سیاسی جماعتوں کا داخلی انتشار
سیاسی جماعتوں میں داخلی انتشار اور قبائلی دشمنیوں جیسا اختلاف ہماری سیاسی زندگی کا ایک ناگزیر حصہ بن گیا ہے
سیاسی جماعتوں میں داخلی انتشار اور قبائلی دشمنیوں جیسا اختلاف ہماری سیاسی زندگی کا ایک ناگزیر حصہ بن گیا ہے۔ ویسے تو تقریباً ساری ہی جماعتیں داخلی انتشار کا شکار رہتی ہیں لیکن آج کل تحریک انصاف میں داخلی انتشار کی جو خبریں میڈیا میں آ رہی ہیں، اس کے بڑے دور رس اثرات ہو سکتے ہیں۔
اس لیے کہ ہماری سیاسی جماعتوں میں تحریک انصاف ایک ایسی جماعت ہے جو اقتدار کے سنگھاسن تک نہیں پہنچ سکی نہ اس پر کرپشن وغیرہ کے الزامات لگائے گئے ہیں اس وجہ سے عوام میں یہ امید بہرحال موجود ہے کہ شاید تحریک انصاف انھیں ان مصائب سے نجات دلائے جو وہ 68 سال سے بھگت رہے ہیں۔
ہمارے ملک کی سیاسی روایات بڑی عجیب و غریب ہیں ہمارا ملک جمہوری ملک تو کہلاتا ہے لیکن عملاً ہمارا ملک اشرافیائی جمہوریت کا نمونہ ہے اگر ہم پچھلے 68 سالوں کی حکمرانی پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس طویل عرصے میں اس ملک میں درمیانے طبقے کی کوئی جماعت برسر اقتدار نہیں آئی۔ ہاں اشرافیائی حکومتیں اپنی سیاسی ضرورتوں کے تحت درمیانے طبقے کی جماعتوں کو اپنا اتحادی ضرور بناتی رہیں لیکن انھیں اس قدر بے دست و پا بنا کر رکھا گیا کہ وہ اس یکطرفہ اتحاد سے باہر نکلنے پر مجبور ہو گئیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتوں میں اختلاف اور انتشار کی وجہ کیا ہے؟ ہماری سیاسی جماعتوں کی پہلی صفوں میں جو لوگ جگہ حاصل کر لیتے ہیں ان کا تعلق ان طبقات سے ہوتا ہے جن کا واحد مقصد اقتدار میں آنا اور اقتدار کے ذریعے لوٹ مار کرنا ہوتا ہے جب یہ گروہ اس مقصد کے لیے راستہ ہموار کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو آپس میں ان کی مڈبھیڑ ہو جاتی ہے ان چھٹ بھیوں کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ مرکزی قیادت کی زیادہ سے زیادہ خوشنودی حاصل کریں اس دوڑ میں آپس کا ٹکراؤ ناگزیر ہو جاتا ہے اور یہی ٹکراؤ سیاسی جماعتوں کے داخلی انتشار میں بدل جاتا ہے۔
سیاسی جماعتوں کے داخلی انتشار کی دوسری بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان جماعتوں میں منشور کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی، اسے محض شو پیس بنا کر رکھا جاتا ہے اس خامی کی وجہ پارٹی میں منشور سے وابستگی کے بجائے مرکزی قیادت سے وابستگی کی ایک دوڑ شروع ہو جاتی ہے اور اس دوڑ میں چونکہ گروہ بندیاں ناگزیر ہو جاتی ہیں لہٰذا پارٹیاں گروہ بندیوں اور داخلی انتشار کا شکار ہو کر رہ جاتی ہیں اور نیک نام پارٹیاں بھی بدنامی کا شکار ہوکر رہ جاتی ہیں۔ اس کلچر کی خاص بات یہ ہے کہ یہ دھڑے اپنے ذاتی مفادات کی جنگ میں بے چارے کارکنوں کو بھی گھسیٹ لیتے ہیں اور جب یہ گروہ آپس میں لڑ پڑتے ہیں تو نقصان عام غریب کارکنوں کا ہوتا ہے لیڈر بہرحال محفوظ رہتے ہیں۔
ہمارے ملک میں 68 سال سے سیاسی جماعتیں کیونکہ اقتدار اور لوٹ مار بذریعہ اقتدار میں الجھی ہوئی ہیں، لہٰذا بے چارے عوام کے مسائل کم ہونے کے بجائے بڑھتے چلے جا رہے ہیں جو پارٹیاں اقتدار میں رہی ہیں وہ عموماً اپنا زیادہ وقت لوٹ مار اور کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنے کے نیک کام میں مصروف رہ کر بدنامیاں سمیٹتی رہی ہیں۔ اس لیے نفسیاتی طور پر عوام ان جماعتوں سے امیدیں باندھ لیتے ہیں جو اقتدار میں نہ آ سکی ہیں۔
بدقسمتی سے اقتدار سے محروم رہنے والی جماعتوں میں بھی داخلی انتشار کی خبریں باہر آتی رہتی ہیں لہٰذا عوام ان جماعتوں سے بھی دل برداشتہ ہو جاتے ہیں۔ اس حوالے سے بدقسمتی یہ ہے کہ مڈل کلاس پر مشتمل وہ سیاسی جماعتیں جن کے پروگرام اور منشور ایک جیسے ہوتے ہیں ذاتی اور جماعتی مفادات میں اس طرح الجھ جاتی ہیں کہ وہ اس کرپٹ سسٹم کے خلاف متحد ہو کر جدوجہد کرنے کے بجائے ایک دوسرے کے خلاف لڑائیوں ہی میں اپنی طاقت ضایع کر دیتی ہیں۔
پاکستان 68 سالوں سے اشرافیائی سیاست کی شکارگاہ بنا ہوا ہے۔ عوام اس سیاست سے نفرت کی حد تک بیزار ہیں۔ ہمارے ملک کی سیاست میں پیپلز پارٹی کو یہ اعزاز حاصل رہا ہے کہ اس نے بھٹو کی قیادت میں ملک بھر کے عوام کو سیاسی شعور سے آراستہ کیا انھیں ان کی اجتماعی طاقت سے آگاہ کیا اور سیاسی طور پر انھیں متحرک بھی کیا لیکن پیپلز پارٹی کی بدقسمتی یہ رہی کہ وہ بہت جلد پٹڑی سے اتر گئی۔ اسے ہم قیادت کا طبقاتی کردار کہیں یا قیادت کی نااہلی کہ وہ پارٹی جس کی راہ میں عوام آنکھیں بچھا دیتے تھے بہت جلد اس سے آنکھیں پھیرنے لگ گئے۔ پیپلز پارٹی کی یہ ناکامی اصل میں عوام میں مایوسی کا سبب بن گئی۔
پیپلز پارٹی کی جگہ ہمارے سابق آمر ضیا الحق نے مسلم لیگ کو کھڑا کرنے کی کوشش کی لیکن آمر کا مزاج ہمیشہ آمرانہ رہتا ہے، لہٰذا وہ جمہوریت کو کبھی پسند نہیں کرتا۔ ضیا الحق کی ابتدا کی پھوٹتی مسلم لیگ آخر مسلم لیگ (ن) کی شکل میں ابھر کر سیاست میں فعال کردار ادا کرنے لگی چونکہ اس جماعت کی سربراہی ایک صنعتکار کے ہاتھوں میں آ گئی تھی۔
چند اہل دانش بھی اس غلط فہمی میں مبتلا ہو گئے کہ ایک صنعتکار ایک جاگیردار کے مقابلے میں ترقی پسند ہوتا ہے لہٰذا مسلم لیگ (ن) عوام کے مسائل حل کرنے میں دلچسپی لے گی، لیکن یہ امید اس لیے بر نہ آ سکی کہ بورژوا سیاست ہر قدم پر سمجھوتے اور وہ بھی غیر اصولی سمجھوتے کرتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) ان ''خوبیوں'' کی وجہ سے عوام کے مسائل حل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی اب عوام میں پائی جانے والی مایوسی اسی وقت دور ہو سکتی ہے جب درمیانہ طبقات پر مشتمل سیاسی جماعتیں ذاتی اور جماعتی مفادات سے بالاتر ہو کر عوام کے مفادات کی سیاست کریں اور داخلی انتشار کو منشور کے نیچے دبا دیں۔