اونچی اڑان
الیکشن کا حصہ بنیں گے اور پی ٹی آئی کو شکست فاش دیں گے اور پھر سے اپنی کھوئی ہوئی سیٹیں واپس لائیں گے۔
پی ٹی آئی جوڈیشل کمیشن کے فیصلے کے بعد سے اورکچھ ضمنی الیکشن کی ہار سے مرجھائی مرجھائی تھی لیکن 3حلقے کھلے اور فتح پی ٹی آئی کا مقدر ہوئی، سو اب پی ٹی آئی بلند آواز میں اپنے شانے چوڑے کیے پھر سے میدان میں ہے، نواز شریف نے مسلم لیگ (ن) کی صدارت میں یہ فیصلہ کیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے ارکان اپیلوں پر یا اسٹے آرڈرز پر نہیں جائیں گے بلکہ وہ میدان میں اتریں گے۔ الیکشن کا حصہ بنیں گے اور پی ٹی آئی کو شکست فاش دیں گے اور پھر سے اپنی کھوئی ہوئی سیٹیں واپس لائیں گے۔
ہری پور کے ضمنی انتخابات میں ریحام خان نے بھی پی ٹی آئی کے لیے کمپین چلائی، بھابھی نے بھائی اور بہنوں اور تمام لوگوں کو پی ٹی آئی کی طرف آنے کی دعوت دی اور اپنے شوہر عمران خان پر لوگوں کی بھلائی کے لیے وعدہ کیا کہ وہ اپنا پریشر بھی ڈالیں گی۔
اب بتائیں کہ عمران خان کہاں پریشر میں آنے والے تھے، ادھر ہری پور میں ہار ہوئی اور ادھر ریحام خان کو عمران خان نے سیاست سے پرے رہنے کے لیے حکم صادر کردیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ عمران خان کہتے ہیں کہ ریحام خان ان کی سیاسی خاتون ہیں اور ان کو یہ بات اچھی لگتی ہے، ہوسکتا ہے یہ فیصلہ تھوڑی دیر کے لیے ہو اور ماحول سازگار ہونے پر ریحام پھر سے میدان میں اتریں تو جناب ملک اور گھر کا ماحول دونوں سیاسی نہیں، ادھر مقدمات جیت کر پی ٹی آئی خوش اور ادھر ضمنی انتخابات جیت کر مسلم لیگ (ن) خوش۔
بہت سوچ سمجھ کر پی ٹی آئی کو ضمنی انتخابات میں امیدوار میدان میں اتارنے ہوں گے، مسلم لیگ (ن) کا دعویٰ ہے کہ وہ عوام کو بہتر سے بہتر 'ڈلیور' کررہے ہیں اور تمام سیاست دانوں کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش بھی کررہے ہیں۔ افواج کے ساتھ بھی حکومت کے تعلقات بہت مثالی ہیں۔ یہ کہاہے وزیر داخلہ چوہدری نثار نے۔ جو بظاہر تو مسلم لیگ (ن) کے مضبوط امیدوار ہے اور نتائج پی ٹی آئی کے خلاف بھی آرہے ہیں ، ضمنی انتخابات کے اور شاید یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) الیکشن کے لیے تیار ہے۔ بہرحال آیندہ کیا صورتحال ہوگی دیکھتے جائیں، سنتے جائیں۔
مگر لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ڈھائی سال کی جدوجہد،کروڑوں روپے کے اخراجات،126 دن کا دھرنا وہ بھی اسلام آباد میں بڑے بڑے نام، اگر انصاف اس طرح انھوں نے حاصل کیا تو سوچیے ایک عام آدمی کی کیا حیثیت؟ ریاست اور قانون ایک ''عام آدمی'' کو کیسے امن اورانصاف فراہم کرنے کا کردار ادا کرے گا؟ خواتین اور بچوں کے لیے حقوق کی پاسداری ہوگی،کمزورکیسے اپنا حق حاصل کرے گا؟
کراچی کی نشست پر بھی پی ٹی آئی ہار سے ہمکنار ہوئی، مجھے لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کے ارکان کو ہیرو والے بلند و بانگ دعوے کم کرنے چاہیے، ایک عام شہری سے اپنے تعلقات بہتر بنانے چاہیے، میڈیا میں ان رہنا یا اس کو ضروری سمجھنا، دوسروں پر الزامات کی بوچھاڑ کرنا، اب پی ٹی آئی ارکان کا وطیرہ بن گیا ہے، زبان کی شائستگی تمام کے تمام سیاست دانوں کے لیے بہت ضروری ہے۔ آپ چاہے مخالف ہو یا حلیف مگر زبان کا استعمال شائستہ ہو تو عوام کو پیغام اچھا ملتا ہے۔
MQM کراچی میں آپریشن کے باوجود ڈھیر سارے ووٹ لے کر جیت گئی تھی مگر MQM کا المیہ بھی یہی ہے کہ ان کے ارکان نے عام لوگوں سے اپنے آپ کو دور کرلیا، ان کے مسئلے مسائل پر کوئی توجہ نہ دی گئی تمام توجہ ان لوگوں نے اپنے اپنے کاروبار پر رکھی اور ''یا شیخ ویزا بھیج '' والی پالیسی پر عمل در آمد کرتے رہے، کراچی کے عوام اپنے مسائل کے حل کے لیے مارے مارے پھرتے رہے، عوام اور ان کے مسائل سے دوری کے نتائج کبھی اچھے نہیں نکلتے اور ایسا ہی ہوا۔ جرائم پیشہ افراد سے تمام سیاسی پارٹیوں کو چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا ۔ وقت بدل رہا ہے، نئی نئی ٹیکنالوجیز ہمارے ارد گرد موجود ہیں، میڈیا اور سوشل میڈیا پر خبرکو بریکنگ نیوز بنا رہا ہے۔
جوس پینے سے لے کر بڑی بڑی سیاسی ملاقاتیں ہر لمحہ عوام کے سامنے ہیں، اس میں دعوے اور بلند آوازیں تو ہو مگر ان کو ڈلیور کرنا اور ان کے نتائج بھی عوام کے سامنے ہونا ضروری ہے۔ سبزی فروخت کرنے والا ہو یا چوکیدار، سیاسی گفتگو اب ان کا بھی شوق ہے۔ غلط یا صحیح مگر رائے سب ہی رکھتے ہیں۔ عمران خان کے یوٹرن کا تذکرہ گاہے بگاہے ہوتا رہتا ہے اور بہت سے لوگ، سیاسی لوگ ان کے خلاف بھی اس کو استعمال کرتے ہیں مگر خانصاحب اپنی باتوں کو ایک سے دوسری بات سے جوڑتے ہیں اور بھرپور دلائل بھی دیتے ہیں۔
اپنے ہی کیے گئے فیصلوں کو غلط بھی مانتے ہیں اور کچھ پر اڑے بھی رہتے ہیں۔ ظاہر ہے کسی بھی سیاسی جماعت میں کوئی بھی شخص عقل کل ہو نہیں ہوسکتا، مفاد پرست ہر جگہ موجود ہوتے ہیں۔ نقصان پہنچانے والے اور غلط مشورے دینے والے بھی موجود ۔ پھر بھی ایک بڑی اسکرین پر تمام باتوں اور فیصلوں کا موازنہ گاہے بگاہے ہوتے رہنا چاہیے اور سب سے ضروری ہے عوام سے قربت، ہر شہر میں سیاسی جماعتوں کے نمایندے موجود ہو جو ان کے چھوٹے اور بڑے مسائل دونوں میں ہی ان کی رہنمائی کرسکیں، فوٹو سیشن اپنی جگہ، بڑی بڑی باتیں اپنی جگہ مگر حقیقتیں بھی اپنی جگہ موجود ہیں۔
کئی جماعتوں کی جب میٹنگز ہوتی ہیں اور ان کے کارکن بھی اس میں شامل ہوتے ہیں اور جیسے ہی کھانا کھلنے کی آواز لگتی ہے پھر اس کے بعد کی کہانی ہم اپنے ٹی وی چینلز پر دیکھتے ہیں، صرف کھانے کے لیے مارکٹائی، لوٹ مار شروع ہوجاتی ہے اور انسانوں کے پیٹ سے زیادہ کھانا زمینوں پر پڑا نظر آتا ہے، برتن تک توڑ دیے جاتے ہیں اور یہ معاملات صرف کھانے کے لیے ہوتے ہیں، جب کہ جو پارٹی کے بڑے لوگ ہوتے ہیں وہ میٹنگز کے بعد بڑے بڑے دسترخوانوں پر کھانے کے ساتھ وہ بھی اپنے ہی کارکنوں کی حرکات و سکنات ٹی وی پر دیکھتے ہیں اور افسوس کرتے ہیں۔ یہی ہوتا رہا ہے اور ابھی تک یہ سلسلہ جاری ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر صرف ایک وقت کے کھانے کے لیے یہ حال ہے تو عوام اور معاشرہ دونوں ہی کس مقام پر کھڑے ہیں؟ ضروریات زندگی کس نہج پر ہے اور عوام کی سوچ کیا ہے؟ تمام بڑی اور پرانی سیاسی جماعتوں کے علاوہ جو لوگ کچھ کچھ نئے ہیں اس حوالے سے کہ ابھی تک حکمرانی کے مزے ان کو نہیں ملے، تمام ہی لوگوں کو سنجیدگی کے ساتھ ایک قدم آگے بڑھنے کی شدید ضرورت ہے۔
نواز شریف ہو یا عمران خان، آصف زرداری یا الطاف حسین، اور باقی تمام جماعتوں کے رہنما اہم گزارش ہی کرسکتے ہیں کہ خدا کے واسطے پاکستان کے مفادات دیکھیے۔ ذاتی زندگی اپنی جگہ اختلافات اپنی جگہ، سیاسی نظریات اپنی جگہ، لیکن ضابطہ اخلاق بہتر ہو، سوچ میں حب الوطنی اور عوام سے محبت ہو تو آپ کی اونچی اڑان کوئی روک نہیں سکتا۔
عوام کو ڈلیورکیجیے، ان کی عزت نفس اور بنیادی ضروریات سب سے پہلے ہو، آپ کو اﷲ نے عزت دی بڑے مناصب عطا کیے، تمام دنیا میں پہچانے جانے کے لیے زبردست عہدے دیے آپ اپنے آپ کو اپنی محنت اورصحیح سمت اور مثبت سوچ سے بہت بلند کرسکتے ہیں، بہت ہی اونچی اڑان آپ کا مقدر ہوسکتی ہے۔
ہری پور کے ضمنی انتخابات میں ریحام خان نے بھی پی ٹی آئی کے لیے کمپین چلائی، بھابھی نے بھائی اور بہنوں اور تمام لوگوں کو پی ٹی آئی کی طرف آنے کی دعوت دی اور اپنے شوہر عمران خان پر لوگوں کی بھلائی کے لیے وعدہ کیا کہ وہ اپنا پریشر بھی ڈالیں گی۔
اب بتائیں کہ عمران خان کہاں پریشر میں آنے والے تھے، ادھر ہری پور میں ہار ہوئی اور ادھر ریحام خان کو عمران خان نے سیاست سے پرے رہنے کے لیے حکم صادر کردیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ عمران خان کہتے ہیں کہ ریحام خان ان کی سیاسی خاتون ہیں اور ان کو یہ بات اچھی لگتی ہے، ہوسکتا ہے یہ فیصلہ تھوڑی دیر کے لیے ہو اور ماحول سازگار ہونے پر ریحام پھر سے میدان میں اتریں تو جناب ملک اور گھر کا ماحول دونوں سیاسی نہیں، ادھر مقدمات جیت کر پی ٹی آئی خوش اور ادھر ضمنی انتخابات جیت کر مسلم لیگ (ن) خوش۔
بہت سوچ سمجھ کر پی ٹی آئی کو ضمنی انتخابات میں امیدوار میدان میں اتارنے ہوں گے، مسلم لیگ (ن) کا دعویٰ ہے کہ وہ عوام کو بہتر سے بہتر 'ڈلیور' کررہے ہیں اور تمام سیاست دانوں کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش بھی کررہے ہیں۔ افواج کے ساتھ بھی حکومت کے تعلقات بہت مثالی ہیں۔ یہ کہاہے وزیر داخلہ چوہدری نثار نے۔ جو بظاہر تو مسلم لیگ (ن) کے مضبوط امیدوار ہے اور نتائج پی ٹی آئی کے خلاف بھی آرہے ہیں ، ضمنی انتخابات کے اور شاید یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) الیکشن کے لیے تیار ہے۔ بہرحال آیندہ کیا صورتحال ہوگی دیکھتے جائیں، سنتے جائیں۔
مگر لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ڈھائی سال کی جدوجہد،کروڑوں روپے کے اخراجات،126 دن کا دھرنا وہ بھی اسلام آباد میں بڑے بڑے نام، اگر انصاف اس طرح انھوں نے حاصل کیا تو سوچیے ایک عام آدمی کی کیا حیثیت؟ ریاست اور قانون ایک ''عام آدمی'' کو کیسے امن اورانصاف فراہم کرنے کا کردار ادا کرے گا؟ خواتین اور بچوں کے لیے حقوق کی پاسداری ہوگی،کمزورکیسے اپنا حق حاصل کرے گا؟
کراچی کی نشست پر بھی پی ٹی آئی ہار سے ہمکنار ہوئی، مجھے لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کے ارکان کو ہیرو والے بلند و بانگ دعوے کم کرنے چاہیے، ایک عام شہری سے اپنے تعلقات بہتر بنانے چاہیے، میڈیا میں ان رہنا یا اس کو ضروری سمجھنا، دوسروں پر الزامات کی بوچھاڑ کرنا، اب پی ٹی آئی ارکان کا وطیرہ بن گیا ہے، زبان کی شائستگی تمام کے تمام سیاست دانوں کے لیے بہت ضروری ہے۔ آپ چاہے مخالف ہو یا حلیف مگر زبان کا استعمال شائستہ ہو تو عوام کو پیغام اچھا ملتا ہے۔
MQM کراچی میں آپریشن کے باوجود ڈھیر سارے ووٹ لے کر جیت گئی تھی مگر MQM کا المیہ بھی یہی ہے کہ ان کے ارکان نے عام لوگوں سے اپنے آپ کو دور کرلیا، ان کے مسئلے مسائل پر کوئی توجہ نہ دی گئی تمام توجہ ان لوگوں نے اپنے اپنے کاروبار پر رکھی اور ''یا شیخ ویزا بھیج '' والی پالیسی پر عمل در آمد کرتے رہے، کراچی کے عوام اپنے مسائل کے حل کے لیے مارے مارے پھرتے رہے، عوام اور ان کے مسائل سے دوری کے نتائج کبھی اچھے نہیں نکلتے اور ایسا ہی ہوا۔ جرائم پیشہ افراد سے تمام سیاسی پارٹیوں کو چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا ۔ وقت بدل رہا ہے، نئی نئی ٹیکنالوجیز ہمارے ارد گرد موجود ہیں، میڈیا اور سوشل میڈیا پر خبرکو بریکنگ نیوز بنا رہا ہے۔
جوس پینے سے لے کر بڑی بڑی سیاسی ملاقاتیں ہر لمحہ عوام کے سامنے ہیں، اس میں دعوے اور بلند آوازیں تو ہو مگر ان کو ڈلیور کرنا اور ان کے نتائج بھی عوام کے سامنے ہونا ضروری ہے۔ سبزی فروخت کرنے والا ہو یا چوکیدار، سیاسی گفتگو اب ان کا بھی شوق ہے۔ غلط یا صحیح مگر رائے سب ہی رکھتے ہیں۔ عمران خان کے یوٹرن کا تذکرہ گاہے بگاہے ہوتا رہتا ہے اور بہت سے لوگ، سیاسی لوگ ان کے خلاف بھی اس کو استعمال کرتے ہیں مگر خانصاحب اپنی باتوں کو ایک سے دوسری بات سے جوڑتے ہیں اور بھرپور دلائل بھی دیتے ہیں۔
