم دیکھ ہی رہے ہیں، سیلاب آیا ہوا ہے ہر طرف مگر ہمارے ہاں ڈیم ناکافی ہیں مگر حکومت کے کان پر جوں نہیں رینگی کہ اس پانی کو محفوظ کیا جائے اگر یہ پانی محفوظ ہو تو نہ سیلاب آئے گا نہ لوگ بے گھر ہوں گے۔

ماہرین کے مطابق پاکستان میں جنگلات کا کم ہوتا ہوا رقبہ، بتدریج کم ہوتے ہوئے سطح زمین و زیر زمین آبی وسائل سیم و تھور فضائی و آبی کٹاؤ بارشوں کے سلسلے میں کمی اور آبادی کا بڑھتا ہوا دباؤ ماحولیات اور جنگلی حیات کی کمی کا سبب بھی بنا ہے۔ ارباب حکومت اور عوام الناس کو سمجھنا ہوا کہ اگر وہ اس انجام سے بچنا چاہتے ہیں تو قلت آب پر قابو پانے کے لیے جامع منصوبہ بندی کے تحت جنگی بنیادوں پر فوری اور ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں