جمہوریت بذریعہ اسٹے آرڈر

ازسرنو پولنگ کا حکم اس واضح نتیجے کی بنا پر دیا گیا ہے کہ الیکشن میں عملی طور پر مداخلت ہوئی۔


اکرام سہگل August 29, 2015

WASHINGTON: پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے دائر کی گئی الیکشن پٹیشن پر' جس میں لاہور کے حلقہ این اے 125 میں انتخابی دھاندلی کا الزام عاید کیا گیا تھا، الیکشن ٹریبونل نے اس سال مئی میں فیصلہ دیا کہ بے ضابطگیاں اتنی شدید تھیں اس حلقہ انتخاب میں ہونے والے 2013ء کے انتخابی نتائج کو منسوخ کیا جاتا ہے لہٰذا انتخابات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ٹریبونل نے مسلم لیگ ن کے خواجہ سعد رفیق کی نشست منسوخ کر دی جو ریلوے کے وفاقی وزیر ہیں۔

سعد رفیق نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے ''اسٹے آرڈر'' کی پٹیشن دیدی کیونکہ الیکشن ٹریبونل نے اپنے فیصلہ میں یہ ثابت نہیں کیا کہ خواجہ سعد رفیق دھاندلی میں ملوث تھے۔ سپریم کورٹ کے ٹریبونل کی طرف سے دوبارہ الیکشن کرانے کے فیصلے کو معطل کرتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کو ہدایت کی کہ سعد رفیق کی این اے 125 سے قومی اسمبلی کی رکنیت بحال کی جائے۔ اس اسٹے آرڈر پر وہ نہ صرف ایم این اے ہیں بلکہ وفاقی وزیر بھی ہیں۔

الیکشن ٹریبونل لاہور کے فیصلے کی روشنی میں ای سی پی نے قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق کا حلقہ NA122 کا انتخاب کالعدم قرار دے دیا۔ ایاز صادق وہ ہیں جنہوں نے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کو انتخاب میں شکست دی تھی۔ تاہم ایاز صادق نے ٹریبونل کا فیصلہ تسلیم کر لیا لیکن کہا ہے کہ اس فیصلے کو مختلف قانونی بنیادوں پر سپریم کورٹ میں چیلنج کروں گا۔

لیکن جو چیز قابل افسوس تھی وہ یہ کہ پرویز رشید' رانا ثناء اللہ اور مسلم لیگ ن کے دیگر اہم رہنماؤں نے جس انداز سے جسٹس (ر) کاظم علی ملک کی ذات پر کیچڑ اچھالا۔ آخر یہ کس قسم کی جمہوریت ہے جہاں ممکنہ طور پر منتخب حکومت ایک عدالتی فیصلے کو برداشت نہیں کر سکی اور انتہائی بدترین کردار کشی شروع کر دیتی ہے۔ آخر ای سی پی اپنے الیکشن ٹریبونلز کے تقدس کی کیوں حفاظت نہیں کر پائی۔ اس اسکینڈل نما ہتک عزت کے خلاف تو سخت ایکشن لیا جانا چاہیے۔

جہاں تک سعد رفیق کے معاملے کا تعلق ہے تو سعد رفیق کی ابتدائی توجہ ٹریبونل کے فیصلے پر مرکوز تھی جس میں بے قاعدگیوں اور پولنگ اسٹاف کی نااہلی پر فوکس تھا۔ بدقسمتی سے اس سے ملتی جلتی صورت حال تقریباً ملک بھر کے دیگر انتخابی حلقوں میں موجود رہی تھی۔ ریکارڈ کے طور پر NA125 خواجہ سعد رفیق (وزیر) اور NA122 ، خواجہ آصف NA-57,NA110 اٹک شیخ آفتاب (وزیر) NA-58 اٹک ملک انتخاب' NA-118 ملک ریاض کو بھی اسٹے آرڈر دے دیا ہے۔

ای سی پی نے عام انتخابات صحیح معنوں میں آزادانہ اور منصفانہ کروانے کی صلاحیت کا اظہار کر دیا ہے جب کہ مسلم لیگ ن جوڈیشل کمیشن کے بارے میں حتمی فیصلہ نہ کر سکی جس نے کہ ''سب اچھا'' کی رپورٹ دیدی حالانکہ اتنی واضح بے قاعدگیاں سب کے سامنے عیاں ہوئیں۔

الیکشن ٹریبونل نے NA-122 کی عذرداری کی سماعت کے موقع پر اپنے مفصل فیصلے میں کہا ''اگرچہ اس بات کا کوئی ثبوت موجود نہیں کہ ریکارڈ کے نا مکمل ہونے میں امیدواروں کا کوئی قصور ہے لیکن جو بظاہر نظر آتا ہے وہ ہے شدید لاپرواہی اور غیر ذمے داری کا مظاہرہ جو انتخابی عمل کی ہر سطح پر نمایاں تھا''۔ ان کے فیصلے سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ بہتر منصوبہ بندی اور پیشہ ورانہ انداز سے ادائیگی فرض کے ذریعے ان خامیوں کو درست کیا جا سکتا ہے۔

ازسرنو پولنگ کا حکم اس واضح نتیجے کی بنا پر دیا گیا ہے کہ الیکشن میں عملی طور پر مداخلت ہوئی۔ (ن) لیگ کو تو ضمنی الیکشن لڑنے کا زیادہ اشتیاق ہونا چاہیے تا کہ وہ اپنی مقبولیت کا درست اندازہ لگا سکے اور چھاؤنی کے علاقوں میں کرائے گئے بلدیاتی انتخابات سے اس کا صحیح اندازہ نہیں ہو سکا۔

راولپنڈی چھاؤنی اور چکلالہ چھاؤنی بورڈ کے لوکل باڈی انتخابات میں مسلم لیگ ن کے امیدواروں نے ''کلین سویپ'' کر دیا اور 20 کے 20 وارڈ جیت لیے۔ صوبے میں ویسے ہی مسلم لیگ ن کی کافی مقبولیت ہے لہٰذا مسلم لیگ ن کو ضمنی الیکشن کے لیے آمادہ ہونے کے بجائے ہائی کورٹ سے اسٹے آرڈر کی درخواست کرنا جچتا نہ تھا۔

عدالتوں سے اسٹے لینے کا مطلب کسی فریق کو عارضی ریلیف دینا ہوتا ہے لیکن اس کے بعد بڑی تفصیلی کارروائی ہوتی ہے جس میں قصور وار یا بے قصور کا فیصلہ ہوتا ہے۔ اسٹے آرڈر کے پیچھے مقصد تو یقیناً نیک ہے لیکن نظام کو اس انداز سے چلایا جاتا ہے کہ فائدہ بہت قلیل تعداد کو ہو۔ یہ بے قصور فریق کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔

دوسری طرف سپریم کورٹ کے پاس کام کا اسقدر زیادہ بوجھ ہے کہ فیصلے میں خوامخواہ تاخیر ہو جاتی ہے جب کہ اسٹے آرڈر قصور وار پارٹی حاصل کرنے کی زیادہ کوشش کرتی ہے۔ اب یہ کام صرف حکومت کا ہی نہیں بلکہ اعلیٰ عدالتوں کا ہے کہ وہ ایسا نظام تشکیل دیں جس سے قانون کے غلط استعمال کے راستے بند ہو جائیں۔ اس لائحہ عمل میں قانون کو غلط استعمال کرنے والوں کے لیے سزائیں بھی شامل ہونی چاہئیں۔

جو پریشان کن بات ہے وہ یہ ہے کہ جو بھی بے چین ہوتا ہے منہ اٹھا کر اعلیٰ عدالتوں کے پاس چلا جاتا ہے جب کہ ایک جمہوری معاشرے کا فرض ہوتا ہے کہ وہ عوام کی بے چینیوں کا مداوا کرے کیونکہ جمہوریت کا مقصد ہی ایک عام شہری کو اختیارات تفویض کرنا ہے تا کہ وہ اپنی شخصی آزادی کا تحفظ کر سکے اور مختصر سی تعداد کے ہاتھوں استحصال کا شکار نہ ہو۔

اگر انتخابی ٹریبونل صرف انتخابات کو کالعدم قرار دیتے رہیں اور کسی کو ذمے دار نہ ٹھہرائیں تو اس سے سارا انتخابی عمل ہی بے معنی ہو جائے گا۔ یہ حقیقت ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے میں کافی وقت لگے گا کیونکہ اول تو اس پر کام کا بوجھ بہت زیادہ ہے دوسرے اب الیکشن ٹریبونلز کے فیصلوں نے بھی کام بڑھا دیا ہے۔

اگرچہ اس وقت صورت حال ایک سال پہلے کی نسبت خاصی بہتر ہے اور پاکستان اپنی جمہوری گورننس کو مضبوط کرنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ دہشت گردی' داخلی کشیدگی' فرقہ وارانہ اور نسلی تشدد میں ملک کی اقتصادی حالت کو سخت نقصان پہنچایا ہے اور اس سے دوہرا نقصان یوں ہوا کہ بھارت اور افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات زیادہ خراب ہو گئے جس کی وجہ سے پاکستان کو سیکیورٹی کے خطرات لاحق ہو گئے ۔

جہاں تک ہمارے داخلی محاذ کا تعلق ہے تو یہ تلخ حقیقت ہے کہ ہماری دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے جو کہ اپنے طور پر خاصی اعتدال پسند ہیں لیکن وہ پاکستانی معاشرے کو جدید بنائے' تعلیم یافتہ بنانے اور ترقی یافتہ بنانے میں گزشتہ عشروں میں کامیاب نہیں ہو سکیں۔ ہمارا بڑا چیلنج اقتصادی حالت کو بحال کرنا ہے مگر کرپشن نے اس کام کو اور زیادہ مشکل بنا دیا ہے۔

اس کا منظم جرائم سے بھی تعلق ہے جو کہ دہشت گردی سے منسلک ہوتے ہیں جس کی وجہ سے جمہوری عمل کو بہت نقصان پہنچا۔ بھارت ایسی صورت حال سے فائدہ اٹھاتا ہے جو ہمارے سیاستدانوں نے پیدا کر رکھی ہے اور ہم پر داخلی اور خارجی دباؤ ڈالنے کا کوئی موقع ہی ضایع نہیں کرتا۔

لیکن یہاں اسٹے آرڈر کی جو سیاست اتنے بلند بانگ آہنگ سے کھیلی جا رہی ہے اس سے کوئی کہہ سکتا ہے کہ ہم تو اسٹے آرڈر اسٹائل کی جمہوریت میں رہ رہے ہیں۔ اب تو ایسا لگا ہے جیسے ہمیں جمہوریت پر بھی ایک اسٹے آرڈر کی ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