حکمرانوں کی ’’آئیڈیل‘‘ کارکردگی
کیا واقعی پاکستان کے کونے کونے میں صنعتوں اور کارخانوں کا جال بچھا دیا گیا ہے
LONDON:
گزشتہ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے خوددار، خوشحال اور خود مختار پاکستان کا نعرہ لگایا تھا جو اس وقت کی زرداری حکومت سے اُکتائے ہوئے عوام کے دلوں کی دھڑکن بن گیا تھا لیکن محض نعروں کی مقبولیت سے پارٹی کا پیٹ نہیں بھرتا، نہ ہی مقبول نعرے عوام کے دل و دماغ میں زیادہ دیر زندہ رہ پاتے ہیں جب تک انہیں عملی جامہ نہ پہنا دیا جائے۔
سوال یہ ہے کہ نون لیگ کے اس دلفریب انتخابی نعرے کے بعد کیا واقعی پاکستان خوددار، خوشحال اور خودمختار بن پایا؟ کیا واقعی نوجوان طبقے کو روزگار مل رہا ہے؟ کیا واقعی پاکستان ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو گیا ہے؟ کیا واقعی پاکستان خود کفیل ملک بن گیا ہے اور اس نے آئی ایم ایف اور امریکہ سے قرضے اور خیرات لینا بند کر دیا ہے؟ کیا واقعی پاکستان کے کونے کونے میں صنعتوں اور کارخانوں کا جال بچھا دیا گیا ہے؟ کیا واقعی مزدور، کسان اور ہاری کو کام اور مناسب دام ملنے لگ گئے ہیں؟ کیا واقعی وطن عزیز نے زرعی میدان میں انقلاب برپا کر دیا ہے؟
کیا واقعی پاکستان اتنا خوددار ہو گیا ہے کہ اس نے امریکہ کے آگے جھکنا بند کر دیا ہے اور کیا واقعی پاکستان میں اتنی حمیت پیدا ہو گئی ہے کہ اس نے اپنی سالمیت پر سمجھوتے کرنے چھوڑ دیئے ہیں اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو پاک سرزمین پر ڈرون حملے روکنے کیلیے آخری وارننگ دیدی ہے؟ کیا لوڈشیڈنگ پر واقعی قابو پا لیا گیا اور عوام کو کم سے کم نرخوں پر بجلی فراہم ہونا شروع ہو گئی ہے؟ کیا واقعی غربت اور بیروزگاری کے ستائے مظلوم عوام نے خودکشیاں کرنا چھوڑ دی ہیں؟ ہاں بتایا جائے کہ کیا واقعی ملک میں شرح خواندگی سو فیصد ہو گئی ہے اور اس وقت کسی گاؤں، کسی شہر، کسی بستی کا کوئی ایک بچہ اسکول سے باہر نہیں، اور کیا واقعی پاکستان میں تعلیم کا معیار امیر غریب کیلیے مساوی ہو گیا ہے اور کیا یہاں یکساں نظام تعلیم نافذ کر دیا گیا ہے اور سب کو برائے نام فیس پر تعلیم فراہم کی جا رہی ہے؟
کیا واقعی تعلیم یافتہ طبقے کیلیے ہر سال مناسب شرح سے نوکریاں پیدا کی جا رہی ہیں؟ کیا واقعی صحت کے شعبہ میں انقلاب آ گیا ہے اور جعلی ادویات کسی بھی اسپتال یا میڈیکل اسٹور پر دستیاب نہیں ہیں ،اور کیا یقینا غریبوں کو بھی ویسی ہی طبی سہولیات میسر آ رہی ہیں جو امیروں کو حاصل ہیں؟ کیا واقعی اداروں سے کرپشن ختم ہو چکی ہے اور تمام سرکاری محکمے ہر سال کھربوں روپے کا ریونیو اکٹھا کر کے ملکی خزانے میں جمع کرانے لگ گئے ہیں؟ کیا سچ مچ وی آئی پی کلچر کا خاتمہ ہو چکا ہے اور ہر خاص و عام کو ہر سطح اور ہر جگہ پر ایک جیسی عزت دی جانے لگی ہے؟ کیا حقیقت میں قانون پر عملدرآمد ہونا شروع ہو گیا ہے اور عدالتوں نے انصاف دینا شروع کر دیا ہے؟ کیا واقعی؟ اور کیا واقعی؟ ہاں واقعی پاکستان میں سب کچھ اچھا ہو گیا ہے اور اب یہاں واقعی دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہیں اور درختوں اور منڈیروں پر پرندے بھی واپس لوٹ آئے ہیں جو صبح و شام امن کے مدھر گیت گاتے ہیں۔ ارے بھئی! واپس آ جائیے۔
اس ہپناٹزم سے باہر نکلیے، یہ وہ سہانے خواب ہیں جو اڑسٹھ سالوں سے پاکستان کے سادہ لوح عوام کو مختلف پیرایوں میں دکھائے جاتے رہے ہیں۔ اس حکومت نے بھی کچھ نیا نہیں کیا، بس وہی کیا جو دوسرے کرتے آئے ہیں، خوددار، خوشحال اور خودمختار پاکستان کا نعرہ لگا کر اس نے ایک بار پھر اس قوم کو دھوکہ دیا ہے اور اپنے کاغذوں میں سب اچھا کر دیا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ نہ تو حکمرانوں کا طرزِ سیاست بدلا ہے، نہ ہی پاکستان کے حالات میں کوئی بہتری آئی ہے۔ آج ملک کو جو خدشات لاحق ہیں، انہیں دیکھتے دیکھتے اور سوچتے سوچتے گوشت پوست کے اس فانی ڈھانچے میں روح کانپ کانپ جاتی ہے۔ زندگی کا ہر شعبہ، ہر محکمہ، ہر ادارہ رو بہ زوال ہے، ہر سو افراتفری کا عالم ہے، کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا کہ آخر اس ملک میں ہو کیا رہا ہے، ایوانوں میں صرف سیاست ہو رہی ہے، جوڑ توڑ ہو رہے ہیں۔
کبھی دھرنے، کبھی استعفے، کبھی ناراضیاں، کبھی صلح نامے۔ خود غرض اور بے حس حکمرانوں نے ملک و قوم کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دیئے ہیں، حکمرانوں کی تمام تر توجہ اپنے ذاتی مفادات پر مرکوز ہے، عوام کے مسائل اور ملکی حالات پر حکمرانوں اور ان کے حواریوں کا رتی بھر بھی دھیان نہیں ہے، لوڈشیڈنگ، غربت، بیروزگاری، مہنگائی اور تحفظ عامہ کے مسائل بدتر سے بدترین ہوتے جا رہے ہیں، جمہوریت کے نام پر لوگوں سے جمہوری حقوق تک چھین لیے گئے ہیں، انسانی بنیاد پر جن بنیادی سہولیات کی فراہمی حکومت کا فرض تھا انہیں غریب عوام کیلیے نایاب کر دیا گیا ہے۔
غریب عوام کو معاش کے چکر میں اسقدر الجھا دیا گیا ہے کہ انہیں سانس لینا تک محال ہو چکا ہے، لوگ ذہنی طور پر اس حد تک مفلوج ہو چکے ہیں کہ انہیں یہ بھی سجھائی نہیں دے پا رہا کہ وہ خود کیا کریں اور اپنی اولادوں کے مستقبل کا کیا کریں، مایوسیوں کا اندھیرا ہے کہ چھٹتا نظر نہیں آتا، دہشت گردی اپنی جگہ، معاشرے میں امن و امان کی مجموعی صورتحال ہر آئے روز بے قابو ہوتی جا رہی ہے، ڈاکو، قاتل، چور، وارداتیے سڑکوں اور گلی محلوں میں سر عام دندناتے پھرتے ہیں۔
ذاتی مفادات کی پالیسیوں اور حکمرانوں کی عیاشیوں نے پوری قوم کو مایوس کر کے رکھ دیا ہے۔ 1985ء اور 87ء سے لے کر تاحال مسلم لیگ نواز کو چھ مرتبہ پنجاب اور تین مرتبہ وفاق میں اقتدار حاصل ہوا مگر نہ تو پنجاب کے حالات میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی آئی نہ ہی وفاق میں کوئی بہتری۔ نواز شریف پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلے لیڈر ہیں جو تین بار وزارتِ عظمیٰ کے عہدے پر براجمان ہوئے، ان سے اس بات کا تذکرہ کریں تو وہ کہتے ہیں کہ ان کی حکومت کو کبھی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی، کبھی اسمبلیاں توڑ دی گئیں، کبھی جبراً گھر بھیج دیا گیا، کبھی مارشل لاء کے ذریعے تختہ اُلٹ دیا گیا تو کبھی دھرنوں اور دھاندلی کے گرداب میں دھکیل دیا گیا۔
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کی تین بار وزیراعظم کے عہدے پر رہنے کی کل معیاد ایک بار کی پانچ سالہ مدت کے مساوی ہے۔ چلیے مان لیا کہ وفاق میں ان کی اسمبلیوں کو کبھی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی مگر وہ یہ تو بتائیں کہ پنجاب کیلیے کون سا بہانہ تراشیں گے؟ اس صوبے میں تو ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ آپ کو پوری آب و تاب اور اکثریت کے ساتھ حکمرانی کرنے کے بار بار مواقع میسر آئے، یہاں کون سے نئے وژن کے تحت عوام دوست قوانین بنا کر نافذ کیے گئے اور کون سی ایسی اچھوتی پالیسیاں متعارف کروائی گئیں کہ پنجاب کے لوگ خوشحال ہو گئے اور پنجاب ایک مثالی صوبہ بن گیا۔
ہم نواز شریف کے اس عذر سے اتفاق نہیں کرتے کیونکہ جن کے پاس طلسمی وژن ہوتے ہیں ان کیلیے پانچ سال تو کیا پانچ مہینے بھی کافی ہوتے ہیں، نون لیگ کی حکومت بالفرضِ محال اس مرتبہ اگر پانچ سال پورے کر بھی جائے تو وہ کوئی ناقابل فراموش کارنامہ انجام نہیں دے پائے گی کیونکہ اس کے پاس وژن نام کی کوئی چیز نہیں۔ وہی روایتی سیاست اور وہی سیاسی جمع خرچ جو یہاں شروع سے چلا آ رہا ہے حکمران بھی اسی کے امین نظر آتے ہیں، اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ شریف خاندان کو سیاسی میدان میں موجود رہنے کا موقع کبھی نہ ملتا اگر بینظیر بھٹو پیپلز پارٹی کے انقلابی منشور سے انحراف نہ کرتیں، جب بینظیر نے نیو لبرل معاشی پالیسیوں کو نافذ کرنے کیلیے ریاست سے مصالحت کی اور اپنے زیرک شوہر اور مثالی مشیروں کے کہنے پر ریاستی اداروں کو کوڑیوں کے بھاؤ فروخت کر دیا جن میں مسلم کمرشل بینک جیسا مالیاتی ادارہ بھی شامل تھا، اس وقت عوام میں پھیلنے والی مایوسی اور بے چینی بینظیر کی انھی پالیسیوں کا نتیجہ تھا جس کی وجہ سے دائیں بازو کی سوچ کو ایک مرتبہ پھر اقتدار میں لوٹنے کا موقع مل گیا۔
آج تیسری بار بھی نون لیگ صرف اور صرف پیپلز پارٹی کے نظریاتی اور سیاسی دیوالیہ پن کی وجہ سے برسراقتدار آئی ہے مگر تیسری بار بھی اس کے نظریات میں کوئی واضح بدلاؤ نہیں آیا، اس کا صرف ایک ہی وژن ہے کہ میکرو اکنامکس (بڑے پیمانے پر اقتصادیات) کو ہر قیمت پر مستحکم کیا جائے جس سے سرمایہ دار طبقے کو ملک کی معیشت میں اور بھی خوفناک طریقے سے پنجے گاڑنے کا موقع مل سکے۔
غربت اور مہنگائی کی چکی میں پستے اور معاشی بدحالی سے نیست و نابود ہوتے کروڑوں عوام بھلے ہی اجتماعی خودکشیاں کرنے پر مجبور ہو جائیں، اسے اس سے کوئی سروکار نہیں۔ روٹی، کپڑا اور مکان کا توڑ اس نے میٹرو بسوں، اورنج لائن ٹرینوں، لیپ ٹاپ، پیلی ٹیکسی، آشیانہ ہاؤسنگ اسکیموں، دانش اسکولوں، یوتھ لون، سستی روٹی، رمضان آفر، موٹروے اور میگا پراجیکٹس کی شکل میں ڈھونڈ لیا ہے، یہ ساری کی ساری اسکیمیں وقتی اور دل بہلاوے کے وہ ارزاں کھلونے ہیں جنہیں بچے ایک ہی دن استعمال کر سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے حکمرانوں کی ترجیحات میں پاکستان کے عام آدمی کیلیے کچھ بھی نہیں، ان کے ایجنڈے میں صرف سرمایہ دار اور اشرافیہ کے مفادات سر فہرست ہیں۔
سوائے سڑکیں بنانے اور بیرون ممالک سے بڑے بڑے منصوبوں کے معاہدے کرنے کے حکمرانوں نے ملک میں کوئی قابل قدر کارنامہ سرانجام نہیں دیا۔ یہ سڑکیں صرف اسلیے بناتے ہیں کہ رئیسوں اور ان کے بچوں کو جائے واردات پر پہنچنے میں تاخیر نہ ہو اور وی آئی پی مافیا کو نقل و حمل میں آسانی ہو، پھر سڑکوں اور میگا پراجیکٹس میں ہی تو بڑی بڑی کک بیکس کا مارجن ہوتا ہے، اسپتال، ڈسپینسریاں، اسکول، کالج، یونیورسٹیاں، لائبریریاں، یتیم خانے اور فلاحی ادارے بنانے یا لوگوں کو بنیادی سہولتیں مہیا کرنے، انصاف بہم پہنچانے اور لوگوں کو روزگار فراہم کرنے میں کون سی کمائی ہے۔
ایسے فضول کاموں میں تو اُلٹا وقت کا ضیاع اور اضافی بجٹ کا خرچ ہے جسکا حکومت اور اس کے منظم حواریوں کو کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے، یہ بڑے بڑے منصوبوں ہی کی کرامت ہے کہ حکمرانوں کے ذاتی کاروبار دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں جب کہ ان کی نگرانی میں چلنے والے سرکاری ادارے کنگال ہو رہے ہیں اور انھیں اپنے ہی عزیز و اقارب میں اونے پونے فروخت کیا جارہا ہے، ان سے کوئی پوچھے کہ ان کے ذاتی ادارے تو تیزرفتاری سے ترقی کر رہے ہیں اور سرکاری ادارے ڈوبے جا رہے ہیں، کیوں؟ جنہوں نے ان سرکاری اداروں کا بیڑہ غرق کیا ہے ان کے خلاف کیا کارروائی کی گئی ہے؟ حکمرانوں کا یہ ہمیشہ وتیرہ رہا ہے کہ انھوں نے اقرباء پروی اور خویش پرستی کا ہر دور اور ہر حکومت میں مظاہرہ کیا ہے۔
ان کے اسی رویے سے بیزار ہو کر بڑی بڑی قدآور سیاسی شخصیات پارٹی سے کنارہ کش ہو چکی ہیں، یہ سلسلہ ان کے تینوں ادوار میں چلتا رہا ہے۔ میاں صاحبان کو بادشاہ بننے کا خبط ایسا بری طرح لاحق ہے کہ وزارتِ اعلیٰ اور وزارتِ عظمیٰ کے عہدوں کیلیے انھوں نے خود کے علاوہ کبھی اپنے کسی سینئر راہنما کو ترجیح ہی نہیں دی، اس وقت پارٹی کی یہ صورتحال ہے کہ کوئی سینئر، تجربہ کار اور مدبر سیاستدان اس میں موجود نہیں، نون لیگ کی صوبائی اور وفاقی کابینہ میں جتنے بھی وزراء شامل ہیں، سیاسی تدبر سے عاری، ناپختہ اور ناتجربہ کار ہیں۔
خارجہ اور دفاع جیسی اہم ترین وزارتوں کا خلاء دو سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود پُر نہیں کیا گیا،دیگر وزراء بھی اس قابل نہیں کہ وہ اپنی اپنی وزارتوں کو احسن طریقے سے چلا سکیں۔ وزیر داخلہ کا یہ حال ہے کہ ان کی وزیر اعظم اور کابینہ کے دوسرے ارکان سے کبھی بنی ہی نہیں، داخلہ امور پر بھی ان کی گرفت انتہائی کمزور ہے اور وہ جو بھی بیان دیتے یا جو بھی قدم اٹھاتے ہیں اس میں وزیر اعظم کی مشاورت (اکثر و بیشتر) شامل نہیں ہوتی، خواجہ آصف اور پرویز رشید جیسے مفکر بھی آئے روز ایسے غیرذمے دارانہ اور مضحکہ خیز بیانات چھوڑتے رہتے ہیں جس سے حکومت کو آئے روز شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، نواز شریف کی کابینہ آپس میں قطعی طور پر ہم آہنگ نہیں ہے، کس نے کیا کہنا ہے۔
