دشمنی کی انتہا
حقیقت یہ ہے کہ اس اقتصادی راہداری پیکیج میں گوادر بندرگاہ کی ترقی کے لیے ایک خاص رقم مختص کی گئی ہے
LONDON:
چند روز قبل پاک بحریہ کی جانب سے گوادر بندرگاہ پر بحری تحفظ کی مشق ''تحفظ ساحل'' کا انعقاد کیا گیا، جس میں پاک بحریہ کی اسپیشل آپریشنز فورسز، میرینز، بحری جہاز اور ایئرکرافٹس نے شرکت کی۔
اس مشق کا مقصد کسی بھی ممکنہ بیرونی حملے کی صورت میں ہر ممکن اقدامات بروئے کار لا کر بندرگاہ اور انفرااسٹرکچر کو محفوظ بنانا تھا۔ اس مشق کی ضرورت محض اس لیے پیش آئی کہ ہمارے دشمن نے کھلم کھلا ہمیں دھمکی دے رکھی ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری پر اسے تحفظات ہیں اور وہ اسے ہرگز قبول نہیں کرسکتا۔ یہ پاکستان کے اندرونی معاملات بھارت کی جانب سے کھلی مداخلت ہے۔
جس کا ہماری جانب سے منہ توڑ جواب دیا جانا چاہیے تھا جو نہیں دیا گیا جس کی وجہ سے اس کے حوصلے بلند ہیں اس کے وزرا اب روز ہی پاک چین اقتصادی راہداری کے خلاف بیانات داغتے رہتے ہیں پھر اس کے میڈیا نے تو حد ہی کردی ہے اس نے اس راہداری کے خلاف ایسی ہلچل مچا دی ہے کہ لگتا ہے جیسے پاکستان اور چین نے مل کر بھارت پر حملہ کردیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس اقتصادی راہداری پیکیج میں گوادر بندرگاہ کی ترقی کے لیے ایک خاص رقم مختص کی گئی ہے جب کہ بھارت اس بندرگاہ اور اس کی ترقی سے سخت خائف ہے کیونکہ اس کے خلیج فارس کے قریب واقع ہونے کی وجہ سے یہ اس کے تجارتی و فوجی جہازوں کے لیے کسی وقت بھی خطرے کا باعث بن سکتی ہے۔
آج بھارت کو گوادر پر ضرور تحفظات ہیں اور وہ اس سے خائف بھی ہے مگر پچاس کی دہائی میں اس نے اسی بندرگاہ کو حاصل کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا تھا۔ اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو اس بندرگاہ کی حیرت انگیز خوبیوں سے واقف ہوچکے تھے، چنانچہ انھوں نے اسے فوراً حاصل کرنے کے لیے سلطنت اومان کے بادشاہ سعید بن تیمور سے بات چیت شروع کردی تھی۔
ادھر پاکستانی حکومت نے بھی اس کے حصول کے لیے کوششوں کا آغاز کردیا تھا جس کی وجہ امریکی جیوگرافیکل سروے کی اس بندرگاہ کے بارے میں ایک رپورٹ تھی جس میں اسے پاکستان کے لیے انتہائی اہم قرار دیا گیا تھا۔ حکومت پاکستان کی اومانی بادشاہ سے چار سال تک گفتگو جاری رہی بالآخر 8، دسمبر 1958 کو فیروز خان نون کی حکومت میں اسے بھارت کے بجائے پاکستان کے حوالے کردیا گیا۔ پاکستان نے اس بندرگاہ کی تین ملین ڈالر قیمت ادا کی تھی۔
گوکہ بھارت نے اسے حاصل کرنے کے لیے بھرپور کوشش کی تھی مگر اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تھا بس جب سے ہی بھارت کی حریصانہ نظریں اس پر گڑی ہوئی ہیں۔ اب جب کہ یہ بندرگاہ پاکستانی کوششوں سے ایک بین الاقوامی بندرگاہ بن چکی ہے جس کی اہمیت کے بارے میں عالمی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ خلیج فارس کے قریب انتہائی اسٹرٹیجک مقام پر واقع ہونے کی وجہ سے پاکستان کے لیے انمول تحفے سے کم نہیں چونکہ یہ بین الاقوامی تجارتی روٹ پر واقع ہے اس لیے اس کی تجارتی اور فوجی لحاظ سے اہمیت دوچند ہوجاتی ہے۔
خلیجی ممالک سے مشرقی ممالک کی جانب پٹرولیم مصنوعات لے جانے والے تمام جہاز اس کے قریب سے گزرتے ہیں۔ یہ وسطی ایشیائی ممالک اور روس کی تجارت میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے جس سے پاکستان کو سالانہ اربوں ڈالر آمدنی ہوسکتی ہے۔ بھارت کا اس بندرگاہ سے خوف بجا ہی ہے کیونکہ پاک بحریہ اس کے جہازوں کا کسی وقت بھی راستہ روک سکتی ہے جب کہ جنگ کے زمانے میں تو اس کے لیے یہ صورتحال انتہائی خوفناک ثابت ہوسکتی ہے۔
بھارت جو اس پاک چین راہداری پر زیادہ سیخ پا ہو رہا ہے تو اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ گوادر بندرگاہ کو حال ہی میں ایک چینی کمپنی کے حوالے کردیا گیا ہے۔ چینی حکومت اقتصادی راہداری کے تحت پاکستان کو جو فنڈ فراہم کرے گی اس کا ایک حصہ گوادر بندرگاہ کو مزید ترقی یافتہ بنانے پر خرچ کیا جائے گا جس سے اس بندرگاہ کی اہمیت اور فعالیت میں مزید اضافہ ہوگا۔
اخباری اطلاع کے مطابق اس وقت اس بندرگاہ کے قریب سے گزر کر جانے والے بھارتی بحریہ کے ایک جہاز کے کیپٹن نے اسے بھارت کے لیے انتہائی خطرناک قرار دیتے ہوئے اپنی حکومت کو اسے فوری طور پر تباہ کرنے کا مشورہ دیا تھا مگر بھارتی حکومت شاید اس بندرگاہ کے پاکستانی سرحدی پٹی کے انتہائی مغربی سرے پر واقع ہونے کی وجہ سے اس پر حملے سے باز رہی تھی کیونکہ حملے کی صورت میں اس کے حملہ آور جہازوں کی صحیح سلامت واپسی خطرے سے خالی نہیں تھی دراصل پاکستانی ساحلی پٹی پر پاک بحریہ کے کئی اڈے قائم ہیں جہاں سے گزر کر بھارتی حملہ آور جہازوں کا واپس جانا واقعی محال تھا۔
اس سے بھارت کو نقصان کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر بدنامی کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا تھا پھر دونوں ممالک کے درمیان جنگ بھی چھڑ سکتی تھی۔ اس کے بعد بھارت نے اس بندرگاہ کو ناکام بنانے کے لیے بلوچستان میں تخریب کاری کو فروغ دینا شروع کیا تھا اس کے ساتھ ہی گوادر کے پڑوس میں واقع ایرانی بندرگاہ چابہار کو ترقی دینے کے لیے ایرانی حکومت کو 85 ملین ڈالر امداد دی تھی جو افغانستان کو اس کی جانب سے دیے جانے والے پیکیج کے 750 ملین ڈالر کا حصہ تھی گوکہ بھارت پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے یہ مہنگا قدم اٹھا رہا ہے مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ چابہار بندرگاہ افغانستان تک بھارتی رسائی کے لیے تو ضرور ایک بہتر راستہ ہے مگر وسطی ایشیائی ممالک تک پہنچنے کے لیے چابہار گوادر بندرگاہ کا مقابلہ نہیں کرسکتی کیونکہ گوادر بندرگاہ وہاں تک پہنچنے کا ایک سیدھا اور کم فاصلے والا راستہ ہے۔
بھارت گوادر پورٹ کی دشمنی میں چابہار بندرگاہ پر سرمایہ کاری ضرور کر رہا ہے لیکن اس کے جہازوں کو سامان تجارت وہاں تک لے جانے کے لیے پھر بھی پاکستانی ساحلی پٹی سے گزرنا ہوگا جسے اس کے اپنے دفاعی تجزیہ کار خطرناک قرار دے رہے ہیں۔
اب پاک چینی اقتصادی راہداری کے معاہدے کے بعد اس بندرگاہ کی ترقی کے ساتھ ساتھ اس کی حفاظت پر بھی بھرپور توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔ کیونکہ چین کی اس بندرگاہ میں دلچسپی لینے کی وجہ سے کئی مغربی ممالک بھی اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھنے لگے ہیں چنانچہ اسے ہر حملہ آور سے محفوظ بنانا ہوگا۔ اس بندرگاہ کے ترقیاتی کاموں میں حصہ لینے والے ایک ملائیشین ماہر Mr. Arthur Little نے پیش گوئی کی ہے کہ یہ بندرگاہ بحیرہ کیسپین کے گرد واقع ممالک کی تجارت میں انقلابی کردار ادا کرکے انھیں گرم پانیوں تک پہنچا سکتی ہے جس کے لیے وہ صدیوں سے تڑپ رہے تھے۔
ان کے بقول یہ بندرگاہ دنیا کی کسی بھی ترقی یافتہ بندرگاہ سے ٹکر لے سکتی ہے۔ یہ پاکستان کے لیے سالانہ اربوں ڈالر کمائی کا ذریعہ بننے کے ساتھ ساتھ 20 لاکھ نوکریاں بھی فراہم کرسکتی ہے۔ 20 لاکھ نوکریاں کوئی کم نہیں ہوتیں جن سے پاکستانی ہی نہیں غیر ملکی افراد بھی مستفید ہوسکیں گے۔ جب غیر ملکی افراد اس سے مستفید ہوں گے تو پھر بلوچستان کے عوام کی تو سمجھیے کہ لاٹری ہی نکل آئے گی۔ ان کے اپنے صوبے میں اس بندرگاہ کے ہونے کی وجہ سے نوکریوں پر پہلا حق ان کا ہی مانا جائے گا۔ لگتا ہے اس بندرگاہ اور پاک چین اقتصادی راہداری سے بلوچستان کے عوام کی قسمت جاگنے والی ہے۔
انھوں نے ماضی میں جو بھی محرومیاں جھیلی ہیں اب ان سے نجات کا وقت آگیا ہے۔ وہ بلوچ نوجوان جو بھارتی پروپیگنڈے اور لالچ میں آکر اپنے ہی صوبے کے دشمن بن کر پہاڑوں پر چلے گئے ہیں اور وہاں سے دشمن کے دیے گئے اسلحے سے اپنے ہی ہم وطنوں کو مار رہے ہیں ساتھ ہی املاک کو نقصان پہنچا رہے ہیں انھیں اب دشمن کی غلامی چھوڑ کر اپنے صوبے کی ترقی کے لیے کام کرنے کے لیے آگے آنا چاہیے۔
بھارت پاکستانی عوام میں باہم شکوک و شبہات پیدا کرکے ایک دوسرے سے دست و گریباں کرانے کے لیے ایک زمانے سے یہ پروپیگنڈہ کرتا چلا آرہا ہے کہ صوبہ پنجاب پورے پاکستان پر حکومت کر رہا ہے اور باقی تمام صوبے اس کے محکوم ہیں۔
اگر گوادر بندرگاہ اور اقتصادی راہداری منصوبے کو تمام بلوچوں نے مل کر اپنی پرخلوص کوششوں سے کامیابی سے ہمکنار کردیا تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ ان کا صوبہ تمام صوبوں سے زیادہ ترقی یافتہ اور خوشحال نہ بن جائے اور پھر پنجاب بھی اس پر رشک کرنے لگے۔ گوادر بندرگاہ اور اقتصادی راہداری کی کامیابی سے صرف بلوچستان ہی نہیں بلکہ پاکستان کے دوسرے صوبوں کی ترقی بھی وابستہ ہے۔ لگتا ہے اب پاکستانی قوم کے برے دن ختم ہونے والے ہیں۔ اقتصادی راہداری سے جب پاکستان معاشی طور پر مستحکم ہوگا تو دفاعی طور پر بھی مضبوط ہوگا ۔
چند روز قبل پاک بحریہ کی جانب سے گوادر بندرگاہ پر بحری تحفظ کی مشق ''تحفظ ساحل'' کا انعقاد کیا گیا، جس میں پاک بحریہ کی اسپیشل آپریشنز فورسز، میرینز، بحری جہاز اور ایئرکرافٹس نے شرکت کی۔
اس مشق کا مقصد کسی بھی ممکنہ بیرونی حملے کی صورت میں ہر ممکن اقدامات بروئے کار لا کر بندرگاہ اور انفرااسٹرکچر کو محفوظ بنانا تھا۔ اس مشق کی ضرورت محض اس لیے پیش آئی کہ ہمارے دشمن نے کھلم کھلا ہمیں دھمکی دے رکھی ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری پر اسے تحفظات ہیں اور وہ اسے ہرگز قبول نہیں کرسکتا۔ یہ پاکستان کے اندرونی معاملات بھارت کی جانب سے کھلی مداخلت ہے۔
جس کا ہماری جانب سے منہ توڑ جواب دیا جانا چاہیے تھا جو نہیں دیا گیا جس کی وجہ سے اس کے حوصلے بلند ہیں اس کے وزرا اب روز ہی پاک چین اقتصادی راہداری کے خلاف بیانات داغتے رہتے ہیں پھر اس کے میڈیا نے تو حد ہی کردی ہے اس نے اس راہداری کے خلاف ایسی ہلچل مچا دی ہے کہ لگتا ہے جیسے پاکستان اور چین نے مل کر بھارت پر حملہ کردیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس اقتصادی راہداری پیکیج میں گوادر بندرگاہ کی ترقی کے لیے ایک خاص رقم مختص کی گئی ہے جب کہ بھارت اس بندرگاہ اور اس کی ترقی سے سخت خائف ہے کیونکہ اس کے خلیج فارس کے قریب واقع ہونے کی وجہ سے یہ اس کے تجارتی و فوجی جہازوں کے لیے کسی وقت بھی خطرے کا باعث بن سکتی ہے۔
آج بھارت کو گوادر پر ضرور تحفظات ہیں اور وہ اس سے خائف بھی ہے مگر پچاس کی دہائی میں اس نے اسی بندرگاہ کو حاصل کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا تھا۔ اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو اس بندرگاہ کی حیرت انگیز خوبیوں سے واقف ہوچکے تھے، چنانچہ انھوں نے اسے فوراً حاصل کرنے کے لیے سلطنت اومان کے بادشاہ سعید بن تیمور سے بات چیت شروع کردی تھی۔
ادھر پاکستانی حکومت نے بھی اس کے حصول کے لیے کوششوں کا آغاز کردیا تھا جس کی وجہ امریکی جیوگرافیکل سروے کی اس بندرگاہ کے بارے میں ایک رپورٹ تھی جس میں اسے پاکستان کے لیے انتہائی اہم قرار دیا گیا تھا۔ حکومت پاکستان کی اومانی بادشاہ سے چار سال تک گفتگو جاری رہی بالآخر 8، دسمبر 1958 کو فیروز خان نون کی حکومت میں اسے بھارت کے بجائے پاکستان کے حوالے کردیا گیا۔ پاکستان نے اس بندرگاہ کی تین ملین ڈالر قیمت ادا کی تھی۔
گوکہ بھارت نے اسے حاصل کرنے کے لیے بھرپور کوشش کی تھی مگر اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تھا بس جب سے ہی بھارت کی حریصانہ نظریں اس پر گڑی ہوئی ہیں۔ اب جب کہ یہ بندرگاہ پاکستانی کوششوں سے ایک بین الاقوامی بندرگاہ بن چکی ہے جس کی اہمیت کے بارے میں عالمی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ خلیج فارس کے قریب انتہائی اسٹرٹیجک مقام پر واقع ہونے کی وجہ سے پاکستان کے لیے انمول تحفے سے کم نہیں چونکہ یہ بین الاقوامی تجارتی روٹ پر واقع ہے اس لیے اس کی تجارتی اور فوجی لحاظ سے اہمیت دوچند ہوجاتی ہے۔
خلیجی ممالک سے مشرقی ممالک کی جانب پٹرولیم مصنوعات لے جانے والے تمام جہاز اس کے قریب سے گزرتے ہیں۔ یہ وسطی ایشیائی ممالک اور روس کی تجارت میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے جس سے پاکستان کو سالانہ اربوں ڈالر آمدنی ہوسکتی ہے۔ بھارت کا اس بندرگاہ سے خوف بجا ہی ہے کیونکہ پاک بحریہ اس کے جہازوں کا کسی وقت بھی راستہ روک سکتی ہے جب کہ جنگ کے زمانے میں تو اس کے لیے یہ صورتحال انتہائی خوفناک ثابت ہوسکتی ہے۔
بھارت جو اس پاک چین راہداری پر زیادہ سیخ پا ہو رہا ہے تو اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ گوادر بندرگاہ کو حال ہی میں ایک چینی کمپنی کے حوالے کردیا گیا ہے۔ چینی حکومت اقتصادی راہداری کے تحت پاکستان کو جو فنڈ فراہم کرے گی اس کا ایک حصہ گوادر بندرگاہ کو مزید ترقی یافتہ بنانے پر خرچ کیا جائے گا جس سے اس بندرگاہ کی اہمیت اور فعالیت میں مزید اضافہ ہوگا۔
اخباری اطلاع کے مطابق اس وقت اس بندرگاہ کے قریب سے گزر کر جانے والے بھارتی بحریہ کے ایک جہاز کے کیپٹن نے اسے بھارت کے لیے انتہائی خطرناک قرار دیتے ہوئے اپنی حکومت کو اسے فوری طور پر تباہ کرنے کا مشورہ دیا تھا مگر بھارتی حکومت شاید اس بندرگاہ کے پاکستانی سرحدی پٹی کے انتہائی مغربی سرے پر واقع ہونے کی وجہ سے اس پر حملے سے باز رہی تھی کیونکہ حملے کی صورت میں اس کے حملہ آور جہازوں کی صحیح سلامت واپسی خطرے سے خالی نہیں تھی دراصل پاکستانی ساحلی پٹی پر پاک بحریہ کے کئی اڈے قائم ہیں جہاں سے گزر کر بھارتی حملہ آور جہازوں کا واپس جانا واقعی محال تھا۔
اس سے بھارت کو نقصان کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر بدنامی کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا تھا پھر دونوں ممالک کے درمیان جنگ بھی چھڑ سکتی تھی۔ اس کے بعد بھارت نے اس بندرگاہ کو ناکام بنانے کے لیے بلوچستان میں تخریب کاری کو فروغ دینا شروع کیا تھا اس کے ساتھ ہی گوادر کے پڑوس میں واقع ایرانی بندرگاہ چابہار کو ترقی دینے کے لیے ایرانی حکومت کو 85 ملین ڈالر امداد دی تھی جو افغانستان کو اس کی جانب سے دیے جانے والے پیکیج کے 750 ملین ڈالر کا حصہ تھی گوکہ بھارت پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے یہ مہنگا قدم اٹھا رہا ہے مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ چابہار بندرگاہ افغانستان تک بھارتی رسائی کے لیے تو ضرور ایک بہتر راستہ ہے مگر وسطی ایشیائی ممالک تک پہنچنے کے لیے چابہار گوادر بندرگاہ کا مقابلہ نہیں کرسکتی کیونکہ گوادر بندرگاہ وہاں تک پہنچنے کا ایک سیدھا اور کم فاصلے والا راستہ ہے۔
بھارت گوادر پورٹ کی دشمنی میں چابہار بندرگاہ پر سرمایہ کاری ضرور کر رہا ہے لیکن اس کے جہازوں کو سامان تجارت وہاں تک لے جانے کے لیے پھر بھی پاکستانی ساحلی پٹی سے گزرنا ہوگا جسے اس کے اپنے دفاعی تجزیہ کار خطرناک قرار دے رہے ہیں۔
اب پاک چینی اقتصادی راہداری کے معاہدے کے بعد اس بندرگاہ کی ترقی کے ساتھ ساتھ اس کی حفاظت پر بھی بھرپور توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔ کیونکہ چین کی اس بندرگاہ میں دلچسپی لینے کی وجہ سے کئی مغربی ممالک بھی اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھنے لگے ہیں چنانچہ اسے ہر حملہ آور سے محفوظ بنانا ہوگا۔ اس بندرگاہ کے ترقیاتی کاموں میں حصہ لینے والے ایک ملائیشین ماہر Mr. Arthur Little نے پیش گوئی کی ہے کہ یہ بندرگاہ بحیرہ کیسپین کے گرد واقع ممالک کی تجارت میں انقلابی کردار ادا کرکے انھیں گرم پانیوں تک پہنچا سکتی ہے جس کے لیے وہ صدیوں سے تڑپ رہے تھے۔
ان کے بقول یہ بندرگاہ دنیا کی کسی بھی ترقی یافتہ بندرگاہ سے ٹکر لے سکتی ہے۔ یہ پاکستان کے لیے سالانہ اربوں ڈالر کمائی کا ذریعہ بننے کے ساتھ ساتھ 20 لاکھ نوکریاں بھی فراہم کرسکتی ہے۔ 20 لاکھ نوکریاں کوئی کم نہیں ہوتیں جن سے پاکستانی ہی نہیں غیر ملکی افراد بھی مستفید ہوسکیں گے۔ جب غیر ملکی افراد اس سے مستفید ہوں گے تو پھر بلوچستان کے عوام کی تو سمجھیے کہ لاٹری ہی نکل آئے گی۔ ان کے اپنے صوبے میں اس بندرگاہ کے ہونے کی وجہ سے نوکریوں پر پہلا حق ان کا ہی مانا جائے گا۔ لگتا ہے اس بندرگاہ اور پاک چین اقتصادی راہداری سے بلوچستان کے عوام کی قسمت جاگنے والی ہے۔
انھوں نے ماضی میں جو بھی محرومیاں جھیلی ہیں اب ان سے نجات کا وقت آگیا ہے۔ وہ بلوچ نوجوان جو بھارتی پروپیگنڈے اور لالچ میں آکر اپنے ہی صوبے کے دشمن بن کر پہاڑوں پر چلے گئے ہیں اور وہاں سے دشمن کے دیے گئے اسلحے سے اپنے ہی ہم وطنوں کو مار رہے ہیں ساتھ ہی املاک کو نقصان پہنچا رہے ہیں انھیں اب دشمن کی غلامی چھوڑ کر اپنے صوبے کی ترقی کے لیے کام کرنے کے لیے آگے آنا چاہیے۔
بھارت پاکستانی عوام میں باہم شکوک و شبہات پیدا کرکے ایک دوسرے سے دست و گریباں کرانے کے لیے ایک زمانے سے یہ پروپیگنڈہ کرتا چلا آرہا ہے کہ صوبہ پنجاب پورے پاکستان پر حکومت کر رہا ہے اور باقی تمام صوبے اس کے محکوم ہیں۔
اگر گوادر بندرگاہ اور اقتصادی راہداری منصوبے کو تمام بلوچوں نے مل کر اپنی پرخلوص کوششوں سے کامیابی سے ہمکنار کردیا تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ ان کا صوبہ تمام صوبوں سے زیادہ ترقی یافتہ اور خوشحال نہ بن جائے اور پھر پنجاب بھی اس پر رشک کرنے لگے۔ گوادر بندرگاہ اور اقتصادی راہداری کی کامیابی سے صرف بلوچستان ہی نہیں بلکہ پاکستان کے دوسرے صوبوں کی ترقی بھی وابستہ ہے۔ لگتا ہے اب پاکستانی قوم کے برے دن ختم ہونے والے ہیں۔ اقتصادی راہداری سے جب پاکستان معاشی طور پر مستحکم ہوگا تو دفاعی طور پر بھی مضبوط ہوگا ۔