پچیس ڈالرکی کنیز
بچیوں کے تین قصورہیں۔پہلا،یہ کہ وہ اُس شورش زدہ علاقے میں سانس لینے پرمجبورہیں۔
FAISALABAD/
لاہور/
KARACHI:
یہ تین بدقسمت لڑکیاں"یزیدی"مذہب سے تعلق رکھتی ہیں۔چندبرس پہلے انھیں آنے والے لرزہ خیزحالات کا قطعاً اندازہ نہیں تھا۔بشریٰ کی عمر21سال،جب کہ منیرہ اور نور17 اور 22برس کی ہیں۔داعش کے قبضہ میں آئے ہوئے علاقے، خلافت کے اندرونی حالات پریہ وہ بے لاگ تبصرے ہیں جن سے اس حکومت کاوہ چہرہ دیکھ سکتے ہیں،جوعمومی طورپر چھپایا جاتاہے۔
بچیوں کے تین قصورہیں۔پہلا،یہ کہ وہ اُس شورش زدہ علاقے میں سانس لینے پرمجبورہیں۔ دوسرا قصور بھی ناقابل معافی ہے، کہ وہ ایک ایسے معاشرہ میں موجودہیں جس میں غیرمسلموں کے توکیا،اہل ایمان کی کوئی وقعت نہیں ہے۔تیسرابھیانک قصورنہیں بلکہ جرم یہ، کہ وہ نوجوان اوربے بس لڑکیاں ہیں!
خوش قسمتی سے تینوں دولت اسلامیہ کی خلافت سے فرار ہوکرابترحالت میں عراق پہنچ گئیں۔ایک خیراتی ادارہ "اُمار" نے انھیںلندن منتقل کردیا۔ تمام بچیاں نیم پاگل ہوچکی ہیں۔ اپنے اوپرکیے گئے مظالم اشکبارہوکربیان کرتیں ہیں۔ان کے حالات سننے والے بھی آبدیدہ ہوجاتے ہیں۔کسی اسلامی ملک کوتوفیق نہیں ہوئی کہ ان مظلوموں کے سرپردستِ شفقت رکھے۔جرمنی کی" بے مذہب" حکومت نے ان تمام کواپنی شہریت دینے کااعلان کیاہے۔
جس علاقے پربھی داعش قبضہ کرتی ہے،اس میں انتہائی منظم طریقے سے مخالفین کا قتلِ عام کیاجاتاہے۔تمام مرد اور چودہ برس کی عمرسے زیادہ بچے اکٹھے کیے جاتے ہیں۔ایک مرکزی چوک میں باندھ دیاجاتاہے۔باندھنے سے پہلے ان سے اجتماعی قبرکھدوائی جاتی ہے۔جب اجتماعی قبرمکمل ہوجاتی ہے،توانھیں انتہائی سفاکی سے قتل کردیاجاتاہے۔یہ محض پہلامرحلہ ہے۔ اس کے بعدتمام خواتین کواکھٹا کیاجاتا ہے۔ انکو جسمانی حالت کی بنیاد پرمختلف طبقوںمیں تقسیم کردیا جاتا ہے۔
عمر،جسمانی ساخت اورشکل وصورت کواہمیت دی جاتی ہے۔جنگی مالِ غنیمت کوپھرداعش کے دارالحکومت میں مخصوص دن بازارمیں لایاجاتاہے۔یہ پنجروںمیں بندہوتی ہیں۔ پنجرے بھی درجہ بندی کے حساب سے تقسیم ہوتے ہیں۔ ہرپنجرے کے باہر لڑکیوں یا عورتوں کی قیمت لکھ کر لٹکادی جاتی ہے۔سب سے زیادہ قیمت نویادس برس کی معصوم بچیوں کے پنجرے کے باہردرج ہوتی ہے۔یہ تمام کنیزوں کی حیثیت سے فروخت کی جاتی ہیں۔
