جھنڈا کوئی بھی ہو سکہ ہمارا
جو لوگ یہ نہیں جانتے کہ لودھراں میں کس کا سکہ چلتا ہے وہ بھی تالیاں بجا بجا کر کہہ رہے ہیں کہ نیا پاکستان بن گیا ۔
جو لوگ یہ نہیں جانتے کہ لودھراں میں کس کا سکہ چلتا ہے وہ بھی تالیاں بجا بجا کر کہہ رہے ہیں کہ نیا پاکستان بن گیا ۔ جنھیں یہ تک نہیں معلوم کہ لودھراں میں صدر تھانے میں کتنے علاقے آتے ہیں وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ عوام کا فیصلہ آچکا ۔یہ وہ ہی لوگ ہیں جو یہ کہتے تھے کہ اب کراچی بدل چکا ہے۔ انھیں کیسے سمجھایا جائے کہ جب پرویز مشرف دور میں پڑھے لکھے ہونے کے لیے ڈگری کی کہانی شروع ہوئی تھی تو کیسے سالوں سے موجود اپنی سیٹ نواب امان کو دی گئی تھی جو کہ مسلم لیگ (ق) سے الیکشن لڑتے ہوئے بھاری ووٹ سے جیتے تھے اور جب 2008 میں ڈگری کی شرط ہٹائی گئی تو صدیق بلوچ مسلم لیگ (ق) سے جیتے اور پھر اگلے الیکشن میں یہ ہی صدیق بلوچ کس طرح سے مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ سے کامیاب ہوئے ۔
وہاں کی سیاست کو پڑھے لکھے لوگ ٹی وی میں بیٹھ کر انقلاب بتا رہے ہیں لیکن جو لوگ دلوں کے حال جانتے ہیں انھیں معلوم ہے کہ ایک بار پہلے بھی وہ اپنے بھانجے کو لے آئے تھے ۔ نام بدل جائیں گے لیکن اب تک یہ علاقائی سیاست تبدیل نہیں ہوئی ہے ۔ کوئی یہ بھی تو بتائے کہ ہمیشہ سے یہاں مضبوط پیپلز پارٹی کا ووٹ کس طرح سے جہانگیر ترین کو ملا تھا ۔ جس کا اس بار ملنے کا امکان کم ہے ۔ یہ لودھراں کیا ہے ۔
وہاں کے لوگ کیسے سوچتے ہیں ۔ وہاں کے مسائل کس طرح حل ہوتے ہیں اور وہاں طاقت کے مراکز کس کے پاس ہیں اس سے بے خبر لوگ نئی دنیا تعمیر کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں ۔ ایسے میں مسلم لیگ (ن) نے یہ فیصلہ بے وقوفی میں نہیں کیا کہ اب عوامی عدالت میں جانا چاہیے ۔ کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ عدالتی فیصلوں کا معاملہ اب کچھ اور ہے ۔ لودھراں میں مقامی طور پر وہ ان طاقت ور لوگوں کو اپنے ساتھ کرچکے ہیں جن کا سکہ چلتا ہے ۔ ان کے ساتھ پارٹی کا جھنڈا کوئی بھی ہو وہ صرف ووٹ انھیں کو دیتے ہیں ۔
لودھراں میں لوگوں کے مسائل زیادہ تر خاندانی اور پھر اپنی ذات اور پہچان کی بنیاد پر ہوتے ہیں ۔ وہاں کے ان مسائل کو لمبی لمبی قانونی جنگوں کی بجائے بیٹھکوں پر حل کیا جاتا ہے ۔ آئیے میں آپ کو ایک کہانی سنتا ہوں ۔ یہ بات دسمبر 2011 کی ہے ۔چند لوگوں ایک گھر میں داخل ہوئے اور اندھا دھند فائرنگ شروع کردی ۔ حیرت انگیز طور پر وہاں کسی کو بھی گولی نہیں لگی بلکہ انھوں نے آرام سے گھر کو لوٹا ۔سب سمجھے کہ شاید کہانی یہ ہی ہو ۔
مگر کہانی یہ تھی کہ وہ اپنے ساتھ ایک خاتون اور اس کے بیٹے کو اغواء کر کے لے گئے اور یہ ہی ان کا مقصد تھا ۔ مگر کیوں ؟آپ کو حیرت ہو گی ۔لیکن وہاں اس طرح کے واقعات پولیس کے پاس درج ہیں ۔ یہ کہانی ہی آپ کو بتائے گی کہ وہاں طاقت کس کے پاس ہوتی ہے ۔ اصل میں یہ کہانی شروع ہوئی آج سے سات سال پہلے ۔
یہ لودھراں کا علاقہ ''پلو والا'' ہے ۔جہاں خاندانی معاملات کو دیکھتے ہوئے ایک شخص نے اپنے چھوٹے بھائی کا رشتہ ایک جاننے والے کی بیٹی بی بی(فرضی نام) کے ساتھ طے کر دیا ۔ اس رشتے سے دونوں خوش تھے ۔ آپ کو حیرت ہو گی لیکن عموما پاکستان میں کئی جگہوں پر فیصلوں کی ضمانت لی جاتی ہے ۔
کہیں یہ ضمانت نقد رقم کے طور پر ہوتی ہے اورکہیں پر یہ زمین کے ٹکڑے کے طور پر ہوتی ہے ۔علاقے اور برادری کے بڑوں کی موجودگی میں یہ طے ہوا کہ منگنی ہوتے ہی بی بی نامی لڑکی کے باپ کو ایک کنال جگہ دی جائے گی اور پھر جیسے ہی منگنی کی باقاعدہ رسم ہوئی تو لڑکے نے ایک کنال جگہ لڑکی کے باپ کو دے دی ۔ تمام چیزیں ٹھیک چل رہی تھی کہ ایک دم لڑکے کی طبیعت خراب ہوگئی اور منگنی کے کچھ عرصے بعد ہی اُس کا انتقال ہو گیا ۔
جس فارمولے کے تحت یہ منگنی ہوئی تھی اس کا ایک بڑا ضامن انتقال کر چکا تھا اس لیے لڑکی کے باپ نے فورا ہی یہ منگنی توڑ دی ۔اس دوران لڑکے کا بڑا بھائی اور لڑکی ہرگز نہیں چاہتے تھے کہ یہ رشتہ ٹوٹ جائے ۔ مگر خاندان کے بڑوں نے یہ فیصلہ کیا کہ لڑکی کی منگنی کہیں اورکردی جائے ۔ لڑکی کی مرضی کے بغیر پھر پچھلی بارکی طرح شرائط طے ہوئیں اور فوراً ہی ایک دوسرے شخص کے ساتھ شادی کردی گئی ۔ سب لوگوں کا یہ خیال تھا کہ اب زندگی معمول پر آجائے گی ۔
زندگی کب تمام لوگوں کی خواہش کے مطابق چلتی ہے ۔ یہاں بھی ایسا ہوا ۔ خاندانی اختلافات کے ساتھ ساتھ لڑکی بی بی کو واپس گھر بلا لیا گیا ۔ ابھی شادی کو تین ماہ بھی نہیں ہوئے تھے کہ خلع کے لیے درخواست دے دی گئی ۔ مقدمہ چلا اور اسی دوران بی بی کے گھر ایک لڑکے کی پیدائش بھی ہوئی ۔اسی دوران ایک بار پھر بی بی کے سابق منگیتر کے بڑے بھائی اور بی بی کے درمیان رابطہ بحال ہوچکا ۔ بڑے بھائی نے یہ کہہ دیا کہ وہ تمام تر واقعات کے باوجود بی بی کو اپنانے کے لیے تیار ہے ۔ پھر وہ ہی سماج کی دیواریں اور پھر وہی رسومات سامنے آئی ۔بی بی کے باپ نے اس رشتہ سے منع کردیا ۔
ایک بار پھر علاقے کے طاقتور لوگوں اورخاندان کو بٹھایا گیا مگر فیصلہ لڑکے اور لڑکی بی بی کے خلاف آیا ۔ جس کے بعد دنوں نے کورٹ سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا اور نکاح کر لیا ۔اس نکاح پر دو خاندانوں کے درمیان دشمنی پیدا ہو گئی ۔بی بی کے باپ نے لڑکے کے خلاف اپنی بیٹی کے اغواء کا مقدمہ درج کرا دیا ۔
لڑکے کو روپوش ہونا پڑا ۔ایک بار پھر علاقے کے لوگوں کی پنچائیت بیٹھی اور صلح صفائی کرا دی گئی ۔ لڑکے اور لڑکی بی بی کے رشتہ کو تسلیم کرلیا گیا ۔ ایک سال کے بعد اُن کے یہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی تو تمام لوگوں کا خیال تھا کہ اب سب لوگ ماضی کو بھول چکے ہیں ۔
غور کیجیے کہ یہاں مسائل کس طرح کے ہوتے ہیں اور ان کا حل ہر بار علاقے کی پنچائیت یا پھر طاقتور شخص کے ڈیرے پر ہوتا ہے ۔ اور اُسی کے فیصلوں کی بنیاد پر ان کے روزمرہ کے معاملات تشکیل پاتے ہیں ۔ اس صورتحال میں یہاں جماعتوں کے درمیان نہیں بلکہ ان طاقتور لوگوں کے درمیان مقابلہ ہوتا ہے جو وہاں کے ہر فیصلوں کا اختیار رکھتے ہیں ۔ اور وہ صرف الیکشن اس لیے لڑتے ہیں کہ مقامی تھانے پر اُن کا اثر برقرار رہ سکے ۔
اور یہ اُسی وقت ممکن ہے جب یہ لوگ اُس کشتی میں سوار ہوں جو اقتدار کے بہت قریب ہو ۔ آپ گزشتہ 20 سالوں میں لودھراں کے انتخابی نتائج دیکھ لیجیے ۔ وہ ہی گروپ مشرف دور میں یہاں سے کامیاب ہوا تھا جو نواز شریف کی حکومت کے ساتھ بھی تھا ۔ ایسے میں یہاں جماعتوں کا ووٹ بینک کم ہوتا ہے ۔
یہاں چہرے بدلیں گے لیکن یہاں کا نظام ان لوگوں کے ہاتھ میں ہی رہے گا ۔ ہم بھی کہاں چلے گئے اصل کہانی تو اس بی بی نامی لڑکی کی تھی ۔ تو وہی واپس چلتے ہیں ۔ جس طرح لودھراں کے فیصلے کے بعد یہ سمجھا جارہا ہے کہ اب وہاں نیا پاکستان بن جائے گا ایسے ہی بی بی سمجھ رہی تھی کہ اپنے والد سے صلح ، بیٹے کی پیدائش اور خاندانی جھگڑوں کے بعد سب معمول پر آچکا ہے تو وہ بھی خیالوں میں ہی تھی ۔جیسے کچھ نئے اور پرانے پاکستان والے ہیں ۔
دسمبر 2011 کی ایک رات لڑکے کے گھر سے فائرنگ کی آوازیں آنا شروع ہوگئی ۔ چند لوگ ایک جیپ میں بیٹھ کر لڑکے کے گھر آئے اور زبردستی دروازہ توڑکر اندر داخل ہوگئے ۔ پولیس میں درج رپورٹ کے مطابق انھوں نے گھر میں موجود تمام لوگوں پر تشدد کیا اور چار تولے سونا کے ساتھ ڈھائی لاکھ روپے لوٹ لیے ۔ اپنے ساتھ وہ لوگ بی بی اور اس کے بیٹے کو بھی اغوا کر کے لے گئے ۔ لودھراں میں تھانہ صدر کی حدود میں ان لوگوں کی جیپ خراب ہو گئی ۔
اس سے پہلے لڑکا پولیس کو اطلاع کر چکا تھا ۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ جب جیپ بھی خراب ہو پولیس کو بھی اطلاع ہوچکی ہو توکیا ملزمان پکڑے جائیں گے ؟ نہیں جی ملزمان فرار ہوگئے اور پولیس کو جیپ مل گئی ۔ پھر ایک جرگہ بیٹھا اور پھر ایک فیصلہ ہوا ۔وہ ہی طاقتور لوگ وہ ہی کہانی اور وہ ہی فیصلہ ۔ بی بی کی طرح لودھراں کے بھی فیصلے ایسے ہی ہوتے رہیں گے اور ہم جیسے لوگ باہر بیٹھے انقلاب زندہ بعد کے نعرے لگاتے رہیں گے ۔اس لیے تو ٹرک کے پیچھے لکھا ہوتا ہے ۔دیکھ مگر پیار سے۔
وہاں کی سیاست کو پڑھے لکھے لوگ ٹی وی میں بیٹھ کر انقلاب بتا رہے ہیں لیکن جو لوگ دلوں کے حال جانتے ہیں انھیں معلوم ہے کہ ایک بار پہلے بھی وہ اپنے بھانجے کو لے آئے تھے ۔ نام بدل جائیں گے لیکن اب تک یہ علاقائی سیاست تبدیل نہیں ہوئی ہے ۔ کوئی یہ بھی تو بتائے کہ ہمیشہ سے یہاں مضبوط پیپلز پارٹی کا ووٹ کس طرح سے جہانگیر ترین کو ملا تھا ۔ جس کا اس بار ملنے کا امکان کم ہے ۔ یہ لودھراں کیا ہے ۔
وہاں کے لوگ کیسے سوچتے ہیں ۔ وہاں کے مسائل کس طرح حل ہوتے ہیں اور وہاں طاقت کے مراکز کس کے پاس ہیں اس سے بے خبر لوگ نئی دنیا تعمیر کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں ۔ ایسے میں مسلم لیگ (ن) نے یہ فیصلہ بے وقوفی میں نہیں کیا کہ اب عوامی عدالت میں جانا چاہیے ۔ کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ عدالتی فیصلوں کا معاملہ اب کچھ اور ہے ۔ لودھراں میں مقامی طور پر وہ ان طاقت ور لوگوں کو اپنے ساتھ کرچکے ہیں جن کا سکہ چلتا ہے ۔ ان کے ساتھ پارٹی کا جھنڈا کوئی بھی ہو وہ صرف ووٹ انھیں کو دیتے ہیں ۔
لودھراں میں لوگوں کے مسائل زیادہ تر خاندانی اور پھر اپنی ذات اور پہچان کی بنیاد پر ہوتے ہیں ۔ وہاں کے ان مسائل کو لمبی لمبی قانونی جنگوں کی بجائے بیٹھکوں پر حل کیا جاتا ہے ۔ آئیے میں آپ کو ایک کہانی سنتا ہوں ۔ یہ بات دسمبر 2011 کی ہے ۔چند لوگوں ایک گھر میں داخل ہوئے اور اندھا دھند فائرنگ شروع کردی ۔ حیرت انگیز طور پر وہاں کسی کو بھی گولی نہیں لگی بلکہ انھوں نے آرام سے گھر کو لوٹا ۔سب سمجھے کہ شاید کہانی یہ ہی ہو ۔
مگر کہانی یہ تھی کہ وہ اپنے ساتھ ایک خاتون اور اس کے بیٹے کو اغواء کر کے لے گئے اور یہ ہی ان کا مقصد تھا ۔ مگر کیوں ؟آپ کو حیرت ہو گی ۔لیکن وہاں اس طرح کے واقعات پولیس کے پاس درج ہیں ۔ یہ کہانی ہی آپ کو بتائے گی کہ وہاں طاقت کس کے پاس ہوتی ہے ۔ اصل میں یہ کہانی شروع ہوئی آج سے سات سال پہلے ۔
یہ لودھراں کا علاقہ ''پلو والا'' ہے ۔جہاں خاندانی معاملات کو دیکھتے ہوئے ایک شخص نے اپنے چھوٹے بھائی کا رشتہ ایک جاننے والے کی بیٹی بی بی(فرضی نام) کے ساتھ طے کر دیا ۔ اس رشتے سے دونوں خوش تھے ۔ آپ کو حیرت ہو گی لیکن عموما پاکستان میں کئی جگہوں پر فیصلوں کی ضمانت لی جاتی ہے ۔
کہیں یہ ضمانت نقد رقم کے طور پر ہوتی ہے اورکہیں پر یہ زمین کے ٹکڑے کے طور پر ہوتی ہے ۔علاقے اور برادری کے بڑوں کی موجودگی میں یہ طے ہوا کہ منگنی ہوتے ہی بی بی نامی لڑکی کے باپ کو ایک کنال جگہ دی جائے گی اور پھر جیسے ہی منگنی کی باقاعدہ رسم ہوئی تو لڑکے نے ایک کنال جگہ لڑکی کے باپ کو دے دی ۔ تمام چیزیں ٹھیک چل رہی تھی کہ ایک دم لڑکے کی طبیعت خراب ہوگئی اور منگنی کے کچھ عرصے بعد ہی اُس کا انتقال ہو گیا ۔
جس فارمولے کے تحت یہ منگنی ہوئی تھی اس کا ایک بڑا ضامن انتقال کر چکا تھا اس لیے لڑکی کے باپ نے فورا ہی یہ منگنی توڑ دی ۔اس دوران لڑکے کا بڑا بھائی اور لڑکی ہرگز نہیں چاہتے تھے کہ یہ رشتہ ٹوٹ جائے ۔ مگر خاندان کے بڑوں نے یہ فیصلہ کیا کہ لڑکی کی منگنی کہیں اورکردی جائے ۔ لڑکی کی مرضی کے بغیر پھر پچھلی بارکی طرح شرائط طے ہوئیں اور فوراً ہی ایک دوسرے شخص کے ساتھ شادی کردی گئی ۔ سب لوگوں کا یہ خیال تھا کہ اب زندگی معمول پر آجائے گی ۔
زندگی کب تمام لوگوں کی خواہش کے مطابق چلتی ہے ۔ یہاں بھی ایسا ہوا ۔ خاندانی اختلافات کے ساتھ ساتھ لڑکی بی بی کو واپس گھر بلا لیا گیا ۔ ابھی شادی کو تین ماہ بھی نہیں ہوئے تھے کہ خلع کے لیے درخواست دے دی گئی ۔ مقدمہ چلا اور اسی دوران بی بی کے گھر ایک لڑکے کی پیدائش بھی ہوئی ۔اسی دوران ایک بار پھر بی بی کے سابق منگیتر کے بڑے بھائی اور بی بی کے درمیان رابطہ بحال ہوچکا ۔ بڑے بھائی نے یہ کہہ دیا کہ وہ تمام تر واقعات کے باوجود بی بی کو اپنانے کے لیے تیار ہے ۔ پھر وہ ہی سماج کی دیواریں اور پھر وہی رسومات سامنے آئی ۔بی بی کے باپ نے اس رشتہ سے منع کردیا ۔
ایک بار پھر علاقے کے طاقتور لوگوں اورخاندان کو بٹھایا گیا مگر فیصلہ لڑکے اور لڑکی بی بی کے خلاف آیا ۔ جس کے بعد دنوں نے کورٹ سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا اور نکاح کر لیا ۔اس نکاح پر دو خاندانوں کے درمیان دشمنی پیدا ہو گئی ۔بی بی کے باپ نے لڑکے کے خلاف اپنی بیٹی کے اغواء کا مقدمہ درج کرا دیا ۔
لڑکے کو روپوش ہونا پڑا ۔ایک بار پھر علاقے کے لوگوں کی پنچائیت بیٹھی اور صلح صفائی کرا دی گئی ۔ لڑکے اور لڑکی بی بی کے رشتہ کو تسلیم کرلیا گیا ۔ ایک سال کے بعد اُن کے یہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی تو تمام لوگوں کا خیال تھا کہ اب سب لوگ ماضی کو بھول چکے ہیں ۔
غور کیجیے کہ یہاں مسائل کس طرح کے ہوتے ہیں اور ان کا حل ہر بار علاقے کی پنچائیت یا پھر طاقتور شخص کے ڈیرے پر ہوتا ہے ۔ اور اُسی کے فیصلوں کی بنیاد پر ان کے روزمرہ کے معاملات تشکیل پاتے ہیں ۔ اس صورتحال میں یہاں جماعتوں کے درمیان نہیں بلکہ ان طاقتور لوگوں کے درمیان مقابلہ ہوتا ہے جو وہاں کے ہر فیصلوں کا اختیار رکھتے ہیں ۔ اور وہ صرف الیکشن اس لیے لڑتے ہیں کہ مقامی تھانے پر اُن کا اثر برقرار رہ سکے ۔
اور یہ اُسی وقت ممکن ہے جب یہ لوگ اُس کشتی میں سوار ہوں جو اقتدار کے بہت قریب ہو ۔ آپ گزشتہ 20 سالوں میں لودھراں کے انتخابی نتائج دیکھ لیجیے ۔ وہ ہی گروپ مشرف دور میں یہاں سے کامیاب ہوا تھا جو نواز شریف کی حکومت کے ساتھ بھی تھا ۔ ایسے میں یہاں جماعتوں کا ووٹ بینک کم ہوتا ہے ۔
یہاں چہرے بدلیں گے لیکن یہاں کا نظام ان لوگوں کے ہاتھ میں ہی رہے گا ۔ ہم بھی کہاں چلے گئے اصل کہانی تو اس بی بی نامی لڑکی کی تھی ۔ تو وہی واپس چلتے ہیں ۔ جس طرح لودھراں کے فیصلے کے بعد یہ سمجھا جارہا ہے کہ اب وہاں نیا پاکستان بن جائے گا ایسے ہی بی بی سمجھ رہی تھی کہ اپنے والد سے صلح ، بیٹے کی پیدائش اور خاندانی جھگڑوں کے بعد سب معمول پر آچکا ہے تو وہ بھی خیالوں میں ہی تھی ۔جیسے کچھ نئے اور پرانے پاکستان والے ہیں ۔
دسمبر 2011 کی ایک رات لڑکے کے گھر سے فائرنگ کی آوازیں آنا شروع ہوگئی ۔ چند لوگ ایک جیپ میں بیٹھ کر لڑکے کے گھر آئے اور زبردستی دروازہ توڑکر اندر داخل ہوگئے ۔ پولیس میں درج رپورٹ کے مطابق انھوں نے گھر میں موجود تمام لوگوں پر تشدد کیا اور چار تولے سونا کے ساتھ ڈھائی لاکھ روپے لوٹ لیے ۔ اپنے ساتھ وہ لوگ بی بی اور اس کے بیٹے کو بھی اغوا کر کے لے گئے ۔ لودھراں میں تھانہ صدر کی حدود میں ان لوگوں کی جیپ خراب ہو گئی ۔
اس سے پہلے لڑکا پولیس کو اطلاع کر چکا تھا ۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ جب جیپ بھی خراب ہو پولیس کو بھی اطلاع ہوچکی ہو توکیا ملزمان پکڑے جائیں گے ؟ نہیں جی ملزمان فرار ہوگئے اور پولیس کو جیپ مل گئی ۔ پھر ایک جرگہ بیٹھا اور پھر ایک فیصلہ ہوا ۔وہ ہی طاقتور لوگ وہ ہی کہانی اور وہ ہی فیصلہ ۔ بی بی کی طرح لودھراں کے بھی فیصلے ایسے ہی ہوتے رہیں گے اور ہم جیسے لوگ باہر بیٹھے انقلاب زندہ بعد کے نعرے لگاتے رہیں گے ۔اس لیے تو ٹرک کے پیچھے لکھا ہوتا ہے ۔دیکھ مگر پیار سے۔