اُس نے خود کشی کرلی مگر چنگ چی پھر بھی نہ چلی

بے روزگاری اور ناامیدی کسی بھی معاشرہ کیلئے تباہی کا سامان ہوتے ہیں۔


بنیادی حقوق کی عدم فراہمی لوگوں ایسی راہوں کا مسافر بنا دیتی ہے، جس کا انجام تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ فوٹو :فائل



ذوالفقار علی خواجہ سچل گوٹھ کا رہائشی تھا۔ دو بچوں کا باپ اور کرائے کے گھر میں رہائش پذیر تھا، گھر کی ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دبا والدین کا سہارا۔ چنگ چی رکشوں پر پابندی کے بعد بے انتہا مایوس اور نوکری کی تلاش میں در در کی خاک چھان رہا تھا اور جب کہیں سے بات نہ بن سکی، تو ذوالفقار کی مایوسی اس قدر بڑھی کہ زندگی اور اس کی تلخیوں سے گھبرا کر زہریلی دوا پی لی، اور تمام دنیا سے منہ موڑ لیا، لیکن کوئی اُس سے سوال کرسکتا کہ تم تو آس تھے اپنے خاندان کی، ان کے لئے کیا سوچا تھا؟



کراچی میں بغیر کوئی ڈیڈ لائن دیے چنگ چی رکشوں پر پابندی عائد کردی گئی۔ اِس اقدام کو مختلف حلقوں کی جانب سے بڑی پذیرائی ملی۔ خاص کر ذاتی گاڑیاں رکھنے والوں نے اس اقدام کو خوب سراہا اور اسے شہر کے ٹریفک مسائل کا حل قرار دیا۔ لیکن ان تمام باتوں سے قطعہ نظر کئی گھروں کے چولھے بجھ گئے اور روزانہ کی بنیاد پر اُجرت حاصل کرنے والے گھروں کے واحد کفیل بے روزگار ہوگئے۔


انتظامیہ کی جانب سے اس قسم کے اقدامات کوئی نئی بات نہیں ہے، بلکہ ایسا ہمیشہ ہی ہوتا آیا ہے۔ ہمارے ملک میں المیہ یہ ہے کہ کبھی بھی کوئی فیصلہ مضبوط منصوبے کے تحت ہرگز نہیں ہوتا، بس اگر منصوبہ بندی ہوتی ہے تو اِس بات کی کہ کس طرح زیادہ سے زیادہ مال بنایا جائے۔


ایک جانب تو پہلے سی این جی رکشوں کی اجازت دے کر لوگوں کو وقتی روزگار مہیا کردیا گیا، لیکن پھر جب ہزاروں کی تعداد میں یہ سی این جی رکشے سڑکوں پر بغیر قواعد و ضوابط کے نظر آنے لگے تو ان پر پابندی عائد کردی گئی۔


چنگ چی رکشوں کی بندش کے بعد ان بے روزگار ڈرائیوروں کا کوئی پُرسان حال نہیں کہ اِس شدید مہنگائی کے دور میں وہ اپنے اخراجات پورے کرنے کیلئے کیا راستہ اختیار کریں گے؟ جب کہ یہی بے روزگاری اور نااُمیدی معاشرے کیلئے تباہی کا سامان ہوتے ہیں۔ ان کو بروقت متبادل روزگار کی فراہمی انتہائی ضروری ہے ورنہ ذوالفقارعلی کی طرح مزید غریبوں نے مایوسی کا دامن تھاما تو اُس کا ذمہ دار کوئی اور نہیں صرف ریاست ہوگی۔ چنگ چی رکشہ ڈرائیوروں نے اپنے حقوق کے لیے مختلف مقامات پر پُرامن احتجاج بھی کئے، لیکن ان ڈرائیوروں کی داد رسی کو کوئی نہیں آیا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک گھر کا روشن چراغ ہمیشہ کے لیے نااُمیدی کے اندھیرے سے بُجھ گیا۔ ذوالفقار جیسے کئی چنگ چی ڈرائیور اب بھی نوکری کی تلاش میں ہیں اور اپنے مسائل کے حل کیلئے حکومت کی جانب دیکھ رہے ہیں۔


ایک طرف ان چنگ چی پر بندش کے ساتھ ہزاروں افراد بے روزگار ہوئے تو وہیں دو کروڑ سے زائد آبادی والے شہر کے رہائشیوں کا لوکل ٹرانسپورٹ میں سفر بھی اذیت ناک ہوگیا، اور جب بسوں کی کمی کو محسوس کیا گیا تو کراچی میں سرجانی تا ٹاور گرین بس پراجیکٹ کا افتتاح کا دعویٰ بھی کردیا گیا۔ دعویٰ اس لئے کہ افتتاح کی خبر کے بعد اب تک کوئی بس سڑک پر چلتی نظر نہیں آئی، اور اگر یہ بسیں سڑکوں پر آ بھی جائیں تو اِس میں حکومت کا کیا کردار ہے؟ یہ بسیں تو درحقیقت کراچی میں قائم سٹی گورنمنٹ نے چلائیں تھی مگر حکومت نے ٹرانسپورٹ مافیا کے دباو میں آتے ہوئے اِن بسوں کو بند کردیا تھا۔


ابھی کچھ روز قبل فلم "شاہ" دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ فلم کے موضوع میں چھپی کڑوی سچائی نے دل گداز کردیا۔ فلم کی کہانی لیاری سے ابھرنے والے لیجنڈری باکسر ''سید حسین شاہ'' کی ہے۔ فلم میں دکھایا گیا ہے کہ لیاری سمیت کراچی کے متعدد علاقے ایسے ہیں جہاں لوگ وسائل کی کمی کے باعث اپنی تعلیم پر توجہ نہیں دے پاتے اور وسائل کی کمی اور بنیادی حقوق کی عدم فراہمی پھر اِنہی لوگوں کو ایسی راہوں کا مسافر بنادیتی ہے، جس کا انجام تباہی کے سوا کچھ نہیں۔


مختصر یہ کہ عوام کے حقوق کی پامالی ہی جرائم کی وجہ بنتی ہے۔ کمزور اعصاب کے مالک خودکشی کرکے راہِ فرار اختیار کر لیتے ہیں، اور مضبوط اعصاب کے مالک افراد گناہ و ثواب کی سوچوں سے بالاتر اپنی من مانی پر اتر آتے ہیں۔ میں انتظامیہ اور برسرِ اقتدار افراد سے گذارش کرتا ہوں کہ وہ تھوری دیر خود کو ان چنگ چی رکشہ ڈرائیور کی جگہ رکھ کر سوچیں کہ کس طرح بیروزگاری میں اپنے خاندان کی کفالت ممکن بناسکیں گے؟ اگر حکومت سمجھتی ہے کہ چنگ چی ٹریفک کے لیے درد سر ہے تو بالکل بند رکھے مگر جو ہزاروں لوگ اِس کام سے دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرتے تھے خدارا اُن کے لیے روزگار کا بندوبست کیا جائے۔


[poll id="632"]



نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں