سارے مسئلوں کا باپ…
اسٹور کی حالت دیکھتے ہوئے میں نے اپنے دوپٹے سے منہ سر کو لپیٹا تا کہ گرد و غبار سے بچت رہے
ISLAMABAD:
اسٹور کی حالت دیکھتے ہوئے میں نے اپنے دوپٹے سے منہ سر کو لپیٹا تا کہ گرد و غبار سے بچت رہے، کام والی جھاڑو لگا چکی تو میں نے اسے پنکھا چلانے کو کہا اور خود باہر لاؤنج میں بیٹھ گئی، پنکھے کی ہوا بمشکل گرمی کا مقابلہ کر رہی تھی، مجھے اس روز اسٹور سے کچھ پرانی کتابیں ڈھونڈنا تھیں، گرمیوں کا موسم طوالت اختیار کر گیا تھا اس لیے سردیوں کے موسم تک ٹالا ہوا کام اسی روز کرنے کا سوچا، توبہ کس قدر گند جمع تھا اس کاٹھ کباڑ کے اسٹور میں... تھکن اور غنودگی طاری ہو رہی تھی، مگر کام بھی تو اسی روز کرنا تھا!!!
کتابوں کے کوڑے نما ڈھیر کے نیچے سے مجھے کالے رنگ کی کوئی چیز نظر آئی، کھینچ کر اسے نکالا، کالی بوتل اور اس میں کوئی سفید سا محلول تھا، مگر دیکھنے میں دھویں جیسا لگ رہا تھا، یہ بوتل ہماری تو نہ تھی نہ ہی عرصے سے کوئی اس اسٹور کی طرف آیا تھا تو پھر یہ بوتل کہاں سے آئی، اس سے اہم بات یہ کہ اس میں تھا کیا؟
شاید کوئی کیمیکل ہو، بچوں میں سے کسی نے اسکول یا کالج کے کسی سائنسی تجربے کے لیے لیا ہو اور لاپروائی سے یہاں پھینک دیا ہو، میں نے خود ہی سوچ کر اس کا ڈھکن ہٹانے کے لیے گھمایا تا کہ سونگھ کر اندازہ ہو کہ اس میں کیا تھا، ڈھکن کافی مضبوطی سے بند تھا، اسے کھولنے میں میرے دانتوں کو بھی پسینہ آگیا مگر بالآخر ڈھکن کھل ہی گیا، ڈھکن کھلتے ہی اس بوتل میں موجود دھواں سا پورے کمرے میں پھیلنے لگا، میں گھبرا گئی کہ کوئی دھماکہ ہونے لگا ہے۔
'' ہاہاہاہاہا... '' کہیں سے قہقہے کی بلند آواز آئی، میں نے مڑ کر دیکھا، دھواں ایک شکل لے رہا تھا، کمرے میں پوری طرح روشنی ہو چکی تھی اور میرے سامنے ہاتھ باندھے مودب کھڑا ہوا وہ قد آور آدمی مجھے ہیبت میں مبتلا کر گیا تھا ... '' کیا حکم ہے میرے لیے میری آقا؟ '' میں نے اپنے پیچھے دیکھا کہ وہ کس سے مخاطب ہے، '' اصل میں میں نے اپنے بزرگوں سے یہی طرز تخاطب سیکھا ہے، ہم خود کو کسی مصیبت سے آزاد کروانے والے کو اپنا آقا ہی کہتے ہیں اور مجھے آقا کی مونث معلوم نہیں ہے '''' کک کک کون ہو تم ؟ '' میں ہکلا رہی تھی۔
'' ارے... پہچانی نہیں آپ، میں ایک جن ہوں ، کسی نے قابو کر کے مجھے اس بوتل میں بند کر دیا تھا، ابھی تو آپ نے مجھے بوتل سے رہائی دلائی ہے، آپ کی اس نیکی کا بدلہ دینا چاہتا ہوں ، حکم کریں؟ '' ا س نے سینے پر ہاتھ رکھ کر کورنش بجا لانے کے انداز میں کہا۔
'' نیکی کا بدلہ؟ '' میں نے تھوک نگل کر کہا، دل تو چاہ رہا تھا کہ اس سے کہوں کہ دھواں بن کر دوبارہ بوتل میں بند ہو جائے کیونکہ خوف سے میرا دل پھٹنے والا ہو رہا تھا۔
'' بد قسمتی سے میرے وسائل آپ کی ایک سے زائد خواہشات پوری کرنے کی اجازت نہیں دیتے، اس لیے آپ سوچ لیںاور پھر مجھے بتا دیں کہ آپ کا کون سا مسئلہ میں حل کر سکتا ہوں ؟ '' وہ آنکھیں موند کر تعظیم سے کھڑا ہو گیا،میں نے سوچ کا بٹن آن کر دیا اور اپنے چھوٹے چھوٹے مسائل کے بارے میں سوچنے لگی۔
گھر میں کئی نل، پائپ، بتیاں اور پنکھے خراب ہیں، میں نے دل میں سوچا، مگر یہ تو چھوٹے چھوٹے مسائل ہیں ،جس روزصاحب کو ان کا احساس ہو گیا، کوئی نہ کوئی پلمبر اور الیکٹریشن پکڑ کر لے آئیں گے اور مسئلہ حل ہو جائے گا۔ اپنے گھر سے ہٹ کر اپنے بچوں کے مسائل کا سوچنے لگی، کسی کا رشتہ ، کسی کی ملازمت، کسی کے امتحان میں نتیجے کی فکر، کسی کو کھانسی کا مسئلہ ہے اور کسی کے کمرے میں کیڑے مکوڑے بہت آتے ہیں ، ان میں سے کس کا مسئلہ بیان کروں اور ایک مسئلہ ہی حل ہو سکتا ہے تو وہ کون سا ایک مسئلہ ہو، بچوں کے دلوں میں اس تفرقے سے اثر پڑے گا، بہتر ہے کہ اس سے آگے کی سوچوں ۔
میں نے اپنی سوچوں کے دھارے کو آزاد چھوڑ دیا، ایسے مواقع روز روز کب آتے ہیں، میری سوچ میں جھماکا ہوا '' کیا تم میرے ملک کا کوئی مسئلہ حل کر سکو گے؟ ''
'' ملک کا مسئلہ، میں نے تو آپ سے آپ کی اپنی ذاتی خواہش کا کہا تھا مگر آپ سمجھتی ہیں کہ ملک کا مسئلہ آپ کے لیے سب سے اہم ہے تو میں کوشش کروں گا، آپ حکم فرمائیے، کس مسئلے کا حل چاہتی ہیں آپ؟ '' اس نے احترام کے ساتھ کہا۔'' فقط چند منٹ دے دیں!!'' میں نے اسے کہہ کر دوبارہ آنکھیں موند لیں، میری حب الوطنی کا جذبہ تھا کہ ابل ابل کر دل میں آ رہا تھا۔
کتنی اچھی سوچ تھی میری، میں نے خود کو داد دی، جلدی جلدی سوچوں کے گھوڑوں کو دوڑا دیا اور ملک کے اہم مسائل میں سے اہم ترین مسئلے کا سوچنے لگی۔ غربت، بے روز گاری، چوریاں ، ڈاکے، ملاوٹ، سفارش، اقرباء پروری، غنڈہ گردی، منافقت، سیاسی اکھاڑ پچھاڑ، رشوت ستانی، گداگری، دھوکہ، مہنگائی، بے ایمانی، تعلیمی اور طبی نظام کی خرابیاں ، محکموں میں بے اعتدالی، نا انصافی، بے حیائی، میڈیا کی شتر بے مہار جیسی آزادی، مار پیٹ، جنسی و جسمانی زیادتی ، قتل، اغواء، سیلاب، زلزلے اور ایسی ہی قدرتی آفات... ایک طویل فہرست میری بند آنکھوں کے سامنے اس طرح چل رہی تھی جس طرح ٹیلی وژن کے خبروں والے چینل پر بریکنگ نیوز چلتی ہے۔
مگر ہر مسئلے کے بعد میرا سر نفی میں ہلتا کہ اس مسئلے سے نمٹنا اس کے بس کا کام نہیں ہو گا۔ تب میرے ذہن میں جھماکا ہوا، میرے ملک کے مسائل کا باپ... گندگی!!! میں نے آنکھیں کھولیں، وہ ابھی تک مراقبے میں تھا ، میں نے خود کو سوچنے کا ایک اور موقع دیا اور چشم تصور سے ملک کے چپے چپے میں جا بجا گندگی کے ڈھیر میرے تصور میں آنے لگے۔ '' مجھے اپنے ملک کا جو مسئلہ حل کروانا ہے وہ گندگی ہے '' میں نے آنکھیں کھول کر زبان کھولی، دل میں سوچا کہ اب ہو ہو ہو ہا ہا کرے گا، اپنے ہاتھوں کو گھمائے گا اور زیر لب کچھ بدبدا کر مجھے کہے گا کہ باہر نکلو اور دیکھو کہ کس طرح تمہارا ملک خوبصورتی کا مرقع بن گیا ہے۔
'' میں دیکھتا ہوں کہ اس ملک میں گندگی کی صورت حال کیا ہے '' یہ کہہ کر اس نے اپنے ہاتھ کو دیوار پر پھیرا، کمرے کی سب سے بڑی دیوار پر میرے ملک میں کوڑے کے ڈھیروں کے مناظر نظر آ رہے تھے، پہاڑوں ،دریاؤں ، میدانوں اور ریگستانوں میں، چپے چپے میں پھیلے ہوئے کوڑے کے ڈھیر، '' چہ چہ، میں نے دنیا میں اس سے زیادہ گندگی کہیں نہیں دیکھی!!'' اس نے ہاتھ پھیر کر دیوار پر بنی اسکرین کو مٹایا، '' میں اس ملک کی گندگی کو مٹانے کے لیے کیا کر سکتا ہوں ، یہی کہہ سکتا ہوں کہ ... خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
اس ملک کے ایک ایک فرد کے ذہن میں اتنی گندگی ہے کہ وہ گندگی کے ان ڈھیروں کو گندگی سمجھتا ہی نہیں بلکہ فخریہ ان میں اضافہ کرتا ہے، نہ مذہب کے احکامات انھیں نصف ایمان قائم کرنے دیتے ہیں، نہ دوسرے ممالک کو دیکھ کر کسی کو تقلیدکا شوق چراتا ہے۔
نہ کوڑے کے ان ڈھیروں سے پھوٹنے والی بیماریاں ان کے ذہن کو جھنجوڑتی ہیں نہ تعفن کا احساس رہا ہے ان کو، سوچیں گندی، اعمال گندے، ملک گندا، میں کیا کروں ، میں کہاں جاؤں؟ '' کمرے میں گول چکر کاٹتے ہوئے وہ بلند آواز سے کہہ رہا تھا، '' میں اس ملک سے گندگی کس طرح صاف کروں ؟ '' میں اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔
'' تم نے وعدہ کر کے مجھے دھوکہ دیا ہے۔ '' میں نے اس سے خفگی سے کہا، '' تم نے ایک مسئلہ حل کرنے کا کہا تھا، وہ بھی تم نہیں کر سکے تو تم جن کس کام کے ہو؟ ''
'' معذرت چاہتا ہوں ، وعدہ پورا نہیں کر سکا تو آزادی کا مستحق بھی نہیں'' وہ دھویں میں تحلیل ہو رہا تھا، '' بوتل کو ڈھکن لگا دیجیے گا اور پلیز اب کے مجھے گندگی کے اتنے ڈھیر کے بیچ نہ رکھیں !! '' وہ دھواں بن کرسمٹ کر بوتل کے اندر چلا گیا، میں نے بوتل کو مضبوطی سے ڈھکن لگایا اور اسے اسی طرح کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا، بوتل کے اندر سے چیخ کی آواز آئی اور میری آنکھ کھل گئی!!!