اپنے ہی کیے گئے فیصلوں کو غلط بھی مانتے ہیں اور کچھ پر اڑے بھی رہتے ہیں۔ ظاہر ہے کسی بھی سیاسی جماعت میں کوئی بھی شخص عقل کل ہو نہیں ہوسکتا، مفاد پرست ہر جگہ موجود ہوتے ہیں۔ نقصان پہنچانے والے اور غلط مشورے دینے والے بھی موجود ۔ پھر بھی ایک بڑی اسکرین پر تمام باتوں اور فیصلوں کا موازنہ گاہے بگاہے ہوتے رہنا چاہیے اور سب سے ضروری ہے عوام سے قربت، ہر شہر میں سیاسی جماعتوں کے نمایندے موجود ہو جو ان کے چھوٹے اور بڑے مسائل دونوں میں ہی ان کی رہنمائی کرسکیں، فوٹو سیشن اپنی جگہ، بڑی بڑی باتیں اپنی جگہ مگر حقیقتیں بھی اپنی جگہ موجود ہیں۔
کئی جماعتوں کی جب میٹنگز ہوتی ہیں اور ان کے کارکن بھی اس میں شامل ہوتے ہیں اور جیسے ہی کھانا کھلنے کی آواز لگتی ہے پھر اس کے بعد کی کہانی ہم اپنے ٹی وی چینلز پر دیکھتے ہیں، صرف کھانے کے لیے مارکٹائی، لوٹ مار شروع ہوجاتی ہے اور انسانوں کے پیٹ سے زیادہ کھانا زمینوں پر پڑا نظر آتا ہے، برتن تک توڑ دیے جاتے ہیں اور یہ معاملات صرف کھانے کے لیے ہوتے ہیں، جب کہ جو پارٹی کے بڑے لوگ ہوتے ہیں وہ میٹنگز کے بعد بڑے بڑے دسترخوانوں پر کھانے کے ساتھ وہ بھی اپنے ہی کارکنوں کی حرکات و سکنات ٹی وی پر دیکھتے ہیں اور افسوس کرتے ہیں۔ یہی ہوتا رہا ہے اور ابھی تک یہ سلسلہ جاری ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر صرف ایک وقت کے کھانے کے لیے یہ حال ہے تو عوام اور معاشرہ دونوں ہی کس مقام پر کھڑے ہیں؟ ضروریات زندگی کس نہج پر ہے اور عوام کی سوچ کیا ہے؟ تمام بڑی اور پرانی سیاسی جماعتوں کے علاوہ جو لوگ کچھ کچھ نئے ہیں اس حوالے سے کہ ابھی تک حکمرانی کے مزے ان کو نہیں ملے، تمام ہی لوگوں کو سنجیدگی کے ساتھ ایک قدم آگے بڑھنے کی شدید ضرورت ہے۔
نواز شریف ہو یا عمران خان، آصف زرداری یا الطاف حسین، اور باقی تمام جماعتوں کے رہنما اہم گزارش ہی کرسکتے ہیں کہ خدا کے واسطے پاکستان کے مفادات دیکھیے۔ ذاتی زندگی اپنی جگہ اختلافات اپنی جگہ، سیاسی نظریات اپنی جگہ، لیکن ضابطہ اخلاق بہتر ہو، سوچ میں حب الوطنی اور عوام سے محبت ہو تو آپ کی اونچی اڑان کوئی روک نہیں سکتا۔
عوام کو ڈلیورکیجیے، ان کی عزت نفس اور بنیادی ضروریات سب سے پہلے ہو، آپ کو اﷲ نے عزت دی بڑے مناصب عطا کیے، تمام دنیا میں پہچانے جانے کے لیے زبردست عہدے دیے آپ اپنے آپ کو اپنی محنت اورصحیح سمت اور مثبت سوچ سے بہت بلند کرسکتے ہیں، بہت ہی اونچی اڑان آپ کا مقدر ہوسکتی ہے۔