چالیس برس یااس سے زیادہ عمرکی عورت کی قیمت پچیس ڈالر(پاکستان2500روپے)،بیس اورتیس برس کی عمرکے دورانیہ کی قیمت ساٹھ ڈالر(چھ ہزارپاکستانی روپے)، بیس برس سے کم عمرکی قیمت80ڈالر(پاکستانی آٹھ ہزار روپے)۔سب سے زیادہ دام نابالغ بچیوں کے ہوتے ہیں جو 110ڈالر(گیارہ ہزارپاکستانی روپے)کے برابرہیں۔یہ خریدوفروخت کوئی چھپے اندازسے نہیں کی جاتی۔بلکہ یہ ایک نمایاں جگہ اورہجوم کے درمیان کی جاتی ہے۔جوبھی پیسے موصول ہوتے ہیں،وہ سرکاری خزانے میں جمع کروادیے جاتے ہیں۔اس پورے مکروہ فعل کاایک اورزاویہ بھی ہے۔
خریدنے کاحق بھی منصب اوررتبے کے حساب سے ہے۔ مقامی سیاسی قائدین کوہرگروہ پرفوقیت حاصل ہے۔وہ لڑکیوں کوخریدنے میں سب سے پہلے تشریف لاتے ہیں۔اس کے بعدمقامی امیر،پھرجنگجوؤں کے افسران اورآخرمیں سپاہیوں کی باری ہوتی ہے۔داعش کی قیادت کے حکم کے مطابق،ایک وقت میں ان کے نظام سے منسلک شخص، تین کنیزوں کی ملکیت حاصل کرسکتاہے۔
اس پورے دورانیہ میں اکثرلڑکیاں خودکشی کرلیتی ہیں۔ اس نقصان سے بچنے کے لیے دولت اسلامیہ نے ایک حکم نامہ جاری کیاہے کہ کنیزیں سرپراسکارف نہیں پہن سکتیں۔وجہ بالکل سادہ ہے۔کئی لڑکیوں نے خودکشی کے لیے اپنے اسکارف استعمال کیے تھے۔کچھ عرصے میں یہ فروخت شدہ لڑکیاں مختلف ذہنی اورجسمانی بیماریوں کاشکارہوجاتی ہیں۔انکو علاج معالجہ کی وہ بنیادی سہولت بھی میسرنہیں جومہذب معاشروں میں جانوروں کے نصیب میں آتی ہے۔
زرخریدکنیزوں کے ساتھ جوسلوک کیاجاتاہے،اس کے کئی عینی شاہدہیں۔بشری،منیرہ اورنوران میں سے محض ایک ہیں۔جیسے ہی خریدنے کے معاملات پایہ تکمیل تک پہنچ جاتے ہیں،مالک انکو گھرلے جاتاہے۔یہاں سے ظلم اوربربریت کا وہ دورشروع ہوتاہے،جسے لفظوں میں بیان کرنابہت مشکل ہے۔کچھ لڑکیوں نے فرارہونے کی کوشش کی ۔
ان میں سے چندبدقسمت خواتین پکڑی گئیں۔انکوواپس لاکرایسی سزادی جاتی ہے کہ وہ دوسروں کے لیے عبرت کانشان بن جائیں۔انھیں بلاتفریق،ذبح کردیاجاتاہے۔ سزادوسری کنیزوں کے سامنے اسلیے دی جاتی ہے کہ وہ سوچ بھی نہ سکیں کہ یہاں سے فرارہوناہے۔جوخوش قسمت بھاگنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں،وہ کبھی بھی ذہنی طورپرصحیح نہیں رہ پاتیں۔انھیں بہت عرصہ لگتاہے کہ وہ نارمل ہوسکیں۔
عورتوں کوسزادینے کے لیے حکومت نے ایک مسلح فورس ترتیب دی ہے۔اس کا نام الخانسہ (Al-Khansaa) بریگیڈ رکھاگیاہے۔اس میں صرف عورتیں بھرتی کی گئیں ہیں۔ ہرسال کے شروع میں حکومت کی طرف سے ایک ضابطہ اخلاق مہیاکیاجاتاہے۔یہ عربی میں شایع ہوتا ہے۔ اس کا عنوان"اسلامی مملکت کی خواتین" (Women of Islamic State)رکھاگیاہے۔خواتین پرپابندی ہے کہ وہ صرف سیاہ رنگ کے کپڑے پہن سکتیں ہیں۔ان کے جوتے یاچپل بھی کالے رنگ کی ہوگی۔
