فالواپ
موضوع کی مناسبت سے آج فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم حکومت پنجاب سے دریافت کریں گے کہ جناب اب اس معاملے میں دیر کس بات کی ہے
آج سے ہم فالو اپ کے عنوان سے ایک نیا سلسلہ شروع کر رہے ہیں جس میں ہم کچھ وضاحتیں، کچھ معذرتیں اور کچھ شکایتیں کیا کریں گے۔ وضاحتیں ان باتوں کی جنھیں ہم با آسانی سمجھا نہیں پاتے۔ معذرتیں ان پر کہ جنھیں بعض دوست کبھی سمجھ نہیں پاتے اور شکایتیں عام طور پر حکمرانوں سے کہ جن کے کان پر جوں بھی نہیں رینگتی۔
سردار ولاب بھائی پٹیل
آج اس سلسلے کی پہلی کڑی سردار پٹیل سے شروع ہوتی ہے۔ ہمیں اس بات پر بے پناہ حیرت ہوئی کہ ایکسپریس بذریعہ نیٹ بھارت میں بھی بڑے اہتمام سے پڑھا جاتا ہے۔ ایک سردار جی، جو یقینا خود تو اردو نہیں پڑھتے ہوں گے مگر کسی سے پڑھوانے کا بندوبست ضرور کر لیتے ہیں۔ گلاسگو میں مقیم ہیں اور سردار ولاب بھائی پٹیل کے بارے میں اتنا کچھ جانتے ہیں کہ صرف ان کی ای میلز پڑھ کر ہی آپ ایک کتاب لکھ سکتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ ''آفتاب صاحب آپ نے پٹیل کی تعریف کر کے میرا دل دکھایا ہے کیونکہ وہ بیچارہ تو پرلے درجے کا فضول آدمی تھا۔ وہ جتنا برا باہر سے تھا اس سے قریباً 100گنا اندر سے تھا''۔ اس کے علاوہ سردار جی نے پٹیل کے جملہ ''مشاغل'' بارے بھی بہت کچھ لکھا جسے ہم سپرد خاک تو کر سکتے ہیں سپرد قلم نہیں!
اس حوالے سے گزارش یہ ہے کہ ہم نے سردار پٹیل کا تذکرہ بطور ایک زیرک سیاستدان اور سیاسی حریف کیا تھا۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک باکمال سیاستدان تھے جنھوں نے اپنی قوم کے لیے بہت کچھ کیا۔ اب اگر وہ بطور انسان نہایت گھٹیا اور واہیات تھے تو جناب اس کا ہماری صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ آپ صرف اتنا دیکھیے کہ بھارت کے سب سے مقبول مدبر ہونے کے باوصف اگر پٹیل گاندھی کے کہنے پر راتوں رات جواہر لعل نہرو کے حق میں دستبردار ہو گئے اور وزارت عظمیٰ کو ٹھوکر مار دی، تو یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ آج آپ کسی سے کہہ کر دیکھیں، وزارت عظمیٰ تو کیا، وہ بس کی سیٹ نہیں چھوڑے گا۔
اس کالم میں ایک بات ہم سہواً کہہ گئے جس پر معذرت خواہ ہیں کہ بھارت میں پچھلے 15برس کے دوران اڑھائی کروڑ کسانوںنے خود کشی کی۔ حقیقت یہ ہے کہ تعدا دکروڑ نہیں بلکہ اڑھائی لاکھ ہے، کروڑ ہم فرطِ جذبات کی وجہ سے لکھ گئے کہ ہمارے نزدیک اڑھائی سو خود کشیاں بھی اتنی ہی لرزہ خیز ہیں جتنی کہ اڑھائی کروڑ۔
ایک فلم کا غلط نام
کچھ عرصہ پہلے سانحہ قصور پر بات کرتے ہوئے ہم نے ایک مشہور روسی ناول کا تذکرہ کیا تھا جس پر بننے والی فلم بارے ہم آج پھر درخواست کریں گے کہ صاحبِ نظر لوگ اسے ضرور دیکھیں اور اس میں سے بہت کچھ سیکھ کر اپنے ان عزیز و اقارب کو بھی بتائیں اور سمجھائیں جو انگریزی کتاب یا فلم سمجھنے سے قاصر ہوں۔ ہم نے غلطی سے اس لازوال فلم کا نام ''پرزنر ایکس'' (Prisoner-X) لکھ دیا تھا جبکہ یہ نام ''سٹیزن ایکس'' (Citizen-X) ہے اور یہ فلم کئی سال پہلے بنی تھی۔ ہمیں یقین ہے کہ کم سن بچوں کو درندگی کا نشانہ بنا کر قتل کرنے جیسے گھناؤنے موضوع پر اس سے بہتر فلم آج تک نہیں بنی ہو گی اور مزید لرزہ خیز بات یہ ہے کہ یہ کہانی سچے واقعات پر مبنی ہے۔
موضوع کی مناسبت سے آج فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم حکومت پنجاب سے دریافت کریں گے کہ جناب اب اس معاملے میں دیر کس بات کی ہے۔ اب تو لواحقین نے جے آئی ٹی کے ساتھ تعاون بھی کر لیا ہے۔ اب مجرموں کی گردن اور پھانسی کے پھندے میں حائل فاصلے کی وجہ کیا ہے؟
مودی کے لیے مغلظات
ایک اور بھارتی دوست نے نہ صرف ای میل بھیجی بلکہ دلی سے فون بھی داغ دیا۔ کہتے ہیں کہ تم نے اپنے کالم میں مودی کے لتے توخوب لیے مگر کچھ تشنگی سی رہ گئی۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر تم عقل اور اخلاق سے عاری اس شخص کی مزید خاطر مدارت کرتے۔ اس سے ان تمام ہندوستانی شہریوں کا کلیجہ ٹھنڈا ہو جاتا جو پاکستان سمیت تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں۔ آئندہ نریندر سنگھ مودی بارے لکھتے ہوئے اس بات کا خاص خیال رکھنا، وغیرہ وغیرہ۔ اس کے ساتھ ہی آپ نے اپنی ای میل کے آخر میں نمونے کے طور پر مودی کے لیے چند دلچسپ باتیں، کہاوتیں اور پانچ سات جگتیں لکھ بھیجی ہیں، کاش ہم یہ سب بھی قارئین کے ساتھ شیئر کر سکتے!!!!!!