خلائی سائنس کا سفر‘ چند جدید انکشافات

خلا زیادہ تر سرد، تاریک اور بالکل ویران و سنسان ہے۔


[email protected]

اس وقت مختلف ترقی یافتہ ممالک کے سائنس دان خلا میں تجربہ گاہوں کے علاوہ خلائی فیکٹریوں یا ہوٹلوں اور کئی کئی میل لمبی خلائی کالونیوں کے قیام کے منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔ چنانچہ مستقبل قریب میں اگر آپ مستقل طور پر ٹھہرنے کے قابل نہ ہوئے تو اپنی چھٹیاں خلا میں گزارنے کے قابل ضرورہوجائیں گے۔ امید ہے کہ اس صدی کے آخر تک خلا میں گردش کرنے والے شہابیوں سے نکل اور لوہے جیسی قیمتی دھاتوں کی کان کنی کے لیے خلا میں صنعتیں قائم ہوجائیں گی اور 2025 کے اندر خلا میں کئی آزاد شہر اورکالونیاں قائم ہوچکی ہوں گی۔

بظاہر یہ سب باتیں کہانیوں اور سائنس فکشن کی طرح معلوم ہوتی ہیں لیکن خلائی فتوحات کی ہر کہانی بے حد دلچسپ اورحیرت انگیز ہے۔ خلائی سفر کی سب سے پہلی داستان ایک یونانی لیوسین نے لکھی تھی۔ اس کہانی کے بنیادی کردار نے گدھ اور عقاب کے پروں کی مدد سے چاند کا سفر کیا تھا۔ اگرچہ یہ کہانی تفریحاً لکھی گئی تھی لیکن اس کے ساتھ ہی خلا میں سفر کا تصور سامنے آیا۔

خلا زیادہ تر سرد، تاریک اور بالکل ویران و سنسان ہے۔ اگر ہم روشنی کی رفتار (ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ) سے سفر کریں تو بھی قریب ترین ستارے تک پہنچنے میں تقریباً ہمارے خلائی جہاز کو سوا چار سال لگ جائیں گے اور یقینا ہمارا خلائی جہاز روشنی کی رفتار سے سفر نہیں کرسکتا۔

خلا میں سفر کرنے، آسمان کی وسعتوں کو ناپنے کی خواہش تو انسان کے دل میں ازل سے تھی لیکن 1608 میں جب گلیلیو نے دوربین بنائی اور خلائی مشاہدہ کرنے کے بعد اس نے کتاب میں چاند کی کہانی لکھی اور کہانی میں چاند کو ناہموار، کھردرا وغیرہ بتایا تو گلیلیو کی کتاب اور کہانی نے کہانیاں لکھنے والوں کو نیا موضوع فراہم کردیا۔زمین کے علاوہ کرہ ارض پر کہاں زندگی پائی جاتی ہے۔ عوام کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے خلائی مخلوقات کی فرضی تصویریں اور خیالی خاکے شایع کیے جاتے رہے۔ مصور فرینک پال سائنس فکشن تصویروں کا پہلا بڑا خالق تھا۔

1956 میں پہلی سینما اسکوپ فلم ''فار بڈن پلانٹ'' پیش کی گئی۔ اس فلم میں ''روبی دی روبوٹ'' کا کردار پہلی مرتبہ متعارف کرایا گیا۔ روبوٹ کا یہ کردار بعد میں متعدد فلموں اور ٹیلی ویژن پر بھی پیش کیا گیا۔ اس سال ایک اور فلم بنی جس میں دکھایا گیا کہ خلا سے کسی خلائی جہاز کے ذریعے ایسے بیج زمین پر گرے جس سے انسانوں سے مشابہ نقلی انسانوں کی پیداوار ہوئی۔ 1950 سے 1960 تک جو فلمیں بنیں ان میں متعدد فلموں کا موضوع خلائی سفر اور خلائی حملہ آور تھے۔

ہمارے نظام شمسی اور اس سے باہر کہکشاؤں میں زندگی کے امکانات صرف سائنس فکشن کا موضوع ہی نہیں ہیں۔ درحقیقت آج بھی بہت سے سائنس دان اس پر یقین رکھتے ہیں۔ امریکا اور دوسرے بڑے ترقی یافتہ ملکوں میں دور دراز کہکشاؤں سے آنے والے پیغامات کو سننے اور سمجھنے کی کوشش بھی جاری ہے۔

خلائی دور کا آغاز 1957 میں ہوا جب پہلا مواصلاتی سیارہ اسپتنک (Sputnik) مدار میں بھیجا گیا۔ اپریل 1960 میں امریکا نے پہلا موسمی سیارہ ٹیروس اول(Tiros-1) مدار میں بھیجا جس نے تقریباً تیس ہزار تصویریں زمین پر بھیجیں۔ 20 اگست 1960 کو امریکا نے زمین کی تصویریں کھینچنے اور نقشہ کشی کے لیے ڈسکوری اول مدار میں بھیجا۔ 1970 میں امریکا اور روس نے ایسے حملہ آور مواصلاتی سیارے بنا لیے جو دوسری قوموں کے جاسوس سیاروں کو تباہ کرسکتے تھے۔

دنیا کا پہلا تجارتی مواصلاتی سیارہ ٹیلی اسٹار 1962 میں مدار پر آیا۔ اب خلائی سائنس اتنی ترقی کر گئی ہے کہ خلا میں مستقل قیام کے منصوبے زیر غور ہیں۔ پہلی امریکی خلائی تجربہ گاہ ''اسکائی لیب'' اور روسی تجربہ گاہ ''سیلیوٹ'' 1973 میں مدار پر گئیں۔ ان تجربہ گاہوں میں سائنس دان ایک مختصر مدت تک ٹھہر سکتے تھے۔ اب تو خلا میں مستقل قیام کے لیے کالونیاں بنانے کے منصوبے پر کام ہو رہا ہے۔

خلائی سفر میں اہم ترین پیش رفت ''خلائی شٹل'' کی ایجاد ہے۔ خلائی شٹل کو مشہور ٹیلی ویژن سیریز ''اسٹار ٹریک'' کے خلائی جہاز ''انٹرپرائز'' کا نام دیا گیا ہے۔

خلائی سفرکے سلسلے میں وائجر اول اور وائجر دوم انسان کی ترقی کا بے مثال کارنامہ کہے جاسکتے ہیں۔ جوکہ نظام شمسی کے سیاروں کے مطالعہ خاص کے لیے روانہ کیے گئے ان بے مثال خلائی جہازوں نے سیاروں کے متعلق بے انتہا قیمتی معلومات فراہم کیں۔ وائجر اول اور دوم اب کبھی لوٹ کر زمین پر واپس نہیں آئیں گے لیکن ان کی سائنسی دریافتیں، ان کی غیر معمولی معلومات اور روداد سفر ضرور ہم تک پہنچتی رہیں گی، اسی طرح اب تک جتنے بھی روانہ کردہ خلائی مشن اس وقت محو پرواز ہیں اور زمین سے رابطے میں ہیں، انسانیت ان کی معلومات سے فیضیاب ہوتی رہے گی عہد حاضر ہی نہیں قدیم انسان بھی مریخ کے سحر میں مبتلا تھے۔

2012 میں خلائی گاڑی ''کیورسیٹی'' نے سطح مریخ پر کامیابی کے ساتھ اترنے کے بعد مریخ کی تاریخی تصاویر کھینچنے اور اس پر زندگی کی کھوج لگانے کے سلسلے کا آغاز کیا، مریخ کی تصاویر بھیجنے والے تحقیقاتی روبوٹ کی بھیجی گئی ایک تصویر میں مریخ کی سرزمین پر ایک کیکڑا پہاڑ کے دہانے سے نکلتا دکھائی دے رہا ہے، نیز ماہر فلکیات اور سینٹر فاریسٹی ریسرچ کے ڈائریکٹر سیتھ شوستاک کا کہنا ہے کہ بظاہر تو یہ ایک کیڑا لگ رہا ہے لیکن اس پر غور کرنے پر کوئی آٹو پارٹس یا پھر کوئی گاڑی ہوسکتی ہے جسے وہاں لوگ ٹرانسپورٹ کے طور پر استعمال کرتے ہوں گے۔

کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ 8 ٹانگوں والی اس شے کی تصویر ایلین کی طرح ہے اور یہ مریخ پر زندگی کی موجودگی کا ناقابل تردید ثبوت اور اہم پیش رفت ہے، مریخ کے ساتھ انسان کا عشق بڑا پرانا ہے، یہ انسان کا ذوق و شوق اور تجسس ہی ہے کہ انسان نے اب سفر مریخ کی ٹھان لی ہے اور مریخ پر جانے والے جن سائنس دانوں کے نام حتمی طور پر طے کرلیے گئے ہیں۔

ان میں اہم امریکی سائنس دان جیسن اسٹینڈ فورڈ کی اہلیہ سونیا وین میٹر بھی شامل ہیں اور انھوں نے اس ناقابل واپسی مشن میں جانے والے سائنس دانوں کے ساتھ دستخط کیے ہیں، مریخ کے سفر پر تحقیق کرنے والے سائنس دانوں کا خیال ہے کہ مریخ پر موجود کشش ثقل وہاں جانے والے خلا بازوں کے جسم میں انتہائی بڑے پیمانے پر تبدیلیاں پیدا کردے گی۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ کشش ثقل انسانی جسم کی ہڈیوں اور پٹھوں یعنی ہماری شکل کو ترتیب دیتی ہے جب کہ مریخ پر موجود کمزور کشش ثقل کی وجہ جسم میں تبدیلی کا باعث ثابت ہوگی اور جب کوئی انسان وہاں قدم رکھے گا تو اس کی شکل و صورت اور خدوخال میں بھی نمایاں تبدیلی قدرتی و فطری طور پر رونما ہوں گی اور انھیں پہچاننا مشکل ہوجائے گا اور ان کے چہرے کچھ اس طرح ہوجائیں گے کہ انھیں انسان کہنا مناسب نہ ہوگا بلکہ کچھ اور ہی نام دینا ہوگا۔ بہرحال سیارہ مریخ کے بارے میں سائنسدانوں کا خیال ہے کہ اس کا ماحول زمینی ماحول سے قریب ترین ہوسکتا ہے۔

حال ہی میں ناسا کے سائنس دانوں نے زمین سے انتہائی مشابہہ سیارہ دریافت کیا ہے جسے کیپلر 452 کا نام دیا گیا ہے، ناسا کے مطابق یہ سیارہ 6 ارب سال قبل وجود میں آیا اس کا درجہ حرارت بھی ہماری زمین ہی کی طرح ہے اور ماحول زندگی کے لیے موزوں ہوسکتا ہے، یہ سیارہ ہمارے سورج جیسے سیارے کے گرد گھوم رہا ہے لیکن اس کی چمک زمین سے 20 فیصد زیادہ ہے اور یہ زمین سے 60 فیصد بڑا اور زمین سے 1400 نوری سال کے فاصلے پر سانگنس نامی جھرمٹ (کانسٹلیشن) میں موجود ہے، اس سے قبل ناسا نے کیپلر 186 ایف نامی سیارے جو زمین سے 500 نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے۔

اس سیارے کو بھی زمین سے مشابہہ قرار دے چکے ہیں، ناسا کی جانب سے کیپلر 452 کی دریافت کے اعلان کے ساتھ ہی نظام شمسی کے باہر دریافت ہونے والے سیاروں کی تعداد 1030 ہوگئی اور یہ دریافتیں اس اعتبار سے غیر معمولی ہیں کہ ناسا کے نائب سربراہ جان گرنسفیلڈ کے مطابق ناسا کے سائنسدان دوسری زمین (ارتھ ٹو) کی دریافت کے قریب ہیں جب کہ کیپلر 452 بی زمین سے بڑا ہے اور سورج کے گرد 385 دن میں اپنا چکر مکمل کرتا ہے جو زمین سے صرف 5 فیصد زائد ہے اور یہ سورج سے بہت مناسب فاصلے پر یعنی نہ بہت دور اور نہ بہت قریب موجود ہے ایسا مقام ''گولڈی لوک'' کہلاتا ہے، اس لیے یہاں زندگی کی بنیاد یعنی پانی موجود ہوسکتا ہے۔

یہ سائنسی انکشافات کی صدی ہے، اس جدید اور ترقی یافتہ دور میں بڑی بڑی دریافتیں اور تہلکہ خیز سائنسی انکشافات متوقع ہیں اور ابن آدم کے کئی قدیم اور دیرینہ خواب شرمندہ تعبیر ہونے کو ہیں، جس کا آغاز اب ہوچکا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں