احتساب اور قربِ ندامت
احتسابی ریلے کا رخ اب سندھ سے ہوتا ہوا عنقریب پنجاب کی طرف مڑنے والا ہے
آج کے اہم نکات میں شامل ہیں یہ یہ چیزیں۔سرفہرست، احتسابی ریلے کا رخ اب سندھ سے ہوتا ہوا عنقریب پنجاب کی طرف مڑنے والا ہے اور بڑے بڑے پارسا وزیر، مشیر اور افسران دھر لیے جائیں گے۔ کچھ کرپشن میں اور کچھ دہشت گردی کی معاونت میں۔ اس کے علاوہ ہم بات کریں گے عمران خان کی اخلاقی فتح اور آئندہ سیاسی لائحہ عمل سے متعلق اور آخر میں ایک دلچسپ انکشاف پنجاب کی ایک بہادر افسر عائشہ ممتازکے بارے میں جنھیں نجانے کیوں فلم اسٹار رنگیلا کی صاحبزادی بتایا جا رہا ہے۔
پیپلزپارٹی کے بہت بڑے کھڑپینچ اور سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر عاصم کا پکڑا جانا بیچاری ستم رسیدہ پارٹی کے لیے ایک اور لمحہ فکریہ تو خیر ہے ہی، اپنے زرداری صاحب کیلیے بھی ''قرب ندامت'' سے کم نہیں، کہ اب پیچھے اور کیا کسر باقی رہتی ہے۔ ڈاکٹر عاصم بظاہر ایک پڑھے لکھے نفیس آدمی ہیں مگر انکا بیگیج یعنی بارگراں مبینہ طور پر کافی وزنی ہے اور اسی کے پیش نظر ہمارا ان سے سوال ہے کہ بھائی آپ بیرون ملک اچھی خاصی خوشگوار اور پرسکون زندگی گزار رہے تھے۔
انٹرپول اگر اپنے سارے کام چھوڑ چھاڑ کر صرف آپ ہی کو تلاش کرنے پر بھی جت جاتی، تب بھی اسے کم وبیش 10برس درکار ہوتے اور 10برس بعد آپ کے انجن اور باڈی کی کنڈیشن کچھ اس طرح کی ہو جاتی کہ آپ کو پکڑنے سے پہلے ہر سمجھدار ادارہ 10مرتبہ ضرور سوچتا۔ چنانچہ برادر عزیز، ہمارا سوال صرف یہ ہے کہ آپ کو پاکستان واپس آنے کا مشورہ کس احمق حکیم نے دیا تھا؟ بہرحال، ڈاکٹر عاصم تو شکنجے میں آ ہی گئے مگر زرداری صاحب کے دیگر نامہ براب ڈر رہے ہیں۔ چلئے ایک بار پھر یہی تاریخی شعر آپ کو سنائے دیتے ہیں۔
گروہِ عاشقاں پکڑا گیا ہے
جو نامہ بر رہے ہیں، ڈررہے ہیں!
اب آیے صوبہ پنجاب کے چند نامہ بروں کی طرف، ان احباب میں نامہ بر تو کم ہیں مگر مفت بر بہت زیادہ ہیں۔ ہماری اطلاع کے مطابق دو مشہور ہاؤسنگ سوسائٹیزکے گرد نیب کا گھیرا تنگ ہوتا چلا جا رہا ہے، اس حوالے سے چند اہم سیاسی شخصیات جن میں وزیر بھی ہیں اور مشیر بھی، دھر لیے جائیں گے۔ ایک دو صوبائی محکمے ایسے ہیں کہ جن کے بجٹ لا متناہی ہیں۔ ان کے سیکریٹری، وزیر اور ان کے فرنٹ مین، صحت، سیلاب اور صفائی کی آڑ میں جو کچھ کرتے چلے جا رہے ہیں، وہ اگر اب بھی باز نہ آئے تو بہت برا ہو گا کیونکہ احتسابی ریلا عنقریب انہیں بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔
عقلمنداں را اشارہ کافی است!
اب آیے عمران خان کی دھواں دھار سیاسی باؤلنگ کی طرف۔ اس میں شک نہیں کہ موصوف نے اوپر تلے نواز لیگ کی تین تگڑی وکٹیں تو گرالی ہیں مگر ملکی سیاست کی باسی کڑاھی میں یہ ابال ان کے لیے کچھ بڑا فائدہ نہیں لا سکتا کہ ہر بات اور ہر کام کیلیے مناسب موقع اور محل کو ہونا از حد ضروری ہے۔ یہی وکٹیں اگر چند ماہ پہلے گر جاتیں تو حالات قدرے مختلف ہوتے۔ بہرحال، اب اگر ضمنی انتخابات ہوئے تو نوازلیگی جیت کے امکانات زیادہ ہوں گے چنانچہ ہمارا ذاتی خیال تو یہی ہے کہ عمران ضمنی انتخابات کا بائیکاٹ کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کی از سرنو تشکیل اور مکمل اوورہالنگ کا نعرہ مستانہ بلند کریں گے جس پر لبیک کہے گی بیچاری زم خوردہ پیپلزپارٹی، جو آجکل ڈاکٹر عاصم سمیت مختلف تازہ اور پرانے زخموں پر مرہم رکھنے کی ناکام کوشش میںمصروف ہے۔
اب چند فقرے عائشہ ممتاز کے بارے میں۔ آپ محکمہ خوراک کی اعلیٰ افسر ہیں آپ نے انتہائی کم عرصہ میں ایک دبنگ افسر کی شہرت کما لی ہے۔ آپ کے بارے میں دیگر لاتعداد چیزوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی مشہور ہے کہ آپ فلمسٹار رنگیلا مرحوم کی صاحبزادی ہیں۔ ایسا نہیں ہے، آپ کے والد محترم کا اسم گرامی ممتاز ہے اور آپ حکومت پنجاب میں ایکس ای این ہوا کرتے تھے۔ نجانے رنگیلا صاحب کا حوالہ عائشہ ممتاز کے ساتھ کن تکنیکی وجوہات کی بنا پر جوڑ دیا گیا، حالانکہ رنگیلا کی صاحبزادی فرح دیبا ہیں جو ایک بڑے اداکار کی بیٹی ہونے کے ساتھ ساتھ پنجاب اسمبلی کی ممبر بھی تھیں۔
پیپلزپارٹی کے بہت بڑے کھڑپینچ اور سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر عاصم کا پکڑا جانا بیچاری ستم رسیدہ پارٹی کے لیے ایک اور لمحہ فکریہ تو خیر ہے ہی، اپنے زرداری صاحب کیلیے بھی ''قرب ندامت'' سے کم نہیں، کہ اب پیچھے اور کیا کسر باقی رہتی ہے۔ ڈاکٹر عاصم بظاہر ایک پڑھے لکھے نفیس آدمی ہیں مگر انکا بیگیج یعنی بارگراں مبینہ طور پر کافی وزنی ہے اور اسی کے پیش نظر ہمارا ان سے سوال ہے کہ بھائی آپ بیرون ملک اچھی خاصی خوشگوار اور پرسکون زندگی گزار رہے تھے۔
انٹرپول اگر اپنے سارے کام چھوڑ چھاڑ کر صرف آپ ہی کو تلاش کرنے پر بھی جت جاتی، تب بھی اسے کم وبیش 10برس درکار ہوتے اور 10برس بعد آپ کے انجن اور باڈی کی کنڈیشن کچھ اس طرح کی ہو جاتی کہ آپ کو پکڑنے سے پہلے ہر سمجھدار ادارہ 10مرتبہ ضرور سوچتا۔ چنانچہ برادر عزیز، ہمارا سوال صرف یہ ہے کہ آپ کو پاکستان واپس آنے کا مشورہ کس احمق حکیم نے دیا تھا؟ بہرحال، ڈاکٹر عاصم تو شکنجے میں آ ہی گئے مگر زرداری صاحب کے دیگر نامہ براب ڈر رہے ہیں۔ چلئے ایک بار پھر یہی تاریخی شعر آپ کو سنائے دیتے ہیں۔
گروہِ عاشقاں پکڑا گیا ہے
جو نامہ بر رہے ہیں، ڈررہے ہیں!
اب آیے صوبہ پنجاب کے چند نامہ بروں کی طرف، ان احباب میں نامہ بر تو کم ہیں مگر مفت بر بہت زیادہ ہیں۔ ہماری اطلاع کے مطابق دو مشہور ہاؤسنگ سوسائٹیزکے گرد نیب کا گھیرا تنگ ہوتا چلا جا رہا ہے، اس حوالے سے چند اہم سیاسی شخصیات جن میں وزیر بھی ہیں اور مشیر بھی، دھر لیے جائیں گے۔ ایک دو صوبائی محکمے ایسے ہیں کہ جن کے بجٹ لا متناہی ہیں۔ ان کے سیکریٹری، وزیر اور ان کے فرنٹ مین، صحت، سیلاب اور صفائی کی آڑ میں جو کچھ کرتے چلے جا رہے ہیں، وہ اگر اب بھی باز نہ آئے تو بہت برا ہو گا کیونکہ احتسابی ریلا عنقریب انہیں بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔
عقلمنداں را اشارہ کافی است!
اب آیے عمران خان کی دھواں دھار سیاسی باؤلنگ کی طرف۔ اس میں شک نہیں کہ موصوف نے اوپر تلے نواز لیگ کی تین تگڑی وکٹیں تو گرالی ہیں مگر ملکی سیاست کی باسی کڑاھی میں یہ ابال ان کے لیے کچھ بڑا فائدہ نہیں لا سکتا کہ ہر بات اور ہر کام کیلیے مناسب موقع اور محل کو ہونا از حد ضروری ہے۔ یہی وکٹیں اگر چند ماہ پہلے گر جاتیں تو حالات قدرے مختلف ہوتے۔ بہرحال، اب اگر ضمنی انتخابات ہوئے تو نوازلیگی جیت کے امکانات زیادہ ہوں گے چنانچہ ہمارا ذاتی خیال تو یہی ہے کہ عمران ضمنی انتخابات کا بائیکاٹ کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کی از سرنو تشکیل اور مکمل اوورہالنگ کا نعرہ مستانہ بلند کریں گے جس پر لبیک کہے گی بیچاری زم خوردہ پیپلزپارٹی، جو آجکل ڈاکٹر عاصم سمیت مختلف تازہ اور پرانے زخموں پر مرہم رکھنے کی ناکام کوشش میںمصروف ہے۔
اب چند فقرے عائشہ ممتاز کے بارے میں۔ آپ محکمہ خوراک کی اعلیٰ افسر ہیں آپ نے انتہائی کم عرصہ میں ایک دبنگ افسر کی شہرت کما لی ہے۔ آپ کے بارے میں دیگر لاتعداد چیزوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی مشہور ہے کہ آپ فلمسٹار رنگیلا مرحوم کی صاحبزادی ہیں۔ ایسا نہیں ہے، آپ کے والد محترم کا اسم گرامی ممتاز ہے اور آپ حکومت پنجاب میں ایکس ای این ہوا کرتے تھے۔ نجانے رنگیلا صاحب کا حوالہ عائشہ ممتاز کے ساتھ کن تکنیکی وجوہات کی بنا پر جوڑ دیا گیا، حالانکہ رنگیلا کی صاحبزادی فرح دیبا ہیں جو ایک بڑے اداکار کی بیٹی ہونے کے ساتھ ساتھ پنجاب اسمبلی کی ممبر بھی تھیں۔