ہاتھوں پرسیاہ رنگ کے دستانے اوراس کے بعدپورے جسم پرسیاہ رنگ کامکمل عبایایابرقعہ ہوگا۔میک اپ کی تمام دکانیں مکمل طورپربندکردیں گئیں ہیں۔داعش کی جغرافیائی حدودسے ہجرت پرمجبورلاکھوں لوگ مختلف ممالک میں پناہ لینے پرمجبورہیں۔ایک مہاجرکیمپ ترکی کی سرحدپر"دوحک" (Dohuk)میں واقعہ ہے۔ ماؤون (Maoon)انھی مہاجرین میں سے ایک38سالہ شخص ہے۔ انگریزی زبان جانتاہے۔
موصل میں انگریزی اورعربی ترجمہ دان کاسرکاری کام کرتارہاہے۔ماؤون کے مطابق عورتوں پرمظالم،لوگوں کے وہم وگمان سے بھی زیادہ ہیں۔کوئی بھی عورت،اپنے مالک کوانکارنہیں کرسکتی۔انکارکی صورت میں پہلانشانہ اس کے معصوم بچے ہوتے ہیں۔انکووالدہ کے سامنے انتہائی سفاکی سے قتل کیاجاتاہے۔اس کے بعدکیا ہوتا ہے، یہ ماؤون نے بیان کیاہے۔مگرمجھ میں ضبط تحریر کرنے کی استطاعت نہیں۔26سالہ امریکی ایڈورکر، کے لامیولر (Kayla Mueller)کوذبح کرنااسکی ایک ادنی سی مثال ہے۔
زینب بنگورا(Zainab Bangura)اقوام متحدہ کی نماشدہ خصوصی ہیں۔ عورتوں کے حقوق پرکام کرتی ہیں۔ان کے مطابق داعش جس بربریت کا مظاہرہ کررہی ہے، وہ بوسنیا، سوڈان اورصومالیہ کی خانہ جنگی میں بھی تصور نہیں کیا جاسکتا تھا۔
آپ کے ذہن میں یہ سوال ضروراٹھے گا،کہ میں جوکچھ لکھ رہاہوں،اسکاماخذکیاہے۔کیایہ ایک خودساختہ داستان ہے؟کیایہ یہودوہندوکی ایک سازش ہے؟نہیں صاحبان علم وفن!ماہ رخ علی،وہ بہادرٹی وی نامہ نگارہے جس نے ان تمام مظالم پربے لاگ تحقیق کی ہے۔وہ رائیٹر انسٹیٹیوٹ (Reuter Institute)سے منسلک ہیں۔اس وقت ناروے میں مقیم ہیں۔داعش کے مظالم پرتحقیق کے لیے تمام علاقوں میں خودگئیں ہیں۔لاتعدادمتاثرین سے ملاقات کی ہے۔ان خطرناک علاقوں میں وقت صَرف کیاہے۔اب وہ اس پرایک کتاب تحریرکررہی ہیںجوناروے میں ہی چھپے گی۔
میں اپنے عظیم مذہب کاایک ادنیٰ ساطالبعلم ہوں۔ میں اس نبیؐ کاپیروکارہوں جودنیامیں رحمت بناکراتارے گئے تھے۔رحمت العالمین قراردیے گئے۔فتح مکہ پرمیرے آقاؐ نے رحم دلی کی وہ مثال قائم کی،جوآج تک ایک روشن ستارہ کی مانندہے۔حج الوداع کے موقعہ پرانھوں نے"انسانی حقوق" کا مکمل ضابطہ عطافرمایا۔میرے آقاؐنے ہرکمزوراورمسکین پررحم کیا۔جنگوں میں عورتوں اوربچوں کوامان دی۔
پھل داردرختوں کوکاٹنے سے منع فرمایا!جنگی قیدیوں سے صلہ رحمی کاحکم دیا! آقاؐ کے احکامات کے بالکل برعکس،طالب علم سمجھنے سے قاصرہے کہ داعش اسلام کی کونسی خدمت کررہی ہے!یہ اسلام کا کونسا رخ پیش کررہے ہیں!کیابشری،منیرہ اورنورجیسی ہزاروں کمزورعورتوںکوبربادکرنادرست ہے!صاحبان!یہ دین کی کونسی تصویرہے!یہ ظالم لوگ کون ہیں؟