کس نے کیا کرنا ہے قیادت کو کچھ خبر نہیں ہوتی، اس کی ایک واضح مثال مشاہد اللہ خاں کا بی بی سی کو دیا گیا حالیہ انٹرویو ہے جس نے حکومت اور فوج دونوں کو دفاعی پوزیشنوں پر کھڑا کر دیا ہے، نہ جانے کیوں احسن اقبال میں بھی وہ جذبہ نہیں رہا اور ان کا وژن 2025ء بھی نجانے کہاں گم ہو گیا، عوام نے ان کے اس منصوبے کو ڈھونڈنے کیلیے کھوجیوں کی خدمات حاصل کر لی ہیں۔ جہاں تک مشیروں کا تعلق ہے تو بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حکمرانوں نے ذہین اور دُوراندیش مشیروں کا انتخاب کبھی نہیں کیا، ہمارے ''بازوں کے شاہ'' کے مشیر تو ایسی مثالی شہرت کے حامل ہیں جو انھیں صرف وہی مشورے دیتے ہیں جن میں ان کا ذاتی مفاد پنہاں ہوتا ہے، نواز شریف کے مشیر حضرات بھی افسر شاہی کی سوچ کے حامل ہیں اور وہ انھیں ایسا کوئی مشورہ نہیں دیتے جس سے عوام کا بھلا ہو سکے۔
سرتاج عزیز اور طارق فاطمی ایک دوسرے کو اپنی سوتن سمجھتے ہیں اور اصلاحی مشاورت پر دھیان دینے کی بجائے ہمیشہ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے پر تلے رہتے ہیں، ہمارے پیارے دوست عرفان صدیقی نے صبر و تحمل اور شانتی کی تھپکیاں دے دیکر نواز شریف کا مزاج اس حد تک ٹھنڈا کر دیا ہے کہ جہاں سخت بیان دینے کی ضرورت ہوتی ہے وہ وہاں بھی خاموش رہنے پر ہی اِکتفا کرتے ہیں۔ بھارت کی طرف سے آئے روز گولہ باری سے سیکڑوں بیگناہ پاکستانی شہید ہو رہے ہیں، مجال ہے جو وزیر اعظم نے بھارت کے اس بزدلانہ اقدام پر اسے للکارا ہو، دیگر مشیر بھی صرف درباریوں کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
جس سے یہی تجزیہ سامنے آتا ہے کہ ایک نااہل اور نامکمل کابینہ کی موجودگی میںپاکستانی عوام کا وزیر اعظم سے کسی اچھی اور تعمیری عوامی پالیسی کی توقع رکھنا عبث ہے۔ حکمرانوں کی قربت خواہی اور خودپرستی نے ان کی پارٹی کو لامحالہ طور پر اس قدر نقصان پہنچایا ہے کہ آج کی نون لیگ میں آگے پیچھے، دائیں بائیں زیادہ تر ان کے نزدیک و دُور کے رشتہ دار اور قربت دار ہی نظر آتے ہیں۔ حکمرانوںکی مجموعی تاریخ اور جملہ کارکردگی خویش پروری اور درباریوں کو نوازنے پر ہی انحصار کرتی ہے، حکمرانوں کے کریڈٹ پر کوئی بھی ایسا نمایاں کارنامہ نہیں جو بحیثیت مجموعی ملکی یا عوامی مفاد کی عکاسی کرتا ہو۔ ''بازوں کے شاہ'' نے بھی لاہور کی ایک سڑک پر چھت ڈال کر شہر کو پیرس میں تبدیل کر دیا، کوئی انکو یہ بتائے کہ میٹرو ایک روڈ نہیں بلکہ پورے شہر کو انٹرلنک کرنے کو کہتے ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ وہ لاہور کو ہی پنجاب سمجھ بیٹھے ہیں، لاہور کے علاوہ باقی اضلاع کے عوام انھیں ''دعائیں'' دیتے نہیں تھکتے، ان کے مثالی مشیروں کا بھی اس سے آگے دماغ ہی نہیں چلتا۔ سارا پنجاب مسائل میں گھرا ہے اور وہ صرف میٹروبس، میٹروٹرین جیسے بے مقصد کاموں میں کھربوں روپے ضایع کرنے میں لگے ہیں، اگر اسی رقم سے وہ صوبے کے عوام کے بنیادی مسائل حل کر لیتے تو آج پنجاب کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا اور عوام حکمرانوں کو واقعی دل سے دُعائیں دے رہے ہوتے لیکن ان کی نظر لاہور سے آگے جا ہی نہیں پا رہی اور پھر لاہور شہر کے پسماندہ علاقے بھی تو گندے نالوں کا منظر پیش کر رہے ہیں اور قومی و صوبائی ممبران اسمبلی کو ملنے والے فنڈز بھی کہیں نظر نہیں آ رہے۔
جہاں اس قدر رشتہ داریاں نبھائی جا رہی ہیںٔ وہاں کچھ اہل عزیزوں کو بھی میرٹ کی بنیاد پر جانچا جاتا تو کیا فرق پڑ جاتا، غیرمعمولی صلاحیتوں کی حامل نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کو خارجہ امور کی ذمے داری دی جانی چاہیے تھی لیکن وزیر اعظم کے نااہل مشیروں نے انھیں خارجہ اُمور سے جان بوجھ کر دُور رکھا اور انھیں میڈیا کو سبق سکھانے کا ٹاسک دیدیا، اور ان کیساتھ لاہور کے ایک معظم نامی لیکچرار کو نتھی کر دیا جس نے وزارتِ اطلاعات کے ماہر اور مثبت سوچ کے حامل آئیڈیل افسروں کو (جو صحافیوں اور حکمرانوں کے درمیان مثالی رابطوں کا کام انجام دے سکتے تھے) نظرانداز کر کے جو متکبرانہ انداز اپنایا اس سے سیکڑوں صحافی عملی طور پرحکمرانوں سے دُور ہو گئے، اور ایسے طبلہ نواز صحافیوں کو آئے روز مہنگے ہوٹلوں میں کئی کئی دن ٹھہرایا جا رہا ہے جن کی تحریریں وہ خود بھی نہیں پڑھتے۔
ایک ٹی وی چینل کے مالک نے بڑی دلچسپ بات بتائی کہ انھیں اسی معظم نامی آدمی نے فون کیا کہ مریم صاحبہ نے حکم لگایا ہے کہ آپ اپنے فلاں اینکر کو فوراً فارغ کر دیں وہ ہمیں ٹف ٹائم دے رہا ہے، اس پر ٹی وی مالک نے شٹ اپ کہہ کر فون بند کر دیا ، اگر یہی کام وزارتِ اطلاعات کے کسی پروفیشنل افسر کے ذمے لگایا ہوتا تو وہ متذکرہ اینکر سے ملکر خود ہی انھیں حکومت کا موقف دینے کی استدعا کرتے اور وہ بھی اس بات سے اتفاق کر لیتا، عقل سے عاری اس لیکچرار نے ایک ایسے چینل کو ناراض کر لیا جس کی ریٹنگ کئی بڑے چینلوں سے بھی زیادہ ہے۔ اسی طرح تمام اخبارات اور چینل کے اشتہارات بھی وہی شخص فائنل کرتا ہے، اس نے اس کا کیا معیار مقرر کر رکھا ہے یہ تو خود حکومت کو بھی علم نہیں ہو گا۔
وزیر اطلاعات نے شاید اسی وجہ سے دلچسپی لینا ہی بند کر دی ہے، پھر اے پی این ایس سے تحریری وعدہ کے باوجود دو سال سے اخبارات کے اشتہارات کے ریٹ بھی نہیں بڑھ سکے اور نہ ہی اخباری تنظیموں کے گھمبیر مسائل کے حل میں کوئی دلچسپی لی جا رہی ہے۔ دوسرا یہ کہ تمام ایسے لاوارث اخبارات کا گلہ دبانے کیلیے طرح طرح کے مضحکہ خیز فیصلے کیے جا رہے ہیںجو تیزی کے ساتھ دم توڑتے پرنٹ میڈیا کیساتھ بھی سخت ناانصافی ہے اور اس میں حکمرانوں کی رسوائی بھی ہے۔
جس طرح حکمران بڑی محنت سے ہماری مثالی اور بہادر فوج کیساتھ غیر معمولی تعاون کرنے کی بجائے انھیں ٹف ٹائم دے رہے ہیں ان کے مشیروں کی شدید خواہش بھی یہی ہے کہ انھیں ایسے ''مفید مشورے'' دیے جائیں کہ کوئی بھی اہم ادارہ ان کیساتھ نظر نہ آئے اور اگلے انتخابات میں ان کا حشر بھی عوام میں جڑیں رکھنے والی پیپلز پارٹی جیسا ہی ہو۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ غیر معمولی صلاحیتوں کی حامل مریم نواز کو وزارت اطلاعات کی ایسی آئیڈیل اور پروفیشنل ٹیم دی جاتی جو انھیں ہر لحاظ سے مکمل سیاستدان اور عالمی سطح کا لیڈر بناتی لیکن اُلٹا انھیں میڈیا کیساتھ مقابلے کیلیے میدان میں اُتار دیا گیا جس کی وجہ سے ان کا وہ امیج بننے ہی نہیں دیا گیا جو ان کی صلاحیتوں اور ویژن کو نکھارتا ، اس ایک شخص نے نہ صرف ان کے ویژن اور صلاحیتوں کو مسخ کیا بلکہ منجمد کر کے رکھ دیا۔
اقتدار کے نشے میں مدہوش حکمرانوں کو تو اس بات کی خبر تک نہیں مگر اخبارات کی خبروں، کالموں اور چینلوں کے تجزیوں سے لگتا ہے کہ حکمرانوں کو ان نااہل مشیروں نے کہیں کا نہیں چھوڑا، جو صحافی حکومت کے قصیدے کہنے میں روز وشب مشغول ہیں، بار بار انھی کو ہی وزیر اعظم کے دوروں پر ساتھ لے جایا جاتا ہے، ایسے ہی چند صحافیوں کو نوازنے کی وجہ سے سیکڑوں صحافیوں کو حکومت سے دُور کیا جا رہا ہے۔ سب سے بڑی لعنت جو اس حکومت کو مالیخولیا بن کر چمٹی ہے وہ ان کی نجکاری کا جن ہے جو انھوں نے بوتل پر بٹھا رکھا تھا، اب وہ بوتل سے نیچے اتر آیا ہے اور اس نے پاکستان کے تمام بڑے اداروں کی نجکاری کرنا شروع کر دی ہے۔
نااہلی کی انتہا یہ ہے کہ اداروں کو سدھارنے کا لائحہ عمل بنانے کے بجائے انھیں اونے پونے داموں فروخت کیا جا رہا ہے جس سے ان اداروں کے ملازمین بھی بیروزگار ہونگے اور ملک بھی ان اداروں کے بغیر یتیم ہو کر رہ جائے گا۔ کرپشن کے حوالے سے بات کی جائے تو حکمرانوں کے خلاف نیب اور عدالتوں میں کئی مقدمات زیرالتواء ہیں لیکن صرف ان کے مقدمات کا ہی فیصلہ نہیں ہوتا باقی جماعتوں کے سیاستدانوں کی تسلسل سے پکڑ دھکڑ ہو رہی ہے۔
اب پارٹیوں نے واویلا شروع کر دیا ہے کہ پنجا ب میں بدعنوانی نہ تو نیب کو نظر آتی ہے نہ ایف آئی اے کو اور نہ ہی عدالتوں کو۔ اس معاملے کو برابری کی سطح پر ڈیل کیا جائے تو تمام پارٹیوں کے گلے شکوے دُور ہو سکتے ہیں، اس وقت حکومت کی اپنی صفوں میں اتحاد ہے، نہ ہی اپوزیشن اتحاد سے ان کی جم پا رہی ہے اور پھر عمران خان کے مسلسل شور و غوغا نے تو ان کی پوزیشن کو اور بھی متزلزل کر رکھا ہے، اگر حکمران قومی اسمبلی کے چار حلقے کھول دیتے تو آج انھیں دھرنوںسے لے کر تین حلقوں کے انتخابات کالعدم قرار دیے جانے تک اتنی سبکی نہ اٹھانا پڑتی، اس پر الیکشن ٹربیونلز کے فیصلوں کے بعد جوڈیشل کمیشن کی ساکھ بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
الیکشن کمیشن کے بارے میں جوڈیشل کمیشن اور الیکشن ٹربیونل کے ریمارکس پر الیکشن کمیشن کے نااہل ممبران کو تو ازخود مستعفی ہو جانا چاہیے تھا یا ان سے جبری استعفے لے لیے جانے چاہیے تھے، ایسے حالات میں اوراس طرح کے متنازعہ ممبران کی موجودگی میں عوام نہیں سمجھتے کہ آئندہ کوئی بھی الیکشن شفاف ہو سکتے ہیں۔
افسوسناک خبر یہ ہے کہ الیکشن کمیشن ان الیکشن ٹربیونلز کے مسلمہ دیانتدار ججز کی مدت ملازمت میں توسیع سے انکاری ہے جنہوں نے حکمرانوں کے خلاف فیصلے دیے۔ جس انداز سے عمران خان نے دھاندلی کے خلاف تحریک چلائی ہے اور جس طرح انھوں نے الیکشن کمیشن کو لتاڑا ہے اس سے اتنا ضرور ہو سکتا ہے کہ آمدہ انتخابات میں کوئی بھی جماعت منظم دھاندلی کا خواب تک بھی نہیں دیکھ سکے گی، 2018ء کے الیکشن تک تو ویسے بھی الیکشن کمیشن انتخابی اصلاحات کا ایجنڈا مرتب کر چکا ہو گا جس کے نفاذ کے بعد کوئی ڈی ایم جی گروپ، پٹوار مافیا یا انتخابی عملہ خفیہ طریقوں سے نتائج پر اثرانداز نہیں ہو پائیگا۔ سیکیورٹی کا ایشو بھی حکمرانوں سے ہینڈل نہیں ہو پا رہا، ملکی سلامتی داؤ پر لگی ہے۔
ہمسایوں کیساتھ تعلقات بہتر کرنے میں ان کی خارجہ پالیسی مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے، دہشت گردی کے عفریت نے کراچی، بلوچستان اور پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور حکومت کی رِٹ کہیں بھی نظر نہیں آتی، اگر سارے کام فوج نے ہی کرنے ہیں تو پھر ''جمہوری حکمران'' کس مرض کی دوا ہیں۔ حکمرانوں کی کھوکھلی اور ناقابل عمل حرکتوںکی وجہ سے ان کی عوام میں حمایت روز بہ روز کم ہوتی جا رہی ہے، عوام کے مسائل حل نہ کرنے کی وجہ سے ان کے پاس پہلے ہی سٹریٹ پاور نہ ہونے کے برابر ہے۔ جن چہروں کی وجہ سے انھیں دیہاتوں کے ووٹ بینک کا فائدہ پہنچتا تھا وہ بھی پارٹی سے کنارہ کش ہو چکے ہیں۔
زرداری حکومت کے ستائے ہوئے عوام نے انھیں ایک بار پھر اس لیے آزمایا تھا کہ جلاوطنی کے بعد شاید انھوں نے اپنی اصلاح کر لی ہو گی مگر اس معصوم عوام کو کون سمجھائے کہ سرمایہ دار اپنے مفادات کے علاوہ کسی کاخیرخواہ نہیں ہوتا، چھ مہینے میں لوڈشیڈنگ ختم کرنیوالے اب 2018ء کی تاریخیں دے رہے ہیں، یہ صرف پانچ سال پورے کرنے کے بہانے ہیں کیونکہ انھیں بھی معلوم ہے کہ نواز شریف چوتھی بار وزیر اعظم نہیں بن سکتے اور دوسرے کسی کو وہ بنائیں گے نہیں، تو لہٰذا اب کی بار جھوٹ سچ بول کر کسی طرح باری بھگتا لی جائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر حکمرانوں نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو نون لیگ کا مستقبل انتہائی مخدوش ہو سکتا ہے۔ ویسے بھی دنیا میں اب سرمایہ دارانہ نظام اپنی موت آپ مر رہا ہے، کوئی دائیں بازو کی سیاسی جماعت آنیوالے وقتوں میں زندہ نہیں رہ پائے گی، حکمران بھی اپنی جماعت کو ختم کرنے کیلیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔
ایسے میںہم نواز شریف کو مخلصانہ مشورہ دینگے کہ وہ پارٹی کو از سر نو منظم کریں، آزمائے ہوئے طبلہ نواز درباریوں سے جان چھڑائیں، یوتھ اور پرانے مخلص ساتھیوں کو خود منا کر لائیں، عوام کے اصل مسائل پر توجہ دیں اور جو بڑے بڑے بے مقصد میگا پراجیکٹس غریب عوام کے کسی کام کے نہیں، انھیں فی الفوربند کر کے وہی بجٹ عوام کے حقیقی مسائل پر خرچ کریں، ہنگامی بنیادوں پر لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کریں، تعلیم، صحت، صاف پانی اور بنیادی سہولیات پر توجہ دیں۔ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے،انھیں مزید نہ آزمائیں اورنہ ہی اذیت دیں وگرنہ آپ کا حشر بھی پیپلزپارٹی جیسا ہی ہو سکتا ہے اور پھر ممکن ہے کہ عوام پھر کبھی آپ پر اعتماد نہ کریں۔
گزشتہ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے خوددار، خوشحال اور خود مختار پاکستان کا نعرہ لگایا تھا جو اس وقت کی زرداری حکومت سے اُکتائے ہوئے عوام کے دلوں کی دھڑکن بن گیا تھا لیکن محض نعروں کی مقبولیت سے پارٹی کا پیٹ نہیں بھرتا، نہ ہی مقبول نعرے عوام کے دل و دماغ میں زیادہ دیر زندہ رہ پاتے ہیں جب تک انہیں عملی جامہ نہ پہنا دیا جائے۔
سوال یہ ہے کہ نون لیگ کے اس دلفریب انتخابی نعرے کے بعد کیا واقعی پاکستان خوددار، خوشحال اور خودمختار بن پایا؟ کیا واقعی نوجوان طبقے کو روزگار مل رہا ہے؟ کیا واقعی پاکستان ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو گیا ہے؟ کیا واقعی پاکستان خود کفیل ملک بن گیا ہے اور اس نے آئی ایم ایف اور امریکہ سے قرضے اور خیرات لینا بند کر دیا ہے؟ کیا واقعی پاکستان کے کونے کونے میں صنعتوں اور کارخانوں کا جال بچھا دیا گیا ہے؟ کیا واقعی مزدور، کسان اور ہاری کو کام اور مناسب دام ملنے لگ گئے ہیں؟ کیا واقعی وطن عزیز نے زرعی میدان میں انقلاب برپا کر دیا ہے؟
کیا واقعی پاکستان اتنا خوددار ہو گیا ہے کہ اس نے امریکہ کے آگے جھکنا بند کر دیا ہے اور کیا واقعی پاکستان میں اتنی حمیت پیدا ہو گئی ہے کہ اس نے اپنی سالمیت پر سمجھوتے کرنے چھوڑ دیئے ہیں اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو پاک سرزمین پر ڈرون حملے روکنے کیلیے آخری وارننگ دیدی ہے؟ کیا لوڈشیڈنگ پر واقعی قابو پا لیا گیا اور عوام کو کم سے کم نرخوں پر بجلی فراہم ہونا شروع ہو گئی ہے؟ کیا واقعی غربت اور بیروزگاری کے ستائے مظلوم عوام نے خودکشیاں کرنا چھوڑ دی ہیں؟ ہاں بتایا جائے کہ کیا واقعی ملک میں شرح خواندگی سو فیصد ہو گئی ہے اور اس وقت کسی گاؤں، کسی شہر، کسی بستی کا کوئی ایک بچہ اسکول سے باہر نہیں، اور کیا واقعی پاکستان میں تعلیم کا معیار امیر غریب کیلیے مساوی ہو گیا ہے اور کیا یہاں یکساں نظام تعلیم نافذ کر دیا گیا ہے اور سب کو برائے نام فیس پر تعلیم فراہم کی جا رہی ہے؟
کیا واقعی تعلیم یافتہ طبقے کیلیے ہر سال مناسب شرح سے نوکریاں پیدا کی جا رہی ہیں؟ کیا واقعی صحت کے شعبہ میں انقلاب آ گیا ہے اور جعلی ادویات کسی بھی اسپتال یا میڈیکل اسٹور پر دستیاب نہیں ہیں ،اور کیا یقینا غریبوں کو بھی ویسی ہی طبی سہولیات میسر آ رہی ہیں جو امیروں کو حاصل ہیں؟ کیا واقعی اداروں سے کرپشن ختم ہو چکی ہے اور تمام سرکاری محکمے ہر سال کھربوں روپے کا ریونیو اکٹھا کر کے ملکی خزانے میں جمع کرانے لگ گئے ہیں؟ کیا سچ مچ وی آئی پی کلچر کا خاتمہ ہو چکا ہے اور ہر خاص و عام کو ہر سطح اور ہر جگہ پر ایک جیسی عزت دی جانے لگی ہے؟ کیا حقیقت میں قانون پر عملدرآمد ہونا شروع ہو گیا ہے اور عدالتوں نے انصاف دینا شروع کر دیا ہے؟ کیا واقعی؟ اور کیا واقعی؟ ہاں واقعی پاکستان میں سب کچھ اچھا ہو گیا ہے اور اب یہاں واقعی دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہیں اور درختوں اور منڈیروں پر پرندے بھی واپس لوٹ آئے ہیں جو صبح و شام امن کے مدھر گیت گاتے ہیں۔ ارے بھئی! واپس آ جائیے۔
اس ہپناٹزم سے باہر نکلیے، یہ وہ سہانے خواب ہیں جو اڑسٹھ سالوں سے پاکستان کے سادہ لوح عوام کو مختلف پیرایوں میں دکھائے جاتے رہے ہیں۔ اس حکومت نے بھی کچھ نیا نہیں کیا، بس وہی کیا جو دوسرے کرتے آئے ہیں، خوددار، خوشحال اور خودمختار پاکستان کا نعرہ لگا کر اس نے ایک بار پھر اس قوم کو دھوکہ دیا ہے اور اپنے کاغذوں میں سب اچھا کر دیا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ نہ تو حکمرانوں کا طرزِ سیاست بدلا ہے، نہ ہی پاکستان کے حالات میں کوئی بہتری آئی ہے۔ آج ملک کو جو خدشات لاحق ہیں، انہیں دیکھتے دیکھتے اور سوچتے سوچتے گوشت پوست کے اس فانی ڈھانچے میں روح کانپ کانپ جاتی ہے۔ زندگی کا ہر شعبہ، ہر محکمہ، ہر ادارہ رو بہ زوال ہے، ہر سو افراتفری کا عالم ہے، کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا کہ آخر اس ملک میں ہو کیا رہا ہے، ایوانوں میں صرف سیاست ہو رہی ہے، جوڑ توڑ ہو رہے ہیں۔
کبھی دھرنے، کبھی استعفے، کبھی ناراضیاں، کبھی صلح نامے۔ خود غرض اور بے حس حکمرانوں نے ملک و قوم کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دیئے ہیں، حکمرانوں کی تمام تر توجہ اپنے ذاتی مفادات پر مرکوز ہے، عوام کے مسائل اور ملکی حالات پر حکمرانوں اور ان کے حواریوں کا رتی بھر بھی دھیان نہیں ہے، لوڈشیڈنگ، غربت، بیروزگاری، مہنگائی اور تحفظ عامہ کے مسائل بدتر سے بدترین ہوتے جا رہے ہیں، جمہوریت کے نام پر لوگوں سے جمہوری حقوق تک چھین لیے گئے ہیں، انسانی بنیاد پر جن بنیادی سہولیات کی فراہمی حکومت کا فرض تھا انہیں غریب عوام کیلیے نایاب کر دیا گیا ہے۔
غریب عوام کو معاش کے چکر میں اسقدر الجھا دیا گیا ہے کہ انہیں سانس لینا تک محال ہو چکا ہے، لوگ ذہنی طور پر اس حد تک مفلوج ہو چکے ہیں کہ انہیں یہ بھی سجھائی نہیں دے پا رہا کہ وہ خود کیا کریں اور اپنی اولادوں کے مستقبل کا کیا کریں، مایوسیوں کا اندھیرا ہے کہ چھٹتا نظر نہیں آتا، دہشت گردی اپنی جگہ، معاشرے میں امن و امان کی مجموعی صورتحال ہر آئے روز بے قابو ہوتی جا رہی ہے، ڈاکو، قاتل، چور، وارداتیے سڑکوں اور گلی محلوں میں سر عام دندناتے پھرتے ہیں۔
ذاتی مفادات کی پالیسیوں اور حکمرانوں کی عیاشیوں نے پوری قوم کو مایوس کر کے رکھ دیا ہے۔ 1985ء اور 87ء سے لے کر تاحال مسلم لیگ نواز کو چھ مرتبہ پنجاب اور تین مرتبہ وفاق میں اقتدار حاصل ہوا مگر نہ تو پنجاب کے حالات میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی آئی نہ ہی وفاق میں کوئی بہتری۔ نواز شریف پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلے لیڈر ہیں جو تین بار وزارتِ عظمیٰ کے عہدے پر براجمان ہوئے، ان سے اس بات کا تذکرہ کریں تو وہ کہتے ہیں کہ ان کی حکومت کو کبھی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی، کبھی اسمبلیاں توڑ دی گئیں، کبھی جبراً گھر بھیج دیا گیا، کبھی مارشل لاء کے ذریعے تختہ اُلٹ دیا گیا تو کبھی دھرنوں اور دھاندلی کے گرداب میں دھکیل دیا گیا۔
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کی تین بار وزیراعظم کے عہدے پر رہنے کی کل معیاد ایک بار کی پانچ سالہ مدت کے مساوی ہے۔ چلیے مان لیا کہ وفاق میں ان کی اسمبلیوں کو کبھی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی مگر وہ یہ تو بتائیں کہ پنجاب کیلیے کون سا بہانہ تراشیں گے؟ اس صوبے میں تو ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ آپ کو پوری آب و تاب اور اکثریت کے ساتھ حکمرانی کرنے کے بار بار مواقع میسر آئے، یہاں کون سے نئے وژن کے تحت عوام دوست قوانین بنا کر نافذ کیے گئے اور کون سی ایسی اچھوتی پالیسیاں متعارف کروائی گئیں کہ پنجاب کے لوگ خوشحال ہو گئے اور پنجاب ایک مثالی صوبہ بن گیا۔
ہم نواز شریف کے اس عذر سے اتفاق نہیں کرتے کیونکہ جن کے پاس طلسمی وژن ہوتے ہیں ان کیلیے پانچ سال تو کیا پانچ مہینے بھی کافی ہوتے ہیں، نون لیگ کی حکومت بالفرضِ محال اس مرتبہ اگر پانچ سال پورے کر بھی جائے تو وہ کوئی ناقابل فراموش کارنامہ انجام نہیں دے پائے گی کیونکہ اس کے پاس وژن نام کی کوئی چیز نہیں۔ وہی روایتی سیاست اور وہی سیاسی جمع خرچ جو یہاں شروع سے چلا آ رہا ہے حکمران بھی اسی کے امین نظر آتے ہیں، اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ شریف خاندان کو سیاسی میدان میں موجود رہنے کا موقع کبھی نہ ملتا اگر بینظیر بھٹو پیپلز پارٹی کے انقلابی منشور سے انحراف نہ کرتیں، جب بینظیر نے نیو لبرل معاشی پالیسیوں کو نافذ کرنے کیلیے ریاست سے مصالحت کی اور اپنے زیرک شوہر اور مثالی مشیروں کے کہنے پر ریاستی اداروں کو کوڑیوں کے بھاؤ فروخت کر دیا جن میں مسلم کمرشل بینک جیسا مالیاتی ادارہ بھی شامل تھا، اس وقت عوام میں پھیلنے والی مایوسی اور بے چینی بینظیر کی انھی پالیسیوں کا نتیجہ تھا جس کی وجہ سے دائیں بازو کی سوچ کو ایک مرتبہ پھر اقتدار میں لوٹنے کا موقع مل گیا۔
آج تیسری بار بھی نون لیگ صرف اور صرف پیپلز پارٹی کے نظریاتی اور سیاسی دیوالیہ پن کی وجہ سے برسراقتدار آئی ہے مگر تیسری بار بھی اس کے نظریات میں کوئی واضح بدلاؤ نہیں آیا، اس کا صرف ایک ہی وژن ہے کہ میکرو اکنامکس (بڑے پیمانے پر اقتصادیات) کو ہر قیمت پر مستحکم کیا جائے جس سے سرمایہ دار طبقے کو ملک کی معیشت میں اور بھی خوفناک طریقے سے پنجے گاڑنے کا موقع مل سکے۔
غربت اور مہنگائی کی چکی میں پستے اور معاشی بدحالی سے نیست و نابود ہوتے کروڑوں عوام بھلے ہی اجتماعی خودکشیاں کرنے پر مجبور ہو جائیں، اسے اس سے کوئی سروکار نہیں۔ روٹی، کپڑا اور مکان کا توڑ اس نے میٹرو بسوں، اورنج لائن ٹرینوں، لیپ ٹاپ، پیلی ٹیکسی، آشیانہ ہاؤسنگ اسکیموں، دانش اسکولوں، یوتھ لون، سستی روٹی، رمضان آفر، موٹروے اور میگا پراجیکٹس کی شکل میں ڈھونڈ لیا ہے، یہ ساری کی ساری اسکیمیں وقتی اور دل بہلاوے کے وہ ارزاں کھلونے ہیں جنہیں بچے ایک ہی دن استعمال کر سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے حکمرانوں کی ترجیحات میں پاکستان کے عام آدمی کیلیے کچھ بھی نہیں، ان کے ایجنڈے میں صرف سرمایہ دار اور اشرافیہ کے مفادات سر فہرست ہیں۔
سوائے سڑکیں بنانے اور بیرون ممالک سے بڑے بڑے منصوبوں کے معاہدے کرنے کے حکمرانوں نے ملک میں کوئی قابل قدر کارنامہ سرانجام نہیں دیا۔ یہ سڑکیں صرف اسلیے بناتے ہیں کہ رئیسوں اور ان کے بچوں کو جائے واردات پر پہنچنے میں تاخیر نہ ہو اور وی آئی پی مافیا کو نقل و حمل میں آسانی ہو، پھر سڑکوں اور میگا پراجیکٹس میں ہی تو بڑی بڑی کک بیکس کا مارجن ہوتا ہے، اسپتال، ڈسپینسریاں، اسکول، کالج، یونیورسٹیاں، لائبریریاں، یتیم خانے اور فلاحی ادارے بنانے یا لوگوں کو بنیادی سہولتیں مہیا کرنے، انصاف بہم پہنچانے اور لوگوں کو روزگار فراہم کرنے میں کون سی کمائی ہے۔
ایسے فضول کاموں میں تو اُلٹا وقت کا ضیاع اور اضافی بجٹ کا خرچ ہے جسکا حکومت اور اس کے منظم حواریوں کو کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے، یہ بڑے بڑے منصوبوں ہی کی کرامت ہے کہ حکمرانوں کے ذاتی کاروبار دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں جب کہ ان کی نگرانی میں چلنے والے سرکاری ادارے کنگال ہو رہے ہیں اور انھیں اپنے ہی عزیز و اقارب میں اونے پونے فروخت کیا جارہا ہے، ان سے کوئی پوچھے کہ ان کے ذاتی ادارے تو تیزرفتاری سے ترقی کر رہے ہیں اور سرکاری ادارے ڈوبے جا رہے ہیں، کیوں؟ جنہوں نے ان سرکاری اداروں کا بیڑہ غرق کیا ہے ان کے خلاف کیا کارروائی کی گئی ہے؟ حکمرانوں کا یہ ہمیشہ وتیرہ رہا ہے کہ انھوں نے اقرباء پروی اور خویش پرستی کا ہر دور اور ہر حکومت میں مظاہرہ کیا ہے۔
ان کے اسی رویے سے بیزار ہو کر بڑی بڑی قدآور سیاسی شخصیات پارٹی سے کنارہ کش ہو چکی ہیں، یہ سلسلہ ان کے تینوں ادوار میں چلتا رہا ہے۔ میاں صاحبان کو بادشاہ بننے کا خبط ایسا بری طرح لاحق ہے کہ وزارتِ اعلیٰ اور وزارتِ عظمیٰ کے عہدوں کیلیے انھوں نے خود کے علاوہ کبھی اپنے کسی سینئر راہنما کو ترجیح ہی نہیں دی، اس وقت پارٹی کی یہ صورتحال ہے کہ کوئی سینئر، تجربہ کار اور مدبر سیاستدان اس میں موجود نہیں، نون لیگ کی صوبائی اور وفاقی کابینہ میں جتنے بھی وزراء شامل ہیں، سیاسی تدبر سے عاری، ناپختہ اور ناتجربہ کار ہیں۔
خارجہ اور دفاع جیسی اہم ترین وزارتوں کا خلاء دو سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود پُر نہیں کیا گیا،دیگر وزراء بھی اس قابل نہیں کہ وہ اپنی اپنی وزارتوں کو احسن طریقے سے چلا سکیں۔ وزیر داخلہ کا یہ حال ہے کہ ان کی وزیر اعظم اور کابینہ کے دوسرے ارکان سے کبھی بنی ہی نہیں، داخلہ امور پر بھی ان کی گرفت انتہائی کمزور ہے اور وہ جو بھی بیان دیتے یا جو بھی قدم اٹھاتے ہیں اس میں وزیر اعظم کی مشاورت (اکثر و بیشتر) شامل نہیں ہوتی، خواجہ آصف اور پرویز رشید جیسے مفکر بھی آئے روز ایسے غیرذمے دارانہ اور مضحکہ خیز بیانات چھوڑتے رہتے ہیں جس سے حکومت کو آئے روز شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، نواز شریف کی کابینہ آپس میں قطعی طور پر ہم آہنگ نہیں ہے، کس نے کیا کہنا ہے۔
کس نے کیا کرنا ہے قیادت کو کچھ خبر نہیں ہوتی، اس کی ایک واضح مثال مشاہد اللہ خاں کا بی بی سی کو دیا گیا حالیہ انٹرویو ہے جس نے حکومت اور فوج دونوں کو دفاعی پوزیشنوں پر کھڑا کر دیا ہے، نہ جانے کیوں احسن اقبال میں بھی وہ جذبہ نہیں رہا اور ان کا وژن 2025ء بھی نجانے کہاں گم ہو گیا، عوام نے ان کے اس منصوبے کو ڈھونڈنے کیلیے کھوجیوں کی خدمات حاصل کر لی ہیں۔ جہاں تک مشیروں کا تعلق ہے تو بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حکمرانوں نے ذہین اور دُوراندیش مشیروں کا انتخاب کبھی نہیں کیا، ہمارے ''بازوں کے شاہ'' کے مشیر تو ایسی مثالی شہرت کے حامل ہیں جو انھیں صرف وہی مشورے دیتے ہیں جن میں ان کا ذاتی مفاد پنہاں ہوتا ہے، نواز شریف کے مشیر حضرات بھی افسر شاہی کی سوچ کے حامل ہیں اور وہ انھیں ایسا کوئی مشورہ نہیں دیتے جس سے عوام کا بھلا ہو سکے۔
سرتاج عزیز اور طارق فاطمی ایک دوسرے کو اپنی سوتن سمجھتے ہیں اور اصلاحی مشاورت پر دھیان دینے کی بجائے ہمیشہ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے پر تلے رہتے ہیں، ہمارے پیارے دوست عرفان صدیقی نے صبر و تحمل اور شانتی کی تھپکیاں دے دیکر نواز شریف کا مزاج اس حد تک ٹھنڈا کر دیا ہے کہ جہاں سخت بیان دینے کی ضرورت ہوتی ہے وہ وہاں بھی خاموش رہنے پر ہی اِکتفا کرتے ہیں۔ بھارت کی طرف سے آئے روز گولہ باری سے سیکڑوں بیگناہ پاکستانی شہید ہو رہے ہیں، مجال ہے جو وزیر اعظم نے بھارت کے اس بزدلانہ اقدام پر اسے للکارا ہو، دیگر مشیر بھی صرف درباریوں کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
جس سے یہی تجزیہ سامنے آتا ہے کہ ایک نااہل اور نامکمل کابینہ کی موجودگی میںپاکستانی عوام کا وزیر اعظم سے کسی اچھی اور تعمیری عوامی پالیسی کی توقع رکھنا عبث ہے۔ حکمرانوں کی قربت خواہی اور خودپرستی نے ان کی پارٹی کو لامحالہ طور پر اس قدر نقصان پہنچایا ہے کہ آج کی نون لیگ میں آگے پیچھے، دائیں بائیں زیادہ تر ان کے نزدیک و دُور کے رشتہ دار اور قربت دار ہی نظر آتے ہیں۔ حکمرانوںکی مجموعی تاریخ اور جملہ کارکردگی خویش پروری اور درباریوں کو نوازنے پر ہی انحصار کرتی ہے، حکمرانوں کے کریڈٹ پر کوئی بھی ایسا نمایاں کارنامہ نہیں جو بحیثیت مجموعی ملکی یا عوامی مفاد کی عکاسی کرتا ہو۔ ''بازوں کے شاہ'' نے بھی لاہور کی ایک سڑک پر چھت ڈال کر شہر کو پیرس میں تبدیل کر دیا، کوئی انکو یہ بتائے کہ میٹرو ایک روڈ نہیں بلکہ پورے شہر کو انٹرلنک کرنے کو کہتے ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ وہ لاہور کو ہی پنجاب سمجھ بیٹھے ہیں، لاہور کے علاوہ باقی اضلاع کے عوام انھیں ''دعائیں'' دیتے نہیں تھکتے، ان کے مثالی مشیروں کا بھی اس سے آگے دماغ ہی نہیں چلتا۔ سارا پنجاب مسائل میں گھرا ہے اور وہ صرف میٹروبس، میٹروٹرین جیسے بے مقصد کاموں میں کھربوں روپے ضایع کرنے میں لگے ہیں، اگر اسی رقم سے وہ صوبے کے عوام کے بنیادی مسائل حل کر لیتے تو آج پنجاب کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا اور عوام حکمرانوں کو واقعی دل سے دُعائیں دے رہے ہوتے لیکن ان کی نظر لاہور سے آگے جا ہی نہیں پا رہی اور پھر لاہور شہر کے پسماندہ علاقے بھی تو گندے نالوں کا منظر پیش کر رہے ہیں اور قومی و صوبائی ممبران اسمبلی کو ملنے والے فنڈز بھی کہیں نظر نہیں آ رہے۔
جہاں اس قدر رشتہ داریاں نبھائی جا رہی ہیںٔ وہاں کچھ اہل عزیزوں کو بھی میرٹ کی بنیاد پر جانچا جاتا تو کیا فرق پڑ جاتا، غیرمعمولی صلاحیتوں کی حامل نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کو خارجہ امور کی ذمے داری دی جانی چاہیے تھی لیکن وزیر اعظم کے نااہل مشیروں نے انھیں خارجہ اُمور سے جان بوجھ کر دُور رکھا اور انھیں میڈیا کو سبق سکھانے کا ٹاسک دیدیا، اور ان کیساتھ لاہور کے ایک معظم نامی لیکچرار کو نتھی کر دیا جس نے وزارتِ اطلاعات کے ماہر اور مثبت سوچ کے حامل آئیڈیل افسروں کو (جو صحافیوں اور حکمرانوں کے درمیان مثالی رابطوں کا کام انجام دے سکتے تھے) نظرانداز کر کے جو متکبرانہ انداز اپنایا اس سے سیکڑوں صحافی عملی طور پرحکمرانوں سے دُور ہو گئے، اور ایسے طبلہ نواز صحافیوں کو آئے روز مہنگے ہوٹلوں میں کئی کئی دن ٹھہرایا جا رہا ہے جن کی تحریریں وہ خود بھی نہیں پڑھتے۔
ایک ٹی وی چینل کے مالک نے بڑی دلچسپ بات بتائی کہ انھیں اسی معظم نامی آدمی نے فون کیا کہ مریم صاحبہ نے حکم لگایا ہے کہ آپ اپنے فلاں اینکر کو فوراً فارغ کر دیں وہ ہمیں ٹف ٹائم دے رہا ہے، اس پر ٹی وی مالک نے شٹ اپ کہہ کر فون بند کر دیا ، اگر یہی کام وزارتِ اطلاعات کے کسی پروفیشنل افسر کے ذمے لگایا ہوتا تو وہ متذکرہ اینکر سے ملکر خود ہی انھیں حکومت کا موقف دینے کی استدعا کرتے اور وہ بھی اس بات سے اتفاق کر لیتا، عقل سے عاری اس لیکچرار نے ایک ایسے چینل کو ناراض کر لیا جس کی ریٹنگ کئی بڑے چینلوں سے بھی زیادہ ہے۔ اسی طرح تمام اخبارات اور چینل کے اشتہارات بھی وہی شخص فائنل کرتا ہے، اس نے اس کا کیا معیار مقرر کر رکھا ہے یہ تو خود حکومت کو بھی علم نہیں ہو گا۔
وزیر اطلاعات نے شاید اسی وجہ سے دلچسپی لینا ہی بند کر دی ہے، پھر اے پی این ایس سے تحریری وعدہ کے باوجود دو سال سے اخبارات کے اشتہارات کے ریٹ بھی نہیں بڑھ سکے اور نہ ہی اخباری تنظیموں کے گھمبیر مسائل کے حل میں کوئی دلچسپی لی جا رہی ہے۔ دوسرا یہ کہ تمام ایسے لاوارث اخبارات کا گلہ دبانے کیلیے طرح طرح کے مضحکہ خیز فیصلے کیے جا رہے ہیںجو تیزی کے ساتھ دم توڑتے پرنٹ میڈیا کیساتھ بھی سخت ناانصافی ہے اور اس میں حکمرانوں کی رسوائی بھی ہے۔
جس طرح حکمران بڑی محنت سے ہماری مثالی اور بہادر فوج کیساتھ غیر معمولی تعاون کرنے کی بجائے انھیں ٹف ٹائم دے رہے ہیں ان کے مشیروں کی شدید خواہش بھی یہی ہے کہ انھیں ایسے ''مفید مشورے'' دیے جائیں کہ کوئی بھی اہم ادارہ ان کیساتھ نظر نہ آئے اور اگلے انتخابات میں ان کا حشر بھی عوام میں جڑیں رکھنے والی پیپلز پارٹی جیسا ہی ہو۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ غیر معمولی صلاحیتوں کی حامل مریم نواز کو وزارت اطلاعات کی ایسی آئیڈیل اور پروفیشنل ٹیم دی جاتی جو انھیں ہر لحاظ سے مکمل سیاستدان اور عالمی سطح کا لیڈر بناتی لیکن اُلٹا انھیں میڈیا کیساتھ مقابلے کیلیے میدان میں اُتار دیا گیا جس کی وجہ سے ان کا وہ امیج بننے ہی نہیں دیا گیا جو ان کی صلاحیتوں اور ویژن کو نکھارتا ، اس ایک شخص نے نہ صرف ان کے ویژن اور صلاحیتوں کو مسخ کیا بلکہ منجمد کر کے رکھ دیا۔
اقتدار کے نشے میں مدہوش حکمرانوں کو تو اس بات کی خبر تک نہیں مگر اخبارات کی خبروں، کالموں اور چینلوں کے تجزیوں سے لگتا ہے کہ حکمرانوں کو ان نااہل مشیروں نے کہیں کا نہیں چھوڑا، جو صحافی حکومت کے قصیدے کہنے میں روز وشب مشغول ہیں، بار بار انھی کو ہی وزیر اعظم کے دوروں پر ساتھ لے جایا جاتا ہے، ایسے ہی چند صحافیوں کو نوازنے کی وجہ سے سیکڑوں صحافیوں کو حکومت سے دُور کیا جا رہا ہے۔ سب سے بڑی لعنت جو اس حکومت کو مالیخولیا بن کر چمٹی ہے وہ ان کی نجکاری کا جن ہے جو انھوں نے بوتل پر بٹھا رکھا تھا، اب وہ بوتل سے نیچے اتر آیا ہے اور اس نے پاکستان کے تمام بڑے اداروں کی نجکاری کرنا شروع کر دی ہے۔
نااہلی کی انتہا یہ ہے کہ اداروں کو سدھارنے کا لائحہ عمل بنانے کے بجائے انھیں اونے پونے داموں فروخت کیا جا رہا ہے جس سے ان اداروں کے ملازمین بھی بیروزگار ہونگے اور ملک بھی ان اداروں کے بغیر یتیم ہو کر رہ جائے گا۔ کرپشن کے حوالے سے بات کی جائے تو حکمرانوں کے خلاف نیب اور عدالتوں میں کئی مقدمات زیرالتواء ہیں لیکن صرف ان کے مقدمات کا ہی فیصلہ نہیں ہوتا باقی جماعتوں کے سیاستدانوں کی تسلسل سے پکڑ دھکڑ ہو رہی ہے۔
اب پارٹیوں نے واویلا شروع کر دیا ہے کہ پنجا ب میں بدعنوانی نہ تو نیب کو نظر آتی ہے نہ ایف آئی اے کو اور نہ ہی عدالتوں کو۔ اس معاملے کو برابری کی سطح پر ڈیل کیا جائے تو تمام پارٹیوں کے گلے شکوے دُور ہو سکتے ہیں، اس وقت حکومت کی اپنی صفوں میں اتحاد ہے، نہ ہی اپوزیشن اتحاد سے ان کی جم پا رہی ہے اور پھر عمران خان کے مسلسل شور و غوغا نے تو ان کی پوزیشن کو اور بھی متزلزل کر رکھا ہے، اگر حکمران قومی اسمبلی کے چار حلقے کھول دیتے تو آج انھیں دھرنوںسے لے کر تین حلقوں کے انتخابات کالعدم قرار دیے جانے تک اتنی سبکی نہ اٹھانا پڑتی، اس پر الیکشن ٹربیونلز کے فیصلوں کے بعد جوڈیشل کمیشن کی ساکھ بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
الیکشن کمیشن کے بارے میں جوڈیشل کمیشن اور الیکشن ٹربیونل کے ریمارکس پر الیکشن کمیشن کے نااہل ممبران کو تو ازخود مستعفی ہو جانا چاہیے تھا یا ان سے جبری استعفے لے لیے جانے چاہیے تھے، ایسے حالات میں اوراس طرح کے متنازعہ ممبران کی موجودگی میں عوام نہیں سمجھتے کہ آئندہ کوئی بھی الیکشن شفاف ہو سکتے ہیں۔
افسوسناک خبر یہ ہے کہ الیکشن کمیشن ان الیکشن ٹربیونلز کے مسلمہ دیانتدار ججز کی مدت ملازمت میں توسیع سے انکاری ہے جنہوں نے حکمرانوں کے خلاف فیصلے دیے۔ جس انداز سے عمران خان نے دھاندلی کے خلاف تحریک چلائی ہے اور جس طرح انھوں نے الیکشن کمیشن کو لتاڑا ہے اس سے اتنا ضرور ہو سکتا ہے کہ آمدہ انتخابات میں کوئی بھی جماعت منظم دھاندلی کا خواب تک بھی نہیں دیکھ سکے گی، 2018ء کے الیکشن تک تو ویسے بھی الیکشن کمیشن انتخابی اصلاحات کا ایجنڈا مرتب کر چکا ہو گا جس کے نفاذ کے بعد کوئی ڈی ایم جی گروپ، پٹوار مافیا یا انتخابی عملہ خفیہ طریقوں سے نتائج پر اثرانداز نہیں ہو پائیگا۔ سیکیورٹی کا ایشو بھی حکمرانوں سے ہینڈل نہیں ہو پا رہا، ملکی سلامتی داؤ پر لگی ہے۔
ہمسایوں کیساتھ تعلقات بہتر کرنے میں ان کی خارجہ پالیسی مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے، دہشت گردی کے عفریت نے کراچی، بلوچستان اور پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور حکومت کی رِٹ کہیں بھی نظر نہیں آتی، اگر سارے کام فوج نے ہی کرنے ہیں تو پھر ''جمہوری حکمران'' کس مرض کی دوا ہیں۔ حکمرانوں کی کھوکھلی اور ناقابل عمل حرکتوںکی وجہ سے ان کی عوام میں حمایت روز بہ روز کم ہوتی جا رہی ہے، عوام کے مسائل حل نہ کرنے کی وجہ سے ان کے پاس پہلے ہی سٹریٹ پاور نہ ہونے کے برابر ہے۔ جن چہروں کی وجہ سے انھیں دیہاتوں کے ووٹ بینک کا فائدہ پہنچتا تھا وہ بھی پارٹی سے کنارہ کش ہو چکے ہیں۔
زرداری حکومت کے ستائے ہوئے عوام نے انھیں ایک بار پھر اس لیے آزمایا تھا کہ جلاوطنی کے بعد شاید انھوں نے اپنی اصلاح کر لی ہو گی مگر اس معصوم عوام کو کون سمجھائے کہ سرمایہ دار اپنے مفادات کے علاوہ کسی کاخیرخواہ نہیں ہوتا، چھ مہینے میں لوڈشیڈنگ ختم کرنیوالے اب 2018ء کی تاریخیں دے رہے ہیں، یہ صرف پانچ سال پورے کرنے کے بہانے ہیں کیونکہ انھیں بھی معلوم ہے کہ نواز شریف چوتھی بار وزیر اعظم نہیں بن سکتے اور دوسرے کسی کو وہ بنائیں گے نہیں، تو لہٰذا اب کی بار جھوٹ سچ بول کر کسی طرح باری بھگتا لی جائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر حکمرانوں نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو نون لیگ کا مستقبل انتہائی مخدوش ہو سکتا ہے۔ ویسے بھی دنیا میں اب سرمایہ دارانہ نظام اپنی موت آپ مر رہا ہے، کوئی دائیں بازو کی سیاسی جماعت آنیوالے وقتوں میں زندہ نہیں رہ پائے گی، حکمران بھی اپنی جماعت کو ختم کرنے کیلیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔
ایسے میںہم نواز شریف کو مخلصانہ مشورہ دینگے کہ وہ پارٹی کو از سر نو منظم کریں، آزمائے ہوئے طبلہ نواز درباریوں سے جان چھڑائیں، یوتھ اور پرانے مخلص ساتھیوں کو خود منا کر لائیں، عوام کے اصل مسائل پر توجہ دیں اور جو بڑے بڑے بے مقصد میگا پراجیکٹس غریب عوام کے کسی کام کے نہیں، انھیں فی الفوربند کر کے وہی بجٹ عوام کے حقیقی مسائل پر خرچ کریں، ہنگامی بنیادوں پر لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کریں، تعلیم، صحت، صاف پانی اور بنیادی سہولیات پر توجہ دیں۔ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے،انھیں مزید نہ آزمائیں اورنہ ہی اذیت دیں وگرنہ آپ کا حشر بھی پیپلزپارٹی جیسا ہی ہو سکتا ہے اور پھر ممکن ہے کہ عوام پھر کبھی آپ پر اعتماد نہ کریں۔