اصغرخان کیسحلف سے روگردانی کرنیوالے فوجی افسران کیخلاف کارروائی کی جائے سپریم کورٹ

1990کے انتخابات سے قبل سیاستدانوں میں رقوم تقسیم کرکےانتخابی عمل کو متاثر کیا گیا۔سپریم کورٹ


ویب ڈیسک October 19, 2012
1990کے انتخابات میں دھاندلی کی گئی اوراس وقت سیاستدانوں میں رقوم تقسیم کرکےانتخابی عمل کو متاثر کیا گیا۔سپریم کورٹ

LONDON: چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نےاصغرخان کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے فوجی افسران جنہوں نے حلف سے روگردانی کی ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے اوررقوم لینے والے سیاستدانوں کے خلاف فوجداری قانون کے تحت ایف آئی اے کارروائی کرے۔

اصغر خان کیس میں اپنا مختصر فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ نے درخواست کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے تحقیقات ایف آئی اے کو سونپ دی،عدالت نے ملٹری انٹیلی جنس کے اکاؤنٹ میں موجود 8 کروڑ روپے اور سیاستدانوں میں تقسیم کی گئی رقم منافع سمیت واپس لینےکا حکم بھی دیا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ 1990کے انتخابات میں دھاندلی کی گئی اوراس وقت سیاستدانوں میں رقوم تقسیم کرکےانتخابی عمل کو متاثر کیا گیا۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اس وقت کےصدرغلام اسحا ق خان،آرمی چیف مرزا اسلم بیگ، ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی اس فعل میں انفرادی طور پرملوث تھے اور اس وقت اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے سیاسی سیل بنایا گیا، فیصلے میں مزید کہا گیا کہ قومی اصلاح کے لئے جمہوری اصولوں پر چلنا ضروری ہے کیوں کہ پاکستان کے عوام نے جمہوریت کے لئے طویل جہدوجہد کی ہے۔

اس سے قبل چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی، دوران سماعت اٹارنی جنرل نے کہا کہ 16 سال سے کیس عدالت میں زیر التوا ہے اصغر خان کیس کی تحقیقات نہ کرانے کے ذمہ دار سپریم کورٹ کے جج ہیں، عدلیہ موجودہ حکومت کو غیر مستحکم کرنا چاہتی ہے، انہوں نے عدالت سے درخواست کی کہ کیس کی سماعت کے لئے لارجر بنچ بنایا جائے اورکیس سے غیر متعلقہ ریمارکس حذف کیے جائیں۔

اٹارنی جنرل کا موقف تھا کہ سابق صدر کا منصب دوسرے عہدوں کی طرح سیاسی نوعیت کا ہے جس پارٹی سے تعلق ہے اس کے ساتھ ہمدردی فطری بات ہے، جواب میں چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سابق صدر کسی ایک جماعت کو فائدہ پہنچانے کے لیے اپنا عہدا استعمال نہیں کر سکتا، انہوں نے مزید کہا کہ 1990میں صدر پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے آئی ایس آئی اور آرمی چیف کی مدد سے سیاسی گروپ کی حمایت کی۔

اٹارنی جنرل نے دلائل مکمل کرتے ہوئے اصغر خان کیس کی تحقیقات نیب سے کرانے کی تجویز دی، اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایوان صدر کے سیکرٹری اور ملٹری سیکرٹری نے 24 گھنٹوں میں تفصیلات پیش کریں، عدالت نے وزارت دفاع کو 2 روز میں 8 کروڑ روپے کی تفصیلات پیش کرنے کا بھی حکم دے دیا۔

کیس کا فیصلہ سنائےجانے کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے اصغر خان نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام 16 برس پہلے ہوجانا چاہئےتھا۔انہوں نے کہا کہ فوجی ہو یا کوئی اور جس نے بھی ایسا اقدام کیااس کے خلاف ضرور کارروائی ہونی چاہئے۔

اس موقع پراصغر خان کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ رقوم لینےوالوں کے خلاف آرٹیکل6کےتحت کارروائی ہوسکتی ہے۔ان کا کہناتھا اب حکومت کے لیے ممکن نہیں کہ فیصلے پر عمل نہ کرے اور اس کیس میں وہی سزا کاٹے گا جس نے حکم دیا تھا۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں